متفرق مضامین

’’ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں‘‘

(ولید احمد۔ متخصص تاریخ و سیرت جامعہ احمدیہ جرمنی)

شاہِ حبشہ کے دربار میں مسلمان پناہ گزینوں کا ایک مختصر سا وفد جواب طلبی کے لیے بلایا گیا تھا تاکہ وہ قریش مکہ کے سفیر کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کے سلسلے میں بادشاہ وقت نجاشی کے سامنے اپنا دفاعی موقف بیان کرسکیں۔اس مقدمہ میں قریش کی نمائندگی کرنے کے لیے ایک زیرک اور ممتاز شخصیت عمرو بن العاص موجود تھے جنہیں اس خیال سے بھیجا گیا تھا کہ وہ نجاشی کو اس بات پر قائل کرلیں گے کہ نہ صرف مکہ سے آنے والے مسلمان پناہ گزینوں کی حبشہ میں آمد کا سلسلہ روک دیا جائے بلکہ وہ پناہ گزین جو پہلے ہجرت کرکے ملک میں آچکے ہیں انہیں بھی ملک سے نکال دیا جائے تاکہ قریش مکہ ان کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں اور انہیں جس طرح چاہیں اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا سکیں۔دربار میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو بادشاہ نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر تم نے اپنی قوم سے کیوں علیحدگی اختیار کرلی ہے؟ اور یہ کونسا نیا دین ہے جس کی تم پیروی کرتے ہو؟ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ  مسلمانوں کی طرف سے جواب دینے کے لیے آگے بڑھے اور بولے، بادشاہ سلامت ! ہم ایک جاہل قوم تھے۔بتوں کی پوجا کیاکرتے تھے، مردار کھاتے،بدکاریاں کرتے،ہمسایوں کو ستاتے اور اپنے بھائیوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔ ہمارے طاقتور لوگ کمزوروں کی حق تلفی کرتے تھے اور ان کے حقوق چھین لیا کرتے تھے۔ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کوہم میں مبعوث کیا جس کی شرافت اور صدق و امانت کے ہم سب قائل تھے۔اس نے ہمیں توحید کا پیغام دیا اور بت پرستی سے روکا۔اس نے ہمیں سچ بولنے کی تلقین کی،امانت کی ادائیگی،صلہ رحمی اور ہمسایوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی۔اور بدکاری، خون ریزی،جھوٹ اوریتیم کا مال کھانے سے روکا۔ اس نے ہمیں پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا۔پس ہم اس پر ایمان لے آئے اورصرف اس کی پیروی کرنے کے نتیجے میں ہماری اپنی ہی قوم اور رشتہ دارہمارےجانی دشمن بن گئے۔ انہوں نے ہم پر ظلم و ستم کی انتہا کردی تاکہ ہمیں توحید کے راستہ سے پھیر کر دوبارہ بت پرستی کی طرف لوٹادیں جسے ہم نے پسند نہیں کیا اور بالآخر ہم اپنے وطن کو چھوڑ کرآپ کے اس ملک میں پناہ گزیں ہوئے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ آپ کی سلطنت میں ہم پر کوئی سختی اور ظلم نہیں ہوگا۔

