متفرق مضامین

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حج ِبیت اللہ

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حج بیت اللہ کیوں نہیں کیا؟

جواب:اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرضیت حج کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا(آل عمران:۹۸) اور اللہ نے لوگوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اس گھر کا حج کریں جو بھی اس تک جانے کی توفیق پائے۔

یہ اعتراض خود حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانے میں،آپؑ پر بھی کیا گیا تھا۔ آپ علیہ السلام نے اس اعتراض کا کافی و شافی جواب عطا فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیربیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دئیے ہیں۔ بعض اُن میں سے ایسے ہیں کہ اُن کی بجا آوری ہر ایک کو میسر نہیں ہے،مثلًا حج۔یہ اُس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو،پھر راستہ میں امن ہو، پیچھے جو متعلقین ہیں اُن کے گزارہ کا بھی معقول انتظام ہواوراس قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کر سکتا ہے۔‘‘(الحکم۳۱؍جولائی۱۹۰۲ءصفحہ٦)

فرمایا: ’’اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں، وہ حج کرے‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۱۵)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خود حج پر نہ جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں۔ آنحضرتﷺ دس سال مدینہ میں رہے۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپؐ نے دس سال کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپؐ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے۔ لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے۔ کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہوجائیں گے؟ اچھا یہ تمام مسلمان علماء اوّل ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تا کہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو۔ ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرتﷺ پر بھی پڑتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا۔‘‘(ملفوظات جلد ٥صفحہ۲٤۸ ایڈیشن۱۹۸۸ء)

آپ علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ ’’حج کا مانع صرف زادِ راہ نہیں اور بہت سے امو رہیں جو عنداللہ حج نہ کرنے کے لئے عذرِ صحیح ہیں چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہونا ہے۔ اور نیز ان میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکہ میں امن کی صورت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (اٰل عمران:۹۸) عجیب حالت ہے کہ ایک طرف بداندیش علماء مکہ سے فتویٰ لاتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے اور پھر کہتے ہیں کہ حج کے لئے جاؤ اور خود جانتے ہیں کہ جبکہ مکہ والوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا تو اب مکہ فتنہ سے خالی نہیں اور خدا فرماتا ہے کہ جہاں فتنہ ہواس جگہ جانے سے پرہیز کرو۔ سو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسا اعتراض ہے۔ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ فتنہ کے دنوں میں آنحضرتﷺنے کبھی حج نہیں کیا اور حدیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ فتنہ کے مقامات میں جانے سے پرہیز کرو… وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ (البقرۃ:۱۹٦) پس ہم گنہگار ہوں گے اگر دیدہ و دانستہ تہلکہ کی طرف قدم اٹھائیں گے اور حج کو جائیں گے اور خدا کے حکم کے برخلاف قدم اٹھانا معصیت ہے۔ حج کرنا مشروط بشرائط ہے مگر فتنہ اور تہلکہ سے بچنے کے لئے قطعی حکم ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں۔ اب خود سوچ لو کہ کیا ہم قرآن کے قطعی حکم کی پیروی کریں یا اس حکم کی جس کی شرط موجود ہے۔ باوجود تحقق شرط کے پیروی اختیار کریں۔‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱٤صفحہ ٤۱٥، ٤۱۶)

شیخ ابو سعید محمد حسین بٹالوی نے خط میں اعتراض کیا کہ آپؑ کیوں حج نہیں کرتے؟ تو فرمایا کہ ’’میرا پہلا کام خنزیروں کا قتل اور صلیب کی شکست ہے۔ ابھی تو میں خنزیروں کو قتل کر رہا ہوں۔ بہت سے خنزیر مر چکے ہیں اور بہت سے سخت جان ابھی باقی ہیں۔ ان سے فرصت اور فراغت تو ہو لے۔

