حضرت مصلح موعود ؓ

طالب علموں کو نصیحت: مدرسہ سے چھٹی ہے دین کے کاموں سے چھٹی نہیں (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده یکم؍ اگست ۱۹۱۹ء)

۱۹۱۹ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایاجس میں آپؓ نے طلبہ کو نصیحت فرمائی ہے کہ چھٹیوں کو کیسے گزارا جائے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

حضور نے تشہد وتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:’’بوجہ اس کے کہ میرے حلق میں کئی دن سے کچھ تکلیف ہے۔ آج میرا ارادہ خود خطبہ پڑھنے کا نہ تھا، مگر اس خیال سے کہ اب چھٹیاں ہونے والی ہیں اور طالب علم اپنے گھروں کو جائیں گے اور چونکہ آجکل میں بیماری کی وجہ سے درس بھی نہیں دیتا، پہلے درس میں ہی بچوں کو نصیحت کر دیا کرتا تھا۔ اس لیے مَیں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ میں ہی کچھ نصیحت کر دوں۔

معلوم نہیں پچھلے جمعہ یا پچھلے سے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے یہ بیان کیا تھا کہ کام آرام کے لیے کیا جاتا ہے۔ جب کام کیا جاتا ہے تو حق ہوتا ہے کہ آرام کیا جاوے۔ اس کے ساتھ کام اور آرام کا مقابلہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ آیا تھوڑے کام کے بعد آرام زیادہ ملتا ہے یا زیادہ کام کے بعد آرام کم۔ اگر تھوڑے کام کے بعد آرام زیادہ ملتا ہے تو یہ کام مفید ہوگا۔ اور اگر زیادہ کام کے بعد آرام کم ملے تو وہ کام غیر مفید۔ کیونکہ

کام وہی مفید ہوتا ہے جس میں کم محنت کے بعد آرام زیادہ ملے۔

طالب علم جو یہاں پڑھنے آئے ہیں، یا جو اپنی اپنی جگہ پڑھتے ہیں۔ ان کو بہت کچھ محنت کرنی پڑتی ہے۔ اور اگر غور کیا جاوےتو واقعہ میں جو محنت طالب علم کرتے ہیں وہ میرے نزدیک بڑے آدمیوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اور یہ ان کی عمر ہی ہوتی ہے جو ان کو اس سخت محنت کے قابل بناتی ہے۔ ورنہ اتنا سر کھپانا ان لوگوں سے جو محنت کر چکے ہیں مشکل ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ایک طالب علم تمام دن ’’ا‘‘’’ب‘‘رٹتا ہے۔ جوان آدمی اس قدر محنت نہیں کر سکتا۔ اور اگرمَیں اس طرح کروں تومَیں اس کے بعد ایک مہینہ تک بات بھی نہ کرسکوں۔ تو ایک طالب علم سارا دن اور رات کا بہت ساحصّہ جتنا بولتا ہے بڑا آدمی اتنا نہیں بولتا۔ اور پھر جب امتحان کے دن قریب ہوتے ہیں تو اس محنت میں اَور بھی زیادتی ہو جاتی ہے۔

یہ محنت جو طالب علم کرتا ہے اس سے جسمانی طاقت پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ جسمانی طاقت میں کمی آجاتی ہے۔

محنتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔

ایک دماغی اور ایک جسمانی۔

دماغی محنتیں وہ ہوتی ہیں جن سے جسم میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے، لیکن جسمانی محنتیں وہ ہوتی ہیں جن سے جسم میں کمزوری پیدا نہیں ہوتی۔ طالب علم کی محنت ایک ایسی محنت ہوتی ہے جس سے اس کے اعضاء میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے لیکن زمیندار جو محنت کرتا ہے۔ ہل چلاتا ہے اس کے باعث وہ کمزور نہیں ہوتا بلکہ اس کی طاقت میں ترقی ہوتی ہے، مگر طالب علم کی محنت جسم پر خلاف اثر ڈالتی ہے۔ مثلاً حافظہ کے لیے منہ سے بولنا ضروری ہے۔ آنکھوں سے دیکھتا۔ کانوں سے سُنتا ہے۔ جن لوگوں نے قوت حافظہ پر غور کیا ہے اور اس کی تحقیقات کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ اس طرح چونکہ تین قوتیں کام کرتی ہیں۔ اس لیے جو کچھ یاد کرنا ہوتا ہے وہ بہت جلد یاد ہو جاتا ہے۔ بچے اس قاعدہ کو خوب استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک سخت محنت ہوتی ہے۔ مگر ایسی محنت نہیں جس سے طاقت پیدا ہوتی ہو بلکہ اس سے کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ اور کمزوری کو دور کرنے کے لیے کچھ عرصہ کے لیے بچوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس وقفہ کو ہماری زبان میں چھٹیاں کہتے ہیں۔ اِن چھٹیوں سے غرض یہ ہوتی ہے کہ اس عرصہ میں آرام کر کے بچے پھر محنت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ جو طالب علم ان چھٹیوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ وہ آئندہ محنت کے برداشت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں، لیکن

ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ان ایام میں پڑھائی کو بالکل چھوڑ ہی دیا جائے۔ کیونکہ بالکل چھوڑ دینا جو کچھ پڑھا ہو اس کو بُھلا دینے کا باعث ہوتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ صبح یا شام ایک آدھ گھنٹہ پڑھنے میں لگایا جائے اور باقی وقت آرام کیا جاوے تا کہ دماغ مضبوط ہو جائے۔ اور وہ کمی جو سال بھر کی محنت سے پیدا ہوگئی ہو دُور ہو جائے۔ اور پھر زیادہ سے زیادہ محنت کرسکے۔

پس چھٹیاں ایک اہم چیز ہیں۔ اور دنیا کی کسی قوم نے خواہ وہ متمدن ہو یا غیر متمدن ابتدائی حال میں ہو یا انتہائی میں چھٹیوں کی ضرورت سے انکار نہیں کیا۔ پس یہ ایک ضروری امر ہے جس کے بغیر گذارہ نہیں۔ یہی تعلیم ہے جو بچے مدرسوں میں استادوں سے اور دوسرے ہمدرد نصیحت کرنیوالوں سے سُنتے ہونگے۔

مگر یہ ایک یاد رکھنے والی بات ہے کہ چھٹیاں جوکئی قسم کی ہوتی ہیں ایک ہی وقت نہیں ہوتیں بلکہ اور بھی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک ایسا انسان جو تمام دن کام کاج میں مصروف رہتا ہے، اُسے رات کو سونے کے لیے چھٹی ملتی ہے تا کہ چلنے پھرنے اور کام کرنے سے اپنے اعضاء کو فارغ کردے۔ پھر تم تمام دن مُنہ کو کھانے پینے سے بند رکھتے ہو۔ اور جیسا کہ مختلف قوموں میں رواج ہے ایک یا دو یا تین یا چار وقت تھوڑی دیر کے لیے منہ کو چھٹی دیتے ہیں کہ کھائے پیئے۔ پھر ایک وقت تم مجلسوں میں خاص آداب اور قواعد کے ماتحت بیٹھتے ہو، لیکن وہاں سے رُخصت حاصل کر کے اپنے گھر میں جس طرح چاہتے ہو آرام کرتے ہو۔ یہ سب چھٹیاں ہیں، لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ساری چھٹیاں ایک ہی وقت نہیں شروع ہو سکتیں۔ مثلاً یہ نہیں ہوگا کہ جب مدرسہ سے چھٹی ہو تو تم فوراً لیٹ جاؤ اور مدرسہ سے جس قدر فارغ ہو اس میں سوئے ہی رہو۔ بلکہ جب سونے کا وقت ہوگا جبھی سوؤ گے۔ یا مثلاً تم کہو کہ مدرسہ سے جو چھٹی ہوئی تو آؤ اس چھٹی کے سارے وقت میں کھانا ہی کھاتے رہیں۔ یہ غلطی ہوگی کیونکہ یہ رخصت سونے اور کھانے کے لیے نہ تھی۔ ان کے لیے ایک اور وقت ہوگا یا مثلاً تم خیال کرو کہ مدرسہ سے چھٹی ہوئی تو آداب مجلس سے بھی چھٹی ہوگئی۔ اگر ایسا خیال کرو گے تو غلطی کرو گے۔ کیونکہ ہر ایک چھٹی کے لیے ایک علیحدہ وقت ہے۔ اور تمام چھٹیاں ایک وقت میں شروع نہیں ہوتیں۔ یہ چھٹی جو مدرسہ سے ہوتی ہے اس کی محض یہ غرض ہوتی ہے کہ وہ جو تم مدرسہ میں جاتے تھے اور اُستاد آکر تمہیں پڑھاتے تھے اور اس کے علاوہ ایک اور بڑے وقت میں بھی تمہیں پڑھنا پڑتا تھا اور اس طرح تیرہ چودہ گھنٹہ تک تم پڑھا کرتے تھے اس سے تمہیں فارغ کیا جائے۔ اور اب اُستاد تمہیں پڑھنے کے لیے مجبور نہیں کریں گے۔ اگر گھنٹی بجے تو بے شک مدرسہ میں نہ جاؤ اور کہوکہ چھٹیاں ہیں، لیکن اس چھٹی کے یہ معنے نہیں کہ دنیا کے تمام کاموں سے تمہیں چھٹی ہو گئی۔

