(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات، گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکر م غانم الأثوری صاحب (1) مکرم غانم الأثوری صاحب لکھتے ہیں: میرا تعلق یمن سے ہے، عمر 52سال ہے،تعلیم مڈل ہے اور پلمبنگ کا کام کرتا ہوں۔بیس سال کی عمر میں شادی ہوئی لیکن اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔مجھے بفضلہ تعالیٰ 29 فروری 2008 ء کو بیعت کی توفیق ملی۔ مَیں لڑکپن کے زمانے سے ہی دیومالائی داستانوں پر مبنی عقائد کے خلاف تھا۔مجھے شدت پسندی سے نفرت تھی اسی وجہ سے میں سلفیوںاور اخوان المسلمین کے خیالات سے سخت متنفر تھا۔ میں1982 ء سے 1985ء تک اخوان المسلمین کے تابع ایک درسگاہ میں پڑھتا رہا ہوں لیکن ان کی شدت پسندی کی وجہ سے میں نے وہاں پڑھنا چھوڑدیا حالانکہ وہ ہر طالبعلم کوماہوار 75ریال دیتے تھے جو اس زمانے کے لحاظ سے ایک معقول رقم تھی۔ پھر میں گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل ہو گیا لیکن وہاں بھی میرا دل نہ لگا اورپڑھائی کو خیر باد کہہ دیا۔ شیعہ سے تعارف اور بحث جوانی کو پہنچنے کے باوجود مجھے کوئی ڈھنگ کا کام نہ آتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی مجھے تنہا نہ چھوڑا تھا۔میرے پاس ایک گاڑی تھی جسے استعمال میں لا کر کچھ روزی کما لیتا تھا۔ لیکن ضرورت کے ما تحت میں نے 2001ء میں یہ گاڑی بیچ ڈالی۔ شاید اس مجبوری کی وجہ سے میں پلمبنگ کا کام سیکھنے لگ گیا اوراس میں مہارت حاصل کرلی۔یوں میرا تعارف پلمبنگ کا سامان بیچنے والے دکانداروں سے ہوا جو اسماعیلی شیعہ تھے۔ان سے میری دوستی ہوگئی جو چار پانچ سال تک قائم رہی۔ ان سے اکثر ایسے مذہبی موضوعات پرمیری گفتگو ہوجاتی تھی جو شیعہ سنّی اختلاف سے تعلق رکھتے ہیںجیسے غصبِ خلافت، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مزعومہ وصیت، باغ فدک کا قضیہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت، جنگ جمل وصفین اور واقعۂ کربلا وغیرہ۔ اس گفتگو کے دوران جب بھی حضرت ابو بکر، حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کا ذکر آتا تو وہ سب ان پر لعنتیں بھیجنے لگ جاتے۔یہی نہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ان کی لعنتوں اور بدزبانیوں سے محفوظ نہ رہتی تھیں۔ تلاش حق اور شیعہ کے بارہ میں تحقیق مذکورہ بالا صورتحال کو دیکھ کر اسی عرصے میں میرے دل میں حق کی تلاش کی جستجو پیدا ہوئی۔ جب مَیں دیکھتا کہ تمام اُمّت پستی اورتفرقہ کا شکار اور ایک دوسرے کی گردن زنی میں مصروف ہے، تو میرا دل کہتا کہ مسلمانوں میں کوئی نہ کوئی سچا فرقہ ضرور ہوگا، لیکن یہ فرقہ کون ساہے اور کہاں ہے؟ میں نے سوچا کہ پہلے شیعہ حضرا ت کے عقائد کے بارہ میں ہی تحقیق کرلینی چاہئے لہٰذا میں نے اپنے شیعہ دوستوں سے ان کی بعض مذہبی کتب مانگیں توانہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ یہ علمی خزانے تو ہمیں بھی میسر نہیں۔ان کتب کو دیکھنے اور پڑھنے والے لوگوں کی تعداد بہت محدود ہے ، یہ علم شہد کی مانند ہے جو کھلا رکھا جائے تو اس میں مکھیاں اور کیڑے آپڑیںگے۔ اپنی اسماعیلی مسلک کی کتب کی بجائے انہوں نے مجھے شیعہ اثناعشریہ کی بعض کتابیں دیں حالانکہ وہ اثناعشریہ شیعوں کو برابھلا کہا کرتے تھے۔ بہر حال میں نے ان کی دی ہوئی کتب کا بہت ہی شوق اور بے صبری سے مطالعہ کیا۔ ان میں شیعہ مسلک اختیار کرنے والے ایک مراکشی شخص کی کتاب بھی تھی جس کا عنوان تھا : ’’لقد شیّعنی الحسین‘‘ یعنی مجھے حضرت حسینؓ نے شیعہ بنا دیا۔یہ کتاب بدزبانی اور ہرزہ سرائی سے بھری ہوئی تھی۔اس میں حضرت ابو بکر ،حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کی عزتوںپر اشارۃً یا کنایۃً گندے حملے کئے گئے تھے۔ جب میں اس کتاب کے مطالعہ کے دوران اس مقام پر پہنچا تو اس سے آگے مطالعہ کرنے کی سکت نہ رہی۔ایک ہفتہ گزر گیا اور میں نے کتاب کو ہاتھ تک نہ لگا یا لیکن ایک ہفتے کے بعد نہ جانے کیوں میں نے کتاب کو دوبارہ اٹھا لیااوراس کو آخر تک پڑھ لیا۔ میں صحابہ کے بارہ میں خلافت غصب کرنے کے الزام اور ان کی تکفیر کا قائل تو نہیں تھا لیکن مذکورہ بالا کتاب کو پڑھ کر شیعہ سے متاثر ضرور ہو گیا تھا، بلکہ میں نے سنجیدگی کے ساتھ یمن میں ان کے مشہور گاؤں ’’الحطیب‘‘ جانے کا بھی ارادہ کیا لیکن وقت نہ ملا۔میں نے کہا کہ بہتر ہے میں پہلے استخارہ کر لوں، جس کے بعد مجھے اس فرقہ میںکسی قدر پُر اسراریت سی نظر آنے لگی۔ لیکن جس امر کی وجہ سے یہ فرقہ میری توجہ کا مرکز بنا وہ یہ تھی کہ دیگر فرقوں کے برعکس اس کا ایک امام تھا جو ہندوستان میں رہتا تھا اور کبھی کبھار یمن بھی آتا تھا، نیز اس فرقہ کے لوگوں کواپنے ایمان کی وجہ سے بعض جگہ مخالفت اور استہزاء کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ علاوہ ازیں ان کے بارہ میں بعض ایسی باتیں مشہور تھیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ایم ٹی اے سے تعارف ان دنوں مَیںبکثرت شیعہ کتب کا مطالعہ کرتا اور شیعہ ٹی وی چینلزباقاعدگی سے دیکھتا، اور اپنے چچیرے بھائیوں سے شیعہ کے حق پر ہونے کے بارہ میںبحث بھی کرتا تھا۔ ایک دن ایسی ہی ایک مجلس میں میرے بھانجے نے کہا کہ آج کل ایک نیا چینل کھلا ہے جس میں امام مہدی اور مسیح موعود کی آمد کے بارہ میں گفتگو کی جاتی ہے۔ میرے استفسار پر اس نے ریموٹ پکڑا اور ایم ٹی اے لگا دیا۔اس وقت اس پر الحوار المباشر پروگرام میں عیسائیوں کے ساتھ بحث ہورہی تھی۔ مجھے اس گفتگو کی کوئی خاص سمجھ نہ آئی، لیکن دل میں ایک عجیب اثر ہوا جو مجھے اس چینل کی طرف کھینچنے لگا۔ رات کو میں نے گھر جا کر یہ چینل دوبارہ لگایا اور کچھ دیر دیکھتا رہا۔ میںاس چینل کے بارہ میںکوئی رائے قائم نہ کر سکا کیونکہ اس کے شرکاء کی گفتگو کا طریق اور ادب واحترام کا انداز سب سے جدا تھا۔ میں نے کہا یہ لوگ نہ توشیعہ ہیں، نہ ہی عیسائی ہیں، تو پھر یہ کون ہیں؟ یقینا یہ مسلمان ہیں، لیکن کونسے مسلمان؟ الغرض ایک ہفتہ بعدکچھ صورت حال واضح ہونے لگی اور پتا چلا کہ یہ جماعت احمدیہ ہے، مجھے اس جماعت کے بارہ میں پہلے کچھ معلوم نہ تھا۔ اس جماعت کے مذکورہ بالا چینل نے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔ میں کام سے جلدی جلدی واپس آتا تاکہ لقاء مع العرب پروگرام مِس نہ ہو جائے۔ اس وقت میں اپنے کزن کے گھر میں رہتا تھا اوراکثر بیٹھک میں بیٹھ کر یہ پروگرام دیکھتاتھا جہاں عمومًا اور کوئی نہ ہوتا تھا۔ مَیں لقاء مع العرب دیکھتا اور میری آنکھیں آنسو بہا رہی ہوتیں۔ پروگرام دیکھتے دیکھتے میں بے اختیار کہہ اٹھتا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ پھر میں نے اپنا ریسیور خرید لیا اور اپنے کمرہ میں آزادی کے ساتھ یہ چینل دیکھنے لگا۔ مجھے لقاء مع العرب کے علاوہ کلام الإمام، قصائد حضرت امام مہدی علیہ السلام، حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ کے خطبات اور الحوار المباشر وغیرہ بہت پسند آئے۔ زندگی تیرے دم سے بدلنے لگی جب میں نے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا تومذکورہ بالا پروگرامز کے علاوہ آیتِ استخلاف اور اس کی تفسیر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اورمیری زندگی آہستہ آہستہ بدلنے لگ گئی اور پرانی تمام بدعادات سے رہائی نصیب ہوتی گئی۔ ان بدعادات میں سے ایک یہ تھی کہ نوجوانی سے ہی مجھے ترقی پسندسیاسی پارٹیوںسے خاص لگاؤ تھا۔شاید اسی بناء پرمجھے یمن کی اشتراکی پارٹی سے خاص لگاؤ تھا۔اس جماعت پر یمن کے شمال میں تو پابندی عائد تھی جبکہ جنوب یمن میں اتحاد سے قبل اس کی حکومت رہی تھی۔گو میں اس پارٹی کا ممبر نہ تھا لیکن ان کے لٹریچر او ررسائل و اخبارات کے مطالعہ کا مجھے جنون کی حد تک شوق تھا۔لیکن جماعت سے تعارف ہوا تو ٹی وی پر خبریں سننے اور ان رسالوں کے مطالعہ سے بھی دستکش ہوگیا جن کا میں رسیا تھا نیز سیاست میں دلچسپی بھی جاتی رہی۔ ایک ہی دُھن تھی کہ جماعت کے بارہ میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کروں۔ بظاہرمعمولی باتوں میں بڑے نشان میں قبل ازیں نمازوں وغیرہ میں بہت سست تھا لیکن جماعت سے تعارف کے بعد اب پہلا رمضان آیا تومیں نے نماز اور قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک دن رمضان میں قرآن پڑھ رہا تھا کہ یہ آیت میری توجہ کا مرکز بنی: یَا بَنِی آدَمَ إِمَّا یَأۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِنۡکُمۡ یَقُصُّوْنَ عَلَیۡکُمۡ آیَاتِی فَمَنِ اتَّقیٰ وَأَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُونَ۔ (الاعراف: 36) ترجمہ: اے ابنائے آدم! اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں جو تم پر میری آیات پڑھتے ہوں تو جو بھی تقویٰ اختیار کرے اور اصلاح کرے تو ان لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔ میں نے سوچتے سوچتے قرآن بند کردیا لیکن دوبارہ اس آیت کو پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی تو یہ دعا کی کہ یا اللہ! اگر مرزا صاحب تیری طرف سے ہیں تو مجھے یہی آیت دوبارہ دکھا۔چنانچہ اس دعا کے بعد جب میں نے قرآن شریف کھولا تو وہی صفحہ کھلا اور اسی آیت پرنظر پڑی۔ اس کے بعد میں نے نہا دھو کر دونفل ادا کیے اور یہ دعا کی کہ: یارب!مجھے حق کی راہ دکھا۔ اگر مرزا صاحب سچے ہیں تو ماننے کی توفیق عطا فرما،اور اگر(نعوذباللہ)جھوٹے ہیں تو مجھے ان سے اوران کی جماعت سے دُورکر دے۔ اسی عرصہ میں نائیل ساٹ پر ایم ٹی اے بند ہوگیا تو زندگی میں بڑا خلا سا محسوس ہونے لگا۔ اس وقت میرے مالی حالات بھی اس حد تک دگر گوں تھے کہ میں اپنی روٹی بھی پوری نہیں کر سکتا تھا۔