https://youtu.be/Cifw6bijuZE?si=Vr5mqRxE-yOEpgCG&t=1181 دلیل نہم نویں دلیل بھی ایسی تھی جس نے عبد اللہ کے ایمان کو اور پکا کر دیا۔ وہ اپنے ابا سے پوچھنے لگا کہ ابا کیا آپ کو کبھی کوئی سچی خواب آئی ہے؟ تو اس کے ابا کہنے لگے کہ ہاں کئی مرتبہ۔ عبد اللہ پھر پوچھنے لگا کہ کیا کبھی خواب کے ذریعہ کوئی مستقبل کی بات بھی معلوم ہوئی ہے؟ تو اس کے ابا نے بتایا کہ ہاں کئی دفعہ ایسے خواب دیکھے ہیں جن کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے اور پھر خواب پوری بھی ہو جاتی ہے۔ عبد اللہ کہنے لگا کہ یہ بھی خدا کے ہونے کی ایک دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے باتیں بھی کرتا ہے۔ انبیاء جن کا مقام بہت بلند ہوتا ہے ان سے کئی طریق سے اللہ تعالیٰ باتیں کرتا ہے جس طرح کہ آنحضرت محمد ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے پورا قرآن نازل فرمایا۔باقی انبیاء کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کلام کرتا تھا۔لیکن انبیاء کے علاوہ بھی نیک لوگوں سے اللہ تعالیٰ باتیں کرتا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ بد لوگوں کے ساتھ بھی ہم کلام ہوتا ہے تا ان کو بھی معلوم ہو جائے کہ خدا بولتا ہے۔ میرا دوست جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا، اس نے کئی دن پہلے آکر کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ آج انگریزی کا سرپرائز ٹیسٹ ہوگا۔ جب انگریزی کی کلاس ہوئی تو واقعی استاد نے ٹیسٹ تیار کر رکھا تھا۔ اس دن تو میں نے اس کو کچھ نہیں کہا مگر کل میں اس سے ضرور پوچھوں گا کہ اگر خدا نہیں تو تمہیں خواب کے ذریعے سرپرائز ٹیسٹ کا کون بتا رہا ہے؟ بعض دفعہ خوابیں خیالی ہوتی ہیں مگر بعض اوقات خدا کی طرف سے بھی ہوتی ہیں جن کے ذریعے ہمیں مستقبل کی اطلاع دی جاتی ہے۔ پس سچے خواب بھی خدا کے ہونے کی ایک دلیل ہیں۔ عبداللہ کی بات سن کر اس کے ابا بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے خدا کے فضل سے کتاب میں موجود دلائل کو خوب سمجھا ہے۔ اب جا کر کتاب میں موجود دسویں دلیل بھی پڑھو۔ دلیل دہم کتاب مکمل کر کے عبد اللہ اپنے ابا کے پاس آکر بیٹھ گیا اور پوچھنے لگا کہ ابا جان! اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیوں بنایا ہے؟ عبداللہ کے ابا بتانے لگے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ اس نے انسان کو اس لیے بنایا ہے تا انسان اس کی عبادت کرے۔ عبد اللہ کہنے لگا کہ پھرتو سب سے پہلے ضروری ہے کہ انسان خدا پر ایمان لائے تب ہی تو وہ عبادت کرسکے گا۔ اس کے اباکہنے لگے کہ بے شک مگر تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟ عبد اللہ کہنے لگا کہ دیکھیں اگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے بنایا ہے تویقیناً وہ چاہتا ہے کہ انسان اس کو پہچانے۔ پس اس کے لیے اس نے کئی ذرائع مہیا کیے ہیں۔ مثلاً نو دلائل تو اب تک مَیں اس کتاب سے آپ کو سنا چکا ہوں۔مگر اگرکوئی شخص پھر بھی اتنے دلائل سننے کے باوجود نہ مانے تو اس کے لیے تو پھر ایک ہی حل ہے۔ اس کے ابا پوچھنے لگے کہ وہ کیا؟عبداللہ کہنے لگا کہ پھر وہ دعا کرے۔ ماناکہ وہ تو خدا کو ہی نہیں مانتا تو دعاکیوں کرے اور کس طرح کرے؟ مگر اس شخص کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر ہمیں کسی کام میں معمولی فائدہ بھی نظر آتا ہے تو ہم ایسا کام ضرور کرتے ہیں خاص کر اگر اُس میں ہمارا کوئی نقصان نہ ہو۔ اس طریق پر دعا کرنے سے اس کا کوئی نقصان نہیں بلکہ اس کے برعکس اگر وہ دعا کے ذریعے خدا تک پہنچ جاتا ہے تو فائدہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کو چھوڑا نہیں جاسکتا۔ وہ اس کے ذریعے اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کو پا سکتا ہے۔ پس حضرت مصلح موعودؓ نے اس کتاب میں دسویں دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ ایسا شخص دعا کرے کہ اے خدا اگر تُو ہے تو تُو میری مدد فرما اور مجھے تجھے پہچاننے کی توفیق عطا فرما۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر وہ خالص ہو کر دعا کرے گا تو وہ ضرور خدا کو پالے گا۔ عبداللہ کے ابا بہت خوش تھے اور کہنے لگے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان دے کر تم پر کتنابڑا فضل کیا ہے۔ اس لیے تمہیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی ضرورت ہے۔ عبد اللہ کہنے لگا کہ ہاں میں ابھی نفل پڑھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور آگے بھی کوشش کروں گا کہ اس میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ اس کے بعد عبد اللہ اٹھا اور وہیں تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گیا۔ اس کے ابا پوچھنے لگے کہ اب کیاسوچ رہے ہو؟ تو عبد اللہ کہنے لگا کہ میرے خیال میں حضرت مصلح موعود ؓکی یہ کتاب ہر ایک احمدی کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ (م۔ ط۔ بشیر)