حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

خدا تعالیٰ کے لیے کوئی فعل کیا جاوے تو یہ ممکن نہیں کہ وہ ضائع ہو (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍ مارچ ۲۰۱۴ء)

…پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’خدا شناسی کی طرف قدم جلداٹھانا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کا مزا اسے آتا ہے جو اسے شناخت کرے اور جو اس کی طرف صدق ووفا سے قدم نہیں اُٹھاتا اس کی دعا کھلے طور پر قبول نہیں ہوتی اور کوئی نہ کوئی حصہ تاریکی کا اسے لگا ہی رہتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف ذراسی حرکت کروگے تو وہ اس سے زیادہ تمہاری طرف حرکت کرے گا۔ لیکن اوّل تمہاری طرف سے حرکت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ خام خیالی ہے کہ بلا حرکت کئے اس سے کسی قسم کی توقع رکھی جاوے۔ یہ سنّت اللہ اسی طریق سے جاری ہے کہ ابتدا میں انسان سے ایک فعل صادر ہوتا ہے پھر اس پر خدا تعالیٰ کا ایک فعل نتیجۃًظاہر ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص اپنے مکان کے کُل دروازے بند کردے گا تو یہ بند کرنا اس کا فعل ہوگا۔ خدا تعالیٰ کا فعل اس پر یہ ظاہر ہوگا کہ اس مکان میں اندھیرا ہو جاوے گا لیکن انسان کو اس کوچہ میں پڑ کر صبر سے کام لینا چاہئے۔

بعض لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے سب نیکیاں کیں، نماز بھی پڑھی، روزے بھی رکھے، صدقہ خیرات بھی دیا، مجاہدہ بھی کیا مگر ہمیں وصول کچھ نہیں ہوا۔ تو ایسے لوگ شقی ازلی ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ انہوں نے سب اعمال خدا تعالیٰ کے لیے کئے ہوتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کے لیے کوئی فعل کیا جاوے تو یہ ممکن نہیں کہ وہ ضائع ہو اور خدا تعالیٰ اس کا اجر اسی زندگی میں نہ دیوے۔ اسی وجہ سے اکثر لوگ شکوک وشہبات میں رہتے ہیں اور ان کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا کوئی پتہ نہیں لگتا کہ ہے بھی کہ نہیں۔ ایک پارچہ سلا ہوا ہو تو انسان جان لیتا ہے‘‘ (کپڑا سلا ہوا ہوتو انسان جان لیتا ہے) ’’کہ اس کے سینے والا ضرور کوئی ہے۔ ایک گھڑی ہے وقت دیتی ہے۔ اگر جنگل میں بھی انسان کو مل جاوے تو وہ خیال کرے گا کہ اس کے بنانے والا ضرور ہے۔ پس اسی طرح خدا تعالیٰ کے افعال کو دیکھو کہ اس نے کس کس قسم کی گھڑیاں بنارکھی ہیں اور کیسے کیسے عجائبات قدرت ہیں۔ ایک طرف تو اس کی ہستی کے عقلی دلائل ہیں۔ ایک طرف نشانات ہیں۔ وہ انسان کو منوا دیتے ہیں کہ ایک عظیم الشان قدرتوں والا خدا موجود ہے۔ وہ پہلے اپنے برگزیدہ پر اپنا ارادہ ظاہر فرماتا ہے اور یہی بھاری شئے ہے جو انبیاء لاتے ہیں اور جس کا نام پیشگوئی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ 494-495۔ ایڈیشن 2003ء)

پھر آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’مذہب کی جڑ خدا شناسی اور معرفت نعمائے الٰہی ہے اور اس کی شاخیں اعمال صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں اور اس کا پھل برکات روحانیہ اور نہایت لطیف محبت ہے جو ربّ اور اس کے بندہ میں پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اس پھل سے متمتع ہونا روحانی تقدس و پاکیزگی کا مثمر ہے۔ کمالیت محبت، کمالیت معرفت سے پیدا ہوتی ہے اور عشق الٰہی بقدر معرفت جوش مارتا ہے اور جب محبت ذاتیہ پیدا ہوجاتی ہے تو وہی دن نئی پیدائش کا پہلا دن ہوتا ہے اور وہی ساعت نئے عالَم کی پہلی ساعت ہوتی ہے‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2صفحہ281)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’خدا ایک موتی ہے اس کی معرفت کے بعد انسان دنیاوی اشیاء کو ایسی حقارت اور ذلّت سے دیکھتا ہے کہ اس کے دیکھنے کے لئے بھی اسے طبیعت پر ایک جبر اور اکراہ کرنا پڑتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی معرفت چاہو اور اس کی طرف ہی قدم اٹھاؤ کہ کامیابی اسی میں ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 92۔ ایڈیشن 2003ء)

فرماتے ہیں: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دُور کردے۔ پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئے محض سمجھے اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتاہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لیے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں یہ سب باتیں با ر بار اس لیے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گُم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ 213-214۔ ایڈیشن 2003ء)

پھر آپؑ مزید اس بارے میں فرماتے ہیں کہ’’اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خدا شناسی اور خدا رسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کو قائم کیا ہے اور محض اپنے فضل و کرم سے اس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے تا مَیں ان لوگوں کو جواللہ تعالیٰ سے غافل اور بیخبر ہیں اس کی اطلاع دوں اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خدا تعالیٰ کو دکھلادوں‘‘۔ جو سچائی اور صبر اور وفا داری کے ساتھ اس طرف آئیں وہ آپ کو ماننے کے بعدخدا تعالیٰ کو بھی دیکھ لیں۔ ) پھر فرمایا کہ: ’’اس بنا پر اللہ تعا لیٰ نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا: اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ یعنی تُو مجھ سے ہے یا مجھ سے ظاہر کیا گیا ہے اور مَیں تجھ سے‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ5۔ ایڈیشن2003ء)

پس یہ وہ مقصد ہے جس کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے کہ خدا تعالیٰ کی ایسی معرفت ہم میں پیدا فرمائیں گویا ہم خداتعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور اپنے ہر فعل کو خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے خوف کو سامنے رکھتے ہوئے بجا لائیں۔ ایسی معرفت الٰہی ہم میں پیدا ہو جائے جو ہمارے تمام گناہوں کو جلا دے اور ہم آپ کے بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی اور اس روح کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button