نجاشی پر اس جواب کا بڑا اثر ہوا اور اس نے حضرت جعفرؓ سے کہا کہ جو کلام تمہارے نبی پر نازل ہوا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سناؤ۔ اس پر حضرت جعفرؓ نے اسے سورت مریم کی ابتدائی چند آیات پڑھ کر سنائیں۔یہ آیات سنتے ہی نجاشی پر رقت کی کیفیت طاری ہوگئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔چنانچہ اسی رقت آمیز کیفیت میں نجاشی نے کہا کہ خدا کی قسم! یہ کلا م اور مسیح علیہ السلام پر نازل ہونے والا کلام ایک ہی چراغ سے نکلی ہوئی شعاعیں ہیں۔اس نےفیصلہ کرتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ تم میری حکومت میں مکمل امن و امان سے رہ سکتے ہو۔ تمہیں یہاں رہنے کی مکمل آزادی ہے۔ اس کے ساتھ ہی نجاشی نے قریش کی طرف سے پیش کردہ تحائف کو بھی واپس لوٹا دیا۔عمرو بن العاص جو اپنی سفارت کی ناکامی اور مسلمانوں کی اس کامیابی سے پریشان ہوگئے تھے انہوں نے اپنی بات کو ایک نئے زاویہ سے پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ نجاشی کے پاس دوبارہ حاضر ہوئے اور کہا کہ بادشاہ سلامت ! آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر لیکن میں یہ وضاحت پیش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ باغی لوگ ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی ابن اللہ یعنی خدا کا بیٹاتسلیم نہیں کرتے۔اس بات کو سن کر نجاشی نے اگلے دن دوبارہ مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلوایا اور ان سے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کا عقیدہ پوچھا۔حضرت جعفرؓ نےبیان کیا کہ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ مسیح علیہ السلام خدا تعالیٰ کے نیک بندے اور رسول ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے کلام اور حکم سے اس دنیا میں آئے تھے جو اللہ تعالیٰ نے مریم پر ڈالا تھا۔نجاشی نے اس جواب پر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا کہ اللہ کی قسم جو کچھ تم نے مسیح علیہ السلام کے مقام کے بارے میں بیان کیا ہے میں ان کا مرتبہ اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں سمجھتا۔(تلخیص از سیرت ابن ہشام صفحات ۳۳۵ تا ۳۴۶)

ہجرت کی پیشگوئی

اس موقع پر سورت مریم کی تلاوت جہاں حضرت جعفؓر کی غیر معمولی ذہانت پر روشنی ڈالتی ہے وہیں یہ اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ بھی رکھتی ہے۔حضرت مصلح موعودؓ زیر تفسیر سورت مریم بیان فرماتے ہیں:’’بہرحال یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہجرت حبشہ سے پہلے یہ سورۃ نازل ہوئی اور اتنا عرصہ پہلے نازل ہوئی کہ صحابہ نے اس کو یاد کر لیا۔ اس غرض کے لیے ہمیں کم از کم پانچ چھ ماہ کا عرصہ ضرور نکالنا پڑے گا۔ جس میں یہ سورت اتنی معروف ہو گئی کہ صحابہؓ نے اس کو حفظ کر لیا۔ ان امور کود دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ چوتھے سال کا آخری حصہ اس کے نزول کا وقت تھا اس سے پہلے تین سال تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر برابر الہامات نازل ہوتے رہے لیکن عیسائیت کو مخاطب نہیں کیا گیا تین سال کے بعد یکدم عیسائیت کو مخاطب کیا گیا اور تفصیلی طور پر مخاطب کیا گیا۔ جس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے ذکر کے علاوہ جن پیشگوئیوں پر عیسائیوں کے نزدیک ان کے دعوی ٰکی بنیاد تھی ان سب کی طرف اشارہ کیا گیا۔ اسی طرح مسیحیوں کے عقائد کو بیان کیا گیا اور ان کو دلائل کے ساتھ رد کیا گیا۔اس کے چار پانچ ماہ کے بعد حبشہ کی طرف ہجرت ہو جاتی ہے جہاں عیسائی بادشاہت ہوتی ہے اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ۷ جدید ایڈیشن ۲۰۲۳ءصفحہ ۷)

