https://youtu.be/M2ZEbCLy5SE?si=Os--CWWOBtKVYzR6&t=1653 حکایات مسیح الزماںؑ ظاہری قیمت حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کی حالت کا نقشہ سورہ انفال رکوع 2 میں کھینچا گیا ہے اور اس نقشہ کو شیخ سعدی نے ایک حکایت کے رنگ میں اپنی کتاب گلستان میں بیان کیا ہے۔ہم بچپن میں وہ شعر پڑھا کرتے تھے تو بہت مزہ آیا کرتا تھا۔یوں تو جب ہم بڑے ہوئے تو حضرت خلیفہ اول نے ہمیں مثنوی مولانا روم بھی پڑھائی تھی مگر وہ زمانہ جب ہمیں مثنوی مولانا روم پڑھائی گئی 1911ء یا 1912ء کا زمانہ تھا اور گلستان اور بوستان اس سے پہلے زمانہ میں ہمیں شروع کرائی گئی تھیں۔شیخ سعدی نے گلستان میں ایک کہانی لکھی ہے کہ ایک بادشاہ تھا جس کے کئی بیٹے تھے۔اس کے اور تو سب بیٹے نہایت خوبصورت تھے اور بادشاہ اُن سے بہت محبت کیا کرتا تھا لیکن ایک لڑکا بہت چھوٹے قد کا تھا اور اس کی شکل بھی نہایت مکروہ تھی۔اُس سے وہ سخت نفرت کیا کرتا تھا۔ایک دفعہ ایک بادشاہ جو اُس سے دشمنی رکھتا تھا اور جس کی طاقت بہت زیادہ تھی اُس پر حملہ آور ہوا۔جب اُس کی فوج نے اس بادشاہ کے دائیں اور بائیں بڑے زور سے حملہ کیا تو اُس کی ساری فوج بھاگ گئی اور میدانِ جنگ میں صرف چند آدمی بادشاہ کے ساتھ رہ گئے۔جب بادشاہ نے دیکھا کہ اب دشمن مجھے بھی حملہ کر کے قید کر لے گا تو یکدم صفوں کو چیرتا ہوا ایک سوار نکلا جس نے اپنے ہاتھ میں نیزہ پکڑا ہوا تھا۔وہ پوری ہمت کے ساتھ اپنے دائیں اور بائیں نیز ہی چلاتا ہوا آ رہا تھا جس کی وجہ سے دشمن کی فوج تتر بتر ہوگئی۔پھر اُس نے بادشاہ کی بچی کھچی فوج کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کی فوج بھاگ گئی۔وہ شخص حملہ کرتا جا تا تھا اور کہتا جاتا تھا؎ آں نہ مَن باشم که روزِ جنگ بینی پُشتِ من آں منَم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے یعنی میں وہ نہیں ہوں کہ جنگ کے دن تُو میری پیٹھ دیکھے بلکہ جنگ کے دن تُو صرف میرا منہ یکھے گا میری پیٹھ نہیں دیکھے گا۔اور اگر کوئی شخص مجھ سے میرا کچھ حال پوچھنا چاہے تو میں اُسے یہ بتاتا ہوں کہ میں جب لڑائی میں آؤں گا تو وہ میرے سر کو خاک اور خون میں لتھڑا ہوا پائے گا یعنی میں قتل ہوتو جاؤں گا لیکن بھاگوں گا نہیں۔جب فتح ہوئی تو بادشاہ نے پہچان لیا کہ وہ اُس کا وہی بیٹا ہے جس سے وہ نفرت کیا کرتا تھا۔بادشاہ نے اُسے بلایا، اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا میں نے تم پر بڑا ظلم کیا ہے اور تمہاری بڑی بے قدری کی ہے۔جن کی میں قدر کیا کرتا تھا اور جن سے محبت کیا کرتا تھا وہ تو پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے لیکن تم میدان میں رہے اور میری جان کی حفاظت کرنے کے لیے آگے آئے۔اس پر اُس کے لڑکے نے کہا اے باپ! ہر چہ بقامت کہتر بقیمت بہتر جو شخص قد و قامت اور صورت کے لحاظ سے ذلیل نظر آتا تھا وہ قیمت کے لحاظ سے بہت بہتر تھا یعنی آپ تو مجھے چھوٹے قد کا آدمی سمجھ کر نفرت سے دیکھا کرتے تھے لیکن آپ کو معلوم ہو گیا کہ جو قد و قامت اور صورت میں ذلیل نظر آتا تھا قیمت کے لحاظ سے وہی بہتر تھا۔ (خطبات محمود جلد 39 صفحہ 13-14) سوال جواب بہن بھائیوں میں لڑائیاں کیسے کم ہوں؟ جرمنی کے ریجنNordrheinسے تعلق رکھنے والی ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ بہن بھائیوں میں لڑائیاں کم ہوں؟ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انتہائی شفقت بھرے انداز میں مسکراتے ہوئے فرمایا کہ نماز پڑھا کرو، اخلاق دکھایا کرو اور ٹھنڈا پانی پی لیا کرو۔ جس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیے۔ حضورِ انور نے دریافت فرمایا کہ اگر تمہارے اچھے اخلاق ہیں تو کیوں لڑائی ہوتی ہے، اچھاbehaveکر رہی ہو تو لڑائی نہیں ہوگی۔ تم نے کوئی بات کی ہوگی تو اگلا پھر لڑے گا۔اگر کوئی تم سے لڑے، تم کان بند کر کے دوسری طرف چلی جاؤاور کہہ دو کہ مَیں نہیں لڑوں گی۔ حضورِ انور نے اس حوالے سے مزید سمجھایا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جو روزے دار ہو، تو روزے والے سے کوئی لڑائی کرے یا کوئی سختی سے بولے تو تم کہہ دو کہ مَیں روزے میں ہوں، مَیں نہیں لڑوں گا، مَیں بُری بات نہیں کروں گا۔ قرآنِ شریف میں بھی آیا ہے کہ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ، لغو باتوں سے اِعراض کرو اوربچو، تو اسی طرح تم لوگ بھی لغو باتوں سے بچو۔ اور ٹھنڈا پانی پی لو اور بیٹھ جایا کرو اور وہاں سے چلی جایا کرو۔ چھوٹے بھائی ہیں، تو چھوٹے بھائیوں سے شفقت کرنی چاہیے، بڑے بھائی بہن ہیں، تو ان سے ویسے ہی عزت سے پیش آؤ اور اگر تم پرکوئی رُعب ڈالتا ہے، تو تم علیحدہ کمرے میں چلی جاؤ۔ پھر حضورِ انور نے ناصرہ سے دریافت فرمایا کہ تم پر بڑے رُعب ڈالتے ہیں، تو اس نے معصومیت سے عرض کیا کہ چھوٹا بھی، اس پر حضورِ انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ چھوٹا لڑتا ہے تو اس کومعاف کر دیا کرو اور کہو کہ تمہیں معاف کیا۔ مزیدبرآں حضورِ انور نے غلطیوں سے سبق سیکھنے کے حوالے سے فرمایا کہ قرآنِ شریف میں دو لڑنے والوں کی مثال ہے، ایک نے کہا کہ تم یہ کہتے ہو، وہ کہتے ہو تو مَیں تمہیں قتل کر دوں گا۔دوسرے نے کہا تم میری طرف قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھاؤ گے، تو مَیں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا، مَیں تو اللہ سے ہی دعا کروں گا۔ خیر ایک نےدوسرے کو مار دیا اور اس کے بعد آگے کہانی ہے کہ کس طرح وہ مر گیا اور اس کو دفنایا بھی نہیں اور پھر ایک کوّا آیا، اس نے زمین کھودی اور اپنے مرے ہوئے کوّے کو دفنایا۔ تو اس نے کہا کہ مَیں تو اس سے بھی بدّتر ہوں، تو آخر میں جو ہوتا ہے، وہ انسان کو غلط باتیں کرنے کا افسوس ہوتا ہے۔ آخر میں حضورِ انور نے ناصرہ کو تلقین فرمائی کہ جب وہ تمہارا چھوٹا بھائی بڑا ہو جائے گا یابھائی بہن جو بھی ہے، تو وہ کہے گا اوہو! مَیں غلطی کرتا تھا اور بہنوں سے لڑتا تھا، اس لیے تم شروع میں ہی معاف کر دیا کرو۔(الفضل انٹرنیشنل یکم نومبر 2025ء)