متفرق مضامین

تعلیم الاسلام کالج کے چند سنگ میل اور مقاصد عالیہ (تقریر بر موقع سالانہ عشائیہ تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن برطانیہ منعقدہ ۲۱؍اپریل ۲۰۲۴ء)

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

آج کی سالانہ عشائیہ کی تقریب خاص اہمیت اور برکات کی حامل ہے۔اس سے ایک تو مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے اور ماضی کی پرانی یادیں تازہ ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ ان بزرگ اساتذہ کی یادیں بھی تازہ ہوتی ہیں اور ان کا ذکر بھی ہوتا ہے جو ہماری تعلیم اور تربیت کا باعث تھے۔ اس طرح دعائوں کی تحریک بھی ہوتی ہے اور ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی بھی تحریک ہوتی ہے۔

تعلیم الاسلام کالج دنیا میں ایک منفرد تعلیمی ادارہ ہے۔ جس کا اجراحضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کے ساتھ ہوا۔ اور آپ نے اس ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے ایک جلیل القدر لائحہ عمل متعین فرمایا۔ جس پر عمل کرنا اور جسے ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنا ہمارا اوّلین فرض ہے۔

آج کے اس مختصر وقت میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سےکالج کے چند سنگ میل مقاصد عالیہ، دعائیں اور توقعات کا ذکر کرنے کی کوشش کروں گا۔

تعلیم الاسلا م کالج کی افتتاحی تقریب مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۳ء کو قادیان میں منعقد ہوئی۔ پہلے یہ پروگرام تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ خود اس تقریب میں شامل ہوں گے۔ مگر آپؑ ناسازیٔ طبیعت کی وجہ سے خود تشریف نہ لاسکےاورپیغام بھجوایا کہ ’’میں اس وقت بیمار ہوں حتیٰ کے چلنے سے بھی معذور ہوں۔ وہاں حاضر ہونے سے بہت بہتر کام یہاں کرسکتا ہوں کہ اُدھر جس وقت افتتاح ہوگا میں بیت الدعاء میں جاکر دُعا کروں گا۔‘‘

چنانچہ افتتاح کی تقریب حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ  کی زیر صدارت ہوئی۔

آپؓ نے اپنے خطاب میں کرہ ارض نیز سائبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ تم کو اس قرب الٰہی کے حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کالج کی اصل غرض یہی ہے کہ دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت ہو۔ اللہ تعالیٰ تم کو توفیق دے کہ قرآن مجید پر عمل ہو اور کرہ زمین پر عزت سے زندگی بسر کرو۔

۱۹۰۵ء میں چار طلبہ نے امتحان میں حصہ لیا اور تین طلبہ ایف اے میں کامیاب ہوئے۔ حکومت ہند نے اس سال کالجوں کے قیام کے سخت قوانین منظور کیے چنانچہ بامر مجبوری کالج کو بند کرنا پڑا اور لمبا عرصہ کالج بند رہا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے آغاز خلافت میں ہی اس کے احیاکی تجویز کی۔ آپ نے ۱۲؍اپریل ۱۹۱۴ء کی مشاورت میں فرمایا:’’ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی زندگیوں کو مفید اور مؤثر بنانے کے لئے اپنا ایک کالج بنائیں۔‘‘(انوارالعلوم جلد ۲صفحہ۵۱)مگر گوناگوں مجبوریوں کے باعث یہ کام ۳۰؍سال تک التواء کا شکار رہا۔

۱۹۴۳ء کی مجلس مشاورت کے دوران اللہ تعالیٰ نے حضورؓکے دل میں تحریک فرمائی کہ جلد سے جلد اپنا کالج کھول دینا چاہئے اور پھر اس تحریک کے فوائد اور نتائج بھی حضور کو سمجھادیے۔ (الفضل ۳۱؍مئی ۱۹۴۴ءصفحہ۵)

