متفرق مضامین

’’شیخ ابن عربی کا تصور نبوت اور عقیدۂ ختم نبوت‘‘ مصنفہ ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل اور ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی (قسط اوّل)

(’عبد الرحمان‘)

فاضل محققین کی یہ کتاب اسلامک ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز بیورو،کراچی کی طرف سےفروری ۲۰۲۱ء میں چھپی ہے۔ یہ کتاب ایک مقدمہ، ۱۲ ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں ختم نبوت کے بارے میں اکبری فلسفہ کے نقطہ نظر سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔مختلف جہات سے ایک مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو مفصّل بیان کرنے پر فاضل محققین تعریف کے مستحق ہیں۔کتاب میں جا بجا مختصر خاکوں کے ذریعہ نظریات کی خاکہ کشی کی گئی ہے جو کہ قارئین کے لیے نہایت ممد ہیں۔خاکسار کی نظر میں اس کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے اکبری فلسفہ کے ماہرین اور دیگر علماء کے ختم نبوت کے بارے میں نظریہ کی کمزوری، تصویری شکل میں زیاد ہ نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے۔ کتاب کا ایک بڑا حصہ ایک اہل حدیث عالم حافظ زبیر صاحب اور جاوید احمد غامدی صاحب کے ابنِ عربی سے متعلق نظریات کے ردّ پر مشتمل ہے البتہ خاکسار اس مضمون میں صرف حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے متعلق مصنفین کی موشگافیوں پر تبصرہ کرے گا۔ باللّٰہ التوفیق و للّٰہ الحمد من قبل و من بعد

۱. مصنفین نے ابن عربی کے دفاع میں ایک محقق کے اسلوب کو اپنا یا اور بار بار ابن عربی کی عبارات کو سمجھنے کے لیے ان کے نظامِ فکر اور خاص مصطلحات پر غور کرنے کی دعوت دی ہے لیکن جونہی وہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے متعلق باب پر پہنچے ہیں تو تحقیق کا لبادہ اتار کر ایک سطحی مولوی کا لباس اوڑھ لیتے ہیں اور انہی اعتراضات کو دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ مولوی صاحبان آئے دن حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ذاتِ بابرکات پر کرتے رہتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر مصنفین حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریرات کو آپؑ کے نظامِ فکر،سیاق و سباق اور مصطلحات کی رُو سے دیکھتے۔فاضل مصنفین سے درخواست ہے کہ وہ امام شعرانی کے ان الفاظ پر غور کریں جو انہوں نے ابنِ عربی کے ناقدین کے لیے لکھے ہیں:واعلَم أن الاعتراضَ علی اکابرِ الدِّینِ و علمائِہ لا یصدُر إلّا عن ضُعفِ العقلِ و قِلَّۃِ الحیاءِ فالحیاءُ ثمرۃُالایمانِ و ثمرۃُ الایمانِ عَقل و مَن لم یجعل اللّٰہ لہ نورا فما لہ من نور (الاغتباط بمعالجۃ الخیاط بحوالہ کتاب مذکور صفحہ۳۹)۔یعنی جان لو کہ اکابر دین اور علماء پر اعتراض اسی وقت صادر ہوتا ہے جب (معترض کی) عقل میں کمزوری ہو اور (اس میں) حیا کی کمی ہو۔حیا ایمان کا پھل ہے اور ایمان کا پھل عقل ہے۔اور جس کے لیے اللہ نے نور مقرر نہیں کیا تو اس کے لیے نور نہیں۔

