یادِ رفتگاں

منصور احمد عارف ڈھلوں (مرحوم) کی دلنواز شخصیت اور دورِ طالب علمی میں ربوہ اور گورنمنٹ کالج لاہور کی کچھ یادیں

(ڈاکٹر محمد احمد۔ مانچسٹر۔ یوکے)

ایک بہترین دوست جس کی صرف ایک سال کی دوستی آج تقریباً سینتیس۳۷ سال بعد بھی نہ بھولنے والے واقعات و اثرات چھوڑ گئی۔ منصور کئی سمتوں سے نہایت اعلیٰ کردار کا مالک انسان تھا۔ ایک اچھا احمدی، اچھا طالب علم، اچھا ہمسایہ، اچھا ہم سفر، اچھا بیٹا اور اچھا شہری۔ہر لحاظ سے خوبصورتی اس کی شخصیت میں موجود تھی۔منصور کا تعلق دارالصدر غربی حلقہ قمر سے تھا۔ اس کے والد محترم شریف ڈھلوں صاحب بھی ایک شریف النفس اور باہمت انسان تھے۔ شریف ڈھلوں صاحب سے بھی جب ملاقات ہوئی اچھی باتیں ہی سنیں بلکہ ان سے ملاقات کسی نہ کسی خوشی کا ہی پیش خیمہ بنتی تھی۔

منصور نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ ربوہ میں ڈگری کالج سے لے کر مسجد اقصیٰ تک دارالعلوم کے سامنے کی ساری زمین اس کی ہے اور آگے مزید اس کے رشتہ داروں کی زمینیں ہیں۔ لیکن اس قدر بڑا زمیندار ہونے کے باوجود اس کی ذات میں کبھی غرور نہ تھا۔ کبھی یہ بات نہیں دہرائی۔

منصور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ہمارے گروپ سے ایک سال پہلے دسویں کرچکا تھا اور پھر کالج میں بھی آگے تھا۔اس طرح میری اس سے تعلیم الاسلام کالج میں بھی کوئی واقفیت نہ تھی۔ چونکہ زمین کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی اس کے پاس تھی یوں ربوہ میں کوئی واقفیت کا موقع نہ بنا۔

میرے محلّے سے متصل دارالیمن سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست مبشر احمد خان (سٹٹ گارٹ جرمنی) منصور کے کلاس فیلو تھے۔ مبشر کے ذریعے علم ہوا کہ واقعی منصور ایک انمول اور نایاب قسم کا انسان تھا جو ہر جہت سے خوبیوں سے پُر تھا۔ مبشر بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ منصور ٹریکٹر پنجالی سمیت سڑک پر چلارہا تھا۔ ایک سائیکل سوار اس کے ہارن سے ڈر گیا۔ اس نے منصور کو بُرا بھلا کہا۔ منصور نے رُک کر اس سے معذرت کی اور اس کی کچھ مالی مدد بھی کی اور کہا کہ ہارن کا مقصد ہی آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ میں نے تو معذرت کرلی مگر کوئی اَور ہوتا تو اُلٹا آپ پر برسنے لگتا۔

منصور سے میری دوستی گورنمنٹ کالج لاہور میں ہوئی اور وہیں ختم بھی ہوگئی۔ لیکن اس گورنمنٹ کالج کے دَور سے قبل ربوہ میں اپنے روزوشب کا ذکر کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ قارئین کو ربوہ کے اُس خوبصورت ماحول کا کچھ اندازہ ہوسکے۔

۱۹۸۵ء میں مَیں تعلیم الاسلام کالج سے B.Scفزکس ڈبل میتھ کے ساتھ کرچکا تھا۔ میرے B.Scکے دوست محمود احمد ملک صاحب (کارکن الفضل انٹرنیشنل لندن) جو ملک محمد احمد صاحب (دارالرحمت شرقی۔ ریلوے روڈ) واقفِ زندگی کے فرزند ارجمند ہیں اور منصور کے کلاس فیلو بھی رہے ہیں اور حلیم انسان ہیں۔ ان سے بھی ہمیشہ منصور کا ذکرِ خیر ہی سنا۔ B.Scکے دوستوں میں اظہرسیفی (ابن نسیم سیفی صاحب سابق مدیر الفضل ربوہ) بھی تھےجو منصور کی خوبیوں کے معترف ہیں۔

