بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۷۷)

(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭…کیا بچوں کا ختنہ کرتے وقت لوگوں کو کھانا کھلانے کی دعوت دینا جائز ہے؟

٭…نیت نماز کے متعلق راہنمائی

٭… نبی کریمﷺ کی قبر مبارک کے بارے میں راہنمائی

٭…کیا حضرت یحییٰ ؑکو قتل کیا گیا تھا؟

سوال: بنگلہ دیش سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں سوال بھجوایا کہ بچوں کا ختنہ کرتے وقت لوگوں کو کھانا کھلانے کی دعوت دینا جائز ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۱؍جنوری ۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:

جواب: بچوں کے ختنہ کے موقع پر کھانے کی دعوت کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں قرآن کریم اور مستند کتب احادیث میں کوئی ذکر نہیں ملتا، البتہ بعض دوسرے درجہ کی کتب احادیث میں ختنہ کی دعوت کے جائز و ناجائز ہونے کے بارے میں بعض احادیث ملتی ہیں جن کی اسناد پر علمائے حدیث نے کلام کرتے ہوئے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ چنانچہ سالم ؒبیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے میرا اور نعیم کا ختنہ کیا اور ہماری طرف سے ایک مینڈھا ذبح کیا۔ چنانچہ ہم اس بات پر باقی بچوں پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہماری طرف سے مینڈھا ذبح ہوا تھا۔ (الادب المفردللبخاری بَابُ الدَّعْوَةِ فِي الْخِتَانِ)جبکہ اس کے برعکس حسن بصریؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن ابی عاصؓ کو ختنہ کے موقع پر دعوت میں بلایا گیا تو انہوں نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہاکہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد ِمبارک میں ختنہ کے موقع پر دعوت میں نہیں جایا کرتے تھے اور نہ ہمیں اس دعوت میں بلایا جاتا تھا۔(مسند احمد بن حنبل، مسند شامیین حَدِيثُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ)

فقہائے اربعہ کے نزدیک ولیمہ کی دعوت کے علاوہ ختنہ کی دعوت اور دوسری دعوتیں کرنا اور ان دعوتوں پر بلانا مستحب ہے کیونکہ ان میں کھانا کھلایا جاتا ہے، نیز اس قسم کی دعوتوں کوقبول کرنا بھی مستحب ہے واجب نہیں ہے۔ (المغنی لابن قدامہ، فَصْلٌ : وَإِنْ عِلْمَ أَنَّ عِنْدَ أَهْلِ الْوَلِيمَةِ مُنْكَرًا، مَسْأَلَةٌ دَعْوَةُ الْخِتَانِ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں بھی ختنہ کی دعوتوں کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ  تحریر فرماتے ہیں:منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پہلے کا ذکر ہے کہ میں قادیان میں تھا۔ فیض اللہ چک میں کوئی تقریب شادی یا ختنہ تھی۔ جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مع چند خدام کے مدعو کیا گیا۔ ان کے اصرار پر حضرت صاحب نے دعوت قبول فرمائی۔ ہم دس بارہ آدمی حضورؑ کے ہمراہ فیض اللہ چک گئے۔ گاؤں کے قریب ہی پہنچے تھے کہ گانے بجانے کی آوازسنائی دی جواس تقریب پر ہورہا تھا۔ یہ آواز سنتے ہی حضورؑ لوٹ پڑے۔ فیض اللہ چک والوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے آکر بہت التجاء کی مگر حضورؑ نے منظور نہ فرمایا۔ اور واپس ہی چلے آئے۔(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ چہارم صفحہ ٤۹،روایت نمبر ۱۰٥۳، مطبوعہ ۲۰۰۸ء)

اسی طرح حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادیؓ بیان کرتے ہیں :ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے قادیان پہنچ کر اپنے مقدمات کا ذکر کیا کہ مخالفین نے جھوٹے مقدمات کرکے اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر میرا مکان چھین لیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب لوگ لڑکوں کی شادی اور ختنہ پر مکان برباد کردیتے ہیں۔ آپ کا مکان اگر خدا کے لیے گیا ہے تو جانے دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس سے بہتر دیدے گا۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر٤ صفحہ۱۱۳۔ غیر مطبوعہ)

پس بچوں کے ختنہ کے موقع پر دعوت کرنا نہ لازمی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ممانعت بیان ہوئی ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص اس موقع پر اپنی خوشی کے اظہار کے لیے حسب استطاعت اپنے دوستوں اور عزیزوں کو کھانا کھلا دیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی اسلامی تعلیمات کی حدود سے تجاوز نہیں کرتا تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں لیکن ایسی دعوتوں کو نہ تو واجب خیال کرنا چاہیے اور نہ ہی ان کو کسی قسم کی رسم کا رنگ دینا چاہیے۔