حضور نے کالج میں احمدی بچوں کے داخلہ کےلیے خصوصی تحریک اور جد و جہد کی اور فرمایا:’’ہروہ احمدی جس کے شہر میں کالج نہیں وہ اگر اپنے لڑکے کو کسی اور شہر میں تعلیم کے لئے بھیجتا ہے تو کمزوری ایمان کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ میں کہوں گا ہر وہ احمدی جو توفیق رکھتا ہے کہ اپنے لڑکے کو تعلیم کے لئے قادیان بھیج سکے خواہ اس کے گھر میں ہی کالج ہو اگر وہ نہیں بھیجتا اور اپنے ہی شہر میں تعلیم دلواتا ہے تو وہ بھی ایمان کی کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے۔‘‘(الفضل ۲۰؍مئی ۱۹۴۴ء)

مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۴۴ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ میں کالج کے قیام کی تحریک فرمائی اور ڈیڑھ لاکھ کی رقم کا مطالبہ کیا۔ آپ نے کالج کے قیام کے لیے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ  کی زیر صدارت ایک کمیٹی قائم کی اور کالج کا نام ’’تعلیم الاسلام کالج‘‘رکھاگیا۔ اس کمیٹی کی تجویز پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ  کو ۷؍مئی  ۱۹۴۴ء کو کالج کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ پہلے سال ۸۰؍طلبہ نے کالج میں داخلہ لیا۔

تعلیم الاسلام کالج قادیان کا ماحول خالصتاً دینی تھا تاہم دنیاوی علوم پر بھی بہت توجہ دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف سوسائٹیز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ کالج میں طلبہ کی قوت بیان بڑھانے کے لیے debatesکا طریق اختیارکیا گیا۔ اسی طرح کھیلوں کی طرف بھی خصوصی توجہ دی گئی۔

۴؍جون ۱۹۴۴ء کی تقریب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ تعلیم الاسلام کالج اپنے دروازے ہر قوم اور ہر مذہب کے لیے کھلے رکھے گا۔ ایک غرض اس کالج کے قیام کی یہ ہے کہ مذہب پر جو اعتراضات مختلف علوم کے ذریعے کئے جاتے ہیں، ان کا انہی علوم کے ذریعہ ردّ کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارے لڑکے ہمارے ہاں تعلیم پائیں اور تعلیم و تربیت میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ تقویٰ اور خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کسی وقت مجھے یہ احساس پیدا ہوا کہ کالج دین کی تائید کےبجائے بے دینی کا سبب بن رہا ہےتو بہتر ہوگا کہ ہم کالج کو بند کردیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقین کالج میں تعلیم پانے والے لڑکوں کے دلوں میں مضبوطی سے پیدا کردیں اور ان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی وحدانیت کا یقین لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے۔ آمین اللھم آمین۔

جون ۱۹۴۴ء سے جون ۱۹۴۷ء تک کالج قادیان میں قائم رہا۔ تقسیم ہند کے بعد کالج منتقل ہوا اور جماعت کے بعض بزرگوں نے مشورہ دیا کہ جماعت کی مالی حالت کے باعث ابھی کالج کے اخراجات پورے نہیں ہوسکیں گے۔ آپؓ نے ان کی باتوں کو سن کر بڑے جوش سے فرمایا:’’آپ کو پیسوں کی کیوں فکر پڑی ہوئی ہے۔ کالج چلے گا اور کبھی بند نہیں ہوگا۔‘‘

۳؍ستمبر ۱۹۴۷ء کو ایک بوسیدہ عمارت بمقام ۳۷کنال پارک لاہور میں( جو پہلے ایک ڈیری فارم کے طور پر استعمال ہوتی تھی) کالج کا آغاز ہوا۔ طلبہ کی تعداد ۶۰کے قریب ہوئی۔ لڑکے صفوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے۔ وہیں نمازیں ہوتیں وہیں کھانا بھی کھایا جاتا۔

