حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

شُکر گزاری (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۶؍اگست۲۰۰۴ء)

شُکر گزاری کے بھی مختلف مواقع انسان کو ملتے رہتے ہیں اور جو مومن بندے ہیں وہ تو اپنے ہر کام کے سُدھرنے کو، ہر فائدے کو، ہر ترقی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور پھر اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں اور ہمیشہ عبد شکور بنے رہتے ہیں۔ جلسہ سالانہ برطانیہ گزشتہ اتوار کو ختم ہوا جیساکہ میں نے کہا احمدیوں نے اس نعمت سے فائدہ اٹھایا لیکن یہ فائدہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنا رہے گا۔ جلسے کا انتظام ہوتا ہے اور چھ مہینے پہلے ہی انتظامیہ کو اس کی فکر شروع ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے تو انتظامیہ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس کے اس احسان پر اس کے آگے مزید جھکنا چاہئے کہ تما م کام بخیرو خوبی تکمیل کو پہنچے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ خدمت کر سکیں۔ باوجود بہت سی کمزوریوں اور نااہلیوں کے اس نے پردہ پوشی فرماتے ہوئے اس جلسہ کو خیریت سے اختتام تک پہنچایا۔ تو جب اس طرح اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہم اس کے آگے جھکیں گے تو آئندہ یہ فضل اس کے وعدوں کے مطابق پہلے سے بھی بڑھ کر ہم پر نازل ہوں گے۔ پھر انہی فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے تمام کارکنان مہمانوں کے بھی شکر گزار ہوں گے کہ انہوں نے بھی تعاون کیا اور میزبانوں کی کمیوں پر صَرفِ نظر کیا اور کسی قسم کا شکوہ یا گلہ نہیں کیا۔ اور اس بات پر ان کو مہمانوں کا شکر گزار ہونا چاہئے اور پھر اللہ تعالیٰ کا بھی مزید شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے مہمانوں کے دلوں کو ہماری طرف سے بھی نرم رکھا اور انہوں نے صَرفِ نظر سے کام لیا۔

پھر مہمانوں کو بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ وہ یہاں آرام سے رہے اور کسی قسم کی تکلیف یا زیادہ تکلیف ان کو برداشت نہیں کرنی پڑی۔ ان کو تمام انتظامیہ کا شکر گزار ہونا چاہئے اور پھر جو تمام کارکنان ہیں جن میں چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کی عمر کے لوگ شامل ہیں جنہوں نے جہاں جہاں ڈیوٹی تھی بڑی خوش اسلوبی سے اپنی ڈیوٹیاں ادا کیں، اپنے فرائض نبھائے اور مہمانوں کے لئے سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی۔ مہمانوں کو بھی چاہئے کہ اس شکرانے کے طور پر ان سب کارکنان کے لئے، ان کی دینی و دنیاوی ترقیات کے لئے دعا کریں۔ جلسے سے پہلے گزشتہ تین چار ہفتے سے تو بعض کارکنان دن رات ایک کرکے اپنی ضروریات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کے انتظامات کو بہتر سے بہتر بنانے کی خدمت میں لگے رہے ہیں۔ اور پھر جلسے کے دنوں میں بھی ایک بڑی تعداد کارکنان اور کارکنات کی اس خدمت پہ مامور رہی اور اپنے آرام اپنی خوراک کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی۔ اور کارکنات نے اس خدمت کے جذبے کے تحت اپنے بچوں کو(بعض بچوں کی مائیں بھی تھیں ) دوسروں کے سپرد کیا۔ یا گھروں میں بھی چھوڑ کے آئیں۔ بالکل بے پرواہ ہو گئیں اس بات سے کہ ان کے سر پر کوئی رہا بھی کہ نہیں یا بچوں کا کیا حال ہے۔ ان بچوں کی ضروریات کا خیال بھی رکھا جا رہا ہے یا نہیں۔ آنے والے مہمانوں کو اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ ان کارکنوں کا بھی شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔

اس شکر گزاری کابہترین طریقہ یہ ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ان تمام کارکنوں کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کی بہترین جزا دے اور پھر ان پر ہمیشہ اپنی پیار کی نظر ڈالتا رہے۔ پھر مہمانوں کو ان عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے ان کو اپنے گھروں میں اس جذبے کے تحت مہمان ٹھہرایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں۔ ان کے لئے خاص دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کو جنہوں نے اپنے اپنے گھروں میں مہمان ٹھہرایا جزا دے اور ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت دے۔ یہ شکر گزاری کی فضا جب پیدا ہو گی اور ایک دوسرے کے لئے دعائیں ہو رہی ہوں گی تو یہی اس دنیا کی جنت ہے۔ جس میں ایک دوسرے کے لئے سوائے نیک اور پاک جذبات کے اور شکر کے جذبات کے اور کچھ ہے ہی نہیں۔ اور جب یہ شکرانے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا سلسلہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ چلتا رہے گا۔

