حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ ایسٹ ریجن کے ایک وفدکی ملاقات

مورخہ۱۵؍جون ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ امریکہ کے ایسٹ ریجن کے خدام کے ایک چودہ رکنی وفد کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی،جنہوں نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیاتھا۔

ملاقات کے آغاز میں حضور انور نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کہا۔ اس کے بعد خدام کو اپنا تعارف کروانے اور حضور انور سے مخاطب ہونے کا شرف حاصل ہوااورمختلف نوعیت کے سوالات پوچھ کر راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔

سب سے پہلے قائد مجلس ولنگ بورو (Willingboro) نیوجرسی(New Jersey)کو اپنا تعارف کرانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انہوں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک اسٹیٹ ایجنٹ ہیںاورسنہ۲۰۰۴ء میں پاکستان سے امریکہ ہجرت کی۔حضور انور کے دریافت فرمانے پر موصوف نے عرض کیا کہ ان کی مقامی مجلس میں خدام کی کُل تعداد۸۵؍ہے۔ حضور انور نےمزید دریافت فرمایا کہ یہاں وزٹ کرنے آئے تھے؟ موصوف نے جواب میں اپنے اسلام آباد آنے کا مقصد حضور انور کی اقتدا میں نمازوں کی ادائیگی بیان کیا۔حضور انور نے اس پر استفہامیہ انداز میں فرمایا:اور اسلام آباد سے لطف اندوز ہونے کے لیے؟ اس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے اپنے برطانیہ آنے کا مقصد فیضانِ خلافت سے براہِ راست برکت کا حصول بھی قرار دیا۔

اسی طرح وفد کی واپسی کی بابت کیے گئے استفسار پر موصوف نے عرض کیا کہ ان شاء الله عید الاضحی کے بعد مورخہ ۲۳؍ جون کو ان کی واپسی ہوگی۔

اس پر حضورانور نے از راہِ شفقت فرمایاکہ یہ ان خدام کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں عید کے اتنے قریب جب بالعموم بہت زیادہ مصروفیت ہوتی ہے اور ملاقاتوں کے لیے کم ہی وقت دستیاب ہوتا ہے حضورکے قیمتی وقت سے استفادہ کی توفیق ملی۔

بعدازاں ایک خادم نے فلسطین کی موجودہ جنگی حالت کے تناظر میں مختلف اسلامی دھڑوں کے کردار کے بارے میں سوال کیا۔

اس پر حضورانور نے فرمایا کہ اس طرح کے گروپ اکثر بڑی جغرافیائی سیاسی حکمت عملیوں کی پیداوار ہوتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ مسلمانوں کے مفادات کو پورا کریں۔

حضورانور نے بڑی طاقتوں کے خلاف ایسے گروپس کےمحدود اثر اور مسلم ممالک کے درمیان اتحاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تلقین فرمائی کہ یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل دے اور مسلمان حکومتیں ایک ہو جائیں، جب تک سارے چوّن مسلمان ممالک اکٹھے نہیں ہو جاتے آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔اس لیے آپ دعا کریں اور جس حد تک آپ کے سیاستدانوں کے ساتھ روابط ہوں یا آپ انہیں قائل کر سکتے ہوں تو ان سے مدد مانگیں۔

پھرایک خادم نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ بھی آپ کی زیارت کے مشتاق اور آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے کے شدید خواہاں تھے۔

اس پر حضورانور نے مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ اچھا! آپ عید کے موقع پر اپنے گھر والوں کو پیچھے چھوڑ کر مجھ سے ملاقات کے لیے آئےہیں۔ جس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیے۔

حضورانور نے ایک خادم سے دورانِ گفتگو جماعتی خدمت کے حوالے سے دریافت فرمایا تو موصوف نے عرض کیا کہ وہ مقامی جماعت میں بطور محاسب خدماتِ دینیہ بجا لارہے ہیں نیز امریکہ کے پہلے احمدی شہید ڈاکٹر مظفر احمد صاحب ان کے تایا تھے۔