ایک اَور اہم نکتہ جو سورت مریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس سورت میں حضرت عیسیٰؑ کے علاوہ باقی دیگر انبیاء کا بھی ذکر ہوا ہے۔اوریہ مضمون سمجھایا گیا ہے کہ ہر نبی اپنی ابتدائی زندگی میں ایک قسم کی مریمی حالت میں ہوتا ہے اورنیک اور پاک سیرت اپنے اندر رکھتا ہے اور اسی صفت کی بنا پر انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نبوت کا درجہ عطاکیا جاتا ہے گویا ان کا ایک نیا روحانی وجود پیدا ہوجاتا ہے اور وہ مریمی حالت سے مسیحی حالت میں منتقل ہوجاتے ہیں۔اس مضمون کو سمجھنے سے اس اعتراض کابھی رد ہوجاتا ہے جو بہت سے غیر از جماعت مولوی اپنی کم علمی کی بنا پراستہزا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ آپؑ نے اپنے آپ کو مریم قرار دیاہے اور بعد میں دعویٰ مسیحیت کردیا ہے۔

ہجرت کا مقصد

حضور اکرمﷺ کے نبوت کے دعوے کے بعد مسلمانوں پر مکہ کی زمین آہستہ آہستہ تنگ کی جارہی تھی اور اس ظلم و ستم کا سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی چلا جارہا تھا۔یہ نبوت کا پانچواں سال تھا اور مسلمان کثرت کے ساتھ مکہ والوں کے ظلم کا نشانہ بن رہے تھے۔ایسے میں کچھ اصحاب نے آنحضرتﷺ کو دشمن سے مقابلہ کرنے کا مشورہ بھی دیا لیکن آنحضرتﷺ نے اس شدید ظلم کے باوجود بھی یہی کہا کہ مجھے تو صرف عفو کرنے کا حکم ملا ہے،لڑائی کرنے کا حکم تو نہیں ملا۔لیکن اسلام کی اس پُرامن تعلیم کے ساتھ ساتھ آپﷺ کو اس بات کا بھی بخوبی اندازہ تھا کہ یہ ظلم واقعی بہت شدت اختیار کر چکا ہےاور انسانی استطاعت اور برداشت سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ پس ان حالات میں جبکہ کفار کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے تھے نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کو دین کی خاطر ہجرت کرجانے کا حکم دیااور فرمایا کہ مغرب کی طرف سمندر پار ایک ملک ہے جہاں خداکی عبادت کی جاتی ہے اور وہاں کا بادشاہ بہت ہی عادل اور انصاف پسند ہےتم لوگ وہاں ہجرت کرجاؤ۔(سیرت ابن ہشام صفحہ ۲۳۷ دار الکتب العلمیہ بیروت ۲۰۰۱ء )

یہ ملک حبشہ تھاجو کہ آج کے نقشے کے اعتبار سے ایتھوپیا(Ethiopia) اور اریٹریا (Eritrea) کے علاقوں پر مشتمل ہے اور واقعی وہاں کے نیک دل بادشاہ نے انصاف کا حق ادا کردیا جس کا ایک چھوٹا سا نمونہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ آخر یہ مہاجرین یکے بعد دیگرے ہجرت کرتے ہوئے حبشہ پہنچنا شروع ہوگئے اور ان کی زندگی کچھ آسان ہوگئی۔یہ بھی الٰہی جماعتوں کی ایک نشانی ہوا کرتی ہے کہ وہ دشمنوں کی دشمنی سے گھبرانے کے بجائے اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے اپنی مذہبی آزادی کی خاطر خدا کی وسیع زمین میں ہجرت کر جاتے ہیں اور دین کی راہوں پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اسی مضمون پر قرآن کریم کی یہ آیت بھی روشنی ڈالتی ہے۔یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ۔ (سورۃالعنکبوت آیت۵۸) اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین یقیناً وسیع ہے۔ پس صرف میری ہی عبادت کرو۔

ہجرت حبشہ

آنحضرتﷺ کی طرف سے اس اجازت کے بعد بالآخر رجب ۵؍ نبوی میں مسلمانوں نے پہلی مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنا شروع کی۔ اس پہلی ہجرت میں ۱۱ مرد اور ۴ عورتیں شامل تھےجن میں حضرت عثمان بن عفانؓ اور آپؓ کی اہلیہ حضرت رقیہؓ بنت رسول اللہﷺ بھی شامل تھے۔(سیرت ابن ہشام صفحہ ۲۳۸ دار الکتب العلمیہ بیروت ۲۰۰۱ء)