۲. مصنفین نے ابن ِعربی کے ختم نبوت کے بارے میں جس موقف کو کم از کم ۳۰۰ صفحات میں بیان کیا ہے، حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس کو مختصراًیوں بیان فرماتے ہیں: ختم نبوت پر محی الدین ابن عربی کا یہی مذہب ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہو چکی ورنہ ان کے نزدیک مکالمہ الٰہی اور نبوت میں کوئی فرق نہیں ( ابن عربی اس کو نبوت عامہ کہتے ہیں۔ناقل)اس میں علماء کو بہت غلطی لگی ہے خود قرآن میں النبیین جس پر ال پڑا ہے موجود ہے اس سے مراد یہی ہے کہ جو نبوت نئی شریعت لانے والی تھی وہ اب ختم ہو گئی ہاں اگر کوئی نئی شریعت کا دعویٰ کرے تو کافر ہے اور اگر سرے سے مکالمہ الٰہی سے انکار کیا جاوے تو پھر اسلام تو ایک مردہ مذہب ہو گا اور اس میں اور دوسرے مذاہب میں کوئی فرق نہ رہے گا۔(البدر مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۲ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد ۳ صفحہ ۷۱۸)۔ گویا آپؑ ابنِ عربی کی اس بات کی تصویب کرتے ہیں کہ امت میں وحی والہام کا سلسلہ،جسے ابنِ عربی نبوت عامہ سے تعبیر کرتے ہیں،جاری ہے۔

۳. مصنفین نے اس کتاب میں سارا زور یہ ثابت کرنے کے لیے لگایا ہے کہ ابنِ عربی کا موقف دربارہ اجرائے نبوت، صرف مصطلحات کے فرق کے ساتھ، دیگر علماء والا ہی ہے نیز وہ بار بار کتاب میں اس امر پر زور دیتے ہیں کہ ابنِ عربی کے وہ حوالہ جات جو اجرائے نبوت کے موقف کی تائید میں پیش کیے جاتے ہیں وہ سب کے سب حضرت عیسیٰ ؑکے نزول کے تناظر میں ہیں تاکہ کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائے کہ ختم نبوت سے مراد اس طرح کی ختمیت ہے جس میں حضرت عیسیٰؑ کے تشریف لانے کی گنجائش بھی نہیں نکلتی۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں: شیخ ابن عربی نے یہ کاوش نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق احادیث متواترہ اور انقطاع نبوت کے بارے میں روایات میں تطبیق دینے کے لیے کی۔(صفحہ ۴۶۹،نیز دیکھیں مثلاً صفحہ ۵۲۶)۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ابن عربی او دیگر علماء کے اس موقف کو باطل قرار دیا ہے۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ نبوت تشریعی جائز نہیں دوسری جائز ہے مگر میرا اپنا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے صرف آنحضرتﷺ کے انعکاس سے جو نبوت ہو وہ جائز ہے۔(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۵۴۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

اس مقام پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا دوسری (نبوت) سے مراد وہ نبوت ہے جس کا اجرا ابنِ عربی صرف حضرت عیسیٰؑ کے لیے مانتے ہیں۔چنانچہ فاضل مصنفین نے ابن عربی کے اس موقف کو اپنی کتا ب میں جا بجا بیان کیا ہے مثلاً ایک مقام پر لکھتے ہیں: ایسے نبی جو اصلاً تشریعی نبوت کے حامل تھے لیکن آپﷺ کی بعثت ہو چکنے کے بعد اب غیرتشریعی حیثیت لائیں گے یہ صرف حضرت عیسیٰؑ کا خصوصی مقام ہے۔(صفحہ۱۷۵)۔اسی طرح ایک مقام پر ابن عربی کا موقف کسی قدر تفصیل سے یوں بیان کرتے ہیں:حضرت مسیح علیہ السلام جب دنیا میں خاتم النبیین محمد رسول اللہؐ کی بعثت کے بعد آسمان سے نزول فرمائیں گے تو آپ نبوت تشریعی کے نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ غیر تشریعی نبوت کے حامل ولی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے گویا آپ علیہ السلام کو منصب یا مقام نبوت سے معزول نہیں کیا جائے گا، تاہم نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد آپ کی شریعت چونکہ منسوخ ہو چکی ہے لہٰذا آپ محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت ہی کا نفاذ فرمائیں گے۔ (صفحہ۱۷۷)

۴. ابنِ عربی کا موقف دربارہ مسئلہ ختم نبوت اور محل خلاف کی تعیین

یاد رہے کہ ہمارے اور دیگرعلماءمیں اس مسئلہ میں محلِ خلاف کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے:

۱) ابن عربی اور دیگر علماء ہمارے ساتھ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ لا نبی بعدی اور خاتم النبیین میں مطلق نفی نہیں ہے جیسا کہ معتزلہ یا جہمیہ کا نظریہ ہے۔