فلاڈیلفیا(Philadelphia)سے تعلق رکھنے والے ایک خادم کو حضور انور کی خدمت میں اپنا خاندانی تعارف پیش کرنے کا موقع ملا۔ موصوف نے عرض کیا کہ وہ کنری، سندھ،پاکستان سےتعلق رکھنے والے عبدالسمیع بھٹی صاحب کے پوتے ہیں۔

اگلے خوش نصیب خادم جنہیں اپنا تعارف کروانے کی سعادت ملی وہ انہی مؤخرالذکر موصوف کے بھائی تھے۔ انہوں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ میری لینڈ (Maryland)امریکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے پاس بائیوکیمسٹری میں بیچلرز اور بائیومیڈیکل سائنسز میں ماسٹرز کی ڈگری ہےاور فی الحال وہ حضور انورکی ہدایت کی روشنی میں صحتِ عامہ کے شعبے میں کیریئر کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔

یہ سماعت فرما کر حضورانور نےخاندانی ذمہ داریوں کو کما حقہ سرانجام دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے موصوف کو تلقین فرمائی کہ وہ اپنے خاندان کا خاص خیال رکھیں اوران کے لیے بھرپور کفیل بننے کی کوشش کریں۔

ایک خادم نے اپنا خاندانی پسِ منظر بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ ان کے دادا وہاڑی، پاکستان سے تعلق رکھنے والے شہید مکرم عتیق احمد باجوہ صاحب کے بھائی تھے نیزموصوف پاکستان میں پیدا ہوئے اور سنہ ۲۰۱۵ء سے امریکہ میں مقیم ہیں۔

ایک ۲۳؍سالہ خادم نے اپنا تعارف کراتےہوئے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ کمپیوٹر سائنسز میں ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔فی الحال اپنا بیچلرز پروگرام مکمل کر رہے ہیں اور اسی فیلڈ میں ماسٹرز کی ڈگری کے حصول کے خواہاں ہیں نیزاپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ انہوں نے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں قدم رکھتے ہوئےایک منصوبہ بھی شروع کیا ہے۔ اسی طرح اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ حال ہی میں حضور انور ایک طبّی پروسیجرسے گزرے ہیں، موصوف نے حضورانور کی صحت کے بارے میں بھی خیریت دریافت کی۔

نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے ایک پچیس سالہ خادم سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ کیا ان کا تعلق Yoruba قبیلے سے ہے؟ اس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیا اورعرض کیا کہ وہ سال ۲۰۱۵ء سے امریکہ میں مقیم ہیں اور اس وقت جنرل ہسپتال میں بطور رجسٹرڈ نرس اور فوج میں بھی سروس کر رہے ہیں۔موصوف نے اس کے متعلق حضور سے راہنمائی بھی حاصل کرنا چاہی۔

حضور انور نے موصوف سے استفسار فرمایا کہ کیا وہ امریکی فوج میں بطور نرس خدمت کر رہے ہیں؟ انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے عرض کیا کہ وہ فوج میں دوسرے کاموں کے لیے خدمت پر مامور ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ بجائے ایک سپاہی بننے کے فوج کے میڈیکل شعبے میں کیوں شامل نہیں ہو جاتے؟ مزید فرمایا کہ آپ بڑے ہنرمند شخص ہیں اور آپ نے نرسنگ میں تعلیم بھی حاصل کی ہوئی ہے نیز تلقین فرمائی کہ آپ فوج کے میڈیکل شعبے میں شامل ہونے کی کوشش کریں، یہ بہتر ہوگا، اس طرح سے آپ فوج کی طرف سے کیے جانے والے کسی بھی ظلم میں براہِ راست ملوث نہیں ہوں گے۔

حضور انور کے اس ارشاد پر موصوف نے ان شاء اللہ کے دعائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے بکلی عمل پیرا ہونے کی بابت اپنے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔

موصوف نے عرض کی کہ تمام احمدی جو فوج میں خدمت پر مامور ہیں میں ان کے متعلق راہنمائی لینا چاہتا ہوں کہ انہیں دنیا کی موجودہ حالت کے پیش نظر کیا کرنا چاہیے ؟مجھے معلوم ہے کہ بعض اوقات مشکلات ہوتی ہیں کیونکہ انسان نے اپنے ملک کی خاطر اپنے آپ کو وقف کیا ہوتا ہے۔

