صحت

ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (جلد کے متعلق نمبر ۵) (قسط ۷۳)

(ڈاکٹر لبینہ وقار بسرا)

(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل‘‘ کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)

کاربو اینیمیلس

Carbo animalis

اس کا مریض خون کی کمی کا مستقل شکار رہتا ہے۔ چہرہ پیلا پڑ جاتا ہے، قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں اور جسم کی دفاعی طاقتیں جواب دینے لگتی ہیں۔ کار بوویج کی طرح اس میں بھی غدود سخت ہو جاتے ہیں جو کینسر میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اگر وریدوں میں خون جم جائے اور وہ نیلے جال کی صورت میں جگہ جگہ سے ابھر گئی ہوں تو اس بیماری میں بھی کاربواینیمیلس مفید ہے۔ اس پہلو سے اس دوا کا مزاج ایسکولس سے ملتا ہے۔ کار بواینیمیلس کا مریض غمگین، اداس اور تنہائی پسند ہوتا ہے۔ عموماً خاموش رہتا ہے، رات کو بے چین اور خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ خون کا دوران سر کی طرف ہوتا ہے۔ ذہن الجھا ہوا، نظر دھندلا جاتی ہے، آنکھوں پر بوجھ محسوس ہوتا ہے، گدی میں درد ہوتا ہے، ہونٹ اور گال نیلگوں ہو جاتے ہیں، ناک سوج جاتا ہے اور اس پر نیلے رنگ کی غدودسی ابھر آتی ہے۔ قوت شنوائی بھی متاثر ہوتی ہے،آوازوں کی سمت کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے، خشک زکام ہوتا ہے اور قوت شامہ ختم ہو جاتی ہے۔ چہرے پر تانبے کے رنگ کے دانے اور کیل بنتے ہیں۔ سر اور چہرے پر گرمی کا احساس ہوتا ہے۔ بوڑھے لوگوں کے چہرے اور ہاتھوں پر مسے نکلتے ہیں۔ مریض ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے۔ (صفحہ۲۳۷)

اس کی خاص علامت یہ ہے کہ غدود یں پھول جاتی ہیں۔ ہونٹوں اور گالوں کا رنگ نیلا ہو جاتا ہے۔ (صفحہ۲۳۸)

سیپیا سے مشابہ ناک کے اوپر سیاہی مائل نشان بن جاتا ہے جو رخساروں کے اطراف میں گالوں پر اترتا ہے۔ سیپیا سے یہ نشان دور نہیں ہوتا کیونکہ سیپیا کا اپنا ایک خاص مزاج ہے۔ جب تک وہ نہ ہو سیپیا سے فائدہ نہیں ہوتا۔ عورتوں کی جسمانی کیفیت اور ساخت سیپیا کی پہچان ہے، وہ نسبتاً پتلی ہوتی ہے، اپنوں سے اجنبیت محسوس کرنے لگتی ہے، محبت کے جذبات میں کمی آ جاتی ہے۔ خصوصاً خاوند اور بچوں کو دلی محبت کے باوجود پسند نہیں کرتی اور بیزار ہو جاتی ہے۔ اگر ایسی عورت کے ناک پر نشان ہو تو سیپیادینی چاہیے، فائدہ نہ ہوتو کاربواینیمیلس ضرور دیں۔ میرا تجربہ ہے کہ وضع حمل کے بعد ہونے والی تکلیفوں میں کار بو اینیمیلس بہت مؤثر ہے۔ اس سے ناک کا نشان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ (صفحہ۲۳۹،۲۳۸)

چہرے پر کیل مہاسے نکلیں۔ ہاتھ پاؤں سردی کی وجہ سے متورم ہو جائیں تو کار بو اینیمیلس اچھی دوا ہے۔ ہاتھوں اور چہرے پر مسے نکلنے کا رجحان روکنے میں بھی یہ مفید ثابت ہوتی ہے۔ (صفحہ۲۳۹)

کاربو ویج

Carbo vegetabilis

اس میں سردرد عموماً گدی میں بیٹھ جاتا ہے جس کا نزلہ سے تعلق ہوتا ہے۔ با لآخر سارے سر میں درد ہوتا ہے جیسے ہتھوڑے چل رہے ہوں۔ ہتھوڑے چلنے کی یہ علامت نیٹرم میور میں بھی ہے۔ سر کے بال بھی گرنے لگتے ہیں۔ ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آتا ہے۔ رات کو مریض خوفزدہ ہو جاتا ہے اور جنوں اور بھوتوں کا خیال آنےلگتا ہے۔(صفحہ۲٤٦)

کاربالک ایسڈ

Carbolic acid

شہد کی مکھیاں یا بھڑ کاٹنے کی وجہ سے جب جسم میں خطرناک الرجی ظاہر ہو تو اس میں کاربالک ایسڈ بہترین دوا ثابت ہوتی ہے۔ اس کی ایک دو خوراکیں دینے سے ہی مکمل شفا ہوسکتی ہے۔ (صفحہ۲٤۹)
اس کی جلدی علامات میں خارش پیدا کرنے والے چھالے، جلن اور درد ملتے ہیں۔ (صفحہ۲٥۰)

