حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مختلف طریق ہیں

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرعون کی مثال دے کر فرمایا ہے کہ جس طرح فرعون کو ڈھیل دی اور پھر پکڑا اسی طرح آنحضرتﷺ کے دشمنوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں پکڑوں گا اور پھر پکڑکر دکھایا۔ اللہ تعالیٰ کے پکڑنے کے اپنے طریقے ہیں۔ آنحضرتﷺ کا دور جو ایک جلالی دور بھی تھا اور جنگوں کا بھی زمانہ تھا کیونکہ دشمنوں نے آپؐ پر جنگیں مسلط کی تھیں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسی طریقہ سے دشمنوں کو پکڑا کہ وہ اس وقت کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دشمنان اسلام کو اُسی حربہ کے ذریعہ سے ذلیل و رسوا کیا جو وہ مسلمانوں پر استعمال کرتے تھے اور اپنی مضبوط پکڑ کا اظہار فرمایا۔

آج بھی اللہ تعالیٰ کی صفت متین کام کر رہی ہے اور قائم ہے جیسے پہلے قائم تھی۔ اُمْلِیْ لَہُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ کے نظارے خداتعالیٰ آج بھی دکھاتا ہے اور آئندہ بھی دکھائے گا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تلوار کے جہاد کے ذریعہ سے نہیں جیسا کہ مَیں نے کہا، ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے پکڑنے کے اپنے طریقے رکھے ہوئے ہیں۔ بلکہ جو بانی ٔاسلامﷺ پر ظالمانہ طور پر الزام لگانے والے ہیں اور استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں، انہیں ایسے طریقہ سے پکڑے گا جس کے بارہ میں ہم سوچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے کس طرح پکڑنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایسے لوگوں کو پکڑ کر پھر بتایا بھی۔ ان کو عبرت کا نشانہ بھی بنایا اور دنیا نے دیکھا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے جو گُر بتایا ہے وہ یہ ہے کہ پکڑ تو میری آنی ہے لیکن جہاد کے ذریعہ سے پکڑ نہیں ہونی۔ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے طریقہ سے کرنی ہے تم لوگوں نے کیا کرنا ہے لیکن جو طریق کار اختیار کرنا ہے اس میں تمہارا حصہ یہ ہو کہ تم دعا کا ہتھیار استعمال کرو اور یہ دعا کا ہی ہتھیار ہے جس کو ہم نے دیکھا۔ اس ہتھیار نے پنڈت لیکھرام کو بھی کچھ عرصہ ڈھیل دینے کے بعد اپنے انجام تک پہنچایا۔ عبداللہ آتھم کو بھی، ڈوئی کو بھی انجام تک پہنچایا اور باقی مخالفین بھی اپنے انجام کو پہنچے۔

پس آج بھی جو لوگ آنحضرتﷺ کے بارہ میں استہزاء اور نازیبا کلمات کہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ نہیں ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں یا لامذہب ہیں۔ قرآن کریم جو آنحضرتﷺ کے واقعات کے علاوہ باقی انبیاء کے واقعات بھی بیان کرتا ہے کہ جب بھی مخالفین نے ان انبیاء کو دکھ پہنچائے تو اللہ تعالیٰ نے ایک مدت کے بعد، کچھ عرصے کے بعد، انہی کی تدبیریں ان پر الٹا دیں اور اپنے انبیاء کی حفاظت فرمائی۔ انسانی عقل اُس انتہا تک نہیں پہنچ سکتی جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیاروں کے حق میں دشمنوں کی سزا کا فیصلہ کیا ہوتا ہے۔

(خطبہ جمعہ ۱۶؍اکتوبر ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۶؍نومبر ۲۰۰۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button