۲) اس بات پر بھی اتفاق کرتے ہیں کہ آنے والا مسیح بطور نبی تشریف لائیں گے۔

۳) ابن عربی اور دیگر علماء کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ اپنی سابقہ نبوت مستقلہ کے ساتھ تشریف لائیں گے اور امتی بن جائیں گے۔

ہمارے نزدیک یہ تیسری شق خاص طور پر محلِ نظر ہے اور یہ ختم نبوت کے خلاف ہے کیونکہ :I. حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مندرجہ بالا حوالہ (صرف آنحضرتﷺ کے انعکاس سے جو نبوت ہو وہ جائز ہے) میں اسی کا رد ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ ایک مستقل نبی کا، جس کی نبوت کے حصول میں حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی پیروی کا بالکل بھی دخل نہیں،آپﷺ کے بعد آ جانا ختم نبوت کے منافی ہے۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’علاوہ ان باتوں کے مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کو یہ آیت بھی روکتی ہے وَلٰکِنۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ اور ایسا ہی یہ حدیث بھی کہ لَانَبِیَّ بَعْدِی۔ یہ کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ باوجودیکہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحیٔ نبوت شروع ہو جائے؟ کیا یہ سب امور حکم نہیں کرتے کہ اس حدیث کے معنے کرنے کے وقت ضرور ہے کہ الفاظ کو ظاہر سے پھیرا جائے ‘‘۔(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد۱۴صفحہ۲۷۹)

II. سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عیسیٰؑ کو نزول کے بعد وحیٔ نبوت ہو گی؟ اس بارے میں ابنِ عربی کی تحریر نیز کتاب میں کیا گیا اس کا ترجمہ من و عن درج کیا جاتا ہے: إعلم أنَّہ لا بُدّ مِن نزولِ عیسیٰ علیہ السلام ولا بُدّ مِن حُکمِہ فینا بِشَریعۃِ محمد ﷺ یُوحی اللّٰہُ بھا الیہ مِن کونِہ نبیافإنَّ النَّبِی لا یأخُذُ الشَّرعَ مِن غَیرِ مُرسِلِہ فیَأتِیہ المَلک مُخبِرا بِشَرعِ محمد الَّذی جاءَ بہ ﷺ وقد یُلھِمُہ إلھاما فلا یَحکُمُ فی الاشیاءِ بِتَحلِیل و تَحرِیم إلّا بما کان یحکُم بہ رسولُ اللّٰہﷺ لو کان حاضرا و یَرتَفِعُ إجتھادُ المُجتَھِدِین بِنُزولِہ علیہ السلام و لا یَحکُم فینا بِشَرعِہ الَّذی کان علیہ فی أوانِ رسالتِہ و دولتِہ فیما ھو عالِم بھا مِن حَیث الوحی الالٰھی اِلیہ بھا ھو رسول و نبی وبما ھو الشرع الذی کان علیہ محمد ﷺ ھو تابع لہ فیہ و قد یکونُ لہ مِنَ الاطلاعِ علی رُوحِ محمد ﷺ کشفا۔ (فتوحات مکیہ ۱/۲۸۰-۲۸۱، صفحہ ۴۸۰)۔یعنی جان لو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ضرور نازل ہوں گے۔نیز آپ ہمارے درمیان محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی شریعت پر فیصلہ فرمائیں گے جسے اللہ تعالیٰ آ پ پر برائے نبوت وحی کرے گا۔کیونکہ نبی شریعت اپنے بھیجنے والے (اللہ) سے ہی حاصل کرتا ہے پس فرشتہ آکر آپ کو شریعت محمدی سے با خبر کرے گا۔نیز آپ کو بذریعہ الہام بھی اس کا علم ہو سکتا ہے۔پس آپ علیہ السلام چیزوں کی حلت و حرمت میں وہی فیصلہ فرمائیں گے جو اگر رسول اللہﷺ تشریف فرما ہوتے تو فرماتے۔آپ (حضرت عیسیٰؑ کے نزول سے مجتہدین کا اجتہاد اٹھ جائے گا اگرچہ آپ ہمارے درمیان اپنی اس شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے جس پر آپ اپنے حکم اور عہدِ رسالت میں تھے۔(چنانچہ) آپ کو اس شریعت کا علم وحی کے ذریعے ہوا،اس لئے آپ نبی و رسول ہیں اور چونکہ وہ شریعت محمدیؐ ہے اس لئے وہ اس میں رسول کے تابع ہیں۔(کتاب مذکور صفحہ۴۷۹-۴۸۱)

