(ربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکر م عبد الکریم حیدرصاحب مکر م عبد الکریم حیدرصاحب آف یمن لکھتے ہیں: میرا تعلق یمن سے ہے جہاں میری پیدائش ایک متدیّن گھرانے میں ہوئی۔ مَیں نے شروع سے ہی ہر ایک فرقہ کے علماء کی بات سنی اور کسی معیّن فرقے کی تعلیمات سے متأثر ہوکر اس سے منسلک نہ ہو سکا۔ قبول احمدیت کے لئے تیاری مَیں احمدیت کی طرف اپنے سفر کی مختصر داستان سے قبل ان امور کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جن کی وجہ سے مَیں ذہنی طو رپر احمدیت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوچکا تھا۔ ان میں سے پہلا امر یہ ہے کہ میں نے واعظین اور مشایخ کو مساجد کے منابر اور ٹی وی چینلز پر سنا لیکن افسوس کہ ان کے اعمال ان کے اقوال کے منافی تھے۔ اور ایسے لگتا تھا کہ یہ لوگ ہماری اس دنیاکو چھوڑ کر ایک خیالی دنیا کی باتیں کرتے ہیں ۔نیز جو بات مجھے زیادہ پریشان کرتی تھی وہ ان شخصیات کادین کو سیاسی اہداف کے حصول کے لئے استعمال کرنا تھا۔ ان نام نہاد علماء ومشایخ کو اپنے ہموطنوں کی تکالیف کا کچھ بھی احساس نہ تھاکیونکہ یہ ملک کی بہتری اور ظالم حاکم کو نصیحت کرنے کی بجائے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے اور چاپلوسی ومداہنت کی قابل نفرین مثال پیش کررہے تھے۔ دوسرا امر یہ ہے کہ ٹی وی چینلز کی بھرمار کے اس زمانہ میں مجھے ہر فرقہ کے علماء کو سننے اور دیکھنے کا موقع ملا۔ اسی طرح شیعہ اور اہل سنّت کے مابین مناظرات سننے کا بھی اتفاق ہوااور معلوم ہوا کہ ان کا اختلاف دینی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ چنانچہ مَیں ایک معروف شیخ عرعور صاحب سے بہت متاثر تھا۔اس مولوی کا شمار حکومت کے حق میں فتوے دینے والے مشایخ میں ہوتا تھا۔لیکن جب فتنہ پھیلا تواس کے دوران ایسے مولویوں کی حق پرستی کی قلعی کھل گئی، حق کی بات کہنے والے اور اس پر عمل کرنے والے جدا جدا ہو گئے۔ تیسری بات یہ ہے کہ مَیں نے شیعوں کے فتاوی اور آل بیت النبی ؐ کے بارہ میں ان کے ایسے ایسے مبالغات سنے جو عقل سے کوسوں دور تھے۔اور اہل سنّت کے شیعہ کے ردّ میں بھی کتب اور پروگرام دیکھے۔ ہر دو مسالک کے علماء کے اقوال اور حقیقت حال میں تضاد کی وجہ سے مَیں نے کہا کہ میں نہ شیعہ ہوں،نہ ہی سنّی بلکہ صرف مسلمان ہوں اورقرآن کریم کے احکام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں اس حالت سے کسی قدر مطمئن تھا کیونکہ میرا موقف تھا کہ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لہٰذا میں اسلامی تعلیمات پر عمل کی پوری کوشش کرتا تھالیکن ہمیشہ یہی دعا کرتاتھا کہ اے خدا! تُو مجھے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے دے اور ضلالت وانحراف کے راستہ سے محفوظ رکھ۔ چوتھی بات یہ تھی کہ جب میں نے انٹرنیٹ استعمال کرنا شروع کیاتو عیسائی ویب سائٹس کو دیکھا اور توریت وانجیل کا مطالعہ کیا۔ میرا مقصد ان وجوہات کی تلاش تھی جن کی بناء پر عیسائی گمراہی کا شکار ہو گئے۔