یہ مہاجرین بخیر و عافیت حبشہ میں رہنے لگے اور بعدازاں بہت سے دوسرے مسلمان بھی یکے بعد دیگرے ہجرت کرکے حبشہ آتے رہے۔تاریخ کی کتب میں ان مہاجرین کی کل تعداد ۱۰۱؍ تک بیان کی جاتی ہے جن میں ۱۸ عورتیں بھی شامل تھیں۔ان مہاجرین میں ایک صحابیہ ام عبداللہؓ بھی شامل تھیں۔آپؓ ابھی حبشہ کی جانب سفر کی تیاری میں ہی مصروف تھیں کہ حضرت عمرؓ نےجو کہ اس وقت ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے آپ کوسامان ِسفر باندھتے دیکھ لیا۔آپؓ نے ام عبد اللہؓ سے کہا کہ یہ تو ہجرت کا سامان معلوم ہوتا ہے کیا تم شہر چھوڑ کر کہیں جارہی ہو؟ام عبد اللہؓ نے اس پر جواب دیا کہ ہاں ہم اب یہ شہر چھوڑ کر جارہے ہیں کیونکہ تم لوگوں نے ہمیں بہت دکھ دیے ہیں،اور ہم اب تب تک واپس نہیں لوٹیں گے جب تک خدا تعالیٰ ہمارے لیے کوئی آسانی پیدا نہ فرمادے۔حضرت عمرؓ کے دل پر اس بات کا بہت زیادہ اثر ہوا اور آپ نے شدت جذبات سے مغلوب ہوکر اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا اور بہت ہی درد بھرے لہجے میں کہا کہ اچھا ! چلو خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔(سیرت ابن ہشام صفحہ ۱۵۹ باب ذکر اسلام عمر بن الخطابؓ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت ۲۰۰۹ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:اُس صحابیہؓ نے کہا عمرؓ ! ہم تو مکہ چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تم مکہ چھوڑ رہی ہو؟ صحابیہؓ نے کہا ہاں ہم مکہ چھوڑ رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا تم کیوں مکہ چھوڑ رہے ہو؟ صحابیہؓ نے جواب دیا کہ عمرؓ ! ہم اس لیے مکہ چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسندنہیں کرتے اور ہمیں خدائے واحد کی عبادت کرنے میں یہاں آزادی میسر نہیں۔ اس لیے ہم وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں جارہے ہیں۔ اب باوجود اس کے کہ حضرت عمرؓ اسلام کے شدید دشمن تھے۔ باوجود اس کے کہ وہ خود مسلمانوں کو مارنے پر تیار رہتے تھے۔ رات کے اندھیرے میں اس صحابیہؓ سے یہ جواب سن کر کہ ہم وطن چھوڑ رہے ہیں اس لیے کہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسندنہیں کرتے اور ہمیں خدائےواحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے حضرت عمرؓ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔اور اس صحابیہؓ کا نام لے کر کہاکہ اچھا جاؤ خدا تمہارا حافظ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ پر رقّت کا ایسا جذبہ آیا کہ آپؓ نے خیال کیا کہ اگر میں نے دوسری طرف منہ نہ کیا تو مجھے رونا آجائے گا۔(تفسیر کبیر جلد ۸ جدیدایڈیشن صفحہ ۲۸۷)