فاضل مصنفین اس بارے میں ابن عربی کے موقف کا خلاصہ یوں درج کرتے ہیں: مگر یاد رہے کہ آپ پر یہ وحی اللہ کا نبی اور رسول اللہ ﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت میں نازل کی جائے گی جس میں تشریع نہ ہو گی،یہ دو گانہ مقام صرف آپ علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے۔(صفحہ۱۸۳)۔دیگر علماءکا بھی یہی موقف ہے مثلاً علامہ الہیتمی اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: نَعَمَ یُوْحٰی اِلَیْہِ وَحْیٌ حَقِیْقِیٌّ کَمَا فِیْ حَدِیْثِ صحیح مسلم۔(الفتاویٰ الحدیثیۃ صفحہ ۱۸۱)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس بارے میں علماء کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: علاوہ اس کے ہر یک عاقل معلوم کر سکتا ہے کہ اگر سلسلہ نزول جبرائیل اور کلام الٰہی کے اُترنے کا حضرت مسیح ؑکے نزول کے وقت بکلّی منقطع ہوگا تو پھر وہ قرآن شریف کو جو عربی زبان میں ہے کیوں کر پڑھ سکیں گے۔ کیا نزول فرماکر دوچار سال تک مکتب میں بیٹھیں گے اور کسی مُلّا سے قرآن شریف پڑھ لیں گے؟ اگرفرض کر لیں کہ وہ ایسا ہی کریں گے تو پھر وہ بغیر وحی نبوت کے تفصیلات مسائل دینیہ مثلًا نماز ظہر کی سُنت جو اتنی رکعت ہیں اور نماز مغرب کی نسبت جو اتنی رکعات ہیں اور یہ کہ زکوٰۃ کن لوگوں پر فرض ہے۔ اور نصاب کیاہے کیوں کر قرآن شریف سے استنباط کر سکیں گے۔ اور یہ تو ظاہر ہوچکا ہے کہ وہ حدیثوں کی طرف رجوع بھی نہیں کریں گے۔ اور اگر وحی نبوت سے ان کو یہ تمام علم دیا جائے گا تو بلاشبہ جس کلام کے ذریعہ سے یہ تمام تفصیلات اُن کو معلوم ہوں گی وہ بوجہ وحی رسالت ہونے کے کتاب اللہ کہلائے گی۔( ازالۂ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳صفحہ۴۱۲)۔نیز فرماتے ہیں:وہ لوگ جو حضرت عیسیٰؑ کو دوبارہ دنیا میں واپس لاتے ہیں ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ بدستور اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئیں گے اور برابر پینتایس برس تک ان پر جبریل علیہ السلام وحئ نبوت لے کر نازل ہوتا رہے گا۔اب بتلاؤ کہ ان کے عقیدہ کے موافق ختم نبوت اور ختم وحئ نبوت کہاں باقی رہا بلکہ ماننا پڑا کہ خاتم الانبیاء حضرت عیسیٰؑ ہیں۔(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۱۷۴ )

خلاصہ یہ کہ علماء کی جانب سے یہ سب تکلفات کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس عقیدہ کی بنا ہی غلط ہے۔اور وہ یہ کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ ہیں اور وہی تشریف لائیں گے۔اگر قرآنی نصوص جو کہ وفاتِ مسیح پر دلالت کر رہی ہیں،ان کی روشنی میں احادیث کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی تو اس قسم کے تکلفات کی بالکل ضرورت نہ تھی۔

