قربانیاں اس وقت قبول ہوتی ہیں جب تقویٰ کے پیش نظر کی جائیں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’احمدیوں کو ان دنوں میں جہاں اپنے جذبات قربان کرنے پڑتے ہیں۔ اور جذبات کی قربانی معمولی چیز نہیں ہے۔ وہاںجذبات کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں ڈھالنے کی کوشش کریں، دعاؤں میں بڑی طاقت ہے۔
حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعائیں اور آہ و زاری اور بے چینی اور اللہ تعالیٰ پر توکّل ہی تھا جس نے پانی کا چشمہ بہا دیا اور شہر بھی بسا دیا اور ایسا شہر جو مرکز اسلام بنا۔ پس ہمارا بھی یہ کام ہے کہ ہم عید قربان سے صرف یہ سبق نہ لیں کہ ہم نے جانور کی قربانی کرنی ہے اور بس۔ اصل چیز قربانی کی روح کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا کو چاہنا ہے اور تقویٰ ہے جو ہماری ہر قسم کی قربانیوں میں کام آئے گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی خواب کی بنا پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہ کہا کہ مَیں نے تجھے خواب میں ذبح کرتے دیکھا ہے، تُو بتا تیری اس بارے میں کیا رائے ہے؟ تو اس اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے بیٹے نے یہ جواب دیا کہ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ (الصافات: 103) کہ اے میرے باپ! وہی کر جو تجھے حکم دیا گیا ہے اور گردن چھری کے نیچے رکھ دی اور اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹے کی اس قربانی کے جذبے کو سراہتے ہوئے باپ کو بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے سے روک دیا اور اس کے بدلے جانور کی قربانی کا حکم دیا۔ پس یہ جذبہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ عملی مظاہرہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے قبول کرتے ہوئے اسے اسلامی تعلیم کی بنیاد اور مناسک میں شامل فرما لیا اور اس انسانی جان کے بدلے جانور کی قربانی صرف ایک ظاہری اظہار کے لیے نہیں رکھی بلکہ جب مسلمانوں کو حج کے دوران یا عید پر بھی قربانی کا حکم دیا تو ساتھ یہ وضاحت بھی کر دی کہ یہ قربانیاں اس وقت قبول ہوتی ہیں جب تقویٰ کے پیش نظر کی جائیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے کی جائیں۔ ‘‘
(خطبہ عید الاضحی 29؍ جون 2023ء، الفضل انٹرنیشنل 26؍ستمبر 2023ء)