۱۹۸۵ءکی گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ خلافت لائبریری میں احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی طرف سے فری کوچنگ کلاس کا اجرا ہوا جس کے زیادہ تر ممبران لاہور کی یونیورسٹی و کالج کے طلبہ پر مشتمل تھے اور وہی اس کے انتظامی امور کو بھی سنبھالتے تھے۔ ہم ربوہ کے چند لوگ F.Scکے طلبہ کو پڑھانے پر مامور کیے گئے۔انگلش کے لیے مکرم بشیر احمد خان صاحب دارالرحمت شرقی (ب)، فزکس کے لیے مکرم عطاءالحبیب خالددارالصدر شرقی (کوارٹرز)، کیمسٹری کے لیے مکرم فرخ کامران دارالصدر شمالی، بائیولوجی کے لیے ڈاکٹر سلطان احمد مبشر دارالصدر شرقی (کوارٹرز) اور مکرم برہان الدین مبشر احمد فیکٹری ایریا جبکہ ریاضی کے لیے خاکسار محمد احمد دارالنصر غربی نے اپنی اپنی خدمات پیش کیں۔

اس فری کوچنگ کلاس کی کامیابی میں لائبریری کے عملے کا بھی کردار تھا جو اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کے علاوہ ہم ٹیچروں سے بہت اچھا سلوک اور ہماری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ہر چیز کی فراہمی کرتے۔ ان میں حبیب الرحمٰن زیروی صاحب اور مولوی محمد صدیق صاحب نمایاں ہیں۔

ان معاونین کے علاوہ اُن پڑھنے والے بچوں کی بھی تعریف یہاں ضروری ہے جو ہر صبح حصولِ علم کے لیے خلافت لائبریری آتے اور دوپہر تک ایک کے بعد دوسرے ٹیچر کی کلاس میں حاضر ہوتے۔ کلاسز میں اُن کی دل چسپی کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا تھا کہ ان میں حاضری اچھی خاصی رہتی۔

ان کلاسوں کا ہم نوآموز ٹیچروں پر بھی کافی اچھا اثر پڑرہا تھا۔ ہم ایک تعلیمی ماحول میں آگے کی پلاننگ کرتے رہتے تھے۔اچھے اچھے لوگوں سے رفاقت رہتی۔ یہاں مکرم بشیر احمد خان کا ذکر ضروری ہے۔یہ پاکستان ائیر فورس سے ریٹائرڈ آفیسر جو نہایت بااصول ہونے کے ساتھ ساتھ سچائی اور کھری کھری بات کرنے کے قائل تھے۔شام کو اپنے گھر دارالرحمت سے پیدل دارالصدر شمالی کی مسجد انوار میں آکرمغرب ادا کرتے۔اکثر مَیں ان کی باتیں سننے کے لیے دارالنصر غربی سے آتا۔ کمال کے انسان تھے۔ بعد ازاں اپنی فیملی کے ہمراہ کینیڈا منتقل ہوگئے اور وہیں وفات پاگئے۔

اس کوچنگ کلاس کے لیے نظارت تعلیم نے ہماری کافی مدد کی۔ان دنوں ناظر محترم مرزا غلام احمد صاحب مرحوم ہوا کرتے تھے۔ میاں صاحب نہایت اعلیٰ شخصیت کے مالک، کم گو اور اچھے انسان کی قدر کرنے والے، اچھے ناظر اور اچھے انسان تھے۔ان کے دفتر میں جانا ہوتا تو فزکس کی اچھی تیاری لازمی ہوتی جو کہ ان کے سوالات کا جواب دینے کے لیے ضروری ہوتا۔ ان کے عملہ میں مکرم عطاء الرحمٰن صاحب آف گھسیٹ پورہ فیصل آباد بھی بہت اچھے انسان تھے جو طلبہ کی معمول سے بڑھ کر مدد کرنے والے شخص تھے۔ مکرم میاں صاحب نے لاہور میں پڑھائی کرنے کے سلسلے میں ہماری بہت مدد کی اور ایک لمبا عرصہ تک ہماری مدد کرتے رہے جس کا ذکر بعد میں بھی آئے گا۔