کاربونیم سلفیوریٹم

Carboneum sulphuratum

(Alcohol Sulphuris –Bisulphide of Carbon)

کئی ہو میو پیتھک معالجین نے اپنے تجربہ کی بنا پر لکھا ہے کہ کار بونیم سلف چہرے پر ظاہر ہونے والے خطرناک مرض Lupusکی بہترین دوا ہے اور اس سے مکمل شفا ہو جاتی ہے۔ ہومیو پیتھک معالجین کو اس پر مزید تجربہ کرنا چاہیے۔ میں نے اس سلسلے میں کافی مطالعہ کیا ہے لیکن لیوپس کے بارے میں کوئی امتیازی علامت ایسی نہیں ملی جو اسے دوسری علامات سے الگ کر دے۔(صفحہ۲٥۲)

کینسر کو بڑھنے سے روکنے کے لیے بھی کار بو نیم سلف بہت مفید پائی گئی ہے۔ کاربن اور سلفر سے مل کر ایسی دوا بنتی ہے جو سارے انسانی جسم پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے۔ جو دوا لیوپس جیسی بیماری میں شفا دے سکے وہ لازما ًبہت اہم اور گہری دوا ہو گی۔ مختلف قسم کے کینسر کی شفا کے لیے الگ الگ دوائیں چاہئیں لیکن بعض دوائیں ایسی ہیں جو ہرقسم کے کینسر میں اتنا فائدہ ضرور دے دیتی ہیں کہ ایک دو سال تک کینسر کی بڑھوتی رک جاتی ہے اور اس عرصہ میں اصل دوا تلاش کی جاسکتی ہے۔ کاربونیم سلف، آرسنک آئیوڈائیڈ اور گریفائیٹس، تین چوٹی کی دوائیں ہیں جو کینسر میں مفید ہیں۔ جلد کے کینسر میں پائیروجینم اور سورائینم بھی مفید ہیں۔ ان میں فرق کرنا مشکل نہیں ہے کیونکہ ان کے مریضوں کی اپنی اپنی شخصیت اور مزاج ہوتے ہیں۔ جہاں مریض کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہ ہو سکیں وہاں آرسنک آئیوڈائیڈ سے علاج شروع کرنا چاہیے جو انتڑیوں کے کینسر میں بھی بہت مفید ہے۔(صفحہ۲٥۲)

سر میں خشکی، سکری اور بال جھڑنے کی علامات بھی ملتی ہیں۔(صفحہ۲٥۳)

کانوں کی تکلیف کی وجہ سے چکر آتے ہیں، جلد بے حس ہو جاتی ہے، خارش کے ساتھ چھوٹے چھوٹے زخم بن جاتے ہیں جو پھیلتے ہیں، چہرے پر کیل مہاسے بھی نکلتے ہیں۔ ایک اور بات جو خصوصیت سے کاربونیم سلف میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جلد اور اندرونی جھلیاں رفتہ رفتہ بے حس ہو جاتی ہیں اور زبان بھی احساس سے عاری ہو جاتی ہے۔ منہ کے اندرونی حصے خصوصاً زبان کا بے حس ہونا اس دوا کا نمایاں حصہ ہے۔ وہ اعصابی ریشے جو جلد یا اندرونی جھلیوں کے قریب ہوں ان کا فالج کاربونیم سلف سے تعلق رکھتا ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے۔ (صفحہ۲٥۴،۲٥۳)

کارڈس میریانس

Carduus marianus

بائیں طرف کی جلدبہت زود حس ہوجاتی ہے اور دکھتی ہے۔(صفحہ۲٦۰)

کولوفائیلم

Caulophyllum

اگر عورتوں کے چہرے پر بھورے تل نکل آئیں تو کولوفائیلم اس کی بہترین دوا ہے جو بعض دفعہ مردوں میں بھی کام آتی ہے۔ اس کے استعمال سے کبھی تو اتنا فائدہ پہنچتا ہے کہ چہرہ بالکل صاف ہو جاتا ہے اور تلوں کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ چہرے کی جلد کا رنگ بدل جائے اور سیاہی سی چھا جائے تو اس کی بھی کولو فائیلم دوا ہو سکتی ہے جو اپنی دیگر عمومی علامتوں سے پہچانی جائے گی۔ اس کی اولین دوا آرسنک سلف فلیوم (Arsenicum sulfuratum flavum) ہے جبکہ سیکیل کور (Secale cornutum) کی مریضہ عورتوں میں سیکیل کو ر ہی رنگت درست کر سکتی ہے۔(صفحہ۲٦۲)

کاسٹیکم

Causticum

کاسٹیکم کی ایک علامت یہ ہے کہ اگر جلدی امراض کو دبا دیا جائے تو دماغی امراض پیدا ہو جاتی ہیں۔ (صفحہ۲٦٤)

