متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی غیر معمولی استقامت اور الله تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ (قسط اوّل)

(عابد وحید خان۔ انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس)

میں یہ تحریر چند دن بعد اس وقت لکھ رہا ہوں جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ۳؍ مئی ۲۰۲۴ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا تھا۔ اب تک دنیا بھر کے احمدی اس بات سے آگاہ ہو چکے ہوں گے کہ خطبے کے آخر میں انتہائی عاجزی، سادگی اور وقار کے ساتھ حضورِانور نے تذکرہ فرمایا تھا کہ آپ حال ہی میں دل کے ایک میڈیکل پروسیجر سے گزرے ہیں۔نیزاحبابِ جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے تحریک فرمائی تھی کہ دعا کریں کہ الله تعالیٰ نے جتنی بھی زندگی دینی ہے، فعّال زندگی عطا فرمائے۔

میں نے اس موقع پر مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے حاضرین کی طرف سے اجتماعی طور پر سکھ کے سانس لینے کو خود محسوس کیا کیونکہ جیسےہی حضور انور نے اپنے حالیہ علالت اور علاج کے بارہ میں اطلاع دی، ایک طرف حضور کی علالتِ طبع کی فطری پریشانی تھی اور دوسری طرف اس بات کا اطمینان تھاکہ یہ پروسیجر بفضل اللہ تعالیٰ کامیاب رہا۔ انہی احساسات اور جذبات کی دنیا بھر میں بھی عکاسی کی گئی۔ وہ ایسے کہ جب احمدیوں نے براہِ راست خطبہ دیکھا یا حضور کی صحت کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں آن لائن شائع ہونے والے پیغامات کے ذریعے اطلاع پائی تو لاتعداد احمدیوں نے خلافت کے لیے اپنی کامل وفا، بےلوث محبت اور پُر خلوص دعاؤں کا غیر معمولی اظہار کیا۔

بلا شبہ خلیفۂ وقت کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیے ایک نمونہ اور حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کی تکمیل کے لیے کامل وابستگی اور احبابِ جماعت سے محبت کا ایک عملی ثبوت ہے۔ اسی تناظر میں مَیں چند یادیں قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔

ناسازیٔ طبیعت

خاکسار اِنتہائی خوش نصیب ہے کہ مجھے بطورِ واقفِ زندگی سال ۲۰۰۷ءسے حضور انور کی اور جماعتی خدمت بجا لانے کی توفیق مل رہی ہے۔ گذشتہ پندرہ سال میں مَیں نے کبھی بھی حضور انور کو اپنی صحت کے بارے میں کسی قسم کی کوئی پریشانی کا اظہار فرماتے ہوئے نہیں سنا۔

ان برسوں کے دوران متعددایسے مواقع بھی آئے جب حضور نزلہ یا شدید زکام میں مبتلا تھے مگرپھر بھی حضور نے اپنے روزمرہ کے کام حسبِ معمول جاری رکھے۔ کبھی کبھار میں نےحضورِ انور کی خدمت اقدس میں آرام فرمانےکی عاجزانہ درخواست بھی کی لیکن آپ فرماتے کہ اگر آرام کر لیا تو میری میز پر فائلوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ بعض مواقع پر فرماتے کہ احمدی مجھ سے ملنے آئے ہیں اور اگر میری طبیعت ٹھیک نہیں بھی ہے تو بھی میں ملاقاتیں منسوخ کر کے انہیں مایوس نہیں کرنا چاہتا۔

یہ محض پچھلے دو سالوں میں ہوا ہے کہ کبھی کبھار حضور انورنے اپنی صحت کے بارے میں کچھ خدشات کا اظہار فرمایا۔

مثال کے طور پر مجھے یاد ہے کہ کئی مہینے پہلے میں نے ملاقات کے لیے رپورٹ کیا اور اپنی روزانہ کی رپورٹ حضور انور کی خدمت میں پیش کی تو رپورٹ ختم ہونے کے بعدحضور انور نے کچھ دیر مجھے اپنے دفتر میں ہی ٹھہرنےکا ارشادفرمایا۔اِس دوران حضورِانوربدستور اپنی میز پر موجود خطوط کی فائلز ملاحظہ فرمارہے تھے۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ کتنی دیر تک، لیکن لگتا ہے کہ مَیں تقریباً مزید تیس منٹ تک حضور کے دفتر میں موجودرہا۔