M.Scکے لیے میرا ارادہ لاہور میں کسی یونیورسٹی یا کالج میں داخلہ لینے کا تھا۔ اگرچہ میرے والد محترم کا خیال اس کے برعکس ربوہ کے ڈگری کالج سے ہی فزکس میں ماسٹرز کروانے کا تھا۔میرا بیانیہ یہ تھا کہ میرا تمام تر تعلیمی ریکارڈ ربوہ سے ہے۔ میٹرک، ایف ایس سی اور بی ایس سی۔تاہم M.Scاگر لاہور سے ہو جائے تو آئندہ جاب کے لیے سہولت ہوگی۔ اگر تمام تر تعلیمی ریکارڈ ربوہ کا ہی ہوا تو سوائے بیرون ملک کے پاکستان میں ملازمت کا ملنا مشکل ہوگا۔

میرا یہ بیانیہ کافی مقبول تھا۔ ہماری لاہور میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی پلاننگ خلافت لائبریری میں ہوتی تھی۔ ہمارا ربوہ کے دوستوں کا دوسرا سٹاپ رشید بُوٹ ہاؤس گولبازارہوتا تھا۔ یہاں مکرم رفیق احمد رشید میرے آٹھویں کلاس سے B.Scتک دوست اور کلاس فیلو تھے۔ بہت ہی ملنسار انسان تھے۔ان کے والد محترم مکرم رشید صاحب کم گو اورمخلص احمدی تھے۔سر پر جناح کیپ سجائے احمدی چہرہ، قادیان کی باتیں اور بدوملہی اور نئے نئے ربوہ میں آبادکاری کی دلچسپ باتیں اکثر ان سے سننے کو ملتیں۔ معیاری جوتوں کے علاوہ پاکستان کے تمام اخبارات کی ترسیل ربوہ میں ان کے پاس تھی۔ یوں رفیق کافی مصروف رہتا تھا مگر ہمارے لیے خاصا وقت نکالتا اور ’آئندہ کیا کرنا چاہیے‘پر ضرور اپنی رائے پیش کرتا۔تین چار سال قبل رفیق احمد رشید جرمنی فرینکفورٹ میں وفات پاگئے۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ آمین

ہم سب کا پروگرام تھا کہ صرف لاہور کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے درخواستیں جمع کروائیں۔ لاہور کے علاوہ ملتان اور بہاول پور کے کالجز میں نہ کریں۔ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج، ایف سی کالج، سائنس کالج اور ایچیسن کالج زیر نظر تھے۔

آخر میں ایک آپشن ڈگری کالج ربوہ کا بھی تھا۔ ربوہ میں کوئی داخلہ کا ٹیسٹ نہ تھا۔ لہٰذا ہم سب نے یہاں اپلائی کردیا اور لاہور کے لیے تیاری کی۔ لاہور ٹیسٹ کے لیے ہم لاہور سرگودھا ایکسپریس المعروف ڈبہ پر جاتے اور رات کو بذریعہ GTS(گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس) واپس آتے۔یوں ہمارا ایک ہی ہفتہ میں کئی دفعہ لاہور آنا جانا رہتا۔

اسی دوران حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ وفات پاگئے۔ اُن کی نماز جنازہ پر میری ملاقات مکرم منصور احمد انجم ابن مکرم مبارک مصلح الدین صاحب دارالصدر جنوبی کوارٹرزحال کیلگری کینیڈا سے مسجد مبارک کے احاطہ میں ہوئی۔منصور گورنمنٹ کالج لاہور میں M.Scریاضی کے طالب علم، پروفیسر عبدالسلام صاحب کے نقش قدم پر تھے۔منصور کی زبانی گورنمنٹ کالج لاہور کا ذکر اور تعریفیں سُن کر گورنمنٹ کالج اپنا اپنا لگ رہا تھا اور دلی خواہش تھی کہ داخلہ ہرقیمت پر گورنمنٹ کالج میں ہوجائے۔ یہ میرے لیے اعزاز تھا۔منصور نے داخلہ کے بارے میں میری مدد کی۔ داخلہ فارم، طریقہ کار اور کس طرح تیاری کرنی ہے؟کے متعلق بتایا۔ تیاری تو ہماری ہو ہی گئی تھی۔ اس میں کمال ہماری فری کوچنگ کلاس کا تدریسی عمل تھا جس نے ہمارا لاہور کا سفرِعلم آسان کیا۔ ہم چند دوستوں کا چھوٹا سا گروپ جس میں عطاء الحبیب خالد، برہان الدین مبشر احمد، رفیق احمد رشید، رفیق احمد (احمدنگر)، حمید غنی (دارالرحمت غربی)، داؤد چٹھہ (دارالصدر شمالی) اور خاکسار شامل تھے لاہور گئے۔ان دوستوں کی لِسٹ میں منصور شامل نہ تھا۔ منصور اکیلا خود ہی لاہور داخلہ کی کوشش کررہا تھا۔ اس کا ایک کزن لاہور KEMC(کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج) میں زیرِ تعلیم تھا۔