کاسٹیکم میں مسے بھی بہت ہوتے ہیں۔ اگر بار یک اور نرم نرم ہوں تو تھوجا اور میڈ ورائینم دونوں مفید ہیں۔ لیکن اگر بہت بڑے بڑے اور بکثرت مسے ہوں تو کاسٹیکم اور نائٹریکم ایسڈ زیادہ مفید ہیں۔ ان دونوں کے مسے الگ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ کاسٹیکم کے مسے چہرے اور ناک پر نکلتے ہیں۔ ناک پر موٹا سامسہ نکل آئے تو یہ کاسٹیکم کی خاص نشانی ہے۔(صفحہ۲٦٤،۲٦٥)

چیلی ڈونیم Chelidonium

مریض کے چہرے کا رنگ زرد ہوتا ہے۔ یہ زردی رخساروں اور ناک پر نمایا ں ہوتی ہے۔جلد خشک اورزردی مائل ہوتی ہے۔ (صفحہ۲۷٦)

چینینم آرس Chininum ars

(Arsenite of Quinine)

خون کی کمی کی وجہ سے چہرے پر ورم اور بے رونقی ہو، جھریاں پڑنے لگیں، چہرہ بہت بوڑھا دکھائی دے اور مريض بالکل کھو کھلا اور بے جان سا ہو۔ چینینم آرس ایسے مریضوں کے لیے مثالی دوا ہے لیکن اس کے باوجود چینینم آرس کے بنیادی مزاج کو سمجھے بغیر اس سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔(صفحہ۲۸۳)

جلد پر خشکی اور بے رونقی نظر آتی ہے، ساری جلد زرد پڑ جاتی ہے۔(صفحہ۲۸۳)

السر اور ایگزیما کی تکلیفیں بیک وقت دونوں طرف ہونے کارجحان چینینم آرس کے علاوہ آرنیکا میں بھی ملتا ہے۔ آرنیکا میں اگر ایک آنکھ میں خارش ہو تو دوسری میں بھی ہوگی۔ بیک وقت دونوں طرف تکلیف ہوتی ہے۔(صفحہ۲۸٥)

ہونٹوں اور ناک کے کنارے چھلنے لگتے ہیں۔ چہرے کا رنگ پیلا اور مٹیالا سا ہو جاتا ہے اور چہرہ خمیر کی طرح پھولا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ نیز ایک عجیب قسم کی چمک چہرے کے ایک حصہ پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ جو خون کی کمی کی مزید نشاندہی کرتی ہے۔(صفحہ۲۸٥)

سیکوٹا وروسا

Cicuta virosa

(Water Hemlock)

اس کی جلدی علامات کا بھی اعصاب سے تعلق ہے۔ مثلاً حجامت بنوانے کے بعدپیدا ہونے والی خارش کا بھی یہ علاج ہے کیونکہ استرا چلنے سے اعصاب میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے اور بالوں کی جڑیں زود حس ہو جاتی ہیں۔ اعصابی تکلیفیں عموماً جلد کی طرف منتقل ہو جائیں تو علاج مشکل ہو جاتا ہے۔ سیکوٹا کی واضح علامات موجود ہوں تو یہ دوا کام کرے گی۔ ہاتھوں اور چہرے پر مٹر کے دانوں کے برابر ابھار بن جاتے ہیں۔ ایگزیما میں خارش نہیں ہوتی بلکہ دانوں پر لیموں کے رنگ کا سخت کھرنڈ بن جاتا ہے۔ (صفحہ۲۹۴،۲۹۳)

سائنا

Cina

سائنا بچوں کی دوا ہے اور پیٹ کے کیڑوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کے مزاج کی خصوصیت بد مزاجی ہے۔ اس کے مریض بچے چھوٹی چھوٹی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں، کوئی چیز انہیں خوش نہیں کر سکتی، بہت حساس ہوتے ہیں۔ یہ زود حسی صرف مزاج کی ہی نہیں ہوتی بلکہ ان کی جلد بھی بہت زود حس ہو جاتی ہے۔ مریض نہ کسی کو اپنے قریب آنے دیتا ہے اور نہ ہی کسی کو چھونے دیتا ہے۔ اگر ذرا سا بھی ہاتھ لگ جائے تو سخت برا مناتا ہے۔(صفحہ۲۹٥)

ناک میں ہر وقت خارش ہوتی ہے اور مریض ناک کو رگڑتا رہتا ہے۔ کھجلی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ نتھنوں کے کنارے سکڑ کر اندر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ منہ کے ارد گرد اور ہونٹوں کے پاس زردی مائل یا نیلے گول گول داغ بن جاتے ہیں۔(صفحہ۲۹٥)

سائنا میں مریض کے لمس اور مزے کی حس بہت تیز ہوجاتی ہے یا بہت کم۔ توازن نہیں رہتا۔(صفحہ۲۹٦)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button