اس پر حضور انور نےفرمایا کہ چونکہ آپ فوج میں ہیں، اس لیے آپ کو جب بھی کسی جگہ جانے کو کہا جائے یا جہاں کہیں بھی آپ کو بھیجا جائے آپ کو جانا ہی ہو گا۔یاتوآپ فوج چھوڑ دیں یا پھر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ میڈیکل کے شعبے میں شامل ہو جائیں۔میڈیکل کے شعبے میں کام کرنے کے باعث آپ انسانی خدمت کر رہے ہوں گے بجائے اس کے کہ آپ خود ظلم میں ملوث ہوں۔لیکن ایک دفعہ آپ جب فوج میں شامل ہو جائیں پھر آپ کو ان کے احکام ماننے پڑیں گے۔ اس لیے اس نوبت تک پہنچنے سے قبل ہی بہتر ہے کہ انسان چھوڑ دے۔ کوئی نہیں جانتا کہ تیسری جنگِ عظیم کب شروع ہو گی۔ جب ایک دفعہ شروع ہو جائے گی تو پھر آپ چھوڑ نہیں سکیں گے۔

پھر سینٹرل جرسی(Central Jersey) جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک چوبیس سالہ خادم کو حضور انور کی خدمت میں اپنا تعارف پیش کرنے کا موقع ملا۔انہوں نے عرض کیا کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے صحابی حضرت میاں نور محمد صاحب رضی اللہ عنہ آف پیر کوٹ کے نواسے ہیں۔

موصوف نے ایم ٹی اے کی ایک ڈاکومنٹری “Four Days without a Shepherd”کا حوالہ دیتے ہوئےحضور انور سے دریافت کیا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے اشارةً کوئی پیشگی علم دیا گیا تھا یا کوئی رؤیا دکھائی گئی تھی کہ آپ اگلے خلیفہ بنیں گے یا یہ سب کچھ آپ کے لیے اچانک تھا؟

حضور انور نے اس پر اظہار تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تو آخری وقت تک ایسا کوئی نشان یا خبر نہیں ملی۔ میں تو خود بہت حیران تھا جب یہ اعلان کیا گیا کہ مجھے خلیفہ منتخب کیا گیا ہے اور آپ اس وقت یہ تأثرات میرے چہرے پر دیکھ بھی سکتے تھے۔ میرے لیے تو بڑی حیرانگی کی بات تھی۔ مجھے تو آج تک حیرت ہی ہوتی ہے۔

اسی طرح موصوف نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ اس وقت بشمول شعبہ تبلیغ کے جماعت میں مقامی اور ریجنل سطح پر خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اسی طرح بتایا کہ امریکہ میں تقریباً ٤١٥؍ داعیانِ الی اللہ ہیں نیز ان کے لیے حضور انور کی خدمت میں انہوں نے دعاؤں کی عاجزانہ درخواست کی۔حضور انور نے اس پر مسکراتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ آپ کو اپنے داعیان الی اللہ کی تعداد چار سو کی بجائے چار ہزار کرنی چاہیے۔

مزید برآں موصوف نےملازمت کے تناظر میں جماعتی خدمت کے لیے کم دستیاب وقت کے حوالے سے اپنے احساس ذمہ داری کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ میں اس وقت ایک بینک میں کام کر رہا ہوں لیکن بطور ایک وقفِ نَو میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جماعت کے لے مزید وقت نکالنا چاہیے۔

اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جب بھی آپ کے پاس فارغ وقت یا چھٹی کا دن ہو تو اسے جماعت کے کاموں میں صَرف کریں۔ بطور سیکرٹری تبلیغ یا سیکرٹری تبلیغ کی ٹیم میں ہونے کی وجہ سے آپ کو تبلیغی کاموں میں زیادہ وقت گزارنا چاہیے اور اپنے لیے ایک ٹارگٹ بنائیں کہ آپ نے ایک سال میں دس نئی بیعتیںکروانی ہیں۔ دوسرے داعیان الی اللہ کے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں۔