ایک روایت میں آتا ہے، ’’ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نعمت شکر کے ساتھ وابستہ ہے اور شکر کے نتیجہ میں مزید عطا ہوتا ہے اور یہ دونوں ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ اور خدا کی طرف سے مزید عطا کرنے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ بندہ شکر کرنا نہ چھوڑ دے۔‘‘(کنزالعمال جلد نمبر 2 صفحہ 151)

تو دیکھیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت کسی نہ کسی طرح دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے تم شکر کرو تو پھر اللہ دیتا چلا جائے گا۔ اپنے بھائیوں کے بھی شکر گزار بنو اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بھی شکر گزار بندے بنو تو میری نعمتوں سے حصہ پاتے چلے جاؤ گے، ان میں اضافہ دیکھتے چلے جاؤ گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی نعمتیں ایک لڑی میں ہیں۔ ہر نعمت کے بعد شکر ہو تو پھر یہ نعمتوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ہر نعمت کے بعد شکر اور ہر شکر کے بعد نعمت۔ بندہ ناشکرا ہو جائے تو ہو جائے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور نعمتوں کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے اور صرف یہ خیال نہ رہے کہ یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ان کا کیا شکر ادا کرنا۔ بعض دفعہ بعض خیال آ جاتے ہیں، نہیں بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اگر میسر آتی ہے تو اس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مانگنی ہو تو مجھ سے مانگو۔ اگر جوتی کے تسمے کی ضرورت بھی ہے تو مجھ سے مانگو۔ تو جب یہ حالت ہو گی کہ تم جوتی کا تسمہ بھی خدا سے مانگ رہے ہو اور پھر اس کے بعد اس کا شکر بھی ادا کر رہے ہو تو اللہ تعالیٰ پھر نعمتوں کو اور بڑھاتا چلا جاتا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے’’ حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے منبر پر کھڑے ہو کے فرمایا کہ جو تھوڑے پر(چھوٹی بات پر) شکر نہیں کرتا وہ بڑی(نعمت)پر بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ اور جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کیا کرتا۔ نعمائے الٰہی کا ذکر کرتے رہنا شکر گزاری ہے اور اس کا عدمِ ذکر کفر(یعنی ناشکر ی) ہے۔ جماعت ایک رحمت ہے اور تفرقہ بازی(پراگندگی) عذاب ہے‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 278) یعنی تفرقہ بازی جو ہے آپس میں پڑے رہنا یہ عذاب ہے اس سے ہلاکت ہو گی۔

تو اس میں ایک یہ بھی نصیحت فرما دی کہ ایک جماعت رہتے ہوئے ایک دوسرے کے شکر گزار بنو اور اس طرح سے شکر گزاری کے ساتھ ایک جماعت بن کر رہنے سے تم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو بھی جذب کرنے والے ہو گے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خداتعالیٰ کا بھی شکر نہیں کر سکتا۔ جس قدر آسائش اور آرام اس زمانے میں حاصل ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ریل، تار، ڈاک، ڈاک خانہ، پولیس وغیرہ انتظام کو دیکھوکس قدر فوائد پہنچتے ہیں۔ آج سے 60-70برس پہلے بتاؤکیاایسا آرام و آسانی تھی؟ پھر خود ہی انصاف کرو جب ہم پر ہزاروں احسان ہیں تو ہم کیوں کر شکر نہ کریں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 547 الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۶ء)

حکومت نے جو چیزیں مہیا کی ہوتی ہیں ان کا بھی ہمیں ہمیشہ شکر گزار ہوتے رہنا چاہئے۔ انہوں نے یہ سہولتیں میسر کی ہیں اور مہیا کی ہیں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ(بقرہ:153) یعنی اے میرے بندے! تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو اور میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ189 البدر 3 اپریل1903) پس یہ شکر جس کا آخری سرا ہمیں اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے یہی ہر احمدی کا مطمح نظر ہونا چاہئے یہی ہے جس کو حاصل کرنا ہر احمدی کا مقصد ہونا چاہئے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کوشش کرے کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے والا ہو۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں : لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم :8)۔ کہ اگرتم میرا شکر ادا کرو تو میں اپنے احسانات کو اور بھی زیادہ کرتا ہوں اگر تم کفر کرو تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ یعنی جب انسان پر خداتعالیٰ کے احسانات ہوں تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے اور انسانوں کی بہتری کا خیال رکھے اور اگر کوئی ایسا نہ کرے اور الٹا ظلم شروع کر دے تو پھر خداتعالیٰ اس سے وہ نعمتیں چھین لیتا ہے اور عذاب کرتا ہے۔ ……چاہئے کہ نرمی اور پیار سے کام کیا جائے اور چاہئے کہ جو شخص کسی ذمہ داری کے عہدے پہ مقرر ہو وہ لوگوں سے خواہ امیرہوں یا غریب نرمی اور اخلاق سے پیش آئے کیونکہ اس میں نہ صرف ان لوگوں کی بہتری ہے بلکہ خود اس کی بھی بہتری ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 533 تشحیذ الاذھان اپریل 1908ء بدر 23 اپریل 1908ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button