حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

عملی اصلاح کے لئے قوّتِ ارادی، صحیح اور پورا علم اور قوتِ عمل (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍ جنوری ۲۰۱۴ء)

واضح ہو کہ دین کے معاملے میں قوتِ ارادی ایمان کا نام ہے۔ اور جب ہم اس زاویے سے دیکھتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے کہ عملی قوت ایمان کے بڑھنے سے بڑھتی ہے۔ اگر پختہ ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر انسان کے کام خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر مشکل اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آسان ہوتی چلی جاتی ہے۔ عملی مشکلات اس ایمان کی وجہ سے ہوا میں اُڑ جاتی ہیں اور آسانی سے انسان اُن پر قابو پا لیتا ہے۔ اور یہ صرف ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ عملاً اس کے نمونے ہم دیکھتے ہیں۔ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر نظر ڈالتے ہیں تو ایمان سے پہلے کی عملی حالتوں اور ایمان کے بعد کی عملی حالتوں کے ایسے حیرت انگیز نمونے نظر آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو لوگ ایمان لائے وہ کون لوگ تھے؟ اُن کی عملی حالت کیا تھی؟ تاریخ ہمیں اس بارے میں کیا بتاتی ہے؟ اُن ایمان لانے والوں میں چور بھی تھے۔ اُن میں ڈاکو بھی تھے۔ اُن میں فاسق و فاجر بھی تھے۔ اُن میں ایسے بھی تھے جو ماؤں سے نکاح بھی کر لیتے تھے، ماؤں کو ورثے میں بانٹنے والے بھی تھے۔ اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے والے بھی تھے۔ اُن میں جواری بھی تھے جو ہر وقت جؤا کھیلتے رہتے تھے۔ اُن میں شراب خور بھی تھے اور شراب کے ایسے رسیا کہ اس بارے میں اُن کا مقابلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ شراب پینے کو ہی عزت سمجھتے تھے۔ ایک دوسرے پر شراب پینے پر فخر کرتے تھے کہ میں نے زیادہ پی ہے یا مَیں زیادہ پی سکتا ہوں۔ ایک شاعر اپنی بڑائی اور فخر اس بات پر ظاہر کرتا ہے کہ میں وہ ہوں جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر بھی شراب پیتا ہوں۔ پانی کو تو ہاتھ ہی نہیں لگاتا۔ جواری اپنے جُوئے پر فخر کرتے ہوئے یہ کہتا تھا کہ میں وہ ہوں جو اپنا تمام مال جُوئے میں لٹا دیتا ہوں اور پھر مال آتا ہے تو پھر اُسے جُوئے میں لٹا دیتا ہوں۔ شاید آج بڑے سے بڑا جواری بھی کھل کر یہ اعلان نہ کرتا ہو۔ بہرحال یہ حالت اُن کی اُس وقت تھی۔

پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو اُن کی حالت کس طرح پلٹی، کیسا انقلاب اُن میں پیدا ہوا، کیسی قوتِ ارادی اس ایمان نے اُن میں پیدا کی؟ اس کے واقعات بھی تاریخ ہمیں بتاتی ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی جلدی اتنا عظیم انقلاب اُن میں پیدا ہو گیا؟ ایمان لاتے ہی اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب دین کی تعلیم پر عمل کے لئے ہم نے اپنے دل کو قوی اور مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ خدا تعالیٰ کے احکامات کے خلاف اب ہم نے کوئی قدم نہیں اُٹھانا۔ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم ہمارے لئے حرفِ آخر ہے۔ اُن کا یہ فیصلہ اتنا مضبوط، اتنا پختہ اور اتنے زور کے ساتھ تھا کہ اُن کے اعمال کی کمزوریاں اُس فیصلے کے آگے ایک لمحے کے لئے بھی نہ ٹھہر سکیں۔ اُن کے حالات ایسے بدلے کہ وہ خطرناک سے خطرناک مصیبت اپنے پر وارد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور نہ صرف تیار ہوئے بلکہ اس قوتِ ارادی نے جو انہوں نے اپنے اندر پیدا کی، اُن کے اعمال کی کمزوری کو اس طرح پرے پھینک دیا اور اُن سے دور کر دیا جس طرح ایک تیز سیلاب کا ریلا، تیز پانی کا ریلا جو ہے ایک تنکے کو بہا کر لے جاتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمودجلد 17صفحہ443-444 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936ء مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن)