جب خاکسارنے بطور پریس سیکرٹری کام کا آغاز کیا تو ابتدامیںکئی سال تک اکثر اوقات حضور انور مجھے دفتری معاملات پر راہنمائی حاصل کرنے کے بعداپنے دفتر میں طویل وقت تک رکنے کی اجازت مرحمت فرما دیتے۔ اس دوران حضور انور خطوط کی فائلز ملاحظہ فرماتےرہتے۔ یہ وقت میرے لیے بےپناہ برکتوں اور تربیت کا باعث ہوتا۔ تاہم گذشتہ چند برسوں سےعموماً یہ طریق رہا ہے کہ میرے رپورٹ پیش کرنے کے بعد یا جس کام کی بابت بھی حضور سے ہدایت لینا مقصود ہو، حضور انور مجھے رخصت دے دیتے۔چنانچہ اس دن جب میں حضور کے دفتر میں چند لمحوں کے لیےرکا اور حضور انورکوکام کرتے ہوئے مشاہدہ کیا تو بے اختیار ماضی کے لمحات یاد آگئےاور حضور انور کی بابرکت صحبت میں یہ چند لمحات گزار نے پرمیں نےبےحدخوشی اور مسرت محسوس کی۔لیکن میں اس بات کو سننے کے لیے ذہنی طور پرتیار نہیں تھا جوحضور انور نے اپنی رہائش گاہ پر واپس تشریف لے جانے سے قبل کھڑے ہوتے ہوئے فرمایا۔

حضور انورنے فرمایا کہ آج مجھے کچھ گھبراہٹ تھی۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔اس لیےمیں نے تمہیں روکے رکھا۔ شاید تمہیں آج تھوڑا سا کم ٹائم ملے گھر میں بچوں کے ساتھ۔

یہ الفاظ سماعت کرتے ہوئے مجھ میں حضور کے لیے محبت کی ایک شدید لہر دوڑ گئی۔ میں آپ سے اپنے عشق و وفا کے اظہار کے لیے دس لاکھ باتیں کہنا چاہتا تھا لیکن بجائے اس کے میں صرف حضور کا شکریہ ادا کرنے میں کامیاب ہو پایا کہ مجھے اپنی معیّت میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور دعا کی کہ حضور جلد بہتر محسوس کرنے لگیں۔

دورانِ سفر جرمنی ناسازیٔ طبع محسوس کرنا

گذشتہ برس اگست کے آخر میں حضور انور چار سال کے وقفے کے بعد جلسہ سالانہ میں شرکت کی غرض سے جرمنی کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔معمول کے مطابق قافلہ براستہ Channel Tunnel جرمنی روانہ ہوا، Folkestone پر پہنچ کر، جہاں سے ہم Eurotunnel لیتے ہیں، قافلہ چند منٹوں کے لیے آن سائٹ سروسز پر رک گیا۔

حضور کیفے ٹیریا کے بالکل باہر ایک نشست پر تشریف فرما ہوئے تو میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضور کی خدمت میں چائے یا کافی کی پیش کش کی۔

اس کے جواب میں حضور انورنے فرمایا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اورپھر مجھے پانی لانے کا ارشادفرمایا۔ آپ جسمانی طور پر کافی کمزور لگ رہے تھے، اس لیے یہ سوچ کر مجھے بے چینی محسوس ہو رہی تھی کہ ابھی کافی سفر باقی ہے اورمسجد بیت السبوح فرینکفرٹ پہنچنے میں مزید کئی گھنٹے درکار ہوں گے۔ مجھے پریشانی اور غم محسوس ہوا جب میں حضورانور کے لیے پانی لایااور آپ کو تکلیف میں دیکھا۔

چند منٹ بعد حضور انور اپنی گاڑی میں واپس تشریف لائے اور ہم جلد ہی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ English Channelعبورکرتے وقت بھی آپ اپنی گاڑی میں ہی تشریف فرما رہے۔سفر میں بمشکل چند منٹ ہی گزرے تھے کہ محمود خان صاحب جو آپ کی گاڑی چلا رہے تھےآئے اور کہا کہ حضور نے دریافت فرمایا ہے کہ کیا میں کوئی بسکٹ یا snacks وغیرہ ساتھ لایا ہوں؟میں نے جلدی سے ایک بیگ پکڑا، جو میرے پاس تھا اور میرے نزدیک جو سب سے اچھے بسکٹ اور دیگر سنیکس تھے، وہ نکال کر محمود خان صاحب کو دیےجوحضور انورکی گاڑی میں لے گئے اور آپ کی خدمت میں پیش کردیے۔ مَیں نےدعا کی کہ حضورِ انور اور خالہ سبوحی (محترمہ سیّدہ امۃ السبوح بیگم صاحبہ مدّ ظلہا العالی) انہیں پسند فرمائیں اور حضور انورکچھ کھانے کے بعد بہتر محسوس کریں۔