پھر

دُنیا میں دنیا کے کاموں سے تو کسی نہ کسی وقت چھٹی مل سکتی ہے۔ مگر دین کے کاموں سے دُنیا میں چھٹی مل ہی نہیں سکتی۔

یہی دیکھ لو۔ سکول میں باقاعدہ حاضر ہو کر پڑھنے اور محنت کرنے سے تمہیں چھٹی مل گئی۔ مگر تمہارے ہیڈ ماسٹر نے تمہیں نماز اور دوسرے دین کے احکام بجا لانے سے چھٹی نہیں دی۔ اور اگر کوئی ایسا ہیڈ ماسٹر ہو جو کسی دینی کام میں چھٹی دے تو وہ تمہارا ہمدرد نہیں بلکہ دشمن ہے تمہیں نہ کوئی نماز اور دیگر دین کے احکام کی پابندی سے چھٹی دے سکتا ہے اور نہ کسی کے اختیار کی یہ بات ہے۔ ہیڈ ماسٹر یا انجمن جس کو بھی ایک خاص اتھارٹی حاصل ہے وہ رخصت دیتی ہے۔ مگر صرف اسی کام میں جو ان کا ہے۔ ان فرائض کے سوا وہ دینی احکام کےمتعلق کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہر ایک کام الگ الگ طریق پر چلتا ہے۔ مثلاً قانون قدرت ہے کہ انسان کو نیند آئے، لیکن جب نیند سے چھٹی ملتی ہے۔ تو پھر کوئی ہیڈ ماسٹر سُلا نہیں سکتا۔ وہ قانون جو خدا نے بنایا ہے اس کے خلاف تمام ہیڈ ماسٹر نہیں سُلا سکتے۔ کوئی انجمن سُلاسکتی۔ ہاں قانون قدرت ہی سُلا سکتا ہے۔ اسی طرح اور چھٹیاں ہیں۔ ہر ایک مدرسہ کے لیے جُدا جُدا ہیڈماسٹر ہیں۔ پس

تمہیں چھٹی مدرسہ احمدیہ یا تعلیم الاسلام ہائی سکول میں جو پڑھائی ہوتی ہے۔ اس سے ملتی ہے، لیکن اسلام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدرسہ ہے۔ اس کے احکام سے چھٹی نہیں ملتی۔ اس مدرسہ کے بانی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

اور اس میں نئے سرے سے اصلاح کرنے والے اور ان سقموں کو دُور کرنے والے جو مدرسین کے ذریعہ پیدا ہوگئے اور اس کے طالب علموں میں جو نقائص آگئے تھے حضرت مسیح موعود ہیں۔ مگر یہ کالج جو ہے یہ کسی انجمن کے سپرد نہیں۔ اس کے پہلے پرنسپل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، لیکن آپ کو بھی اس کے قواعد بنانے میں کوئی اختیار نہیں کیونکہ یہ وہ یونیورسٹی ہے کہ جس کے تمام اُصول و قواعد و احکام خدا کی طرف سے آتے ہیں۔ پس اس کالج کے پرنسپل کو بھی یہ اتھارٹی حاصل نہیں کہ وہ اس کے اُصول و قواعد میں تغیر کرسکے۔ کیونکہ اس کے اُصول و قواعد تمام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ فروعی باتوں میں ان خُدائی اُصول کے ماتحت خدا کے رسول کچھ کر سکتے ہیں۔ مگر اُصول میں نہیں۔ پس ان احکام میں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جوکہ پہلے پر نسپل تھے کچھ تغیر کر سکتے تھے نہ مسیح موعود کو یہ اختیار تھا کہ وہ ان احکام کو بدل سکیں۔ اور بالآخر اسلامی شریعت کے انتظام کے ماتحت خلیفہ کی بھی ایک بڑی پوزیشن ہوتی ہے۔ اس کو بھی اس کا اختیار نہیں کہ وہ کچھ کمی بیشی کرسکے اور ایک انچ ان احکام سے اِدھر اُدھر ہو جائے۔ بلکہ جس طرح تم پابند ہو شریعت کے، ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے حکم کے اسی طرح خلیفہ بھی پابند ہے۔ اس کو جو درجہ حاصل ہے وہ محض یہ ہے کہ ان احکام پر لوگوں کو چلائے۔ اُسے یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ بدل دے۔ یہ ورثہ اس کو اعلیٰ حکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودؑ سے ملا ہے پس اس مدرسہ کے قانون اَور رنگ رکھتے ہیں

تمہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ چھٹیاں مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول سے ہیں۔اسلام کے مدرسہ سے چھٹی نہیں ہوئی

اور نہ کوئی دے سکتا ہے ان چھٹیوں میں اجازت ہے کہ تم اپنے سبقوں کو چھوڑ دو۔ مگر یہ نہیں کہ نمازوں کو بھی چھوڑ دو۔ یہ اجازت ہے کہ اپنے اوقات کو کھیل کود میں صرف کرو۔ مگر یہ اجازت نہیں کہ بداخلاقی اور آوارگی اختیار کرو۔ اور پھر یہ بھی اجازت ہے کہ اگر کوئی گھنٹی بجے توتم مدرسہ میں نہ جاؤ، لیکن یہ نہیں کہ مسجدوں میں گھنٹی (اذان مراد ہے۔مرتب)ہو تو نہ جاؤ۔

یہ کام جاری رہیں گے۔ ان میں بھی ایک رخصت ہوتی ہے۔ مثلاً ظہر کے بعد عصر تک کے وقفہ میں چھٹی ہے۔ عصر سے مغرب تک۔ مغرب سے عشاء تک اور عشاء سے صبح تک۔ اور اس کا یہ دور ایک دو مہینہ یا سال دو سال کے بعد پورا نہیں ہوجاتا، بلکہ جب تک تم طبعی عمر کا دور پورا کر کے خدا کے حضور جاؤ گے تب وہ رخصت تمہیں مل جائیگی۔ اور پھر وہ رخصت ایسی ہوگی جو کبھی منقطع نہ ہوگی۔ اس محنت کے بعد تمہیں آرام ملے گا۔ یہ چھٹیاں جو ہوتی ہیں ان میں کوئی شخص ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ تم بیمارنہ ہوگے۔ یا تمہارا کوئی عزیز قریب بیمار نہ ہوگا، لیکن اس یونیورسٹی کا مالک یعنی خدا ذمہ لیتا ہے کہ وہ جو چھٹیاں دیگا۔ ان میں تم آرام ہی آرام پاؤگے۔ اور تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔

پس اس بات کو یاد رکھو کہ مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کی چھٹیاں اور اس اسلام کے مدرسہ کی چھٹیاں دونوں مختلف ہیں اور مختلف اوقات میں آتی ہیں۔ تمہیں جو چھٹی ہوگی وہ ان مدارس سے ہوگی، لیکن اس سے نہیں ہےکہ اخلاقی تعلیم کو فراموش کردو۔ شریعت کے احکام کو بُھلا دو۔ والدین کی فرمانبرداری چھوڑ دو۔ زبان اور ہا تھ اور جسم کو بدی سے نہ روکو۔

سُنا ہے کہ بعض لڑکے چھٹیوں میں نمازیں چھوڑ دیتے ہیں اور آوارہ ہو جاتے ہیں۔ ان کو سوچنا چاہیے کہ چھٹیاں تو ہوئی ہیں مگر کس مدرسہ میں۔ اسلام کے مدرسہ سے ایسی انہیں چھٹی نہیں ملی۔ اس کی چھٹی کا وقت تو موت کے وقت آتا ہے۔ یہ چھٹیاں تو ایسی ہیں کہ ان کے بعد زیادہ پڑھنا پڑیگا اور ان چھٹیوں میں بھی دو ایک گھنٹہ محنت کرنی پڑیگی مگر ان چھٹیوں کے بعد تمہارے لیے کوئی محنت ومشقت نہیں ہوگی۔ آرام ہی آرام ہوگا پھران چھٹیوں میں ذمہ واری نہیں لی جاتی کہ تم ضرور آرام ہی کرو گے۔ مگر خدا کے ہاں سے ذمہ واری لی جاتی ہے کہ تم ضرور آرام ہی پاؤگے۔ پس مَیں طالب علموں اور مدرسوں کو نصیحت کرتا ہوں،کیونکہ بعض مدرس بھی گھروں میں جا کر سُست ہو جاتے ہیں۔ باہر جا کر تم بتا دو کہ قادیان میں رہ کر تعلیم دین نے تم میں کیا تغیّر پیدا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے۔ آمین

(الفضل۱۲۔اگست۱۹۱۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button