III. علماء ایک قسم کے داخلی تضاد و اضطراب کے شکار ہیں۔مثلاً کتاب مذکور کے مصنفین کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ پہلی بعثت میں تشریعی نبوت کے حامل تھے۔ ان کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت عیسیٰؑ بطور نبی کے تشریف نہیں لائیں گے لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اُسی تشریعی نبوت کے ساتھ تشریف لائیں گے۔ اس کا حل ہمارے فاضل محققین نے یہ نکالا ہے :آپ کو منصب نبوت سے معزول کرنے کے بعد دنیا میں نہیں بھیجا جائے گا تاہم ختم نبوت کے سبب آپ کا منصب تشریع،نبوت غیر تشریع میں تبدیل ہو جائے گا۔(صفحہ۴۶۹)۔گویا دبے الفاظ میں یہ کہہ رہیں ہیں کہ انہیں ایک غیر تشریعی نبوت دی جائے گی ورنہ تشریعی نبوت اپنی ذات میں کوئی ایسی چیز نہیں جو چند ہزار سالوں بعد از خودغیر تشریعی نبوت میں تبدیل ہو جائے۔یقینی طور پر ان کی نبوت تشریعہ کو غیر تشریعہ سے اللہ تعالیٰ ہی تبدیل کرے گا۔گویا وہ تشریعی نبوت کے بدلے انہیں غیر تشریعی نبوت عطا کرے گا۔پس فاضل مصنفین اور دیگر علماء کے نزدیک ایک قسم کی غیر تشریعی نبوت دی جا سکتی ہے نیز ایک قسم کی وحی کا اجرابھی ہو سکتا ہے اور یہ دونوں امر صرف اس صورت میں ختم نبوت کے خلاف نہیں ہونگے اگر حضرت عیسٰیؑ کے حق میں ہوں!

خاکسار عرض کرتا ہے کہ فاضل محققین شاید بھول گئے ہیں کہ کتاب کے ابتدا میں جہاں انہوں نے نبوت و رسالت کی تعریف کی تعیین کی ہے وہاں اس بات کو واضح طور پر لکھا تھا کہ علمائے عقیدہ جسے اصطلاحاً نبوت کہتے ہیں وہ محض وحی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ بعثت و تشریع جیسی صفات مل کر اس کا اصطلاحی مفہوم پیدا کرتی ہیں۔(صفحہ۷۸)۔ نیز لکھتے ہیں:یہی وجہ ہے کہ علمائے عقیدہ نے نبی کی تعریف کرتے ہوئے صرف وحی کو خاصیّت نبی قرار نہیں دیا بلکہ اس کے ساتھ تکلیف،تشریع و تبلیغ جیسی صفا ت کا ذکر کرنا ضروری سمجھا۔(صفحہ۹۳)۔نیز انبیاء کی ایک قسم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:ایسے انبیاء جو خود صاحب شریعت نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ کسی صاحب شریعت کے تابع کی حیثیت رکھتے تھے۔(صفحہ ۱۷۶)۔ پھر خود حضرت عیسیٰؑ کے متعلق لکھتے ہیں:غیر تشریعی نبوت کے مقام سے متعلق صرف ایک شخصیت کا ظہور باقی رہ گیا ہے اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔(صفحہ ۱۸۷)۔ اس ساری بحث کو اس طرح سمیٹتے ہیں: شیخ (ابن عربی۔ناقل) جسے تشریع لغیرہ (یعنی رسول) کہتے ہیں اس کی چار صفات سامنے آتی ہیں:(۱) وحی۔ (۲) تکلیف،(۳) اپنی ذات کے لیے الگ شریعت کا حکم اور (۴) دوسرے کو اس شریعت کی تبلیغ(یعنی دوسروں کو بھی اس کا مکلف بنانا۔اس کے بر عکس تشریع لنفسہ میں چوتھا عنصر شامل نہیں ہوتا جبکہ نبوت خاصہ لاتشریع میں نہ اپنی ذات کے لئے الگ تشریع ہے نہ کسی دوسرے کو اس الگ شریعت کی تبلیغ کی جاتی ہے،اس سے متصف محافظ انبیاء کسی رسول کی شریعت کے احکامات بیان فرما کر ان کی تکلیف لازم کرتے ہیں۔(صفحہ ۱۸۷-۱۸۸)۔یاد رہے نبی کا واجب الاتباع ہونا اور اس کی پیش کردہ بات کا انکار کفر ہوتا ہے علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں تکلیف کہلاتا ہے۔ (مثلاً دیکھیں کتاب مذکور صفحہ ۸۱)

اس تعریف و تقسیم کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کے نزول کے وقت ان کی کیا حیثیت ہوگی؟

الف۔ کیا ان پر وحی ہو گی؟ یقیناً ہو گی جیسا کہ مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہے۔

