حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نیک لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہمیشہ فیض پاتے چلے جاتے ہیں

اس آیت میں خداتعالیٰ نے فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ (الرعد: 12) یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی اندرونی حالت کو نہ بدلیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکوں کے متعلق اپنا رویہ نہیں بدلتا۔ جو نیک لوگ ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہمیشہ فیض پاتے چلے جاتے ہیں۔ جب تک ان میں نیکیاں رہیں گی، جب تک وہ خداتعالیٰ کے احکامات کے پابند رہیں گے، جب تک وہ حقوق اللہ کی ادائیگی کرتے رہیں گے، جب تک وہ حقوق العباد خوش اسلوبی سے ادا کرتے رہیں گے، جب تک وہ من حیث الجماعت نیکیوں پر قائم رہیں گے تووہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنتی چلی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل، اس کی رحمت، اس کے انعامات اس وقت اٹھنا شروع ہو تے ہیں جب لوگ اللہ تعالیٰ کے ولی بننے کی بجائے شیطان کو اپنا ولی بنانا شرو ع کر دیتے ہیں۔ نیکیاں جو ہیں وہ مفقود ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ ظلم بڑھنا شرو ع ہو جاتا ہے۔ سفّاکی جنم لینا شروع کر دیتی ہے۔ حقوق غصب کئے جانے لگتے ہیں۔ حکومتی کارندے رشوت اور ناانصافی میں تمام حدود پھلانگنے لگ جاتے ہیں۔ ہر شخص دوسرے کے مال پر نظر رکھ رہا ہوتا ہے۔ مذہب کے نام پر خون کئے جاتے ہیں۔ تو اُس وقت پھر اللہ تعالیٰ اپنی امان اور حفاظت اٹھا لیتا ہے۔

پس اس حصہ آیت کا صرف یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ بُروں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کرتا بلکہ یہ ہے کہ نیکوں کے بارے میں خداتعالیٰ اپنے رویّہ کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود بدیوں اور برائیوں میں اپنے آپ کو مبتلا کرکے خداتعالیٰ کے فضلوں سے اپنے آپ کو محروم نہ کر لیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ دنیاوی تاریخ تو ہمیں اس انجام کو خداتعالیٰ کی تقدیر کے حوالے سے نہیں دکھاتی۔ لیکن مذہبی تاریخ اس بات پر گواہ ہے۔ قرآن کریم کھول کھول کر اس بات کو ہمارے سامنے بیان فرما تا ہے کہ جب برائیاں قوموں میں جنم لینے لگتی ہیں۔ جب نیکیاں مفقود ہونا شروع ہو جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی امان اور حفاظت اٹھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ ایک دفعہ تم نے کلمہ پڑھ لیا تو ہمیشہ کے لئے پناہ میں آ گئے۔… اللہ تعالیٰ مومن کو تبدیل نہیں کرتا۔ جب تک وہ خود اپنی حالت اس نعمت سے محرومی کی نہ بنا لے اللہ تعالیٰ کسی سے کوئی دی ہوئی نعمت نہیں چھینتا۔ انسان خود اپنے اعمال کی وجہ سے، اپنی بدبختی کی وجہ سے، اپنی بدقسمتی کی وجہ سے ان نعمتوں کو ضائع کرتا ہے۔

(خطبہ جمعہ ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍نومبر ۲۰۰۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button