۱۶؍اپریل۱۹۴۸ کوDAV کالج کی بوسیدہ عمارت الاٹ ہوئی۔ فرنیچر اور الماریاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ لیبارٹری میں محض ٹوٹے ہوئے شیشوں کی بوتلیں تھیں۔ ان ناگفتہ بہ حالات کے باوجود کالج کا نتیجہ ۹۰فیصد رہا۔ جبکہ یونیورسٹی کا نتیجہ صرف ۳۹ فیصد تھا۔

۱۹۵۰ء میں رسالہ’’المنار‘‘کا اجرا ہوا۔ اسی سال پہلی بار تقسیم اسناد کی تقریب ہوئی جس سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطاب فرماتے ہوئے کہا’’اے خدائے واحد کے منتخب کردہ نوجوانو ! اسلام کے بہادر سپاہیو ! ملک کی امید کے مرکزو ! قوم کے سپوتو ! آگے بڑھو کہ تمہارا خدا، تمہارا دین، تمہارا ملک اور تمہاری قوم محبت اور امید کے مخلوط جذبات کے ساتھ تمہارے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں۔‘‘حضور کا یہ پیغام آج بھی اسی جذبہ کے ساتھ فضا میں گونج رہا ہے۔

۱۹۵۴ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں منتقل ہوگیا۔ نئے کالج کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ۶؍دسمبر ۱۹۵۴ء کو فرمایا۔آپ نے فرمایا:’’تعلیم الاسلام کالج میں طلبہ کو اس لئے داخل کیا گیا ہے کہ دین کے ساتھ دنیاوی علوم بھی سیکھیں۔‘‘

آ پؓ نےآخر میں دُعا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کالج کو اس مقصد کا پورا کرنے والا بنائےجس کے لیے اسے قائم کیا گیا ہے۔ اس کے طالب علم رسول کریم ؐ کے شاگردہوں جو لوگوں کو آپ کا صحیح چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوں۔‘‘نوٹ کریں یہ ہمارے لیے کتنا بڑا چیلنج ہے۔

۱۹۶۱ء میں کالج میں ریاضی اور کیمسٹری کی کلاسیں شروع ہوئیں۔ ۱۹۶۲ء میں B.Sc Zoologyکا اجرا ہوا۔ ۱۹۶۸ء میں شعبہ فزکس کے لیے نہایت قیمتی آلات خریدے گئے۔ اور یوں ہماری تجربہ گاہیں اعلیٰ آلات سے مزین ہوگئیں۔۱۹۶۹ء میں تعلیم الاسلام کالج میں ایم ایس سی فزکس کا اجرا ہوا۔

تعلیم الاسلام کالج کی پہلی کانووکیشن ۲؍اپریل۱۹۵۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی زیر صدارت تعلیم الاسلام کالج لاہور کے ہال میں منعقد ہوئی۔حضورؓ نے طلبہ کوجونصائح فرمائیں وہ عملِ مسلسل آج بھی ہر احمدی طالب علم کی یقینی کامیابی کی ضمانت ہے۔ آپؓ نے فرمایا :’’یہ نہ سمجھو کہ اب (ڈگری حاصل کر لینے کے بعد) تعلیم مکمل ہو گئی ہے بلکہ اپنے علم کو باقاعدہ مطالعہ سے بڑھاتے رہو اور ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد کے لیے تیار ہو جاؤ اور قرآنی منشاء کے مطابق اپنا قدم آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہو۔

اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ وہ آپ کو صحیح کام کرنے، اور صحیح وقت پر کام کرنے اور صحیح ذرائع کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر اس کام کے صحیح اور اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرے۔

یاد رکھو کہ تم پر صرف تمہارے نفس ہی کی ذمہ داری نہیں۔ تم پر اس ادارے کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہیں تعلیم دی ہے۔اور اس خاندان کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہاری تعلیم پر خرچ کیا۔خواہ بالواسطہ یا بلا واسطہ۔اور تمہارے ملک کی بھی ذمہ داری ہے کہ جس نے تمہاری تعلیم کا انتظام کیااور پھر تمہارے مذہب کی بھی ذمہ داری ہے۔