اس کے بعد ایک خادم نے حضور انور کی خدمت میں اپناتعارف کرواتے ہوئے اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بیان کیا نیز اپنے اہل خانہ کی جانب سےآپ کی خدمت اقدس میں محبت بھرا سلام اور نیک جذبات پیش کیے۔ اسی طرح موصوف نے حضور انور کوان متفرق جماعتی شعبہ جات کی تفصیل سے بھی آگاہ کیاجن میں وہ خدمات سرانجام دینے کی توفیق پا رہے ہیں۔

اس پر حضور انور نے مسکراتےہوئے تبصرہ فرمایا کہ میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ میں قحط الرجال ہے۔ہر عہدہ آپ کو ہی دیا ہوا ہے۔ اس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیے۔

موصوف نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشتیٔ نوح میں فرمایا ہے کہ آپؑ کےگھر کی چار دیواری میں رہنے والے آنے والی تباہیوں سے محفوظ ہوںگے۔ہم تو امریکہ کی مجلس سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکہ کے مستقبل کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں سن کر خوف آتا ہے۔ حضور کیا ایک سچا اور مخلص احمدی مسلمان اللہ کی پناہ میں آئے گا؟ کیا ہمیں بھی وہ پناہ ملے گی؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس پیشگوئی کی کچھ شرائط ہیں۔ اپنے آپ کو محض نام سے احمدی نہ کہو بلکہ عمل سے اپنے آپ کو احمدی بناؤ۔ اگر آپ نیک ہیں، اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں، اگر آپ قرآن پاک میں دیے گئے تمام احکامات پر عمل کرتے ہیں، اگر آپ اپنی روزانہ کی تمام نمازیں خلوص کے ساتھ ادا کر رہے ہیں تو پھر آپ بچائے جائیں گے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ؂

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

پھر آپ کو اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لیے اتنی گہری محبت ہے؟اگر ہے تو پھر آپ بچائے جائیں گے اور جس جس میں بھی اللہ تعالیٰ سے پیار کا جذبہ ہے وہ سب بچائے جائیں گے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نیز اس کی مخلوق کے بھی حقوق ادا کرو۔ پھر آپ بچائے جائیں گے۔ ان شاء اللہ!

موصوف نے حضور انور کی خدمت میں مزیدعرض کیا کہ میں امریکہ کے نوجوانوں کے لیے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں اور خدام و اطفال کی صحت وتندرستی اور مستقبل کے لیے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں۔اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ آپ پر فضل کرے، اللہ تعالیٰ آپ کی جماعت اور آپ کے خدام پر اپنا فضل کرے اور انہیں اپنے ایمان میں اخلاص عطا کرے نیز مضبوط اور پختہ احمدی بنائے۔

ہیرسبرگ(Harrisburg) جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک خادم نے حضور انور کی خدمت میں اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے اپنی وسیع علمی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں پر روشنی ڈالی جن میں جرمنی سے ماسٹرز کی ڈگری، کینیڈا سے مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) میں پی ایچ ڈی اور امریکہ میں بطور سینئر ڈیٹا اینالسٹ کی موجودہ ملازمت شامل ہے۔ انہوں نے مزید عرض کیا کہ وہ دیگر خدمات کے علاوہ احمدیہ وکلاء ایسوسی ایشن کے ساتھ رضاکارانہ خدمات سرانجام دینے کی توفیق بھی پا رہے ہیں۔موصوف کو ایک سوال کرنے اور اس کی روشنی میں حضور انور سے راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی ملی۔

موصوف نے عرض کیا کہ اسلام کہتا ہے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔لیکن جب ہم کسی کی helpکرتے ہیں، ہماری نیت صاف ہوتی ہے، لیکن پھر بھی آخر پر ان کو تکلیف پہنچ جاتی ہے یا ان کا پھر بھی نقصان ہو جاتا ہے۔ ہم تو اپنے آپ کو تسلی دے دیتے ہیں کہ ہماری نیت صاف تھی، مگر اگلا بندہ جس کا نقصان ہوتا ہے وہ اس نظریے سے نہیں دیکھتا۔ اللہ تعالیٰ اس situationکو کیسے دیکھتا ہےکیونکہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری نیت صاف تھی؟