حضرت حمزہؓ کا قبولِ اسلام

حبشہ میں مسلمان اب امن سے اپنی زندگیاں گزار رہے تھے لیکن دوسری طرف مکہ میں آنحضرتﷺ اور دیگر مسلمانوں پر ظلم کا سلسلہ ابھی بھی جاری تھا۔کفار مکہ کا یہ ظلم اورمخالفت ہی تھی جو اگلے سال ۶؍ نبوی میں آنحضرتﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ کی قبولیتِ اسلام کا ذریعہ بنی۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک مرتبہ ابوجہل آپﷺ کوراستہ میں ملااور آپ کو سخت گالیاں دینے لگا مگر آپﷺ نے ابو جہل کے اس برے سلوک پر کوئی جواب نہ دیا۔ اس وقت حضرت حمزہؓ معمول کے مطابق شکار کرنے گئے ہوئے تھے۔واپس آئے تو ان کی خادمہ نے آپ کو اس سارے واقعہ سے آگاہ کیا۔حضرت حمزہؓ یہ سنتے ہی شدید غصے میں آگئے اور فوراً خانہ کعبہ گئے جہاں پر ابوجہل اور دیگر لوگ موجود تھے۔انہوں نے جاتے ہی ابوجہل کے سر پر زور سے کمان ماری اور کہا میں نے سنا ہے تم نے محمد کو گالیاں دی ہیں اور بہت برا بھلا کہا ہے؟پس اگر ایسا ہے تو کان کھول کر سن لو کہ اب سے میں بھی محمد کے دین پر ہوں اور میں بھی وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے۔اگر تم میں ہمت ہے تو میرے سامنے بول کر دکھاؤ۔ وہاں پر موجود ابو جہل کے ساتھیوں نے حضرت حمزہؓ کے اس رویہ کو دیکھ کر ان پر حملہ کرناچاہالیکن ابو جہل نے ان کو روک دیا اور کہا کہ رہنے دو۔ حمزہؓ ٹھیک کہتا ہے میں نے واقعی محمد پر زیادتی کی تھی۔

حضرت حمزہؓ اس کے بعد گھر واپس لوٹےاور غصہ جب کچھ کم ہوا تو گھبرائے کہ میں نے تو جوش جوش میں محمد کے دین میں شامل ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔آخر کچھ سوچ بچار کے بعد آپؓ نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیااور آپﷺ کے ہاتھ پر دارِ ارقم میں بیعت کر کے مسلمان ہوگئے۔آپؓ کے قبولیت اسلام کی وجہ سے مسلمانوں کو مکہ میں بہت تقویت حاصل ہوئی۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد ۳ صفحہ ۶ حمزہ بن عبدالمطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۰ء)

حضرت عمرؓ کا قبولیتِ اسلام

اس قسم کے واقعات کے بعدمکہ میں ایک ہنگامے کی سی صورت پیدا ہوگئی تھی۔اسلام کی ان ترقیات کو دیکھ کر قریش اندر ہی اندر حسد میں بڑھتے چلے جارہے تھے۔لیکن ابھی تو یہ ابتداتھی اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد مکہ میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے مکہ میں گویا تہلکہ ہی مچا دیا۔یہ واقعہ حضرت عمرؓ کی قبولیتِ اسلام کا تھا۔حضرت عمرؓ بھی مکہ میں ایک خاص مقام و مرتبہ رکھتے تھےاور وہ دور جس میں پڑھائی کا چنداں رواج نہ تھا اس دور میں بھی آپ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ گھوڑسواری اور کشتی میں بھی آپ بہت ماہر سمجھے جاتے تھے۔اور اگر غیروں سے کبھی جنگ کی صورت پیدا ہوتی تو قریش اکثر حضرت عمرؓ کو سفیر کے طور پر بھیجا کرتے تھے۔اسلام کے اول دور میں آپ کو مسلمانوں سے شدید دشمنی تھی، لیکن اس سخت مزاج کے باوجود آپ کے اندر روحانیت کی ایک خاص روشنی بھی موجود تھی۔اس مادہ کا رسول کریمﷺ کو بھی علم تھا اسی وجہ سے آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت عمرؓ کے قبولیت اسلام سے پہلے یہ دعا بھی فرمائی کہ:اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّۃً۔ یعنی اے اللہ! خاص طور پر عمر بن خطاب کے ذریعہ اسلام کو عزت عطا کر۔ (مستدرک للحاکم علی الصحیحین جلد ۳ صفحہ۸۹ کتاب معرفۃ الصحابہ باب من مناقب امیر المومنین عمر بن الخطابؓ حدیث نمبر۴۴۸۳۔۴۴۸۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲۰۰۲ء)

