سچی پاکیزگی، حقیقی تزکیہ اور دنیا و آخرت کی حسنات اور ترقیات کے حصول کے لئے ایک عظیم الشان الٰہی نظام اقامت الصلوٰۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سورۃ النور کی آیات56تا58کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’خلافت کے ذکر کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ۔ یعنی جب خلافت کا نظام جاری کیا جائے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم نمازیں قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو۔گویا خلفاء کے ساتھ دین کی تمکین کر کے وہ اطاعتِ رسول کرنے والے ہی قرار پائیں گے ۔یہ وہی نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرماتا کہ مَنۡ اَطَاعَ اَمِیۡرِیۡ فَقَدۡ اَطَاعَنِیۡ وَمَنۡ عَصٰی اَمِیۡرِیۡ فَقَدۡ عَصَانِيۡ ۔یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔ پس وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اُس وقت رسول کی اطاعت اسی رنگ میں ہوگی کہ اشاعت و تمکین دین کے لئے نمازیں قائم کی جائیں۔ زکوٰتیں دی جائیں اور خلفاء کی پورے طور پر اطاعت کی جائے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اقامت الصلوٰۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زکوٰۃ کی وصولی کا باقاعدہ انتظام تھا۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی اور حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوگئے تو اہل عرب کے کثیر حصہ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ حکم صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھا ۔بعد کے خلفاء کے لئے نہیں۔ مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُن کے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا بلکہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ اونٹ کے گھٹنے کو باندھنے والی رسّی بھی زکوٰۃ میں دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ جاری رکھوں گا اور اس وقت تک بس نہیں کروں گا جب تک اُن سے اُسی رنگ میں زکوٰۃ وصول نہ کرلوں جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے ۔چنانچہ آپ اس مہم میں کامیاب ہوئے اور زکوٰۃ کا نظام پھر جاری ہوگیا جو بعد کے خلفاء کے زمانوں میں بھی جاری رہا۔مگر جب سے خلافت جاتی رہی مسلمانوں میں زکوٰۃ کی وصولی کا بھی کوئی انتظام نہ رہا اور یہی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا تھا کہ اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو مسلمان زکوٰۃ کے حکم پر عمل ہی نہیں کر سکتے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ جیسا کہ اسلامی تعلیم کا منشاء ہے امراء سے لی جاتی ہے اور ایک نظام کے ماتحت غرباء کی ضروریات پر خرچ کی جاتی ہے۔اب ایسا وہیں ہوسکتا ہے جہاں ایک باقاعدہ نظام ہو ۔اکیلا آدمی اگر چند غرباء میں زکوٰۃ کا روپیہ تقسیم بھی کر دے تو اُس کے وہ خوشگوار نتائج کہاں نکل سکتے ہیں جو اُس صورت میں نکل سکتے ہیں جبکہ زکوٰۃ ساری جماعت سے وصول کی جائے اور ساری جماعت کے غرباء میں تقسیم کی جائے۔ یہ مسئلہ اُن سارے اسلامی بادشاہوں کو مجرم قرار دیتا ہے جو سرکاری بیت المال کو اپنی ذات پر اور اپنے تعیّش پر قربان کرتے تھے اور بڑے بڑے محل اور بڑی بڑی سیرگاہیں بناتے تھے۔ اگر پبلک اس کا آرڈر دیتی چونکہ اس کا روپیہ تھا جائز ہوتا بشرطیکہ اسراف نہ ہوتا لیکن پبلک نے کبھی آرڈر نہیں دیا اور پھر وہ سراف کی حد سے بھی آگے نکلا ہوا تھا ۔اس لئے یہ سارے کام ناجائز تھے ۔اور ان لوگوں کو گنہگار بناتے تھے۔ نہ اسلام کو تختِ طائوس کی ضرورت تھی، نہ بغداد کے محلّاتِ ہارون الرشید کی ضرورت تھی۔یہ ساری کی ساری چیزیں اسلامی شوکت کی بجائے چند افراد کی شوکت ظاہر کرنے کے لئے بنائی گئی تھیں ۔اسی لئے آخر میں ان خاندانوں کی تباہی کا باعث بنیں ۔ اسی طرح اقامت الصلٰوۃ بھی اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صلوٰۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاتا ہے اور قومی ضرورتوں کو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اب اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو قومی ضروریات کا پتہ کس طرح لگ سکتا ہے ۔مثلاً پاکستان کی جماعتوں کو کیا علم ہو سکتا ہے کہ چین اور جاپان اور دیگر ممالک میں اشاعتِ اسلام کے سلسلہ میں کیا ہو رہا ہے اور اسلام اُن سے کن قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے ۔