متفرق مضامین

جبل الطارق

جبر الٹریاجبل الطارق، یہ وہ مشہور تاریخی مقام ہے جس کےکنارےکبھی طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا دی تھیں تاکہ ان کے سپاہیوں کے دلوں میں واپس لوٹنے کا خیال نہ رہے۔لہٰذا ہسپانیہ (سپین)پر حملے کے وقت مسلمان جرنیل طارق بن زیاد نےجن سنہری الفاظ میں اپنی فوج کو حکم دیا وہ تاریخ کا حصہ بن گئے ۔

مسلم سپہ سالارطارق بن زیاد کا تعلق افریقہ کے ایک قبیلہ بَربَر سے تھا اور بَنو اُمیّہ کے دور حکومت میں کئی ایک مشہور سپہ سالار تھے۔انہوں نے ۷۱۱ء میں ہسپانیہ (سپین) میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کر کے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں سپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری راہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

۳۰؍اپریل ۷۱۱ء کواسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جما لیے۔ طارق بن زیاد نے جنگ کے لیے محفوظ جگہ کا انتخاب کیااور اس موقع پر اپنی فوج سے نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اورکہا کہ ہمارے سامنے دشمن اورپیچھے سمندر ہے۔ لہٰذاجنگ سے قبل طارق بن زیاد نے اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تا کہ دشمن کی کثیر تعداد کے خوف سے اسلامی لشکر بد دل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں اسلامی فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ لڑو، فتح یا شہادت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرو۔

لہٰذا سات ہزار کے مختصر لشکر کے ساتھ پیش قدمی شروع کی۔ بعد ازاں جنگ وادی لکہ میں وزیگوتھ حکمران روڈرک کے ایک لاکھ لشکر کا سامنا کیا اور معرکے میں ایک ہی دن میں بدترین شکست دی اورجنگ میں روڈرک مارا گیا۔ طارق بن زیاد نے اپنی فوج کو چار ڈویژنوں میں تقسیم کیا، جنہوں نے مغیث الرومی، غرناطہ اور دیگر مقامات کے تحت قرطبہ پر قبضہ کیا، جبکہ طارق بن زیادٹولیڈو پر قبضہ کرنے والی ڈویژن کے سربراہ تھے۔ اس کے بعد شمال کی طرف پیش قدمی جاری رکھتے ہوئےگواڈالجارا اور استورگا پہنچ گئے۔ ایک سال بعد موسیٰ بن نصیرکی آمد تک طارق بن زیاد ہسپانیہ کےگورنر بن چکے تھے۔ مسلمانوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد یہاں ایک سنہری دور کا آغاز ہوتا ہے جس کی بدولت تعلیم کی روشنی بےانتہاپھیلی اور ایک وقت ایسا آیا کہ سپین تعلیم اور فن و ثقافت کا مرکز بن گیا۔ سپین میں مسلمانوں کی بے شمار تعمیرات میں سے جودوقابل ذکرتعمیرات ہیں ان میں قصر الحمراء اور مسجد قرطبہ شامل تھیں۔

طارق بن زیاد نے جس پہاڑ کے دامن میں اپنے قدم جما لیے،تاریخ کی زینت بننے والا یہ پہاڑ بعد میں طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلایا،اور آج یہ پہاڑ انگریزی زبان میں جبر الٹر کے نام سے پہچانا جاتا ہےاور جسے دو تہذیبوں کے درمیان پھنسی ہوئی چٹان بھی کہا جاتا ہے،جبکہ ہسپانوی تاریخ میں Taric el Tuerto کے نام سے جانا جاتاہے۔

جبل الطارق ۶.۵؍مربع کلومیٹر (۲.۵؍مربع میل) ہے، جبکہ اس مقام پر پہلی اسلامی آبادی ۱۲۰۰ء میں سلطان عبدالمومن نے قائم کی اور انہوں نے اس پہاڑی پر ایک قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا جو آج بھی موجود ہے۔ یہ جزیرہ نما سمندری علاقہ ایک اہم سیاحتی مرکز ہے۔ جبرالٹر براعظم افریقہ اور یورپ کے عین در میان میں واقع ہے،جبکہ مراکش افریقہ کا اور جبل الٹر یورپ کا پہلا ملک یا شہر ہے۔یہ جزیرہ نماآئبیریا کے انتہائی جنوب میں آبنائے جبل طارق کے ساتھ واقع ہے۔نیز اسےدفاعی اور جغرافیائی اہمیت حاصل رہی ہے۔۱۴۶۲ءمیں جبل الطارق پر مسیحی حکمران فرڈیننڈنے قبضہ کر لیابعد ازاں اس جبل پر اگست۱۷۰۴ءکو برطانیہ نے قبضہ کرلیاتھااور بالآخر۱۷۱۳ءکو ایک معاہدے کی بناپربرطانیہ کے حوالے کردیا گیا۔ جبل الطارق کی سرحدیں شمال میں سپین کے صوبہ اندلس سے ملتی ہیں۔تاریخی لحاظ سےجبل الطارق برطانوی حکومت کے لیےانتہائی اہمیت کی حامل اور حساس مقام ہے کیونکہ برطانیہ کے base قائم ہیں۔