حضرت عمرؓ کی قبولیت اسلام کے حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں لیکن ایک مشہور روایت کی مختصر تفصیل یوں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ تلوار سونتے ہوئے اس خیال سےگھر سے نکلےکہ اگر اسلام کے بانی کو قتل کردیا جائے تو یہ فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ راستے میں آپ کو بنو زُہرہ کا ایک شخص ملا اس نے آپؓ سے پوچھا عمر کہاں جارہے ہو؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو(نعوذ باللہ) قتل کرنے جا رہاہوں۔ اس شخص نےیہ سن کر آپ سے کہا کہ پہلے اپنے گھر کا تو جائزہ لے لو،تمہاری تو اپنی بہن اور بہنوئی بھی صابی ہو چکے ہیں اور تمہارے آباءواجداد کےدین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ فوراً وہاں سے پلٹےاور اپنی بہن کے گھر چلے آئے۔گھر کے پاس پہنچے تو سنا کہ گھر میں کوئی قرآن پڑھ رہا ہے۔یہ حضرت خبابؓ تھے جو قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے۔آپ نے جب حضرت عمرؓ کے آنے کی آواز سنی تو گھر کے ایک کونے میں جاکر چھپ گئے۔حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے اور کہا کہ یہ کونسا کلام میں نے ابھی سنا ہے؟ تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟دونوں نے کہا ہم تو آپس میں صرف بات کررہے تھے۔حضرت عمرؓ نے بڑے غصے میں کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم دونوں اپنے دین سے پھر گئے ہو۔ اور یہ کہہ کر اپنے بہنوئی کو پکڑ لیا اور سخت زدوکوب کیا۔ آپؓ کی بہن فاطمہ اپنے خاوند کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو حضرت عمرؓ کا ہاتھ آپ کے بہنوئی کی بجائے اپنی بہن فاطمہ کے چہرے پر ہی آلگااور چہرے سے خون بہنے لگا۔ اس پر انہوں نے غصہ سے کہا ہاں عمرؓ! یہ سچ ہے کہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں، تم اب جو چاہو ہمارے ساتھ سلوک کرو لیکن ہم اب اپنے اس دین سے ہٹنے والے نہیں ہیں۔بہن کا خون بہتا دیکھ کر حضرت عمرؓ مارنے سے رک گئے اور اپنی بہن سے کہا کہ مجھے وہ کلام تو دکھاؤ جو تمہارے پاس ہے تاکہ میں بھی اسے پڑھ کر دیکھوں۔ آپؓ کی بہن نے کہا ایسے نہیں پہلے آپ وضو کرلیں۔ حضرت عمرؓ نے اٹھ کر وضو کیااور پھر قرآن کریم کے موجود اوراق میں سے پڑھنے لگے یہ سورۂ طٰہٰ کی ابتدائی آیات تھیں۔پڑھتے پڑھتے جب آپ اس آیت پر پہنچے کہ اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِیۡ ۙ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ(طٰہٰ: ۱۵) یقیناً میں ہی اللہ ہوں میرے سوا اور کوئی معبودنہیں۔ پس میری عبادت کرو اور میرے ذکر کرنےکے لیے نماز قائم کرو۔ اس آیت کو پڑھتے ہی آپ کا دل اسلام کے لیے کشادہ ہوگیااور کہا کہ یہ تو بہت ہی عمدہ کلام ہے۔ یہ بات سن کر حضرت خَبَّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی باہر نکل آئے اور کہنے لگے کہ اے عمرؓ ! تمہیں خوشخبری ہو۔ یہ نبی کریمﷺ کی دعاؤں ہی کا نتیجہ ہے جو انہوں نے آپؓ کے حق میں کی ہیں۔یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ نے کہا کہ مجھے بتاؤ کہ رسول کریمﷺکہا ں ہیں ؟انہوں نے آپ کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت دار ارقم میں ہیں۔حضرت عمر ؓآخر وہاں پہنچے اور دروازے پر دستک دی۔ اس وقت دار ارقم میں حضرت حمزہؓ، حضرت طلحہؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہؓ بھی موجودتھے۔ صحابہؓ نے جب حضرت عمرؓ  کو ننگی تلوار کے ساتھ باہر کھڑا ہوا دیکھا تو سخت گھبرائے کہ کہیں عمرؓ  کسی بری نیت سے تو نہیں آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر صحابہ کو حکم دیا کہ دروازہ کھول دیں۔آپؓ اندر داخل ہوئے تو آنحضرتﷺ نے آپ سے پوچھا کہ عمر تم کس غرض سے یہاں آئے ہو؟حضرت عمرؓ  آگے بڑھے اور فرمایا اے اللہ کے رسول! میں مسلمان ہونے آیا ہوں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نےکہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ یہ گواہی دے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا اور کہنے لگے یا رسول اللہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے باہر نکلیں۔ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے بعد مسلمانوں کو بہت ہی تقویت ملی اور اب کھلے طور پر مکہ میں اسلام کی تبلیغ ہونے لگی۔ مکہ میں اس خبر کے پھیلتے ہی لوگوں نے غصہ کے سبب حضرت عمرؓ  کو گھیرے میں لے لیا اور قریب تھا کہ آپؓ پر حملہ آور ہوجاتے کہ اتنے میں مکہ کے ایک سردار عاص بن وائل آگے بڑھے اور کہا کہ میں عمرؓ  کواپنی امان میں لیتا ہوں۔چنانچہ اس پر ان سب نے حضرت عمرؓ  کو چھوڑ دیا۔(الطبقات الکبریٰ جزء ۳ صفحہ ۱۴۲۔ ۱۴۳ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۹۹۶ء)(تلخیص از سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحات۳۴۷ تا ۳۵۳ )