ہمارے لاہور جانے کے دوران ہی ربوہ ڈگری کالج نے کامیاب طلبہ کی لِسٹ لگائی۔ اس میں ہم سب کا نام آیا تو دل کو خوشی ملی کہ چلو داخلے کے نتائج کا آغاز مثبت انداز سے ہوا۔ اب مزید اعتماد، یقین اور تسلّی کے ساتھ لاہور داخلہ ٹیسٹ کے لیے پہنچے۔ چند روز بعد آخر گورنمنٹ کالج کی فہرست آویزاں کردی گئی۔ کالج کی ۶۵؍سیٹوں کے لیے ۴۰۰؍کے قریب طلبہ کا مقابلہ تھا۔ اللہ کا بہت فضل ہوا ، فہرست میں میرا بارہواں، عطاء الحبیب کا تیرھواں اور منصور کا بیالیسواں نمبر تھا۔ یوں ربوہ سے تین طلبہ کو گورنمنٹ کالج لاہور میں M.Sc فزکس کرنے کے لیے داخلہ مل گیا۔ ہمیں کسی اَور کالج کی فہرست دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ ربوہ ڈگری کالج میں داخلے کی آفر کو بھی خیرباد کہا اور لاہور کو اپنا مسکنِ تعلیم مان کر آئندہ دو اڑھائی سال کے لیے ربوہ سے کُوچ کر گئے۔

اس وقت تک نظارتِ تعلیم ہم سے رابطہ میں تھی۔ ناظر صاحب تعلیم نے ہمیں ہرسُو سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ لاہور میں رہائش کی ضرورت ہوتی تو امیر صاحب کو رُقعہ لکھ دیتے اور ہمارا کام بہترین ہوجاتا۔

ستمبر ۱۹۸۵ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کی عظیم درسگاہ میں ہمارا داخلہ تو ہوگیا مگر ہمیں گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل میں رہائش کے حصول میں مسلسل ناکامی کا سامنا تھا۔ ایک دن دورانِ لیکچر میری ملاقات منصور عارف سے ہوئی۔ میں نے اپنا تعلق ربوہ سے بتایا۔ اس نے کہا میں بھی ربوہ سے ہوں تو پھر فی الفور تعلق بنا اور جلد ہی اچھی دوستی بھی ہوگئی۔ رہائش کا مسئلہ منصور کے ساتھ زیر گفتگو نہ آیا۔

ستمبر ۱۹۸۵ء میں کلاسیں شروع ہوگئیں۔ کلاسیں تھیں کہ علم کا سیلاب۔ ہر ٹیچر ایک لمبا لیکچر دیتا۔ ہم اس کے نوٹس لیتے،نوٹس کیا لیتے، بس لکھتے ہی چلے جاتے اور اس طرح نوٹس کی مکمل فائل بن جاتی۔ہمارے ٹیچرز میں (۱) محمد حسن صاحب جو بعد میں ڈگری کالج بھی آئے اور ہمارا ذکر کرتے تھے۔ بعد میں آئر لینڈ سے Ph.Dکی۔ (۲) اختر شاہد صاحب۔ بہت ڈسپلن کے قائل بہترین استاد۔ (۳) شاہد اختر۔ ایک عظیم استاد، ریاضی کی پوری لائبریری۔(۴) ڈاکٹر زکریا بٹ۔ سالِڈ اسٹیٹ فزکس کے ماہر۔ (۵) حمید اصغر۔ پریکٹیکل کے ماہر۔(۶) ڈاکٹر اختر انصاری۔ کوانٹم فزکس کا عظیم ٹیچر مگر بعد میں علم ہوا کہ وہ جلدی وفات پاگئے۔