ابھی شراب کی مثال دی گئی ہے کس طرح وہ شراب پیتے تھے اور کس قدر اُن کو اس بات پر فخر تھا۔ جب اس کا نشہ چڑھتا ہے تو کیا حالت انسان کی بنا دیتا ہے۔ ان ملکوں میں رہنے والے یہاں کے شرابیوں کے نمونے اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔ ہماری مسجد فضل کی سڑکوں پر بھی ایک شرابی پھرتا ہے اور اُس کے پاس سوائے شراب کے ٹِن کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ گندے کپڑے لیکن شراب خرید لیتا ہے۔ مجھے یہ بھی پتا چلا ہے کہ وہ پڑھا لکھا بھی ہے اور شاید کسی زمانے میں انجینئر بھی تھا۔ بہرحال اب تو کچھ کام نہیں کرتا، ویسے بھی اُس کی عمر ایسی ہے۔ کونسل سے جو کچھ ملتا ہے اُس کو، حکومت سے شاید جو بھی خرچہ ملتا ہو، وہ سب شراب پر خرچ کر دیتا ہے۔ سڑکوں پر زندگی گزارتا ہے۔ نشے نے اُس کی دماغی حالت بھی خراب کر دی، بیچارہ بالکل مفلوج ہو گیا۔ نشے کی حالت میں جب وہ ہو تو اُسے دیکھ کے ڈر لگتاہے۔ کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ وہ عورتوں کو راہ چلتے روک لیتا ہے، باوجودیکہ وہ اس ماحول میں رہنے والی انگریز عورتیں ہیں لیکن اُن کے چہروں سے خوف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے۔ تو بہر حال شراب کے نشے نے اُس کی یہ حالت بنائی ہے۔ ایسے شرابی بھی عام ملتے ہیں جو نشے میں اتنے غصیلے ہو جاتے ہیں کہ ماں باپ کو بھی گالیاں دیتے ہیں۔ عجیب عجیب حرکتیں اُن سے سرزد ہوتی ہیں۔…۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ہے کہ جس سے آپ کو ایک ٹرین کے سفر کے دوران واسطہ پڑا۔ وہ ایک معزز خاندان کا شخص تھا۔ شاید حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جانتا بھی تھا اور پونچھ کے کسی وزیر کا بیٹا بھی تھا۔ وہ ٹرین کے اس سفر میں نشے میں ایسی باتیں کہہ رہا تھا جو عقل و ہوش قائم ہونے کی صورت میں کبھی انسان کہہ نہیں سکتا۔ تو حضرت مصلح موعودؓنے فرمایا کہ یہ شراب کا جو نشہ ہے انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور نشے میں اُسے بالکل پاگل بنا دیتا ہے۔

مگر دوسری طرف ہم قوتِ ارادی کا ایسا انقلاب دیکھتے ہیں کہ بعض غیر مسلم اس پر مشکل سے یقین کرتے ہیں۔ یہ قوتِ ارادی ایمان کی قوتِ ارادی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کی۔ اس کا نظارہ ہمیں اس روایت سے ملتا ہے کہ چند صحابہ ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ دروازے بند تھے اور یہ سب شراب پی رہے تھے اور اُس وقت ابھی شراب نہ پینے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور شراب پینے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی نہیں تھی۔ جس کا جتنا دل چاہے، پیتا تھا، نشے میں بھی آ جاتے تھے۔ شراب کا ایک مٹکا اس مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے خالی کر دیا اور جو مٹکا ہے وہ بھی کئی گیلن کا ہوتا ہے۔ اور دوسرا شروع کرنے لگے تھے کہ اتنے میں گلی سے آواز آئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ آج سے مسلمانوں پر شراب حرام کی جاتی ہے۔ اس آواز کا ان لوگوں تک پہنچنا تھا کہ اُن میں سے ایک جو شراب کے نشے میں مزا لے رہا تھا، اُس میں مدہوش تھا، دوسرے کو کہنے لگا کہ اُٹھو اور دروازہ کھول کر اس اعلان کی حقیقت معلوم کرو۔ ان شراب پینے والوں میں سے ایک شخص اُٹھ کر اعلان کی حقیقت معلوم کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک دوسرا شخص جو شراب کے نشے میں مخمور تھا اُس نے سوٹا پکڑا اور شراب کے مٹکے پر مار کر اُسے توڑ دیا۔ دوسروں نے جب اُسے یہ کہا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ پہلے پوچھ تو لینے دیتے کہ حکم کا کیا مفہوم ہے اور کن لوگوں کے لئے ہے؟ تو اُس نے کہا پہلے مٹکے توڑو، پھر پوچھو کہ اس حکم کی کیا حقیقت ہے؟ کہنے لگا کہ جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی آواز سن لی تو پہلے تو حکم کی تعمیل ہو گی۔ پھر میں دیکھوں گاکہ اس حکم کی قیود کیا ہیں؟ اُس کی limitationsکیا ہیں؟ اور کن حالات میں منع ہے۔ پس یہ وہ عظیم الشان فرق ہے جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور دوسروں میں نظر آتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمودجلد17صفحہ 445-446 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936ء مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button