فرانس پہنچ کر ہم نے دوپہر کے کھانے کے لیے رکنے سے قبل کچھ دیر سفر جاری رکھا۔ حضور انور نے جماعت احمدیہ جرمنی کےعہدیداران جو حضور کا استقبال کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے، کواشارۃً بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے اور حسب معمول نماز ظہر اور عصر پڑھائی۔ اس کے بعد کئی دنوں تک بشمول جلسہ سالانہ کے ایام میں حضور کی طبیعت خراب ہی رہی مگر پھر بھی آپ کے کام کا معمول اس سے ذرا بھی متأثر نہ ہوا۔

کبھی آرام نہ کرنا

حضور انورنے جب بھی مجھ سےفرمایا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے تو میں ہمیشہ یہ خواہش کرتا کہ میں کسی طرح سے بھی آپ کی کوئی خدمت کرسکوں۔میں سوچتا کہ اے کاش میں نے طبّ پڑھی ہوتی اور ڈاکٹر بن جاتا تو حضور کی بہت بہتر انداز میں خدمت کی توفیق پا سکتا۔

شاید میرے خیالات کو پڑھ کر ایک موقع پر حضورانور نے فرمایا کہ ڈاکٹرز مشورے دیتے رہتے ہیں، لیکن شفا صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

ہماری شدید خواہش کہ حضور کچھ آرام فرمائیں یا اپنی ذات کے لیے کچھ وقت صرف کریں کے باوجودبھی کہ آپ شاذ و نادر ہی ایسا کرتے ہیں۔

گذشتہ موسم ِگرما میں جلسہ سالانہ یو کے سے چند ہفتے قبل میں اپنے بچوں کے ساتھ گھر پر موجود تھا۔ بچوںنے پوچھا کہ کیا ہمارے لیے چند دنوں کے لیےگرمیوں کی چھٹیوں پر جانا ممکن ہو گا؟میرے ذہن میں خیال آیا کہ شاید ہم برطانیہ اور جرمنی کے جلسوں کے درمیان تین یا چار دن کے لیے سپین جا سکیں۔ تاہم یہ محض ایک سرسری خیال تھا اور مَیں یقینی طور پر اس مرحلے پر نہیں پہنچا تھا کہ جہاں میں نے حضور سے اس کی بابت اجازت طلب کرنے پر غور کیا ہو۔

اسی روزدورانِ ملاقات میری رپورٹ ملاحظہ فرمانے کے بعد حضورِ انور نے مسکراتے ہوئے استفسار فرمایا کہ کیا کچھ اَور کہناہے؟

اگرچہ میں نے کچھ بتانے کا ارادہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس حوالے سے کچھ غور و خوض کرنے کا موقع ملا تھاتاہم میں نے پھر بھی حضورانور کی خدمت میں بےساختہ درخواست کردی کہ کیا ہمیں گرمی کی چھٹیوں میں سپین کا سفر اختیار کرنے کی اجازت مل سکتی ہے؟

اچانک میں نے حضور کے رویے میں تبدیلی دیکھی اور آپ کا لہجہ سخت ہو گیا۔ مجھے آپ کے معیّن الفاظ تویاد نہیں لیکن میں محسوس کر سکتا تھا کہ حضور خوش نہیں۔ چنانچہ چند سیکنڈز میں حضور نے عندیہ دیا کہ ملاقات ختم ہو گئی ہے اور مجھے آپ کے دفتر سے چلے جانا چاہیے۔

میں دنگ رہ گیا اور سخت پریشان ہوا۔مجھے اپنے آپ پر غصہ بھی آیا کہ میں نے ایسی درخواست کیوں کی جبکہ میں نے ابھی اس کے بارے دعا بھی نہیں کی تھی اور نہ ہی اس بارے پہلے تسلی سے غور کر لیا تھا۔