اگر ایک مرکز ہوگا اور ایک خلیفہ ہو گا جو تما م مسلمانوں کے نزدیک واجب الاطاعت ہوگا تو اُسے تمام اکناف ِ عالم سے رپورٹیں پہنچتی رہیں گی کہ یہاں یہ ہو رہا ہے اور وہاں وہ ہو رہا ہے اور اس طرح وہ لوگوں کو بتا سکے گا کہ آج فلاں قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اور آج فلاں قسم کی خدمات کے لئے آپ کو پیش کرنے کی حاجت ہے۔ اسی لئے حنفیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں کوئی سلطان نہ ہو جمعہ پڑھنا جائز نہیں۔ اور اس کی تَہ میں یہی حکمت ہے جو میں نے بیان کی ہے۔ اسی طرح عیدین کی نمازیں ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ امر ثابت ہے کہ آپ ہمیشہ قومی ضرورتوں کے مطابق خطبات پڑھا کرتے تھے ۔مگر جب خلافت کا نظام نہ رہے تو انفرادی رنگ میں کسی کو قومی ضرورتوں کا کیا علم ہو سکتا ہے ۔اور وہ ان کو کس طرح اپنے خطبات میں بیان کر سکتا ہے ۔بلکہ بالکل ممکن ہے کہ حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ خود بھی دھوکا میں مبتلا رہے اور دوسروں کو بھی دھوکہ میں مبتلا رکھے ۔ مَیں نے ایک دفعہ کہیں پڑھا کہ آج سے ستّر اسّی سال پہلے ایک شخص بیکانیر کے علاقہ کی طرف سیر کرنے کے لئے نکل گیا ۔جمعہ کا دن تھا وہ ایک مسجد میں نمازپڑھنے کے لئے گیا تو اُس نے دیکھا کہ امام نے پہلے فارسی زبان میں مروجہ خطبات میں سے کوئی ایک خطبہ پڑھا اور پھر ان لوگوں سے جو مسجد میں موجود تھے کہا کہ آئو اب ہاتھ اٹھا کر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ امیر المومنین جہانگیر بادشاہ کو سلامت رکھے ۔اب اُس بیچارے کو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ جہانگیر بادشاہ کو فوت ہوئے سینکڑوں سال گزر چکے ہیں اور اب جہانگیر نہیں بلکہ انگریز حکمران ہیں۔ غرض جمعہ جو نماز کا بہترین حصہ ہے اسی صورت میں احسن طریق پر ادا ہو سکتا ہے جب مسلمانوں میں خلافت کا نظام موجو د ہو ۔چنانچہ دیکھ لو ہمارے اندر چونکہ ایک نظام ہے اس لئے میرے خطبات ہمیشہ اہم وقتی ضروریات کے متعلق ہوتے ہیں ۔اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ کئی غیراحمدی بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ درحقیقت لیڈر کا کام لوگوں کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے مگر یہ رہنمائی وہی شخص کر سکتا ہے جس کے پاس دنیا کے اکثر حصوں سے خبریں آتی ہوں اور وہ سمجھتا ہو کہ حالات کیا صورت اختیار کر رہے ہیں ۔صرف اخبارات سے اس قسم کے حالات کا علم نہیں ہو سکتا کیونکہ اخبارات میں بہت کچھ جھوٹی خبریں درج ہوتی ہیں اس کے علاوہ ان میں واقعات کو پورے طور پر بیان کرنے کا التزام نہیں ہوتا۔لیکن ہمارے مبلغ چونکہ دنیا کے اکثر حصوں میں موجود ہیں اور پھر جماعت کے افراد بھی دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے اُن کے ذریعہ مجھے ہمیشہ سچی خبریں ملتی رہتی ہیں ۔اور میں اُن سے فائدہ اٹھا کر جماعت کی صحیح رہنمائی کرتا رہتا ہوں ۔پس درحقیقت اقامۃ الصلٰوۃ بھی بغیر خلیفہ کے نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اطاعتِ رسول بھی جس کا اس آیت میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہو سکتی کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرو دیا جائے ۔یُوں تو صحابہؓ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں۔ صحابہ ؓ بھی حج کرتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں۔ پھر صحابہؓ اور آجکل کے مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ یہی کہ صحابہؓ میں ایک نظام کا تابع ہونے کی وجہ سے اطاعت کی رُوح حدِ کمال کو پہنچی ہوئی تھی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے صحابہ ؓ اُسی وقت اُس پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے ۔لیکن یہ اطاعت کی رُوح آجکل کے مسلمانوں میں نہیں۔مسلمان نمازیں بھی پڑھیں گے، روزے بھی رکھیں گے حج بھی کریں گے مگر ان کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں ہوگا کیونکہ اطاعت کا مادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ پس جب بھی خلافت ہوگی اطاعتِ رسول بھی ہوگی کیونکہ اطاعت رسول یہ نہیں کہ نمازیں پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو ۔یہ توخدا کے احکام کی اطاعت ہے ۔اطاعت رسول یہ ہے کہ جب وہ کہے کہ اب نمازوں پر زور دینے کا وقت ہے تو سب لوگ نمازوں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب زکوٰۃ اور چندوں کی ضرورت ہے تو وہ زکوٰۃ اور چندوں پر زور دینا شروع کر دیں ۔