سوال: ملائیشیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ YouTube پر موجود فقہی مسائل کے ایک پروگرام میں نیت نماز کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ حضورﷺ کی سنت کے مطابق نیت نماز کے کوئی الفاظ نہیں ہیں جنہیں تکبیر تحریمہ سے پہلے پڑھا جائے۔ جبکہ alislam.org کی ویب سائٹ پر نیت کے عنوان کے تحت اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَاْلاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنکی آیت درج کر کے لکھا گیا ہے کہ اسے نماز شروع کرنے سے پہلے پڑھا جائے۔ یہ دو متضاد باتیں ہیں۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۱؍جنوری ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: نیت نماز کے متعلق فقہی مسائل میں دیا جانے والا جواب درست ہے کہ نیت نماز کے کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جنہیں نماز سے پہلے دہرانا ضروری ہو۔ نیت کا تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے۔ اور نماز کی نیت سے صرف اس قدر مراد ہے کہ انسان کے دل میں یہ ہونا چاہیے کہ وہ کس وقت کی اور کون سی نماز پڑھ رہاہے۔ زبان سے الفاظ کا ادا کرنا یا نماز شروع کرنے سے پہلے نیت نماز کے طور پر قرآنی آیت اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَاْلاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔(الانعام:۸۰) پڑھنا کسی نص سے ثابت نہیں۔ alislam.org کی ویب سائٹ پر بھی میں اس غلطی کی تصحیح کے لیے متعلقہ شعبہ کو ہدایت کر رہا ہوں۔

سوال: سری لنکا سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےارشاد ’’آپ (حضرت ابوبکرؓ) کی قبر کو بھی نبی کریم ﷺ کی قبر کی طرح ہموار بنایا گیا۔‘‘(سرالخلافہ) کے حوالے سے دریافت کیا ہے کہ ہموار سے کیا مراد ہے؟ کیا آنحضرت ﷺ کی قبر کوہان کی طرح نہیں بنائی گئی، اس میں کیا حکمت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۳؍جنوری ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اسلام کی رو سے قبر میت کو سپرد خاک کرنے کا ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ اس میں کسی قسم کی نمود و نمائش کو پسند نہیں کیا گیا۔ البتہ کسی مجبوری یا ضرورت کے تحت قبر کی اطراف کو پختہ کرنے یا اس پر کمرہ یا قبہ وغیرہ تعمیر کرنے میں کوئی ہرج نہیں جیسا کہ آنحضور ﷺ کی قبر حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں بنائی گئی اور حضرت عائشہؓ نے اس کی یہ حکمت بیان فرمائی کہ حضور ﷺ نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے۔ اگرایسا نہ ہوتا تو آپؐ کی قبر حجرہ سے باہر بنائی جاتی۔ مگر اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں اسے سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔( آپؐ کی قبر حجرہ میں بنائی گئی)۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب مَا يُكْرَهُ مِنِ اتِّخَاذِ الْمَسَاجِدِ عَلَى الْقُبُورِ)

اسلام نے چونکہ میت کے احترام کو بھی پیش نظر رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے، اس لیے قبر بناتے وقت قبر کو سطح زمین سے کچھ اونچا رکھا جاتا ہے تا کہ عام زمین اور قبر کا فرق واضح رہے اور قبر کی بے حرمتی نہ ہونے پائے۔ اسلام کے ابتدائی دور سے قبریں دو طرح سے بنائی جاتی رہی ہیں۔ایک اس طرح پر کہ قبر کو سطح زمین سے کچھ اونچا کر کے اوپر سے ہموار کر دیا جاتا ہے اور دوسری صورت میں قبر کو اوپر سے کوہان کی طرح کچھ اونچا کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کے پوتے قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ میں حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کی قبریں دکھائیں تو حضرت عائشہؓ نے میری خاطرتینوں قبروں سے پردہ ایک طرف کر دیا۔ (یہ قبریں) نہ تو بہت اونچی تھیں اور نہ زمین کے ساتھ برابر تھیں، بلکہ زمین سے قدرے اونچی تھیں اور سرخ میدان کی کنکریاں ان پر ڈالی گئی تھیں۔(سنن ابی داؤد کتاب الجنائز بَاب فِي تَسْوِيَةِ الْقَبْرِ)