ماضی میں جب کبھی میں نے حضور انور سےرخصت کی درخواست کی تو حضور نے ہمیشہ اجازت مرحمت فرمائی اور مجھے اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کی ترغیب دلائی۔یہی حسنِ سلوک دیگر واقفینِ زندگی یا عہدیداران کے ساتھ بھی برابر جاری رہتا ہے۔ چنانچہ افسوس کرتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اتنے مصروف عرصے میں چھٹی مانگنا مناسب نہیں۔ مجھےانتہائی ندامت محسوس ہوئی۔

میں نے فوراً حضور انور کی خدمت میں معافی کا خط لکھااور میری ساری شام خوف کے عالم میں گزری۔

اگلے دن جب میں ملاقات کے لیے گیا تو مجھے بہت گھبراہٹ اور فکر مندی لاحق تھی کہ کیا اب تک حضورکو میرا خط موصول ہوا بھی ہو گا اور کیا حضور مجھ سےاب بھی ناراض ہیں؟ جیسے ہی میں حضور انور کے دفتر میں داخل ہوا تومجھے فوری سکون محسوس ہوا کیونکہ میں نے مشاہدہ کیا کہ حضور نے ایک خوبصورت اور دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا۔اس سے پہلے کہ میں کچھ عرض کرتا، حضور انور نے فرمایا کہ کل جب تم نے سپین کے وزٹ کا ذکر کیا تھا تو مجھے غلط فہمی ہوئی کہ تم مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ مجھے برطانیہ اور جرمنی کے جلسوں کے درمیان وقفہ لیتے ہوئےسپین جانا چاہیے! میں سوچ رہا تھا کہ تمہیں ایسی چیز تجویز کرنے کی آخر ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ پھر حضور انورنے فرمایاکہ اگرتم اپنے اہل خانہ کے ساتھ جانا چاہتے ہو تو تم ضرور جا سکتے ہو۔

مجھے محسوس ہوا کہ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے مجھ پر احساسِ غلطی کا جو بھاری بوجھ وارد ہوا تھا وہ رفع ہو گیا۔اس کے بعد میں نےعرض کیاکہ حضور! مجھے سپین جانے کی اب کوئی خواہش نہیں، مجھے نہیں معلوم کہ میں نے حضور سےاس کا ذکر کیوں کردیا۔یہ میری طرف سے سرزد ہونے والی ایک غلطی تھی۔

حضورانور نے جواباً فرمایا کہ مجھے فکر نہیں کرنی چاہیے اور اگر میں چھٹی کرنا چاہتا ہوں تو ضرور کروں۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنی میز پر سے کیلنڈر اُٹھایا اور مجھے مخصوص تاریخیں بتائیں جہاں میں چھٹی لے سکتا تھا۔میں نے حضور انور کا شکریہ ادا کیا لیکن دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ میں کوئی رخصت نہیں لوں گا۔

اس کے باوجود حضورانور نہیں بھولے اور چند ہفتوں بعد خود ہی استفسار فرمایا کہ میں کب رخصت لینے کا ارادہ رکھتا ہوں؟ اس وقت میں نے دوبارہ حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے چھٹی نہیں چاہیے۔ تاہم حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ مجھے چھٹی لینی چاہیے اور اگر میں بیرون ملک نہیں بھی جا رہا تو مجھے اپنی فیملی کو برطانیہ میں ہی کہیں لے جانا چاہیے۔ چنانچہ حضور انورکی ہدایت کی تعمیل میں ماہِ اگست میں ہم شمالی انگلستان میں ایک بہت ہی خوشگوار جگہ مختصر چھٹی کے لیے گئے جس کے بارے میں ہمارے بچےآج بھی بڑی خوشی سے بات اور یاد کرتے رہتے ہیں۔

اپنے لیے رخصت پر جانے کی تجویزسمجھنے پر حضور انور نے جو رد عمل دکھایا وہ آپ کی بطور خلیفۃ المسیح اپنی ذمہ داریوں کو مکمل وفا کے ساتھ پورا کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔جو بھی ذاتی وقت، خواہشات یا دلچسپیاں حضور انور رکھتے ہیں وہ سب آپ جماعت کی خدمت کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔

(باقی آئندہ جمعہ کو انشاء اللہ)

(مترجم:قمر احمد ظفر۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button