شیخ بٹالوی صاحب اگر انصاف سے کام لیں، تو امید ہے یہ لطیف جواب انہیں تسلیم ہی کرنا پڑے گا۔ کیوں شیخ صاحب! ٹھیک ہے نا! پہلے خنزیروں کو قتل کر لیں؟‘‘ (ملفوظات جلد۲۔صفحہ۲۸۳)

مخالفوں کے اس اعتراض پر کہ مرزا صاحب حج کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا: ’’کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو خدمت خدا تعالیٰ نے اول رکھی ہے اس کو پس انداز کر کے دوسرا کام شروع کر دیوے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عام لوگوں کی خدمات کی طرح ملہمین کی عادت کام کرنے کی نہیں ہوتی۔ وہ خدا تعالیٰ کی ہدایت اور راہنمائی سے ہر ایک امر کو بجا لاتے ہیں۔ اگرچہ شرعی تمام احکام پر عمل کرتے ہیں مگر ہر ایک حکم کی تقدیم و تاخیر الٰہی ارادہ سے کرتے ہیں۔ اب اگر ہم حج کو چلے جاویںتو گویا اس خدا کے حکم کی مخالفت کرنےوالے ٹھہریں گے اور مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا(آل عمران:٩٨) کے بارے میں کتاب حجج الکرامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو حج ساقط ہے۔حالانکہ اب جو لوگ جاتے ہیں ان کی کئی نمازیں فوت ہوتی ہیں۔ مامورین کا اول فرض تبلیغ ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ ١٣ سال مکہ میں رہے، آپؐ نے کتنی دفعہ حج کیے تھے؟ ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا۔‘‘ (ملفوظات جلد۳ صفحہ۲۸۰)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی طرف سے حج بدل

احادیث میں لکھا ہے کہ جو شخص بوجوہ حج نہ کرسکے،اس کی طرف سے حج ِبدل کیا جاسکتا ہے۔

تاہم اگر کسی شخص نے اپنے والدین کی طرف سے حج بدل کرنا ہوتو اس شخص کا حاجی ہونا ضروری نہیں لیکن اگر اس نے اپنے والدین کے علاوہ کسی اور شخص کی طرف سے حج بدل ادا کرنا ہوتو پھر اس کا حاجی ہونا ضروری ہے۔

چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ خثعم قبیلہ کی ایک خاتون نے دریافت کیا کہ یارسول اللہؐ! میرے باپ پر حج اس وقت فرض ہوا جبکہ وہ انتہائی ضعیف ہو چکا ہے اور سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ تو کیا میں اپنے باپ کی طرف سے حج کا فریضہ ادا کردوں؟آپؐ نے فرمایا ہاں۔ (بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج وفضلہ)

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول پاک ﷺ نے حج کے دوران ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ شبرمہ کی طرف سے تلبیہ کہہ رہا ہے۔ آپ نے دریافت فرمایاکہ شبرمہ کون ہے؟اس نے جواب دیا کہ میرابھائی ہے یا کہا کہ میراکوئی رشتہ دار ہے۔ اس پر آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تونے اپنی طرف سے حج کیا ہے؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ پہلے اپنی طرف سے حج کروپھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔‘‘(ابو داؤد کتاب المناسک باب الرجل یحج عن غیرہ)

جو خاتون اپنے باپ کی طرف سے حج کرنا چاہتی تھی اس کے لیے آنحضرتﷺ نے یہ شرط بیان نہیں فرمائی۔لیکن جو شخص اپنے بھائی یا کسی اَور قریبی کی طرف سے حج کرنا چاہتا تھا اس کے لیے آپ نے یہ ضروری قرار دیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے والدین کی طرف سے حج بدل کررہا ہو تو اس شخص کے لیے حاجی ہونا ضروری نہیں لیکن اگر وہ اپنے والدین کے علاوہ کسی اَور کی طرف سے حج بدل کر رہا ہوتو پھر اس کا حاجی ہونا ضروری ہے۔