اس پر حضور انور نے جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر آپ کیintention اچھی ہے، تب اللہ تعالیٰ آپ کی نیت کو دیکھتا ہے، چاہے وہ دوسرا بندہ اس کو صحیح دیکھے یا نہیں۔ اگر آپ کی نیت صاف ہے تو اللہ آپ کو اجر دے گا۔ اگر نتیجہ اچھا نہ بھی ہو اور اگر آپ نے جان بوجھ کر کچھ غلط نہیں کیا تو پھر اللہ تعالیٰ اس عیب یا غلطی پر پردہ ڈال دے گا۔ اس لیے یہ یاد رکھو کہ جو کام کرنا ہے، یہ دیکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے، اگروہ ٹھیک ہے، اللہ کا خوف ہے تو پھر کسی سے خوف کی ضرورت نہیں ہے۔

ہیرسبرگ جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک اَور خادم نے اپنا تعارف کراتے ہوئے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ اس وقت پین(Penn) سٹیٹ یونیورسٹی میں سائبر سیکیورٹی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

عصرحاضر کی معاشرتی برائیوں سے بچنے کے حوالے سے موصوف نے حضور انور سے راہنمائی طلب کی کہ جب ہم کالج جاتے ہیں تو وہاں عورتیں اور شراب و نشہ وغیرہ کےکھلے عام دستیاب ہوتے ہوئے کیسے سیدھے راستے پر چل سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اپنے آپ کو ان سب برائیوں سے دُور رکھو۔ استغفار کرو۔جب بھی ایسی چیزیں دیکھو تو استغفار پڑھا کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ۔جب بھی ان بےحیائیوں کو دیکھو تو اپنا رخ موڑ لیا کرو اور دوسری طرف چل پڑو۔ اس طرح تم اپنے آپ کو بچا سکتے ہو۔ فوراً اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ اور اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ رَبِّىْ مِنْ كُلِّ ذَنْۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ بار بار دُہرایا کرو اور پنجوقتہ نماز ادا کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ ان معاشرے کی برائیوں سے بچا کر رکھے۔ آج کل معاشرہ ان برائیوں سے بھرا ہوا ہے اور وہ آپ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ اس طرح آپ شیطان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ آپ اور شیطان کے درمیان لڑائی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ کون کامیاب ہوتا ہے؟

موصوف نے جواب میں اس عزم کا مصمم اظہار کیا کہ ان شاء الله مَیں کامیاب ہوں گا نیز حضور انور کی خدمت میں اس حوالے سے دعا کی درخواست کی۔حضورانور نے اس پر نوید سنائی کہ اگر آپ کامیابی کا عزم رکھتے ہیں تو کامیاب ہوجائیں گے۔

ولنگ بورو (Willingboro)جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک اَور خادم نے حضور انور کی خدمت میں اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ اس وقت یونیورسٹی میں شعبہ کمپیوٹر سائنسز کے دوسرے سال میں زیرِ تعلیم ہیں۔

موصوف نے حضور انور کی خدمت میںعرض کیا کہ میرا سوال اطفال، ان کے والدین اور تربیت کے حوالے سے ہے۔ کچھ اطفال کے والد کو ان کی تربیت کا خیال نہیں ہوتا مثلاً ان کو اطفال کلاسز کےلیے مسجد میں لانا یا دینی تعلیم کے بہتر کرنے میں سستی ہوتی ہے اور ماؤں پر سارا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔

اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اگر باپ اپنی ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا نہیں کر رہے اور سارا بوجھ ماؤں کے کندھوں پر ہے ، خصوصاً جب لڑکے ایک خاص عمر کو پہنچ کر اپنی ماؤں کی باتیں سننا ہی نہیں چاہتے ہیں، جب تک باپ کا اس میں دخل نہ ہو، تو ان معاملات میں خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کو ان بچوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔ ان سے دوستی کریں اورا طفال اور خدام میں سے ان کے ہم عمر تربیت یافتہ لڑکوں کوآگے لائیں تا کہ وہ ان سے دوستی کر سکیں ۔اس طرح آپ ان کو جماعت سے وابستہ رکھ سکتے ہیں۔