ب۔ کیا وہ تکلیف کے ساتھ نازل ہوں گے؟ یعنی ان کو ماننا ضروری اور انکار کفر ہو گا؟اس کا جواب بھی یقینی طور پر ہاں میں ہے۔

ج۔ کیا وہ امتی ہوں گے؟ یقیناً جیسا کہ درج کیا جا چکا ہے۔

d. کیا ان کو نبی ہی کہا جائے گا؟ یقیناً جیسا کہ مصنفین نے کہا کہ ان کی نبوتِ تشریعی،غیر تشریعی میں تبدیل کر دی جائے گی۔

پس اب فاضل مصنفین انصاف کی نظر سے فیصلہ کریں کہ حضرت عیسیٰؑ عند نزول ان تمام امور( غیر تشریعی نبوت+وحیٔ نبوت+مکلِّف+عصمت) کے ساتھ تشریف لائیں گے تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں اس سے ختم نبوت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا؟کیونکہ ابن ِعربی کی اپنی اصطلاح کے مطابق نبوت خاصہ کی ایک جز غیر تشریعی کا اجراحضرت عیسیٰؑ کی ذات میں مان لیا۔مگر جیسا کہ آپ نے لکھا کہ چونکہ وہ امتی بن کر آئیں گے لہٰذا یہ ختم نبوت کے خلاف نہیں۔ پس اصول یہ نکلا کہ اگر ایک شخص غیر تشریعی نبوت کا حامل ہو،وحیٔ نبوت کا مورد ہو، تکلیف کو واجب کرنے والا ہو، لیکن امتی ہو تو اس کا آنا ختم نبوت کے منافی نہیں؟اگر آپ کہیں نئی نبوت نہیں دی جا سکتی تو حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہلے امتِ محمدیہ سے متعلق غیر تشریعی نبوت نہیں تھی،وہ ان کو بھی نئی ملی۔پس جو ان کے حق میں جائز ہے وہ ان کے غیر کے حق میں بھی جائز ہو گا اور بحث حیات و وفات مسیحؑ کی طرف لوٹ جائے گی۔