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’حضرت عمررضی اللہ عنہ سے دیکھو کس قدر فائدہ پہنچا۔ ایک زمانہ میں یہ ایمان نہ لائے تھے اور چار برس کا توقف ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ خوب مصلحت سمجھتا ہے کہ اس میں کیا سر ہے۔ ابو جہل نے کوشش کی کہ کوئی ایسا شخص تلاش کیا جاوے جو رسول اللہ کو قتل کر دے۔ اس وقت حضرت عمر بڑے بہادر اور دلیر مشہور تھے۔ اور شوکت رکھتے تھے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے رسول اللہ کے قتل کا بیڑا اٹھایا اور معاہدہ پر حضرت عمرؓ اور ابو جہل کے دستخط ہو گئے اور قرار پایا کہ اگر عمر قتل کر آئیں تو اس قدر روپیہ دیا جاوے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ جو ایک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شہید کرنے جاتے ہیں۔ دوسرے وقت وہی عمر اسلام میں ہو کر خود شہید ہوتے ہیں۔ وہ کیا عجیب زمانہ تھا۔‘‘(ملفوظات جلد۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء صفحہ۴۲۴)

اسلام کے دور اول کے پاک وجودوں کے اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت کی یہ عظیم الشان داستانیں ایسی غیر معمولی ہیں کہ آج بھی بدن پر لرزہ طاری کردیتی ہیں اور ایمان کو بڑھانے کا موجب بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پاک وجودوں پر ہمیشہ ہمیش اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا چلا جائے اور اس دور آخرین میں خلافت احمدیہ کے زیر سایہ ہمیں بھی ان نیک نمونوں کو یاد رکھنے اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button