حاصل مطالعہ

نماز باجماعت میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کی تاکید اور اس کی حکمت

(ابو الفارس محمود)

حضرت پیر سراج الحق نعمانی جمالی رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مسجد مبارک قادیان میں ایک مولوی صاحب نے جو پٹنہ عظیم آباد کے رہنے والے تھے ، مسمریزم سے متعلق سوال کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے مسمریزم کی حقیقت اور اس کے مقابل جس اثر کو اسلام نے قبول کیا، اس کی وضاحت فرمائی۔ تذکرة المہدی کی مذکورہ بالا روایت ہدیۂ قارئین ہے۔

مولوی صاحب نے ایک روز مسجد مبارک میں حضرت اقدس علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضرت مسمریزم جو آج کل بہت مشہور ہے یہ کیا چیز ہے آیا اس میں کسی قسم کا اثر بھی ہے یا یوں ہی ایک بچوں کا کھیل تماشا اور وہم اور بے نتیجہ شے ہے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا مولوی صاحب مسمریزم بہت عمدہ کار آمد چیز اور نتیجہ خیز بات ہے یوں تو کوئی شے بھی خدا نے عبث اور بے فائدہ نہیں بنائی رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً لیکن یہ مسمریزم تو بڑی کار آمد شے اور خاص اثر رکھتی ہے اور جیسا کہ اسلام نے اس کو لیا اور برتا اور فائدہ اٹھایا ہے اور کسی مذہب یا کسی فرقہ نے فائدہ نہیں اٹھایا حقیقت اور مغز اسلام کو میسر آیا اور قشر اور پوست دو سروں کے حصے میں گیا …۔

 اب مسمریزم کے نام سے لوگ گھبراتے ہیں۔ فقراء صوفیا کی اصطلاح میں اس کا نام توجہ اور تصور ہے۔ اگر کسی کو مسمریزم نام اچھا نہ معلوم ہو تو اس کو توجہ اور تصور کہہ سکتے ہیں۔ غرض اسلام نے اس کو اس طرح سے لیا ہے کہ پہلے مصافحہ اور معانقہ کی صورت میں اگرچہ اوروں میں بھی مصافحہ اور معانقہ ہے لیکن بے اصل یو ں ہی دل لگی کے طور سے۔

 پھر نماز باجماعت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نماز باجماعت میں مونڈھے سے مونڈھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑے ہو اور اپنے درمیان کچھ فاصلہ نہ رکھو کہ خالی جگہ شیطان داخل ہو جائے گا یہ اس بات کو ظاہر کیا کہ ایک شخص کی توجہ جسمانی اور روحانی دوسرے شخص میں سرایت کر جاوے۔ جماعت میں جیسے جسمانی رنگ میں کوئی ضعیف اور کوئی قوی ہوتا ہے ایسا ہی روحانی اور باطنی کیفیات میں بھی ضعف و قوت کا فرق ہوتا ہے تو جب اس میں ایک دوسرے کے ملنے سے ایک دیوار کی طرح ہو جائیں گے اور مل کر کھڑے ہونے سے ایک دوسرے کی تاثیر اور فیوض اور جذب روحانی پھیل کر سب میں پہنچ جاوے گی۔ جب پہلی صف اپنی قوت اور جذب روحانی سے پر ہو جائے گی تو پھر اس صف کا اثر دوسری صف پر پڑے گا اور پھر ان دونوں صفوں کا اثر تیسری پر پہنچے گا اس کے سمجھنے کے لئے بجلی کی مشین کی سی ہے جو آج کل نکلی ہے اگر اس بجلی کی مشین یا کل کو کوئی شخص ہاتھ میں پکڑے تو اس کا ہاتھ سن ہو جائے گا اور چھوٹ نہیں سکے گا ایسا ہی اگر دوسرا شخص اس کا ہاتھ پکڑلے تو اس پر بھی برقی اثر ہو جائے گا یہاں تک کہ اگر دس اور ہیں اور پچاس سو تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے جائیں تو وہ برقی اثر سب پر یکساں اثر کرتا چلا جائے گا اگر درمیان میں کچھ بھی فصل رہے گا تو وہ برقی طاقت رک جائے گی اور اس کی قوت جذب کام نہیں دے گی اور وہ جدائی جو واقعہ ہوئی ہے وہ اس برقی طاقت کو آگے نہیں چلنے دیگی اور روک ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر نماز کی صف میں کچھ فصل مل کر کھڑے ہونے میں ہو گا تو قوت روحانی یا اثر باطنی ایک دوسرے میں سے ہو کر آرہا تھا وہ رہ جائے گا اس کا نام اصطلاح شریعت میں شیطان رکھا ہے۔