تمہارے تعلیمی ادارے کی جو تم پر ذمہ داری ہے وہ چاہتی ہے کہ تم اپنے علم کو زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھے طور پر استعمال کرو۔یونیورسٹی کی تعلیم مقصود نہیں۔وہ منزل مقصود کو طے کرنے کے لیے پہلا قدم ہے۔یونی ورسٹی تم کو جو ڈگریاں دیتی ہے وہ اپنی ذات میں کوئی قیمت نہیں رکھتیںبلکہ ان ڈگریوں کو تم اپنے آئندہ عمل سے قیمت بخشتے ہو۔

ڈگری صرف تعلیم کا ایک تخمینی وزن ہے۔ ایک تخمینی وزن ٹھیک بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہو سکتا ہے۔محض کسی یونی ورسٹی کے فرض کر لینے سے کہ تم کو علم کا ایک تخمینی وزن حاصل ہو گیا ہے، تم کو علم کا وہ فرضی درجہ نصیب نہیں ہو سکتاجس کے اظہار کی یونی ورسٹی ڈگری کے ساتھ کوشش ہوتی ہے۔

تمہیں یاد رکھنا چاہئےکہ یونیورسٹیاں اتنا طالب علم کو نہیں بناتیں جتنا طالب علم یونیورسٹیوں کو بناتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لو کہ ڈگری سے طالب علم کی عزت نہیں ہوتی ہے۔پس تمہیں اپنے پیمانۂ علم کو درست رکھنے بلکہ اس کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور اپنے کالج کی تعلیم کو اپنی عمر کا پھل نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اپنے علم کی کھیتی کا بیج تصور کرنا چاہئے اور تمام ذرائع سے کام لےکر اس بیج کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے تاکہ اس کوشش کے نتیجے میں ان ڈگریوں کی عزت بڑھے جو تم آج حاصل کررہے ہو اور تمہاری قوم تم پر فخر کرنے کے قابل ہو۔

پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی نئی منزل پر عزم، استقلال اور علو حوصلہ سے قدم مارو۔ قدم مارتے چلے جائواور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم بڑھاتے چلے جائو کہ عالی ہمت نوجوانوں کی منزل اوّل بھی ہوتی اور منزل دوم بھی ہوتی ہے، منزل سوم بھی ہوتی ہےلیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی…..ان کی منزل کا دور اسی وقت ختم ہوتا ہےجبکہ وہ کامیاب اور کامران ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے حاضر ہوتے ہیںاور اپنی خدمت کی داد اس سے حاصل کرتے ہیں۔وہ ایک ہی ہستی ہے جو کسی کی خدمت کی صحیح داد دے سکتی ہے۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓنے تعلیم الاسلام کالج ربوہ کا افتتاح کرتے ہوئے یہ دعا کی:’’اب میں دعا کردیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیک خواہشات کو پورا فرمائے اور یہ بیج جو آج اس مقام پر ہم بورہے ہیں اس سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہو جس کی ایک ایک ٹہنی ایک بڑی یونیورسٹی ہو، ایک ایک پتہ کالج ہو اور ایک ایک پھول اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کی ایک اعلیٰ درجہ کی بنیاد ہو جس کے ذریعہ کفر اور بدعت دنیا سے مٹ جائے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت اور خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی وحدانیت کا یقین لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے۔‘‘(تاريخ احمديت جلد ۹صفحہ۵۳)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان زندگی بخش ہدایات کو سمجھنے والے اور ان پر دل و جان سے عمل کرنے والے ہوں۔ اور ہماری اولادوں کے ذریعہ یہ ارفع و اعلیٰ مقاصد تاقیامت زندہ رہیں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button