کتب احادیث اور تاریخ و سیرت سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ اور آپ کے دونوں اصحاب رضی اللہ عنہما کی قبریں ابتدا میں جب بنائی گئیں تو زمین سے کچھ اونچی مگر اوپر سے ہموار تھیں۔ لیکن ولید بن عبدالملک کے عہد حکومت میں جب حضرت عائشہؓ کے حجرہ کی عمارت بوسیدہ ہو کر اس کی دیوار گر گئی۔(صحیح بخاری کتاب الجنائزبَاب مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)تو حجرہ کی مرمت کے ساتھ اس وقت قبروں کو اوپر سے کوہان نما کر دیا گیا۔ چنانچہ سفیان بن دینار تمارسے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی قبر دیکھی جو اونٹ کی کوہان کی طرح اونچی بنی ہوئی تھی۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائزبَاب مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ان روایات کی تشریح میں لکھتے ہیں:ولید بن عبدالملک نے مدینہ کے امیر عمر بن عبدالعزیزؒ کو لکھا کہ پرانی عمارت جو بوسیدہ ہو گئی ہے گرا کر قبریں درست کر دی جائیں۔ وہ زمین سے پیوست تھیں۔ ان کو زمین سے اٹھایا گیا…جس قبر کے دیکھنے کا ذکر سفیان تمار نے کیا وہ نبی ﷺ کی وہی قبر ہے جو عمر بن عبدالعزیزؒ نے تجدید عمارت کے وقت اونچی کر کے بنوائی تھی۔ (ترجمہ و شرح صحیح بخاری جلد دوم صفحہ ۷۷٤)

فقہائے اربعہ میں سے حنفی، مالکی اور حنبلی کوہان نما قبر بنانے کے قائل ہیں جبکہ شافعی مسلک ہے کہ قبر کو کوہان نما نہ بنایا جائے بلکہ اسے زمین سے ایک بالشت کے برابر اونچا رکھا جائے۔

کسی دکھاوے اورنمود و نمائش کی خاطر قبر کو بہت زیادہ اونچا کر دینا تا کہ اہل قبرکی بڑائی کا اظہار کیا جا سکے، اسلام نے اسے نہایت ناپسند فرمایا ہے۔ چنانچہ ابو ہیاج اسدی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت علیؓ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسے کام کے لیے نہ بھیجوں جس کام کے لیے نبی کریم ﷺ نے مجھے بھجوایا تھا؟ مجھے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ کسی بھی مورتی کو مٹائے بغیر اور کسی بھی اونچی قبر کو برابر کیے بغیر مت چھوڑنا۔(صحیح مسلم کتاب الجنائز بَاب الْأَمْرِ بِتَسْوِيَةِ الْقَبْرِ)

پس ہموار یا کوہان نما دونوں قسم کی قبریں اسلام میں رائج رہی ہیں۔ دونوں صورتوں میں قبر اوپر سے کسی قدر سطح زمین سے اونچی ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی قبر جب بنی تو وہ سطح زمین سے کچھ اونچی اور اوپر سے ہموار تھی اور اسی وقت کی شکل کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ارشاد میں ذکر فرمایا ہے۔ بعد میں اسے کوہان نما کر دیا گیا۔ اب اس قبر کی شکل کیسی ہے، یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

سوال: یوکے سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اس سوال پر مشتمل عریضہ تحریر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تحریرات میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کا ذکر ملتا ہے جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ترجمۃ القرآن کلاس میں فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ ؑکے قتل ہونے کا ذکر نہیں ہے، صرف وفات کا ذکر ہے۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍جنوری ۲۰۲۳ء میں اس کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب: حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہماالسلام کے قتل کے بارے میں تاریخ و سیرت کی کتب میں اور علمائے سلف کے نظریات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ قرآنی آیات سے استدلال اور احادیث کی تشریح کی روشنی میں جماعت احمدیہ میں بھی اس بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ قرآن کریم، احادیث نبویﷺ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں میرا موقف یہ ہے کہ کسی بھی سلسلے کا پہلااور آخری نبی یا وہ نبی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہو کہ وہ اسے انسانوں کی دسترس سے بچائے گا، قتل نہیں ہو سکتے۔ ان کے علاوہ باقی انبیاء کے لیے قتل نفس کوئی معیوب بات نہیں اور اس سے نبی کی شان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا کیونکہ قتل بھی شہادت ہوتی ہے۔مگر ہاں ناکام قتل ہو جانا انبیاء کی شان کے خلاف ہے۔پس جب ایک نبی اپنا کام پورا کر چکے تو پھر وہ طبعی طور پر فوت ہو یا کسی کے ہاتھ سے شہید ہو جائے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ کیونکہ کامیابی کی موت پرنہ کسی کو تعجب ہوتا ہے اور نہ دشمن کو خوشی ہوتی ہے۔