پس اب یوں خیال کرو کہ اب جو ظہر کی نماز ہماری اس مسجد میں ادا ہوئی تو دوسری مساجد میں بھی جماعتیں ہوئیں اور دوسرے گاؤں اور شہروں میں یہاں تک کہ تمام جہان میں جماعتیں ہوئیں تو خانہ کعبہ کے چاروں طرف جماعتیں ہوئیں تو تمام جماعتوں اور صفوں کا گول حلقہ بیت اللہ کے ارد گرد ہو گیا اور وہ اپنی مدور شکل میں جسمانی حلقہ بندھ کر روحانی طور سے بھی سب کا ایک حلقہ بن گیا۔ اس کی مثال بنٹی کی سی ہے کہ ایک بانس کی لمبی لکڑی کے دونوں سروں پر تیل میں ترکر کے آگ لگادی جاتی ہے اور ایک مشاق اس کو گھماتا اور چکر دیتا ہے تو اگر چہ وہ دو جگہ علیحدہ علیحدہ آگ روشن ہے مگر گھمانے اور چکر دینے سے اس کا ایک گول حلقہ دکھائی دیتا ہے کہ ایک ذرہ بھی فرق معلوم نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح تمام جماعتیں اور صفیں اگر چہ دیکھنے سے الگ الگ مسجدوں میں قائم ہیں مگر حقیقت میں بنٹی کے حلقہ کی طرح ایک ہی جماعت کے حکم میں روحانی طور پر ہو جاتی ہیں اور وہ سب صفیں جو دست بستہ اپنے اپنے مقام پر کھڑی ہیں اپنے جسمانی اتصال اور روحانی اثر سے مئوثر ہو کر بیت اللہ سے فیضیاب ہوتی اور رحمت و فضل الہی کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہیں کیونکہ بیت اللہ وہ مقام ہے۔ جو إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ کے لئے کامل تجلی الہی کا مقام ہے اور کلام الہی کے نزول کی جگہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی حکم ہوا کہ یہاں آنے کے لئے اعلان کردو اور آنحضرت کو بھی حکم ہوا اور آپ کے ذریعہ سے تمام لوگوں کو حکم پہنچا اور بڑے بڑے وعدے یہاں سے ہوئے۔

مولوی صاحب خیال کرو کہ جماعتوں میں ہر زمانہ میں اولیاء ابدال اقطاب صلحاء اتقیا غوث مجدد محدث ہوتے ہیں اور عام مومنین بھی وہ تمام مل کر بیت اللہ یعنی تجلی گاہ اعظم اللہ تعالی سے فیض رحمت برکت کھینچتے ہیں اور اپنے اندر جذب کرتے ہیں اللہ تعالی نے فرمایا وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ ملنا ہی سر اور رمز ہے جو سب کے سب بیت اللہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ توجہ الی اللہ پورے طور سے ہو اگر ایک طرف منہ نہ کیا جاوے اور متفرق طور پر اپنی اپنی مرضی سے جدھر چاہیں منہ کر لیں تو کس طرح فساد لازم نہ آجاوے اور کیونکر وحدت ہو سکتی ہے اگر ایک واعظ کھڑا ہو کر وعظ کرے اور سننے والے وعظ کو چھوڑ کر دوسری طرف جدھر جس کا دل چاہے منہ کر کے بیٹھ جاوے یا کھڑا ہو جاوے تو کیسی ابتری اور بیہودگی ہوگی نہ سننے میں اثر ہوگا اور نہ واعظ کی توجہ پوری پوری ان کی طرف ہوگی اور نہ کوئی اس سے فائدہ اٹھائے گا بلکہ الٹا اثر ہو گا۔

 (تذکرة المہدی حصہ دوم صفحہ ۲۷۷ تا ۲۷۸)

کندھے سے کندھا ملانے کی وجوہات

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میرے والد میاں حبیب اللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے نماز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقعہ ملا اور چونکہ میں احمدی ہونے سے قبل وہابی(اہلحدیث) تھا۔ میں نے اپنا پاؤں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاؤں کے ساتھ ملانا چاہامگر جب میں نے اپنا پاؤں آپ کے پاؤں کے ساتھ رکھا تو آپ نے اپنا پاؤں کچھ اپنی طرف سِرکا لیا جس پر میں بہت شرمندہ ہوا اور آئندہ کے لئے اس طریق سے باز آگیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ فرقہ اہل حدیث اپنی اصل کے لحاظ سے ایک نہایت قابلِ قدر فرقہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے مسلمان بدعات سے آزاد ہوکر اتباعِ سنت نبوی سے مستفیض ہوئے ہیں مگر انہوں نے بعض باتوں پر اس قدر نامناسب زور دیا ہے اوراتنا مبالغہ سے کام لیا ہے کہ شریعت کی اصل روح سے وہ باتیں باہر ہوگئی ہیں۔ اب اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ نماز میں دو نمازیوں کے درمیان یونہی فالتو جگہ نہیں پڑی رہنی چاہئے بلکہ نمازیوں کو مل کر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ اول تو بے فائدہ جگہ ضائع نہ جاوے۔ دوسرے بے ترتیبی واقع نہ ہو۔ تیسرے بڑے آدمیوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ وہ بڑائی کی وجہ سے اپنے سے کم درجہ کے لوگوں سے ذرا ہٹ کر الگ کھڑے ہوسکیں۔ وغیرذالک۔ مگر اس پر اہل حدیث نے اتنا زور دیا ہے اوراس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیز بات بن گئی۔ اب گویا ایک اہلِ حدیث کی نماز ہو نہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی کے کندھے سے کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نماز ادا نہ کرے حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خواہ مخوا ہ پریشانی کا موجب ہوتا ہے۔ (سیرت المہدی جلداوّل صفحہ۳۱۴،۳۱۳)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button