دنیا کے ۷۰؍فیصد بحری جہاز بحیرہ اوقیانوس سے آتے ہیں اور آبنائے جبرالٹر سے گزر کر بحیرہ روم جاتے ہیں اور وہاں سے اسی راستے واپس آتے ہیں۔ یہ تین اطراف سے پانی میں گھرا ہوا ہے۔یہاں کی سرکاری زبان انگریزی اور کرنسی پاؤنڈ سٹرلنگ ہے، سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر یونین جیک لہراتا ہے، جبرالٹر میں داخلے کے لیے برطانیہ کا ویزا ضروری ہے جبکہ اس ملک میں مسلمان ۷؍فیصد اور یہودی ۳؍فیصد آباد ہیں۔جس جگہ طارق بن زیاد اترے اور ان کے لشکر نے اپنی کشتیاں جلائی تھیں، اب یہ ایک چھوٹا سا ساحلی علاقہ ہےاورآج کل رہائشی ایریا ہے۔طارق بن زیاد نے ساحل اور جبرالٹر کی سبز پہاڑیوں کے درمیان ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنوائی تھی۔ طارق بن زیاد نے سمندر کی صورتحال کا جائزہ لینے کی خاطر پہاڑ کی اترائی پر چھوٹا سا قلعہ بھی بنایا تھاجو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو گیاسوائے کچھ باقیا ت کے،لیکن چودھویں صدی عیسوی کے مراکشی حکمرانوں نے بعد میں انہی بنیادوں پر نیا قلعہ تعمیر کیا، اور یہ مورش قلعہ کہلاتا ہے، جوآج تک قائم ہے۔جبرالٹر میں چوری کے واقعات نہ ہونے کےبرابر ہیں، یعنی یہ علاقہ کرائم فری ہے۔

جبرالٹر میں گور نر ملک کا سر براہ ہے جس کی تعیناتی شاہ برطانیہ کے حکم سے ہوتی ہے۔ گورنر عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے، جبرالٹر کا ایئر پورٹ دنیا کا حیران کن ہوائی اڈہ ہے۔ ایئر پورٹ کی آدھی لینڈنگ سٹرپ پانی کے اندر ہے، یہ حصہ سمندر میں پتھر اور مٹی ڈال کر تعمیر کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ جبرالٹر کے رہنے والوں کو تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولتیں مفت نیزبچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے جاتے ہیں اور بچے ان وظائف سے برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جبرالٹر کے رہائشی ہسپانوی زبان روانی سے بولتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہےکہ متعدد مخلوط نسلوں کے خاندان آباد ہیں ’’ینیتو‘‘بنیادی طور پر ہسپانوی لہجے کا نام ہے جو کہ منفرد جملوں کے ساتھ مخصوص لہجے میں بولا جاتا ہے جسے صرف جبرالٹرین کہا جا سکتا ہے۔

جبرالٹروہ مقام ہے جہاں برطانیہ اور سپین کی سرحدیں ملتی ہیں،اور اس کے رہنے والے اپنی برطانوی شہریت پر فخر کرتے ہیں۔ نہر سوئزکی تعمیر کے بعد جبل الطارق اپنے محل وقوع کے باعث انتہائی اہمیت اختیار کر گیاہےکیونکہ برطانیہ اپنی نوآبادیات ہندوستان اور آسٹریلیا کے ذریعےآسان بحری راستے سے منسلک ہوگیا۔

۱۹۶۷ء ریفرینڈم میں آبادی کی اکثریت نے برطانیہ کے حق میں فیصلہ دیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی راج ختم ہوا تواقوام متحدہ نے نو آبادیات کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں لیکن جبرالٹربرطانوی حاکمیت ہی میں رہا۔ جبر الٹر کے لوگ مذہب اور نسل سے بالاتر ہو کر دوسروں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

(الف فضل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button