اس رفتا ر کی تعلیمی دوڑ میں لازمی تھا کہ ہماری رہائش مناسب ہو۔ مگر ہم دارالذکر میں ہی دو اڑھائی ماہ ٹھہرے رہے۔ میرے ساتھ عطاء الحبیب بھی تھا۔ ہم دونوں ہر روز گڑھی شاہو سے کچہری بذریعہ Toyota Hiace وین آتے جاتے اور کھانے کا بھی خود ہی انتظام کرتے اور آتے جاتے مہمانوں کا بھی خیال رکھتے۔ ہماری دارالذکر رہائش کے دوران قادیان کی ایک فیملی سے جس میں ایک صاحب انڈیا کے M.Scفزکس تھے،ملاقات ہوئی۔ وہ ہماری گورنمنٹ کالج سے تعلیم کو بہت قدر سے دیکھتے تھے۔

روز بروز مجھے پڑھائی میں دقّت ہورہی تھی کیونکہ میرا پڑھنے کا طریقہ بہت مختلف تھا۔ میں پہلے مطالعہ کرتا، پھر لکھ لکھ کر یاد کرتا اور جب پڑھائی شروع کرتا تو یہ عمل مسلسل کئی گھنٹے جاری رہتا۔ یوں میں اپنے تمام آلات کاغذ، قلم، کتابیں اور اشیائے خورونوش پاس رکھ لیتا۔ ربوہ میں میری امی، ابا جی اور میرے چھوٹے بہن بھائی میرے اس طریقہ کار سے واقف تھے اور میری معاونت کرتے تھے۔ مگر لاہور میں مناسب رہائش نہ ہونے کے باعث میرے لیے پڑھائی میں تسلسل قائم رکھنا آسان نہ تھا۔ بار بار اپنے آپ کو motivateکرنا قدرے مشکل تھا۔ یوں میں پڑھائی سے بد دل سا ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ دل میں یہ خوف گھر کرنے لگا کہ مبادا مجھے ربوہ ڈگری کالج سے ایم ایس سی کرنے پڑے۔

ایک دن مَیں نے کالج کے پرنسپل صاحب سے ملنے کے لیے وقت لیا جو جلد ہی مل گیا۔ پرنسپل جناب عبدالمجیداعوان Ph.Dفزکس تھے۔ میں نے ملاقات میں انہی دِقتوں کا ذکر کیا اور اپنی پڑھائی کے طریقہ کار میں تسلسل کی اہمیت کا خاص ذکر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مجھے ہاسٹل کی سہولت دی جائے۔ اسی وقت ڈاکٹر مجید اعوان نے مجھے پرچی دی اور وارڈن ہاسٹل، وِرک صاحب کو فون پر میرا نام اور آمد کا ذکر کر دیا۔ پھر کیا تھا، میں نے جیسے تیسے شام تک کالج کا کام ختم کیا اور وارڈن صاحب کے دفتر نیوہاسٹل کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔

وارڈن کا دفتر ایک گاؤں کی پنچائت کاسا سماں پیش کر رہا تھا۔ سب طلبہ وارڈن صاحب کے گرد اپنے مسئلے مسائل بیان کر رہے تھے۔ پہلے تو میں کچھ دیر سنتا رہا۔ پھر میں نے غور کیا کہ یہ معاملات اتنے اہم نہیں تو کیوں اتنی بحث ہورہی ہے۔ میں وِرک صاحب سے مخاطب ہوا اور پرچی ان کے ہاتھ میں دی۔ وِرک صاحب نے فوراً ایک ملازم کو بلایا اور ۲۶۵نمبر کمرہ میرے لیے الاٹ کردیا۔ دیگر ضروری چیزیں ملازم نے فراہم کردیں۔ الحمدللہ۔ مجھے چابی ملی اور اسی رات مَیں گڑھی شاہو سے اپنی کتابیں اور دیگر سامان گورنمنٹ کالج لے آیا۔ میرا ہاسٹل میں پہلا دن منگل کا تھا۔ ہاسٹل میں کھانے کی سہولت پہلی دفعہ دیکھی۔ اگرچہ ربوہ میں لنگر خانہ میں لوگوں کو اس طرح اکٹھے کھاتے دیکھا تو تھا مگر لنگر خانہ میں کھانا کھانے کی کبھی توفیق ہی نہ ہوئی کیونکہ ربوہ کے لوگوں کو لنگر خانہ دارالضیافت جانے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔

ہاسٹل میں جس کو نیو ہاسٹل کہتے ہیں، کھانے کے دو نظام تھے۔ (۱) ایک شیراز میس کہلاتا تھا جو F.Scاور B.Scکے جونیئر طلبہ کے لیے تھا جبکہ (۲) دوسرا خیبر میس جو صرف M.Scطلبہ کے لیے تھا۔ اُن دنوں خیبر میس کا انتظام کراچی کے طلبہ کرتے تھے۔ ان کے کھانے کے مینیو میں چاول، بریانی، مچھلی وغیرہ شامل ہوتی تھی جو میرے لیے کچھ نئی چیز تھی۔ اگرچہ ربوہ دریا کے کنارے پر ہے مگر ربوہ کے گھروں میں مچھلی کم ہی دسترخوانوں پر دستیاب ہوتی۔

یہاں ہاسٹل میں کھانے کی میز پر منصور ڈھلوں سے میری دوسری تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ہاسٹل میں تعارف میں نام، ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ علاقہ، ضلع جہاں سے آپ وابستہ ہیں، کا ذکر لازمی ہوتا ہے۔میں نے ربوہ کو پہلے نمبر پر رکھا۔ تعلق ربوہ سے، نام محمد احمد اور فزکس تو وہ جانتا ہی تھا۔ پھر اس ملاقات کے بعد کافی باتیں ہوتی رہیں۔ کبھی نماز جمعہ کے لیے مَیں منصور کے ساتھ دہلی دروازہ جاتا اور کبھی گڑھی شاہو۔ دہلی دروازہ کی مسجد دارالذکر گڑھی شاہو سے تو بہت چھوٹی مگر بہت ہی مصروف اور گہماگہمی والی جگہ پرتھی۔دسمبر ۱۹۸۵ء میں نماز جمعہ دہلی دروازہ پڑھنے کے بعد منصور اور مَیں نیلا گنبد آئے۔ اس نے چند احمدی احباب سے ملاقات کی اور ایک مشہور دُکان سے جہاں حضرت مسیح موعودؑ بھی تشریف لائے تھے، کچھ کھایا۔ بعد ازاں میرا اور عطاء الحبیب کا نیلا گنبد کافی آناجانا ہوتا تھا اور راجپوت سائیکل ورکس والوں اور فہیم ناگی صاحب سے کافی دوستی ہو گئی۔

پھر ہاسٹل میں کچھ اور لوگ بھی میرے دوست بنے۔ ان میں شمشاد علی خان آف چنیوٹ، شاہد سلیم ٹوبہ ٹیک سنگھ، جام اعجاز احمد ملتان، غوث علی رانا گجرات، محمد شفیق بھٹی گجرات، عمر فاروق ملتان اور محمد سعید راولپنڈی شامل ہیں جن سے میری اکثر تعلیمی امور کے بارے میںبات چیت ہوتی رہتی تھی۔ مجھے اکثر کے کام آنے کی توفیق ملتی اور کبھی کبھی میرے کام بھی ان دوستوں کی محنت سے آسان ہوجاتے۔

ہاسٹل کی رہائش میں میرا وقت ضائع ہونا بند ہوگیا۔ پہلے میں دوپہر کے کھانے کے لیے ٹولنٹن مارکیٹ یا پرانی انارکلی جاتا اور شام و رات کو گڑھی شاہو مسجد کے آس پاس ہوٹلوں کے کھانے سے گزارہ کرتا۔ لیکن اب ہر کھانا تازہ اور میز پر لگالگایا ملتا، بالکل گھر کی طرح۔الحمد للہ

منصور کا کمرہ میرے کمرہ سے کوئی ۲۰ قدم دُور تھا۔ منصور کا پڑھنے کا انداز مجھ سے مختلف تھا مگر ایک چیز مشترک تھی کہ ہم دونوں مسلسل کئی کئی گھنٹے ایک ہی نشست میں پڑھنے کے قائل تھے۔درمیان میں وقفہ صرف ضروری حاجت کے لیے ہوتا ورنہ اکثر کام کھانے کے وقفہ کے آس پاس ہی کرنے کی کوشش ہوتی۔

منصور جب بھی مجھے ملتا کوئی نہ کوئی نصیحت آموزبات کرتا۔ ویسے بھی وہ عمر میں مجھ سے بڑا تھا اور قد و جسامت میں پورا جاٹ تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اللہ اکبر! اور نیچے اُترتے ہوئے سبحان اللہ! کا ذکر کرنے کا مجھے اُسی نے بتایا۔ اب بھی جب میں سیڑھی یا لفٹ میں ہوتا ہوں تو یہ ذکر کرتا ہوں اور منصور میری نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔

میں اکثر جمعے کی شام کو ربوہ بذریعہ سرگودھا ایکسپریس جبکہ دیگر دوست بس یا پھر کوچ کے ذریعے آجاتے۔ گو یا ہفتہ اور اتوار ہم میں سے اکثر ربوہ میں موجود ہوتے۔ربوہ میں منصور کا ایک الگ ہی رنگ نظر آتا تھا۔ وہ ہم سب کو اپنے گھر مدعو کرتا۔ عطاء الحبیب، برہان الدین مبشر احمد اور خاکسار اس کے گھر شام کو پُرتکلف دعوت میں موجود ہوتے۔ منصور کے اباجی چودھری شریف ڈھلوں صاحب سے بھی ملاقات ہوتی۔ وہ ہم سب سے مل کر بہت خوش ہوتے۔ منصور کی والدہ طرح طرح کے کھانے اور فروٹ چاٹ بناکر ہماری مہمان نوازی کرتیں کہ ان کے اکلوتے بیٹے کے قریبی دوست اور کلاس فیلوز ہیں۔ برہان الدین پنجاب یونیورسٹی سے فزکس میں ایم ایس سی کررہے تھے جبکہ ہم تینوں گورنمنٹ کالج لاہور کے فخریہ طلبہ تھے۔ منصور کے والدین ہم سب کی اور منصور کی لیڈرشپ کی قابلیت دیکھ کر خوش ہوتے۔ ہم زیادہ تر جماعت کی باتیں، کورس کی باتیں اور پنجاب یونیورسٹی یا گورنمنٹ کالج کی باتیں کرتے۔

منصور لاہور آکر بھی گھر کی بنائی ہوئی مٹھائیوں، قسم قسم کے گُڑ جن میں گری میوے یا پھر مونگ پھلی شامل ہوتی وغیرہ سے میری خاطر تواضع کرتا رہتا۔ میرا خیال تھا کہ یہ صرف مجھے دیتا ہے کہ میں احمدی اور اس کے قریب ہاسٹل میں ہوں مگر مجھے ایک دن علم ہوا جب اس کے رُوم میٹ نے ذکر کیا کہ منصور! گُڑ بہت ’سوادی‘ یعنی پُرلذت تھا۔ پہلا نہیں تھا پر اس بار تو کمال ہوگیا۔ منصور اپنے گردوپیش میں رہنے والوں میں کوئی نہ کوئی موسمی یا غیر موسمی سوغات تقسیم کرتا رہتا تھا۔

منصور اور مَیں اکثر عشاء کی نماز میرے کمرے میں ادا کرتے۔مغرب کی نماز وہ لاہور میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ادا کرتا تھا۔ جمعہ کا کھانا KEMC(کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج )نیلا گنبد کی میس سے کھاتا اور مجھے بھی ساتھ لےجاتا۔ وہاں مرغ پلاؤ، شامی کباب اور رائتہ اور پھر گرم گرم چائے، بہت عمدہ کھانا ہوتا تھا۔ منصور احمدیہ ہاسٹل دارالحمد میں بدھ کے دن کوفتہ، روٹی، سلاد شوق سے کھاتا۔ وہاں بھی مجھے اپنے Honda 70پر لے جاتا۔ میں اس کے ساتھ اس شرط پر جاتا کہ موٹر سائیکل تیز نہیں چلائے گا۔ مگر وہ کبھی کبھی شاید بھول کر وعدہ خلافی بھی کرجاتا لیکن یاد آجانے پر جلدی دھیما ہوجاتا۔ منصور کو لاہور کے آس پاس تمام مشہور و معروف جگہوں پرجانے کا شوق تھا۔مگر میں اُس کے ساتھ صرف داتا صاحب کے دربار تک ہی محدود رہتا۔ باقی جگہوں پر نہ جاتا۔ وہ یا اکیلا چلاجاتا یا اپنے کسی عزیز کو ساتھ لے لیتا۔

