نورِ فُرقاں ہے جو سب نوروں سے اَجلیٰ نکلاپاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پوداناگہاں غیب سے یہ چشمۂ اصفیٰ نکلا یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالَم ہےجو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیںمئے عرفان کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہوہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا ( براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 305حاشیہ در حاشیہ نمبر2)(مشکل الفاظ کے معنی: اصفیٰ: صاف و شفاف، فرقاں: قرآن مجید، حق و باطل میں تمیز کرنے والا، مے: شراب، جام)