اور جب وہ کہے کہ اب جانی قربانی کی ضرورت ہے یا وطن کو قربان کرنے ضرورت ہے تو وہ جانیں اور اپنے وطن قربان کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ غرض یہ تین باتیں ایسی ہیں جو خلافت کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ اگر خلافت نہ ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نمازیں بھی جاتی رہیں گی ۔تمہاری زکوٰۃ بھی جاتی رہے گی۔ اور تمہارے دل سے اطاعت ِ رسول کا مادہ بھی جاتا رہے گا۔‘‘ (تفسیر کبیر سورۃ النور زیر آیت 56-58۔ جلد6صفحہ367-369) ……………… نظامِ خلافت اور قیامِ عبادت نظام خلافت اور قیام عبادت کا آپس میں بہت گہرا، اٹوٹ اور لازوال تعلق ہے۔ قرآن مجید میں اس مضمون کو مختلف پیرایوں میں بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ جتنے بھی انبیاء اور رسول خلیفۃاللہ کی صورت میں اس دنیا میں مبعوث ہوئے یا کسی نبی کی وفات کے بعد جو بھی وجود خلافت علیٰ منہاج نبوت کے منصب پر فائز ہوئے ان سب کا مقصد اعلیٰ یہی تھا کہ خدائے واحد و یگانہ کی سچی و حقیقی عبادت کو دنیا میں قائم کیا جائے۔ ہر قسم کے شرک اور دہریت اور الحاد کا خاتمہ ہو اور لوگ اپنے سچے اور حقیقی معبود کو پہچان کر اس سے اپنا ناطہ جوڑیں۔ اس کی صفات حسنہ کو اپنائیں اور خدا تعالیٰ کے سچے پرستار اور مخلص و وفادار عبادتگزار بندے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ۔ (النحل:37) اور یقینا ہم نے ہر اُمّت میں رسول بھیجا جس نے انہیں یہ پیغام دیا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ قرآن مجید نے انبیاء علیہم السلام کی جو تاریخ بیان فرمائی ہے اس میں جابجا اس حقیقت کا ذکر ہے۔ حضرت نوحؑ ہوں یا حضرت ابراہیمؑ، حضرت ھودؑ ہوں یا حضرت صالح ؑ یا حضرت شعیبؑ، حضرت موسیٰؑ ہوں یا حضرت عیسیٰؑ یا حضرت یعقوب (علیہم السلام) سبھی نے یٰقَوْمِ اعْبُدُوْااللّٰہَ کی ہی ندا دی۔ اور اپنے متبعین کو بھی خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کی تاکیدی نصائح فرمائیں۔ انہوں نے نہ صرف علمی طور پر خدا تعالیٰ کے وجود کو قوی دلائل سے ثابت کیا بلکہ اس زندہ اور قادر مطلق خدا کی ہستی کے تازہ بتازہ ثبوت کے طور پر اس سے اپنے تعلق اور خدائی نصرت و تائید کے زبردست نشانات بھی دنیا کو دکھائے۔ ان سب انبیاء میں سب سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ اور خلیفۂ اعظم حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے ایسی کامل وحی نازل فرمائی جس میں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر نہایت قوی اور روشن دلائل دیئے گئے ہیں اور عبادت الٰہی کے مضمون کے مختلف پہلوؤں کو نہایت شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔ عبادت الٰہی کی ضرورت، اس کی غرض و غایت، اس کی حقیقت، اس کا فلسفہ، اس کی برکات و تاثیرات غرضیکہ تمام اہم امور کو بالتفصیل بیان کیا گیا ہے۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنّت اور احادیث سے اس مضمون کو مزید اجاگر فرمایا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی عبادت جس انداز میں اور جس شان سے کی وہ ایک نہایت ہی خوبصورت مضمون ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے آپ کی عبادت کا نقشہ قرآن کریم میں کھینچا ہے اور آپ کو ’عبداللہ‘ کے عظیم الشان لقب سے نوازا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف خود اپنی ذات میں عبادت الٰہی کے مضمون کو معراج تک پہنچایا بلکہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن ایسے وفاداروں، عبادتگزاروں کی جماعت تیار فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اُن رِجال کی بہت تعریف فرمائی اور فرمایا کہ وہ ایسے رجال ہیں کہ لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلوٰۃ وَ اِیْتَآئِ الزَّکوٰۃ۔ (النور:38) انہیں کوئی تجارت اور خریدوفروخت اللہ کے ذکر سے اور قیام نماز اور ایتاء زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی۔ اور یہ کہ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا۔ (الفرقان:65) وہ اپنی راتیں اپنے ربّ کے لئے سجدے اور قیام میں گزارتے ہیں۔ پھر اِس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند اور عاشق صادق اور روحانی خلیفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کرام نے عبادت کے مضمون کو قرآن و حدیث اور سنّت حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہمارے لئے بہت تفصیل سے اور کھول کھول کر بیان فرمایا۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کرام نے اس مضمون پر جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں صفحات پر حاوی ہے۔ ان مقدس وجودوں نے اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں صرف عبادت کے مختلف پہلوؤں کو علمی طور پر ہی بیان نہیں کیا بلکہ اپنے عملی نمونہ سے ہمارے لئے اس کی راہوں کو روشن فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اور اس کی رہنمائی کے مطابق ایسے منصوبے جاری کئے، ایسی تحریکات فرمائیں، ایسی سکیمیں بنائیں اور ایسی عملی تدابیر کیں اور یہ سلسلہ جاری ہے کہ نہ صرف افراد جماعت احمدیہ عبادت کی روح کو سمجھ کر اس پر قائم ہوجائیں بلکہ ساری دنیا میں قیام عبادت اور قیام توحید کا وہ آسمانی ہدف جو خلافت کا انتہائی مطلوب اور مقصود ہے وہ پورا ہوجائے۔ یہ مضمون اپنی ذات میں بہت تفصیلی ہے اور اس پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں کہ کس طرح خلفائے مسیح موعود علیہم السلام نے اس سلسلہ میں کوششیں فرمائیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کوششوں کو کیسے کیسے شیریں ثمرات سے نوازا۔ ……………………… سورۃالنور کی آیت استخلاف اور اس کے بعد کی آیات میں عبادت کے مضمون کو بڑی قوّت و شوکت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ ہر قسم کے شرک سے پاک، سچے موحّدین اور عابدین کی جماعت کا قیام خلافت کا ایک نہایت اہم کام ہے۔ اور درحقیقت یہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت ہی ہے جس کے ذریعہ سچے موحّدین اور عابدین کی جماعت کا قیام ممکن ہے۔ کسی اور کے بس کی یہ بات ہی نہیں ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے اسے خلافت سے وابستہ فرمادیا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ تمکنت دین کے جس مضمون کا آیت استخلاف میں ذکر ہے اس سے مراد بھی یہی ہے کہ خلافت کے ذریعہ سچے مسلمین، موحّدین اور عابدین پیدا ہوں گے جو ہر قسم کے شرک سے بچنے والے ہوں گے اور اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کرنے والے ہوں گے۔ ……………………… بعض نادان مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ تمکنت دین سے دنیوی اقتدار یا بادشاہت کا حصول مراد ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہی دوسری جگہ تمکنت کے مضمون کو اقامت صلوٰۃ سے باندھا ہے۔ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مضمون کو مسجد بیت الاحد جاپان کے افتتاح کے موقع پر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْامُوْرِ(الحج:42)۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں تمکنت عطا کریں تو وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔ زکوۃ ادا کرتے ہیں اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور ہر بات کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ الحمد للہ آج جماعت احمدیہ جاپان کو اپنی پہلی مسجد بنانے کی توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تعمیر کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور آپ لوگ اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں جو مسجد بنانے کا مقصد ہے۔ مسجد تو غیرازجماعت اور دوسرے مسلمان بھی بناتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کر کے بہت خوبصورت مساجد بناتے ہیں۔ … پس صرف مسجد بنا لینا کوئی ایسی بات نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ جاپان میں آنے کا ہمارا مقصد پورا ہو گیا۔… ہمارا مقصد تو تب پورا ہو گا جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ مقصد یہ ہے کہ ہمارا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو اور ہم اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ ہم اس کی مخلوق کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہم اپنی عملی حالتوں کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے اونچے معیار حاصل کرنے والے ہوں۔ ہم اسلام کے خوبصورت پیغام کو، اس کی خوبصورت تعلیم کو اس قوم کے ہر فرد تک پہنچانے والے ہوں۔ …پس یہ مسجد جو بنائی ہے تو اس کا حق ادا کریں۔ اس حق کو ادا کرنے کے لئے اسے پانچ وقت آباد کریں۔ اس کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیں۔ اس کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی عملی حالتوں کے جائزے لیں۔ اس کا حق ادا کرنے کے لئے تبلیغ کے میدان میں وسعت پیدا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو وہاں مسجد بنا دو تو تبلیغ کے راستے اور تعارف کے راستے کھلتے چلے جائیں گے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 119۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ پس یہ مسجد آپ پر ذمہ داری ڈال رہی ہے کہ جہاں عبادتوں کے معیاروں کو اونچا کریں وہاں تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں۔ … جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں جن باتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اس کے اس زمانے میں مخاطب احمدی مسلمان ہی ہیں کیونکہ ہم ہی ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے۔ ہم ہی ہیں جن میں نظام خلافت دین کی تمکنت کے لئے جاری ہے۔ ایک احمدی مسلمان کے لئے، اس زمانے کے امام کو ماننے والے کے لئے، خلافت سے وابستہ رہنے کا دعویٰ کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض اصولی باتیں بیان فرمادیں کہ ایک تو نمازوں کے قیام کی طرف توجہ رکھو کہ یہ تمہاری پیدائش کا بنیادی مقصد ہے۔ اگر نمازوں کی ادائیگی نہیں، اگر عبادتوں کی طرف توجہ نہیں تو پھر یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم حقیقی مسلمان ہیں۔ یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم دنیا میں انقلاب پیدا کر دیں گے۔ یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو مان لیا ہے۔ کیونکہ آپ نے تو اپنی آمد کا مقصد ہی بندے کو خداتعالیٰ سے جوڑنے کا بتایا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ دوسرا مقصد ایک دوسرے کے حق ادا کرنا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 95۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں۔ اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ اپنے مال میں سے بھی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر انسانیت کی بھلائی اور بہتری کے لئے خرچ کرنے والے ہیں۔ اور صرف اپنی زندگیوں میں ہی یہ انقلاب پیدا نہیں کرتے کہ تقویٰ پر چلنے والی زندگی گزارو بلکہ اپنے نمونے دکھا کر دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ انہیں بھی بتاتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد کیا ہے۔ انہیں بتاتے ہیں کہ شیطان سے کس طرح بچ کر رہنا ہے۔ پس اگر ہم اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے فرستادے کے ماننے والے ہیں تو ہمیں ان باتوں کا خیال رکھنا ہو گا کہ ہم پر جو اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہوا ہے جبکہ دوسرے مسلمان بکھرے پڑے ہیں ان کے پاس کوئی آوازنہیں ہے جو انہیں ایک ہاتھ کی طرف بلائے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر اور پھر آپ کے بعد آپ کے جاری نظام خلافت کے ذریعہ وہ تمکنت عطا فرمائی ہے کہ ہم ایک آواز پر اٹھنے اور بیٹھنے والے ہیں۔ تمکنت صرف حکومت کا ملنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک رعب کا ظاہر ہونا بھی ہے اور سکونِ دل کا پیدا ہونا بھی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی آئے گا جب حکومتیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آ کر صحیح اسلام کو سمجھیں گی۔ لیکن اِس وقت بھی دنیا اب ہماری طرف دیکھنے لگ گئی ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیم بتاؤ ۔ پس یہ بھی ایک تمکنت اور رُعب ہے جو اَب دنیا پر اللہ تعالیٰ ڈال رہا ہے۔ لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والے وہی ہوں گے جو خدا تعالیٰ کی بات کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس فضل کے وارث بننے کے لئے نیکیوں پر قائم ہو جاؤ اور اس کو پھیلاؤ اور برائیوں سے بچو اور دوسروں کو بچاؤ۔ پس جب تک اس پر قائم رہو گے، اس بنیادی اصول کو پکڑے رہو گے، ترقیاں کرتے چلے جاؤگے۔ پس ہر احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اپنے اعمال میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دیتا چلا جائے تبھی دنیا کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکیں گے اور یہی چیز پھر اُس تمکنت کا بھی باعث بنے گی جب حکومتیں بھی اس حقیقی تعلیم کے تابع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئیں گی۔ پس اللہ تعالیٰ بہت بڑے مقاصد کے حصول کی حقیقی مسلمانوں کو خوشخبری دے رہا ہے لیکن اُن مسلمانوں کو جو ظالم نہ ہوں بلکہ انصاف پر قائم ہوں۔ جو خدا تعالیٰ کو بھولنے والے نہ ہوں بلکہ اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ جو دوسروں کے حقوق غصب کرنے والے نہ ہوں بلکہ حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ جو خود غرض نہ ہوں بلکہ بے نفس ہوں۔ جو خلافت احمدیہ سے وفا کا تعلق رکھتے ہوں۔ صرف اجتماعوں پر عہد دہرانے والے نہ ہوں بلکہ نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں سے روکنے کے لئے پہلے اپنے نفس کے جائزے لینے والے ہوں۔ جو نظام جماعت کی حفاظت کے لئے اپنی اَناؤں کو قربان کرنے والے ہوں۔ پس یہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا مقرب بنائیں گی۔یہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے والا بھی بنائیں گی۔ یہ چیزیں ہیں جو وہ حقیقی احمدی بننے والا بنائیں گی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ماننے والوں سے توقع رکھتے ہیں‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20؍نومبر 2015ء بمقام مسجد بیت الاحد، ناگویا، جاپان) ……………………… الغرض یہ خلافت حقّہ سے وابستہ مومنین کی عبادتیں ہی ہیں جن سے دین کو تمکنت عطا ہوگی اور دنیا میں توحید کا ڈنکا بجے گا اور زمین اپنے ربّ کے نُور سے چمک اٹھے گی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ خلافت کا عبادت کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آغاز خلافت سے ہی اس حقیقت کو بار بار جماعت کے سامنے رکھا اور مختلف پیرایوں میں، مختلف مواقع پر بڑی کثرت اور تکرار بلکہ اصرار کے ساتھ یہ مضمون جماعت کے سامنے پیش فرمایا اور ایک غیرمعمولی عزم کے ساتھ پیش فرماتے چلے جاتے ہیں۔ آپ نے افراد جماعت کو بتایا کہ اگر آپ خلافت سے وابستہ برکات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو عبادتگزار بننا ہوگا۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ یہی وہ ذریعہ ہے جس سے خلافت کے ساتھ تعلق مضبوط ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں گے۔ حضور انور نے اپنے خطبات و خطابات میں اور مختلف مساجد کے سنگ بنیاد اور افتتاح کی تقریبات کے مواقع پر بڑی تفصیل کے ساتھ عبادت کی باریک راہوں کی بھی نشاندہی فرمائی اور عبادت کے اعلیٰ معیاروں کی طرف بھی جماعت کی رہنمائی فرمائی اور فرماتے چلے جاتے ہیں۔ اے اللہ! ہمارے پیارے امام کی روح القدس سے نصرت فرماتا چلا جا اور ہمیں آپ کی نصائح اور ہدایات کی کماحقّہٗ اطاعت کی توفیق عطا فرما۔ ذیل میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایسے متعدد ارشادات میں سے چند ایک درج کئے جاتے ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچے اور حقیقی نمازی بنائے۔ اپنے سچے عبادتگزار بندوں میں شامل فرمائے تاکہ ہم حقیقی معنوں میں خلافت کی نعمت کا شکر ادا کرنے والے ہوں اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں اور روحانی توجہات کے فیض سے ایسی مقبول عبادتوں کی توفیق پائیں جن سے خداتعالیٰ راضی ہوجائے اور ہم اس کے اَن گنت اور لازوال فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں۔ ……………………… حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ٭… ’’ہمیشہ یاد رکھیں کہ خلافت کے ساتھ عبادت کا بڑا تعلق ہے۔ اور عبادت کیا ہے؟ نماز ہی ہے۔ جہاں مومنوں سے دلوں کی تسکین اور خلافت کا وعدہ ہے وہاں ساتھ ہی اگلی آیت میں اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ کا بھی حکم ہے۔ پس تمکنت حاصل کرنے اور نظام خلافت سے فیض پانے کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نماز قائم کرو، کیونکہ عبادت اور نماز ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوگی۔ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس انعام کے بعد اگر تم میرے شکرگزار بنتے ہوئے میری عبادت کی طرف توجہ نہیں دو گے تو نافرمانوں میں سے ہو گے۔ پھر شکر گزاری نہیں ناشکرگزاری ہو گی اور نافرمانوں کے لئے خلافت کا وعدہ نہیں ہے بلکہ مومنوں کے لئے ہے۔ پس یہ انتباہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اپنی نمازوں کی طرف توجہ نہیںدیتا کہ نظام خلافت کے فیض تم تک نہیں پہنچیں گے۔ اگر نظام خلافت سے فیض پانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرو کہ یَعْبُدُونَنِیْ ۔ یعنی میری عبادت کرو۔ اس پر عمل کرنا ہو گا۔ پس ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا،جو خلافت کی صورت میں جاری ہے، فائدہ تب اٹھا سکیںگے جب اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ … ہمیشہ یاد رکھیں کہ افراد جماعت اور خلیفۂ وقت کا دو طرفہ تعلق اُس وقت زیادہ مضبوط ہوگا جب عبادتوں کی طرف توجہ رہے گی۔‘‘ (خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 13؍اپریل2007ء ) ٭… حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نیصدسالہ خلافت جوبلی کے تاریخی سال میں گھانا میں خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا: ’’یہ سال جس میں جماعت، خلافت کے 100 سال پورے ہونے پر جوبلی منا رہی ہے، یہ جو بلی کیا ہے ؟ کیا صرف اس بات پر خوش ہو جانا کہ ہم جوبلی کا جلسہ کر رہے ہیں یا مختلف ذیلی تنظیموں نے اپنے پروگرام بنائے ہیں، یا کچھ سوونیئرزبنا لئے گئے ہیں۔ یہ تو صرف ایک چھوٹا سا اظہار ہے۔ اس کا مقصد تو ہم تب حاصل کریں گے، جب ہم یہ عہد کریں کہ اس 100سال پورے ہونے پر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اس نعمت پر جو خلافت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتاری ہے، ہم شکرانے کے طور پر اپنے خدا سے اور زیادہ قریبی تعلق پید ا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی حفاظت پہلے سے زیادہ بڑھ کر کر یں گے اور یہی شکر انِ نعمت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید بڑھانے والا ہو گا۔ قرآن کریم میں جہاں مومنوں سے خلافت کے وعدہ کا ذکر ہے۔ اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَقِیۡمُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰـوۃَ وَاَطِیۡعُواالرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡن(النور:57) اور تم سب نمازوں کو قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اس رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ خلافت کے انعام سے فائدہ اٹھانے کے لئے قیام نماز سب سے پہلی شرط ہے۔ پس مَیں جو یہ اس قدر زور دے رہا ہوں کہ ہر احمدی، مرد، جوان ، بچہ ، عورت اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے تو اس لئے کہ انعام جو آپ کو ملا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ آپ فائدہ اٹھاسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق خلافت کایہ سلسلہ تو ہمیشہ رہنے والا ہے لیکن اس سے فائدہ وہی حاصل کریں گے جو خداتعالیٰ سے اپنی عبادتوں کی وجہ سے زندہ تعلق جوڑیں گے۔ پھر یہ جو آیت مَیں نے پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز قائم کرنے کے ساتھ، عبادت میں اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑنے کے ساتھ تمہارے پر یہ بھی فرض ہے کہ مالی قربانی بھی کرو۔… نئے شامل ہونے والے نومبائعین بھی اور نوجوان بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ مالی قربانی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے اور خلافت کے انعام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے خاص طور پر بیان فرمایا ہے۔‘‘ ( خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 18؍اپریل 2008ء بمقام باغ احمد ۔گھانا) ٭… حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کینیڈا 2008ء کے موقع پر اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے عبادت کرنے والے لوگوں سے ایک بہت بڑے انعام کا وعدہ کیا ہے یعنی خلافت کا۔ عبادت کرنے والوں سے ہی خلافت کے انعام کا بھی وعدہ ہے۔ پس آج ہر مرد اور عورت کی، ہر جوان اور بوڑھے کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عبادت کے معیار بڑھانے کی طرف توجہ کرے۔ خلافت کی برکات کا فیض انہی کو پہنچے گا جو خود بھی عبادت گزار ہوں گے اور اپنی نسلوں میں بھی یہ روح پھونکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت سے فیض پانے والے وہی لوگ ہوں گے جو خداتعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ اس آخرین کے دور میں جب شرک کی طرف رغبت دلانے کے لئے نئے نئے طریق ایجاد ہو گئے ہیں۔ جب تجارتوں اور کھیل کود کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے دور کرنے کی کوشش کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔جب شیطان انسان کو ورغلانے میں پہلے سے زیادہ مستعد ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے، اس کی عبادت کی طرف توجہ کرنے کے لئے ہمیں کوشش بھی پہلے سے بہت بڑھ کر کرنی ہو گی۔ اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص سچے جوش اور پورے صدق اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ ایسے عبادت کرنے والے کبھی ضائع نہیں ہوں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ ان کی نسلیں بھی شیطان کے شر سے بچی رہیں گی اور خلیفۂ وقت کی دعائیں ان کے حق میں اور ان کی دعائیں خلافت کے حق میں پوری ہوتی رہیں گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو ایسے لوگ عطا فرمائے ہوئے ہیں جو اس کی عبادت کرنے والے ہیں تبھی تو خلافت کے انعام سے بھی ہم فیضیاب ہو رہے ہیں اور انشاء اللہ، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ عبادت گزاروں کے لئے تمکنت دین کے سامان خلافت احمدیہ کے ذریعہ پیدا فرماتا چلا جائے گا۔ لیکن مَیں پھر اس بات کو دہرائوں گا کہ ہر ایک کو اپنے آپ کو اس گروہ میں شامل کرنے اور شامل رکھنے کے لئے خود بھی کوشش کرنی ہو گی۔