پھر مَیں نے عیسائیوں کے ساتھ بحث مباحثہ شروع کر دیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ میرا موقف اُس وقت سے یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام نبی اور بشرہیںاور وہ وفات پا چکے ہیں اورمیںاس کی دلیلیں دیتا تھا، جبکہ عیسائی مجھے احادیث کی طرف کھینچتے تھے ۔ اتفاق سے مجھے میرے اپنے محلے میں ہی ایک عیسائی مل گیا جس کے ساتھ بحث مباحثہ کے بعد عیسائیت کے بارہ میں میں اس نتیجہ کے قریب قریب جاپہنچا تھا جو جماعت احمدیہ کا موقف ہے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ جب عرب سپرنگ کے نام پر ہمارے ملک میں فتنے شروع ہوئے تومیں مظاہروں کے لئے نکلنے والوں کو تعجب کی نظر سے دیکھتا تھا کہ وہ باوجود کرفیو اور حکومتی دھمکیوں کے نماز جمعہ اورمظاہرے کے لئے کیونکر اکٹھے ہوگئے تھے۔انسانوں کے اس سمندر کو دیکھ کر میرے دل میں اکثر یہ بات آتی تھی کہ انسانوں کا یہ سمندرفرعون صفت ظالم حکمرانوں کو غرق کر دے گا۔ اس وقت علماء اور مشایخ انصاف اور عدل کا موقف اختیار کرنے کی بجائے دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک حصہ ظالم حکمرانوںکے حق میں ہوگیا تو دوسرا مظاہرین کے جملہ تصرفات کی تائید کرنے لگ گیا۔اس وقت مجھے علماء کی حدیث میں مذکور وہ حالت اپنی آنکھوں کے سامنے عیاں نظر آئی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ آخری زمانے میں علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے،ان سے ہی فتنہ نکلے گا اور انہی میں ہی واپس لوٹ جائے گا۔ چھٹی بات یہ تھی کہ مَیں نے اہل قرآن کے ساتھ گفتگو کی اوران کے ایک عالم سامر اسلامبولی سے بہت کچھ سیکھا لیکن جب میرا جماعت احمدیہ سے تعارف ہوا اور میں نے جماعت کی عربی ویب سائٹ پر موجود مواد کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ سامر اسلامبولی کی اکثر آراء جماعت کی عربی ویب سائٹ سے ماخوذ تھیں۔ ان وجوہات کی بناء پر مَیں ذہنی اور قلبی طور پر احمدیت کو قبول کرنے کے لئے تیار تھا ۔ جماعت سے تعارف ان امور کے ذکر کے بعد میں مختصرًا اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتا ہوں۔میری عادت تھی کہ میں مختلف نیوز چینلز کو بہت اہتمام کے ساتھ دیکھتا تھااور ان کے علاوہ دیگر چینلز کو سوائے کسی خاص پروگرام کے بہت کم ہی دیکھاکرتاتھا۔ ایک روز مَیں ایک پروگرام دیکھ رہا تھا کہ اچانک میرے کمرے کاریسیور خراب ہو گیا ۔ اگلے روز میں بچوں کے کمرے میں بیٹھ کر بعض نیوز چینلز دیکھنے لگ گیا۔ اسی دوران ایم ٹی اے بھی نظر سے گزرا۔اس وقت اس پر حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی تصویر آرہی تھی۔میں نے جلد بازی میں غلطی کے احتمال کے پیش نظر کسی قسم کے تبصرہ سے گریز کرتے ہوئے اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ یہ چینل کب سے تم نے اپنی چینلز کی لسٹ میں محفوظ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ دراصل میں نے مختلف چینلز کا ایک مجموعہ محفوظ کیا تھا لیکن جب ان کو دیکھنے لگی تو ان میں سے کوئی بھی دیکھنے کے قابل نہ تھا۔ لہٰذا میں نے ایک ایک کر کے سب کو حذف کردیا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی یہ چینل باقی رہ گیا،تاہم میں نے اسے کبھی دیکھا نہیں ، اور شاید آپ اس گھر میں پہلے فرد ہیں جو اس چینل کو دیکھ رہے ہیں۔ بیعت مَیں نے اپنے کمرے کا ریسیور ٹھیک کروا یا او راس پر ایم ٹی اے تلاش کر کے محفوظ کر لیا اور پھراس کے پروگرام دیکھنے لگا۔میں ان پروگرامز میں اس قدر منہمک ہوا کہ میری سالہاسال کی نیوزچینلز دیکھنے کی عادت بدل گئی کیونکہ کئی روز تک دن رات میری آنکھوں کا محور ایم ٹی اے تھا۔ پھر ایم ٹی اے سے مجھے عربی ویب سائٹ کا پتہ چلا۔ میں نے اسے کھولا تو اس کا سحر اس قدر چھایا کہ میں اس کے علاوہ سب کچھ بھول گیا۔ بالآخر میں نے مطمئن ہوکر بیعت کا خط لکھ دیا جس کی قبولیت کا جواب مجھے 15فروری 2012ء کو مل گیا۔اس کے بعد میرا رابطہ لوکل جماعت سے بھی ہو گیا ۔ الحمد للہ۔ ٭٭٭٭٭ مکر م ودیع عبد اللہ سرحان صاحب مکر م ودیع عبد اللہ سرحان صاحب لکھتے ہیں: میرا تعلق یمن سے ہے جہاں میری پیدائش 1972ء میں ہوئی اور مجھے بفضلہ تعالیٰ 2010ء میں بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ میری بیعت کا بہت معمولی اور ساد ہ ساواقعہ کچھ یوں ہے : میری دینی تعلیم کوئی خاص نہ تھی کیونکہ میں نہ تو امام مہدی کے ظہور کے بارہ میں کچھ جانتا تھا، نہ ہی مجھے آخری زمانے کی دیگر علامات کی کچھ خبر تھی۔ آخری زمانے کی خبروں کے بارہ میں میرا علم بہت ہی محدود تھااور وہ بھی سنی سنائی باتیں تھیں۔ اس کے بارہ میں مَیں نے کسی کتاب سے کچھ نہ پڑھا تھا۔ نئے اسلامی فلسفہ کی ضرورت 90ء کی دہائی کے شروع میں میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ آخری زمانے میں دجال آئے گا اور جنت و دوزخ اپنے ہاتھ میں لئے پھرے گا، وہ لوگوں کو دھوکہ دے گا۔ ایسے میں مسیح نازل ہوں گے اور وہ دجال کو قتل کردیں گے۔پھر امام مہدی آئے گا جو اسلام اور مسلمانوں کی مدد کرے گا اور اسلام دنیا پر غالب آجائے گا۔ مَیں ان امور کے بارہ میں سوچتا اور مسلمانوں کی حالت کو دیکھتا تو دونوں کے مابین کوئی تعلق قائم نہ کرسکتا تھا۔ مسلمانوں کی حالت، اسلامی تعلیمات پر ان کا عمل اوران تعلیمات کو دنیا میں پیش کر کے تبلیغ کرنے کا اندازا یسا تھا جس سے اسلام کے غلبہ کے بارہ میں کسی امید کو قائم کرنا بہت مشکل نظر آتا تھا۔ پچھلی صدی کے اواخر کی بات ہے کہ ایک روزمیں اس موضوع کے بارہ میں سوچ رہا تھاکہ اچانک غیر ارادی طور پر میری زبان پر یہ جملہ جاری ہوگیا : ’’دنیا کو نئے فلسفہ کی ضرورت ہے ، بلکہ دنیا کو ایک نئے اسلامی فلسفہ کی ضرورت ہے۔‘‘مجھے اس کی کوئی سمجھ نہ آئی۔ مَیں بچپن سے ہی عزلت کی زندگی پسند کرتا تھا اوراکثر اکیلے بیٹھ کر ذکر الٰہی کرنے کی عادت تھی۔ اگر کہیں مجھے کسی مجلس میں بیٹھنا بھی پڑتا تو میں وہاں چُپ چاپ بیٹھارہتا اور بغیر کسی سے بات کئے دعا اور ذکر الہٰی میں مشغول رہتا۔