https://youtu.be/fmF0jldnsQo?si=IvosbW4dCldh8m2k&t=1572 احمد، محمود اور خاقان: السلام علیکم دادی جان ! آپ کیا کررہی ہیں ؟ دادی جان: میں پودوں کو پانی دے رہی ہوں اچھا ہوا اب آپ آگئے ہیں تو اب آپ پودوں کو پانی دیں میں ان کی کانٹ چھانٹ کے ساتھ ساتھ ان کی خیر خبر لیتی ہوں۔ خاقان: نانی جان !پودے کون سا جواب دیتے ہیں جو آپ ان کی خیریت معلوم کررہی ہیں ؟ دادی جان: ہاں یہ تو درست ہے کہ وہ انسانوں کی طرح اپنی بات بیان نہیں کرسکتے مگر جب آپ ان کا خیال رکھتے ہیں انہیں پانی اور کھاد مناسب وقت پر دیتے ہیں تو وہ بھی کِھل اٹھتے ہیں اور ان کی شادابی ہی ان کا اظہار ہوتی ہے کہ وہ اپنے مالک سے کس قدر خوش ہیں۔ اچھا آپ یہ بتائیں کہ آپ کو ایک نظم دی تھی میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی،کیا آپ نے وہ یاد کرلی ہے؟ احمد: جی دادی جان !مجھے تو خود یہ نظم بہت پسند ہے اور میں نے ساری یاد کرلی ہے۔ محمود: دادی جان میں نےبھی تھوڑی سی یاد کی ہے۔ خاقان: جی نانی جان! میں نے بھی۔ دادی جان: (ہاتھ دھوتے ہوئے) جی بالکل چلیں آئیں بیٹھ کر سنائیں۔ سب بچے نظم سناتے ہیں تو خاقان کہتا ہے: آج آپ ہمیں حضرت مصلح موعودؓ کے بچپن کے واقعات سنائیں گی۔ دادی جان: جی بہتر۔ حضرت مصلح موعودؓ کا بچپن انتہائی خوبصورت تھا۔ آپ کے والدین نے آپ سب بہن بھائیوں خصوصاً آپ کی تربیت کا خاص اہتمام کیا تھا۔آپ کے بچپن کا ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ مجھے یاد آگیا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ گرمیوں کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعودؑ لدھیانے میں قیام فرما تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ ابھی چھوٹے بچے تھے، کوئی تین سال کے ہوں گے۔ آدھی رات کے وقت میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے بیٹے (حضرت مصلح موعودؓ) کو گود میں اٹھا کر اِدھر اُدھر ٹہل رہے ہیں۔ آپؓ کسی وجہ سے رو رہے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ آپ کو بڑے تحمل سے بہلا رہے ہیں۔ اسی دوران حضرت مسیح موعودؑ نے آسمان پر موجود ستارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو محمود! وہ کیسا تارا ہے!! آپؓ نے ستارے کی طرف دیکھا اور ذرا چُپ ہو کر پھر سے رونا شروع کر دیا اور کہنے لگے:’’ابّا تارے جانا‘‘ (یعنی ابا میں ستارے پر جاؤں گا)۔ آخر بچہ خود ہی جب تھک گیا تو چُپ ہو گیا۔ مگر اس سارے عرصہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی زبان سے ایک لفظ بھی سختی یا شکایت کا نہیں نکلا۔تو یہ تھا آپ کے والدین کا نمونہ کہ کبھی کسی ضد پر بھی سختی سے یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں لیا۔ گڑیا:یومِ مصلح موعود پر سیکرٹری صاحبہ نے بتایا تھا کہ آپؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ آپؓ کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ کتاب کی طرف زیادہ دیر دیکھ سکتے۔ اس لیے آپؓ کا طریق تھا کہ وہ آپ کو اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے۔ میاں میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ۔ دادی جان: جی شاباش !پھر پڑھائی کے حوالے سے ہی ایک اور انتہائی خوبصورت واقعہ ہے آپؓ خود فرماتے ہیں کہ ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے ایک دن حضرت مسیح موعودؑکے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ نہیں پڑھتا۔ کبھی مدرسے میں آ جاتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعودؑکے پاس یہ شکایت کی تو مَیں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعودؑکس قدر ناراض ہوں۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا کہ (ماسٹر فقیر اللہ صاحب!)آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدرسہ چلا جاتا ہے ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کرسکے۔ محمود:تو کیا آپ پڑھائی میں بالکل بھی اچھے نہیں تھے ؟ دادی جان: ہاں دنیا کی نظر میں تو ایسا ہی ہے۔مگر آپ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو خاص بشارتیں دی تھیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا اور اس بارے میں مجھے ایک روایت یاد آرہی ہے۔ایک دفعہ سالانہ جلسہ پر تقریر کرکے حضرت مسیح موعودؑ جب واپس گھر تشریف لائے تو آپ نے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب سے، جن کی عمر اس وقت دس بارہ سال کی ہوگی، اپنی تقریر کے بارے میں پوچھا۔ آپؓ نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا تو حضرت صاحبؑ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے خوب یاد رکھاہے۔ خاقان:نانی جان !اس کا مطلب ہے آپؓ کا حافظہ بہت اچھا تھا اور کیاآپ شرارتیں بھی کیا کرتے تھے؟ دادی جان: جی دوسرے بچوں کی طرح آپ بھی شرارتیں کرتے تھے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بچپن میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایک نہایت ضروری مسوّدے کو دیا سلائی لگا دی اور مسودہ جل کر راکھ ہوگیا۔ لیکن جب حضورؑکو معلوم ہوا کہ مسودہ جل چکا ہے تو حضور نے مسکرا کر فرمایا: ’’خُوب ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے۔‘‘ لیکن ان سب کے باوجود آپ کے والدین نے آپ سے کبھی باز پرس نہیں کی مگر جہاں اخلاق اور تربیت کی بات آتی تھی وہاں کسی قسم کی رعایت بھی نہیں کرتے تھے۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی اس بات پر سرزنش کی کہ انہوں نے مرزا نظام الدین صاحب کا نام لیا۔ فرمایا: ’’میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے اس طرح نام نہیں لیا کرتے۔‘‘ محمود: جی بالکل۔ ہمیں کل ہی ناظم صاحب اطفال نے بھی سمجھایا ہے کہ بڑوں کے نام کے ساتھ صاحب لگانا چاہیے۔ دادی جان: جی ہاں بالکل۔ ایک بار لڑکپن میں حضرت مصلح موعودؓ ایک لڑکے کے کندھے پر کہنی سے ٹیک لگا کر کھڑے تھے کہ ایک صحابی نے اس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بہت بری بات ہے۔ اس وقت آپ کی عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی لیکن آپؓ فرماتے تھے کہ وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ ایک اور صحابی کا واقعہ بھی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہماری والدہ چونکہ دلّی کی ہیں اور دلّی بلکہ لکھنؤ میں بھی’تم‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ بزرگوں کو بیشک آپ کہتے ہیں لیکن ہماری والدہ کے کوئی بزرگ چونکہ یہاں تھے نہیں کہ ہم ان سے ’’آپ‘‘کہہ کر کسی کو مخاطب کرنا بھی سیکھ سکتے۔ اس لیے میں دس گیارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعودؑ کو ’’تم‘‘ ہی کہا کرتا تھا۔ ایک بار آپؓ نے بات کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کو’تم‘کہہ دیا۔ ایک صحابیؓ آپ کو الگ لے گئے اور کہا کہ آپ حضرت مسیح موعودؑ کے فرزند ہیں اور ہمارے لیے محل ادب ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ ’تم‘کا لفظ برابر والوں کے لیے بولا جاتا ہے بزرگوں کے لیے نہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے لیے اس کا استعمال مَیں بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔ فرماتے ہیں کہ ’’یہ پہلا سبق تھا جو انہوں نے اس بارے میں مجھے دیا۔‘‘ تو اس لیے بڑوں کے لیے آپ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ احمد:ماشاء اللہ کتنا حسین بچپن تھا آپ کا اس میں ہمیں کتنا اہم سبق ملا کہ بزرگوں کا احترام کرنا چاہیے۔شکریہ دادی جان آپ نے ہمیں اتنے پیارے واقعات سنائے۔ دادی جان: چلیں پھر وضو کرلیں نماز کا وقت ہونے لگا ہے۔ آج تو آپ کا اجلاس بھی ہے مسجد میں۔ بچے: ٹھیک ہے دادی جان۔ (درثمین احمد۔ جرمنی)