لیکن چند روز میں ہی مجھے کام مل گیا اور میں نے بڑی ڈش خرید لی جس سے مقصد ایم ٹی اے کی یورپی نشریات کا حصول تھا۔میں خود ہی بغیر کسی راہنمائی یا تجربہ کے ڈش گھما رہا تھا اور دعا کررہا تھا کہ اگر مجھے اس طرح ایم ٹی اے مل گیا تومیں20رکعت نفل پڑھوں گا۔ چنانچہ کچھ ہی دیر میں ہاٹ برڈ پر مجھے ایم ٹی اے ا لعربیہ مل گیا اور شکرانے کے طور پر میں نے نفل ادا کیے۔ سبیل المجرمین میرے شیعہ دوست نے جب احمدیت میں میری دلچسپی دیکھی تو عبدالہادی الفضیلی کی کتاب مجھے دی۔ اس کو پڑھ کر میں بہت خوش ہوا، کیونکہ اس میں امام مہدی کے بارہ میں جو پیشگوئیاں تھیں وہ سب حضرت مرزا صاحبؑ پر پوری ہوتی تھیں۔جیسے یہ کہ امام مہدیؑ رسول اللہ کی طرح جاہلیت کو مٹا دیں گے اور اسلام کی تجدید کریں گے۔ اسی طرح امام باقر ؒکی ایک حدیث میں امام مہدی کو چار انبیاء موسیٰؑ، عیسیٰؑ، یوسفؑ اور محمدؐ سے تشبیہ دی گئی تھی۔ جنوری 2008ء کی رات کو عشاء کی نماز ادا کی اور دردِ دل سے اللہ کے حضور دعا کی کہ مجھے اُس جماعت کو پہچاننے کی توفیق دے جواس ضلالت زدہ دور میں بھی حق پر قائم ہے۔ پھر میں نے قرآن کریم کھول لیا تو میرے سامنے درج ذیل آیات تھیں: وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لِیَقُوْلُوْا أَہٰؤُلَاء ِ مَنَّ اللَّہُ عَلَیۡہِمۡ مِنۡ بَیۡنِنَا أَلَیۡسَ اللّٰہُ بِأَعۡلَمَ بِالشَّاکِرِینَ* ۔۔۔۔۔* وَکَذَلِکَ نُفَصِّلُ الۡآیَاتِ وَلِتَسۡتَبِینَ سَبِیلُ الۡمُجۡرِمِینَ* قُلۡ إِنِّی نُہِیتُ أَنۡ أَعۡبُدَ الَّذِینَ تَدۡعُونَ مِنۡ دُونِ اللّٰہِ قُلۡ لَا أَتَّبِعُ أَہۡوَاء َکُمۡ قَدۡ ضَلَلۡتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الۡمُہۡتَدِینَ۔ (الانعام: 54تا57) اور اسی طرح ہم ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمائش میں ڈالتے ہیں یہاں تک کہ وہ کہنے لگتے ہیں کہ کیا ہمارے درمیان (بس) یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا ہے۔ کیا اللہ شکر گزاروں کو سب سے زیادہ نہیں جانتا… اور اسی طرح ہم آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور (یہ) اس لئے ہے کہ مجرموں کی راہ خوب کھل کر ظاہر ہو جائے۔ تُو کہہ دے کہ یقینا مجھے منع کر دیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ تُو کہہ دے مَیں تو تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا (ورنہ) میں اُسی وقت گمراہ ہو جائوں گا اور مَیں ہدایت پانے والوں میں سے نہ بن سکوں گا۔ ان آیات پر غور کے بعد میں وَلِتَسۡتَبِینَ سَبِیلُ الۡمُجۡرِمِین کے الفاظ سے یہی سمجھا کہ جو لوگ صحابہ کرام اور ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں یہ مجرم لوگ ہیں اور ان کا راستہ ہدایت کا راستہ نہیں ہے۔ الٰہی جماعت تک پہنچنے کا یقین اس کے ساتھ ہی احمدیت کے بارہ میں مجھے انشراح صدر ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی دل پرایک سکون اور اطمینان نازل ہوگیا۔ میں بہت رویا اور پھر اٹھ کر دو رکعت نماز ادا کر کے خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا ۔ مجھے یقین ہوگیا کہ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ مَیں اس جماعت میں داخل ہوجاؤں۔ (باقی آئندہ)