IV. حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کے حق میں ان امور (غیر تشریعی مستقل نبوت +وحی نبوت) کا اجرا ہی ختم نبوت کے منافی ہے۔کیونکہ حضرت مسیح مستقل نبی ہیں اور فاضل مصنفین کے نزدیک تشریعی نبی بھی ہیں۔پس اس صورت میں امتی ہونے کی حقیقت ان میں پوری نہیں ہوتی۔ کیا صرف ایمان لانا امتی بناتا ہے؟حضرت عیسیٰ، حضرت رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل ہی ان پر ایمان لائے ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے ہی بشارت دی کہ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ۔یہی نہیں بلکہ اگر امتی کا صرف یہ ہی سرسری مطلب لیا جائے تو آیت میثاق النبیین کی روشنی میں ماننا پڑے گا کہ ہر نبی ہی دوسرے کا امتی ہے کیونکہ ان سب نے ایک دوسرے پر ایمان کا اقرار کیا ہے۔یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بارہا وضاحت فرمائی کہ امتی وہ ہوتا ہے جس کو تمام روحانی کمالات نبی متبوع کی پیروی سے حاصل ہوں۔جبکہ حضرت عیسیٰؑ کو سب سے بڑا روحانی کمال یعنی نبوت پہلے سے مستقل طور پر حاصل ہے پس وہ کیسے امتی بن سکتے ہیں؟پس ان کا آنا خاتم النبیینؐ کے بعد ایک مستقل نبی کا آنا ہے۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’جب تک کوئی اُمّتی ہونے کی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا اورحضرت محمدﷺکی غلامی کی طرف منسوب نہیں تب تک وہ کسی طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظاہر نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اُتارنا اور پھر ان کی نسبت تجویز کرنا کہ وہ اُمّتی ہیں اور اُن کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چراغِ نبوّت محمدیہؐ سے مکتسب اور مستفاض ہے کس قدر بناوٹ اور تکلّف ہے۔ جو شخص پہلے ہی نبی قرار پا چکا ہے۔ اُس کی نسبت یہ کہنا کیونکر صحیح ٹھہرے گا کہ اس کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغِ نبوّت سے مستفاد ہے۔ اور اگر اس کی نبوّت چراغِ نبوت محمدیہؐ سے مستفاد نہیں ہے تو پھر وہ کن معنوں سے اُمّتی کہلائے گا؟ اور ظاہر ہے کہ اُمّت کے معنے کسی پر صادق نہیں آسکتے جب تک ہر ایک کمال اُس کا نبی متبوع کے ذریعہ سے اس کو حاصل نہ ہو۔ پھر جو شخص اتنا بڑا کمال نبی کہلانے کا خود بخود رکھتا ہے وہ اُمّتی کیونکر ہوا بلکہ وہ تو مستقل طور پر نبی ہوگا جس کے لئے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قدم رکھنے کی جگہ نہیں‘‘۔(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی, روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱۵)۔ نیز فرماتے ہیں:’’ولیس مِن الأمّۃِ إلا الّذِی وَجَدَ کَمالَہ مِن فُیُوضِ المُصطَفٰی، ولا یُوجَد ھذا الشَّرطُ فی عیسٰی، فإنَّہ وَجَدَ مَرتَبَۃَ النُّبُوَّۃ ِقَبلَ ظُہُورِ سَیِّدِنا خاتَمِ الأنبیاءِ، فَکمالُہ لَیس بِمُستَفَاد مِن نَبِیِّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھذا أمر لیس فیہ شیءٌ مِن الخِفاءِ فَجَعلُہ فَردا مِن الأمَّۃِ جَہلٌ بِحَقیقۃِ لَفظِ ’’الامّۃِ‘‘۔(مواھب الرحمٰن، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۲۹۴)۔یعنی امتی تو وہ ہے جس کو حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی پیروی سے کمال حاصل ہوا۔حضرت عیسیٰؑ میں یہ شرط موجود نہیں وہ حضورﷺ کے ظہور سے قبل ہی نبی تھے۔پس ان کا کمال ہمارے نبی کریم ﷺ سے حاصل شدہ نہیں ہے اور یہ بات واضح ہے۔پس ان کو امتی بنانا لفظ امت کو نہ سمجھنے پر دلالت کرتا ہے۔

اب تک کی بحث کا حاصل یہ ہے کہ ابن عربی اور دیگر علماء کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کا نبوتِ مستقلہ موسویہ کے ساتھ آنا اور ان پر وحی نبوت ہونا نیز امت میں باہمی نزاعات میں فیصلہ کرنا ختم نبوت کے منافی نہیں ہے جبکہ ہمارے نزدیک یہ ختم نبوت کے صریح منافی ہے۔حضرت عیسیٰؑ پر امتی ہونے کی حقیقت صادق نہیں آتی کیونکہ امتی وہ ہے جس نے تمام مدارج روحانیہ نبی متبوع کی پیروی سے حاصل کیے ہوں جبکہ حضرت عیسیٰؑ، حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی آمد سے قبل ہی مستقل نبی تھے۔علماء کی یہ بات تو درست ہے کہ امتی نبی کا آنا ختم نبوت یا لا نبی بعدی کے خلاف نہیں ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ وہ امتی حضرت عیسیٰؑ بن جائیں گے۔

۵. علماء کی تنقید ان کے اپنے بیان کردہ اصولوں کے آئینہ میں

۱) فاضل مصنفین نے ایک اصول وضع کیا ہے۔ لکھتے ہیں:البتہ علمائے عقیدہ کے نزدیک عام طور پر مشہور اصطلاحات کے سوا اگر کسی دوسری تعبیر و اصطلاح سے بھی وہی مفاہیم پیدا ہوں جنہیں پہلی تعبیر کی رو سے قرآن و سنت کی درست تعبیر قرار دیا جا رہا ہے تو پھر اس میں کفر و بدعت کی کوئی بات نہیں رہ جاتی…ہمارے ہاں اصول فقہ کی روایت پر شغف زیادہ ہونے کے باعث اس کے باہمی اختلافات پر تحمل کا رویہ پایا جاتا ہے جبکہ علم کلام سے اغماض کے باعث ان جہات سے توجہ ہٹ گئی ہے اور نتیجۃًفتویٰ بازی کا بازار گرم ہوتا ہے۔(صفحہ ۶۷-۶۸)۔ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فاضل مصنفین ابن عربی کا دفاع کرتے وقت اس ’’علمی و اصطلاحی تحمل‘‘کا درس دیتے نظر آتے ہیں لیکن جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ پر اعتراضات کرتے ہیں تو اپنے ہی اس بیان کردہ اصول کو خاطر میں نہیں لاتے۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ صفحہ ۱۸۷ پر نبوت خاصہ کی اقسام کا خاکہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔اکبری فکر کے محققین کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کو حاصل شدہ نبوت خاصہ کی قسم، خاکسار نے سرخ رنگ سے واضح کی ہے:

قارئین سے درخواست ہے کہ فاضل محققین کی اس عبارت پر غور فرمائیں: نبوت لا تشریع کی پہلی یعنی نبوت خاصہ سے متعلق سب سے واضح صورت حضرت سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کا آسمان سے قرب قیامت میں نزول فرمانا ہے…حضرت مسیح علیہ السلام جب دنیا میں خاتم النبیین محمد رسول اللہؐ کی بعثت کے بعد آسمان سے نزول فرمائیں گے تو آپ نبوت تشریع کے نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ غیر تشریعی نبوت کے حامل ولی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے گویا آپ علیہ السلام کو منصب یا مقام نبوت سے معزول نہیں کیا جائے گا، تاہم نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد آپ کی شریعت چونکہ منسوخ ہو چکی ہے لہٰذا آپ محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت ہی کا نفاذ فرمائیں گے۔(صفحہ ۱۷۶-۱۷۷)

اسی طرح ایک مقام پر حسن الیاس صاحب کے موقف کی تردید کرتے ہوئےلکھتےہیں:حسن الیاس صاحب نے شیخ اکبر علیہ الرحمۃ کی طرف یہ بات غلط منسوب کی ہے کہ شیخ مسیح علیہ السلام کو بعد از نزول محض نبوت عامہ کی نبوت ہی کا حامل قرار دیتے ہیں۔شیخ کے نزدیک اگرچہ نبوت عامہ بصورت ولایت جاری ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا مگر حضرت مسیح علیہ السلام نبوت خاصہ کی شناخت کے حامل غیر تشریعی نبی اور آپﷺ کے تابع کی حیثیت سے تشریف لائیں گے کیونکہ نبی کو مقام نبوت سے معزول نہیں کیا جاتا۔آپ علیہ السلام کی بعثت چونکہ محمد ﷺ کی بعثت سے قبل دنیا میں ہو چکی لہٰذا آپ علیہ السلام کا نزول فرمانا ختم نبوت کے منافی نہیں۔شیخ کے نزدیک جب حضرت مسیح علیہ السلام نزول فرمائیں گے تو آپ علیہ السلام کی ایک جہت یہ ہو گی کہ آپ کو مرتبہ نبوت سے معزول کر کے دنیا میں نہیں بھیجا جائے گا بلکہ آپ نبوت خاصہ سے متعلق شناخت و مقامات قرب کے حامل ہوں گے…حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد آپ کی جہت نبوت تشریعی منقطع ہو جائے گی البتہ نبوت خاصہ کے تحت جو مقامات قرب الٰہی آپ کو عطا فرمائے گئے تھے وہ برقرار رہیں گے۔(صفحات ۴۹۵-۴۹۶)

گویا علماء کے نزدیک حضرت مسیح ؑکی ذاتِ با برکات میں مستقل نبوت کی جہت (جس میں حضرت اقدس رسول اللہﷺ کے امتی ہونے کا عنصر ایک ذرہ برابر بھی شامل نہیں) بعد نزول بھی قائم رہے گی۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ،حضرت عیسیٰؑ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اُن کی نسبت تجویز کرنا کہ وہ اُمّتی ہیں اور اُن کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چراغِ نبوّت محمدیہؐ سے مکتسب اور مستفاض ہے کس قدر بناوٹ اور تکلّف ہے۔ جو شخص پہلے ہی نبی قرار پا چکا ہے۔ اُس کی نسبت یہ کہنا کیونکر صحیح ٹھہرے گا کہ اس کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغِ نبوّت سے مستفاد ہے۔ ‘‘(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱۵)۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button