نہ کبھی کوئی تحقیق کی ،نہ ہی کسی نئی جماعت اور نئی سوچ میں دلچسپی لی تھی جس کی بناء پر میرے ذہن میں نئے فلسفہ کا خیال آتا۔یہ محض کوئی تصرف الٰہی تھا۔ جماعت سے تعارف 2006ء تک مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام تک نہ سنا تھا، نہ ہی کبھی کسی ذریعہ سے جماعت احمدیہ کا ذکر میرے کانوں تک پہنچا ۔ 2007ء میں ایک روز جبکہ مَیں بعض چینلز کی تلاش کررہا تھا کہ اچانک میرا تعارف ایم ٹی اے العربیہ سے ہو گیا۔ اس پر اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک قصیدہ پڑھا جارہا تھا۔ چنانچہ ایم ٹی اے سے جو پہلی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی وہ حضور علیہ السلام کے قصیدہ کے یہ کلمات تھے: یَاأیُّہَا النَّاسُ اُتْرُکُوْا طُرُقَ الْإِبَآء کُوْنُوْا لِوَجْہِ اللّٰہِ مِنْ أَعْوَانِیْ ترجمہ:اے لوگو! سرکشی کی راہوں کو چھوڑ دواور خالصتًا ﷲمیرے انصار میں سے بن جائو۔ آپ حیران ہوں گے کہ کسی کے بارہ میں محض ایک جملہ سننے پر فیصلہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا کہوں کہ یہی حق ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان کلمات نے میرے دل پر گہری چوٹ لگائی۔یہ سنتے ہی میرے دل سے صدائیں بلند ہونے لگیں کہ خدا کا واسطہ دے کر اپنے طرف بلانے والا یہ شخص ضرور سچا ہے۔ دل سے اٹھنے والی صدا تھوڑی سی تحقیق کے بعد مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ شخص کون ہے او راس کا دعویٰ کیا ہے۔اس کے بعد مَیں جب بھی ٹی وی پر حضور علیہ السلام کی تصویر دیکھتا یا آپ کے کلام سے کوئی اقتباس یا آپ کے قصائد میں سے کوئی شعر میرے کانوں میں پڑتا تو میری آنکھیں آنسو برسانے لگتیں اوران سے قبل میرا دل بھی رونے لگتا۔بار بار مجھے حضور علیہ السلام کی نداء یاد آتی کہ : کُوْنُوْا لِوَجْہِ اللّٰہِ مِنْ أَعْوَانِیْ اوردل سے یہی صدا اٹھتی کہ اے مسیح الزماں! میں آپ کے انصار واعوان میں شامل ہونے کا اعلان کرتاہوں۔ بیعت گو مجھے شروطِ بیعت اور بیعت وغیرہ کے بارہ میں علم نہ تھا تاہم مَیں پہلے دن سے ہی اس طرح کے روحانی تعلق کے لئے تیار تھا۔ اس کے بعد یوں ہوا کہ ایم ٹی اے کی نشریات نائل ساٹ پر بند ہوگئیںاور 2010ء میں مجھے یہ چینل دوبارہ مل گیا اور اس کے پروگرامز دیکھنے کے بعد مجھے بیعت کی اہمیت اور اس کی ضرورت کا احساس ہوا ۔ میں نے رابطہ کیا تو جرمنی سے میرے ایک ہموطن احمدی نے مجھے فون کیا اور یمن میں احمدی احباب سے ملادیا جن کی مدد سے مَیں نے بیعت ارسال کردی۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ اس نے امام الزماں کو پہچاننے اور اس کی بیعت کرنے کی توفیق دی۔ یہ سراسر اس کا فضل واحسان اور نعمت وکرم ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے اور امام الزمان کی دعوت وتبلیغ کو اپنے ہموطنوں میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ (باقی آئندہ)