ایک خاتون کے سوال کرنے پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’بیٹا ماں کی طرف سے (حج بدل ) کر سکتا ہے،غیر کے لئے شرط یہ ہے کہ اگر اس نے خود حج کیا ہوا ہو تو پھر وہ حج بدل کر سکتا ہے ورنہ نہیں۔‘‘(فرمودات مصلح موعود،دربارہ فقہی مسائل۔صفحہ نمبر ۱۸۱)

چنانچہ احادیث میں بیان کردہ اس طریق’’ حج بدل‘‘ کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ آخری ایام میں حضرت مسیح موعودؑ نے میرے سامنے حج کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔چنانچہ میں نے آپؑ کی وفات کے بعد آپ کی طرف سے حج کروا دیا۔ (حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ احمداللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحبؑ کی طرف سے حج بدل کروایا تھا) اور حافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے۔ حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں۔‘‘(سیرت المہدی روایت نمبر ٥٥جلد اول صفحہ نمبر ٤٤)

تاریخ احمدیت صوبہ سرحد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حج بدل کی مزید تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت حافظ احمداللہ صاحبؓ  کا اصل وطن ہندوستان تھا۔ آپ اپنے وطن سے پشاور آئے تھے اور پشاور صدر میں مقیم تھے۔مذہباً اہلحدیث تھے۔ حضرت مولانا غلام حسنؓ کی احمدیت کی وجہ سے، ان کو بھی حضرت احمدؑ کی طرف توجہ ہوئی اور آخر کار بعد از تحقیقات احمدی ہو گئے۔ آپ اہلحدیث کے امام الصلوٰۃ تھے۔ احمدیت آپؓ نے ١٨٩٧ء سے قبل اختیار کی اور بعد ازاں پشاور سے قادیان ہجرت کرلی اور وہیں سکونت پذیر رہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے زمانے میں، جب حضرت محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ بغرض حج بیت اللہ شریف ١٩١٢ء میں حجاز مقدس تشریف لے گئے۔ تو آپ کو بھی حضرت ام المومنینؓ نے آنے جانے کا خرچ دیا۔تاکہ وہ حضرت احمدؑ کی طرف سے حج بدل کر آویں۔ چنانچہ آپ بھی اس قافلہ میں جس کا سالارحضرت محمود احمد تھا، شامل ہوئے اور حج بدل کر آئے اور اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کا حج، بذریعہ حضرت احمد اللہؓ، ادا ہوا۔ آپؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانہ خلافت میں کئی سال زندہ رہ کر فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔ (تاریخ احمدیت صوبہ سرحد۔از قاضی محمدیوسف فاروقی۔صفحہ٥۸، ٥۹)

مقام عرفات پر کی جانے والی دعا۔از حضرت مسیح موعودؑ: ۱۸۸۵ء میں جب حضرت صوفی احمد جان صاحب ؓحج بیت اللہ کے لیے تشریف لے جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو ایک خط میں لکھا کہ ’’ا س عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یاد رکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ میسر ہو تو اس مقام محمود مبارک میں اس احقر عباد اللہ کی طرف سے انہیں لفظوں سے مسکنت وغربت کے ہاتھ بحضور دل اُٹھا کرگزارش کریں کہ اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز اور ناکارہ، پُرخطا اور نالائق غلام احمد جوتیری زمین ملک ہند میں ہے۔ اس کی یہ غرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیٔات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفورا ور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہوجائے۔مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر یک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کرا اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل متبعین میں اُٹھا۔اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تونے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تونے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس عاجز کے تمام دوستوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ظلّ حمایت میں رکھ کر دین اور دنیا میں آپ ان کامتکفل اور متولی ہوجا اور سب کو اپنی دارالرضا میں پہنچا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام نازل کر۔ آمین یاربّ العٰلمین۔(مکتوبات احمدیہ جلد ۵صفحہ ۱۷، ۱۸)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button