‘‘ (ارشاد فرمودہ 27؍جون 2008ء بمقام انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر مسی ساگا،انٹاریو، کینیڈا) ٭… حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے فیض پانے والے ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو نیک اعمال بھی بجا لانے والے ہوں۔ پس خلافت سے تعلق مشروط ہے نیک اعمال کے ساتھ۔ خلافت احمدیہ نے تو انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ لیکن نظام خلافت سے تعلق انہیں لوگوں کا ہو گا جو تقویٰ پر چلنے والے اور نیک اعمال بجالانے والے ہوں گے۔ اگر جائزہ لیں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ جن گھروں میں نمازوںمیں بے قاعدگی نہیں ہے، ان کا نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکموںپر عمل کرنے والے ہیں ان کا خلافت اور نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے۔‘‘ ( خطبہ جمعہ فرمودہ یکم؍جولائی 2005 ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر ٹورانٹو۔کینیڈا) ٭… 2008ء کے انٹرنیشنل جلسہ سالانہ UK کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ خلافت جوبلی کا جلسہ ہے اس لئے بہت بڑی تعداد یہاں آئی ہے، مطلب یہ کہ خلافت جوبلی کے سال میں ہونے والا پہلاجلسہ ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس دفعہ اکثریت اس حوالے سے اور اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے جلسہ میں شامل ہو رہی ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے خلافت کی نعمت کا ذکر فرمایااور فرمایا کہ وہ مومنین کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا تو اس آیت میں یہ بتایا کہ وہ لوگ میری عبادت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرانے کی وجہ سے ان پر یہ انعام ہو گا کہ ان کو خلافت کی وجہ سے تمکنت عطا ہو گی اور پھر یہ بات انہیں مزید عبادت کی طرف توجہ دلانے والی ہو گی۔ اور پھر اگلی آیت جو اس آیت استخلاف کے بعد آتی ہے، اس کے شروع میں ہی فرمایاوَاَقِیۡمُواالصَّلٰوۃ (النور:57) کہ عبادت کے لئے بنیادی چیز اور شریک نہ ٹھہرانے کے لئے پہلا قدم ہی نماز کا قیام ہے۔ اور قیام نماز کیا ہے ؟ باجماعت نماز پڑھنا، سنوار کر نماز پڑھنا اور وقت پر نماز پڑھنا۔ نماز کے مقابلے میں ہر دوسری چیز کو ہیچ سمجھنا، کوئی حیثیت نہ دینا۔ پس ان دنوں میں تمام آنے والے مہمان، تمام جلسے میں شامل ہونے والے لوگ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دیں اور پھر صرف ان دنوں میں نہیںبلکہ ان دنوںمیں یہ دعا بھی خاص طور پر کریں اور کوشش کریں کہ ان دنوں کی نماز کی عادت ہمیشہ آپ کی زندگیوں کا حصہ بن جائے تااس نعمت سے حصہ لیتے رہیں جو خلافت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ اور جو انفرادی طورپربھی ہر احمدی کے لئے تمکنت کا باعث بنے گی اور جماعتی طور پر بھی تمکنت کا باعث بنے گی اگر ہماری عبادتیں زندہ رہیں ۔پس اپنی نمازوں کی حفاظت ان دنوں میں خاص طورپر کریں کہ یہی ہمارا بنیادی مقصد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے‘‘۔ فرمایا:’’ ایمان کی جڑ بھی نمازہی ہے‘‘۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وَعَدَاﷲُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْامِنْکُمیعنی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضکہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ تو ہر احمدی کو اس انعام سے فیض پانے کے لئے ایمان میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمان کی جڑ بھی نماز ہے اس جڑکو پکڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بلکہ اس کی جڑیں ہمیں اپنے دل میں اس طرح لگانی ہوں گی کہ جو چاہے گزر جائے لیکن اس جڑ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ کسی بھی حالت میں اس جڑ کو نقصان نہ پہنچے ۔ کیونکہ اس کو نقصان پہنچنا یا نمازوں میں کمزوری دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان میں کمزوری پیدا ہو رہی ہے اور ایمان میں کمزوری جو پیدا ہو گئی تو خلافت سے تعلق بھی کمزور ہو گا۔ پس ان دنوں میں جب آپ خاص دنوں میں جمع ہوئے ہیں تو اپنی نمازوں کی حفاظت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نمازیں پھر ہماری حفاظت کریں۔ ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پاتے ہوئے اس کے انعام کے ہمیشہ وارث بنتے رہیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے کیا ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍جولائی 2008ء بمقام حدیقۃالمہدی آلٹن۔ برطانیہ) (باقی آئندہ)