پس حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کسی سلسلہ کے پہلے اور آخری نبی نہیں تھے اور نہ ہی ان کے بارے میں خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا وعدہ مذکور ہے کہ وہ انہیں دشمن کے ہاتھ سے ضرور محفوظ رکھے گا۔ اسی طرح ہمارا ایمان ہے کہ جب ان انبیاء کی شہادت ہوئی تو یقیناً وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کر چکے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد فرمائی تھیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد ارشادات سے آپ کا موقف بخوبی واضح ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام قتل ہوئے تھے۔چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۸۸کا ترجمہ کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:

یعنی اے بنی اسرائیل کیا تمہاری یہ عادت ہوگئی کہ ہر ایک رسول جو تمہارے پاس آیا تو تم نے بعض کی ان میں سے تکذیب کی اور بعض کو قتل کر ڈالا۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ٥ صفحہ۳٤)

اپنی عربی تصنیف حمامۃ البشریٰ میں آپؑ لکھتے ہیں:قتل کے ذریعہ مرنا اس(اللہ) کے انبیاء کے لیے کوئی نقص نہیں ہے، اور نہ ان کی کسر شان ہے اور نہ ہی ان کی عزت کے منافی ہے۔ اور کتنے ہی نبی ایسے ہیں جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئےجیسے یحییٰ علیہ السلام اور ان کے والد۔پس غور کراور ہدایت یافتہ لوگوں کی راہ طلب کراور گمراہوں کے ساتھ مت بیٹھ۔(ترجمہ عربی عبارت ازحمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۲٥٥ حاشیہ)

ازالۂ اوہام میں حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ایساہی حضرت یحییٰ نے بھی یہودیوں کے فقیہوں اور بزرگوں کوسانپوں کے بچے کہہ کر ان کی شرارتوں اور کارسازیوں سے اپنا سر کٹوایا۔ (ازالۂ اوہام حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد۳صفحہ۱۱۰)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات کی روشنی میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے تھے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی اس مسئلہ پر بحث اٹھی تھی جس پر آپؓ نے اس موضوع پر تین خطبات جمعہ ارشاد فرمائے، جن میں آپ نے اس بات کو ثابت کیا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کا بھی یہی عقیدہ تھا۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے یہ خطبات جمعہ مورخہ ۲٦؍اگست، ۲؍ستمبر اور ۹؍ستمبر ۱۹۳۸ءکے ارشاد فرمودہ ہیں اور خطبات محمود جلد ۱۹ میں صفحہ ٥٥٦ سے ٦٦۹پر موجود ہیں۔ وہاں سے ان خطبات کا مطالعہ کیاجا سکتا ہے۔

باقی جہاں تک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے درس القرآن میں بیان موقف کی بات ہے تو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس موقف کو حتمی قرار نہیں دیا تھا، بلکہ فرمایا تھا کہ اس بارے میں مزید تحقیق ہونی چاہیے۔

چنانچہ میں نے اس معاملہ پر تحقیق کروائی ہے اور درست موقف وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کر دیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے موقف کی تائید میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات میں بیان اس ارشاد کو بیان فرمایا تھا کہ’’صلیب چونکہ جرائم پیشہ کے واسطے ہے اس واسطے نبی کی شان سے بعیدہے کہ اسے بھی صلیب دی جاوے اس لئے توریت میں لکھا تھا کہ جو کاٹھ پر لٹکا یا جائے وہ ملعون ہے آتشک وغیرہ جوخبیث امراض خبیث لوگوں کو ہو تے ہیں اُس سے بھی انبیاء محفوظ رہتے ہیں نفس قتل انبیاء کے لیے معیوب نہیں ہے مگر کسی نبی کا قتل ہو نا ثا بت نہیں ہے جس آلہ سے خبیث قتل ہو اس آلہ سے نبی قتل نہیں ہو تا۔‘‘(اخبار البدر نمبر ۱۲، جلد۲، مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱،۹۰۔ ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۳٥٦، مطبوعہ ۲۰۱٦ء)

اس حوالے میں بھی دراصل حضور علیہ السلام نبیوں کے قتل ہونے کی مناہی نہیں فرما رہے بلکہ صلیب پر مارے جانے، کسی خبیث مرض میں مبتلا ہو کر مرنے اور کسی ایسے خبیث آلہ سے قتل ہونے کی مناہی فرما رہے ہیں جس آلہ سے خبیث لوگ قتل ہوتے ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button