گو یہ ایک چیلنج ہے، لیکن آپ کو اس کےلیے محنت کرنی پڑے گی۔ایسے لڑکوں سے دوستی کریں اور ماؤں کی مدد کریں اور ان کے باپوں کو بتائیں کہ ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور اپنے بچوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

ان کو دنیاوی معاملات میں مشغول رکھنے کی بجائے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سے مدد لیں۔ خدام، انصار، اطفال اور لجنہ کی ایک مشترکہ کوشش ہونی چاہیے تا کہ افراد کی صحیح نہج پر تربیت ہو۔ وہ جماعت سے اور نظام سے وابستہ رہیں۔ بات یہ ہے کہ اگر والدین تساہل سے کام لے رہے ہیں یا غیر ذمہ دار ہیں اور آپ کچھ کر نہیں سکتے ہیں تو پھر یہ کافی زیادہchallenging مرحلہ ہے۔اس کے لیے آپ کو جدوجہد کرنی پڑے گی۔ یہی واحد ذریعہ ہے۔ ماؤں کی مدد کریں اور ان سے پوچھیں کہ ان کو آپ سے کس قسم کی مدد کی ضرور ت ہے اور ان کی مدد کریں۔

حضور انور کی خدمت میں اس ملاقات کا آخری سوال پیش کرنے کی سعادت ایک اکیس سالہ خادم کو حاصل ہوئی۔

موصوف نے عرض کیا کہ بہت سے خدام ایسے ہیں جو سکول یا روزگار کے مواقع کی تلاش کے سلسلے میں نقل مکانی کرتے ہیں۔ایسے خدام کےلیے حضور انور کی کیا نصیحت ہے تا کہ وہ نئی جگہ میں جماعت کے ساتھ جڑے رہیں؟

اس پر حضور انور نے راہنمائی فرمائی کہ وہ جس جگہ بھی منتقل ہو تے ہیں، اگر وہاں جماعت موجود ہے، تو خدام الاحمدیہ کا نظام اتنا مؤثر ہونا چاہیے کہ وہاں کی مجلس انہیں فوری طور پر اپنے اندر شامل کر لے تا کہ وہ جماعت اور مجلس کے ساتھ منسلک رہیں۔

اگر ایسے خدام تربیت یافتہ ہیں اور اگر ان کی شروع سےہی اچھی تربیت ہوئی ہے تو وہ خدام جو کسی ایک مجلس میں جماعت سے وابستہ ہیں وہ یقیناًدوسری مجلس میں بھی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوں گے۔ وہ جماعت کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔لیکن اگر وہ پہلی جماعت میں ہی سست ہیں تو دوسری جماعت میں بھی سست رہیں گے۔

تو یہ آپ پر منحصر ہے کہ جب بھی وہ ایک جماعت سے دوسری جماعت یا ایک مجلس سے دوسری مجلس میں منتقل ہوتے ہیں تو آپ کے متعلقہ سیکرٹری تربیت یا ناظم تربیت ان سے رابطہ کریں اور ان کو جماعت کے قریب لانے کی کوشش کریں۔اس کا سارا انحصار آپ کے نظام کی کارگزاری اور متعلقہ مقامی جماعت پر ہے۔ جب کوئی خادم ایک جماعت سے دوسری جماعت میں منتقل ہوتا ہے تو سابقہ جماعت کا قائد یا ناظم فوراً نئی جماعت کو اطلاع دے کہ فلاں شخص آپ کی جماعت میں آ رہا ہے لہٰذا اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں۔

اسی طرح خدام کی ذاتی تربیت اور ان کا جماعت سے تعلق بھی اچھا ہونا چاہیے تا کہ جب بھی وہ کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں، وہ از خود وہاں کی مجلس اور جماعت سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں۔ ان کو بہکنے نہ دیں اور فوراً ان سے رابطہ قائم کر لیں ، جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوں۔

ملاقات کے اختتام پر خدام کو از راہِ شفقت حضورانور کے ساتھ تصویر بنوانے کا موقع ملا اورآپ کے دستِ مبارک سے قلم کا تبرک حاصل کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔

حضور انورنے آخر پر سب شاملین کوالسلام علیکم کا تحفہ پیش کیا اوراس طرح سے یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button