دسمبر ۱۹۸۵ء میں ہمارے امتحانات شروع ہونا تھے۔ یہ ڈیپارٹمنٹ کےامتحانات تھے نہ کہ یونیورسٹی کی سطح کے۔ ہم نے ارادہ کیا کہ مل کر امتحان کی تیاری کریں گے۔ میرا F.Scمیں بھی اکٹھے دوستوں کے ساتھ مل کر امتحان کی تیاری کرنے کا تجربہ تھا۔ F.Scکی تیاری مَیں، محمد امین خان (ہمبرگ جرمنی) اور لقمان منظور سیّد مرحوم دارالنصر غربی کبھی دریا پریا پھر ڈگری کالج کے باغ میں مالی کی اجازت سے صبح سے شام تک تسلّی سے بیٹھ کر کرتے۔ ہم اپنا دانہ پانی اپنے ہمراہ لے کر جاتے تھے۔ یوں ہماری تیاری بھی اچھی ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امتحانات میں نمبر بھی اچھے آگئے۔ اب کی بار منصور اور میں نے تیاری اکٹھے کی۔ مگر ہمارا چیلنج یہ تھاکہ صرف ایک ہفتہ کی تیاری کی جائے اور نمبر بھی اچھے حاصل ہوں۔ آئندہ بھی ہم نے اس سلسلے کو قائم رکھنے کی کوشش کی۔

دسمبر ۱۹۸۵ء کے امتحانات کے بعد ہمارے کمرے میں سرگودھا کے عبدالخالق ملک صاحب آگئے۔ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک مگر باتونی، پاکستان پیپلز پارٹی کے مدّاح۔ ہر بار کمرے سے باہر جاتے ہوئے پانچ منٹ چابی کو ڈھونڈنا اس کی معصوم شخصیت کا نمایاں حصّہ تھا۔ عبدالخالق کو سیاست کا شوق تھا اس لیے ہاسٹل کے فزکس طلبہ اور منصور کے غیر فزکس دوستوں نے عبدالخالق کو کالج یونین کا سیکرٹری بنا دیا۔اس پر اُس کا نام عبدالخالق سیکرٹری پڑگیا۔ اس زمانے میں ہمارا ایک دوست بشیر چاند جو کالج کا صدر تھا ، ہمارے ساتھ بہت اچھا تھا مگر PPP کے خلاف ایک دفعہ ٹولنٹن مارکیٹ میں لاٹھی چارج ہوا۔ مَیں اور بشیر چاند کھانا کھانے ٹولنٹن مارکیٹ میں تھے۔ پولیس نے بعد میں چاند کو گرفتار کیا۔ جونہی چاند کو رہائی ملی وہ امریکہ چلا گیا۔ منصور کی چاند سے اچھی دوستی تھی اگرچہ وہ سیاسی کشمکش سے دُور رہتا تھا مگر انتظامی تقرری کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں رہتا تھا۔

فروری ۱۹۸۶ء میں منصور کو ہمارے خیبر میس کا منیجر بنادیا گیا۔ مالی حساب اور مینیو کا انتظام سب اس کے ذمہ ہو گیا۔ منصور نے کراچی سٹائل کے کھانے کا مینیو تبدیل کرکے مکمل لاہوری کھانا، پراٹھے، لسی، آلو چھولے، چرغے وغیرہ شروع کروا دیے۔ یوں لاہوری کھانے کا مکمل مزا اور ذائقہ ہاسٹل کے میس میں ہی میسر آگیا۔

مارچ ۱۹۸۶ء میں ہماری کلاس M.Scپارٹ وَن اور ہمارے سینئر پارٹ ٹو کے طلبہ وطالبات دونوں نے ایک دِن کا ٹور بنایا کہ ہم لاہور سے منگلا جائیں گے۔منصور نے فروٹ اور بریانی کا انتظام کیا۔ اس ٹور میں ہمارے ٹیچر مکرم شاہین صاحب ہمارے ساتھ تھے۔ گورنمنٹ کالج کی نیلے رنگ کی بس بُک کروائی گئی۔ ہمارا سفر بہت ہی خوشگوار گزرا۔ معلوماتی تو تھا ہی۔ ہم نے منگلا جھیل دیکھی اور پاور پلانٹ کا بغور مطالعہ کیا۔ جو فزکس ہم نے ٹیکسٹ بُک میں پڑھی تھی اس کا پریکٹیکل مظاہرہ منگلاپاور پلانٹ میں نظر آیا۔ یہاں ہمارے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے چند سینئرز کام کرتے نظر آئے۔ اُن سے ملاقات کی اور بہت خوشی ہوئی۔ دوران ِٹور جو بریانی ہم لاہور سے بنوا کر لائے تھے اُسے گرم کرکے کھایا گیا۔ ساتھ میں ٹھنڈی ٹھنڈی سیون اَپ بھی تھی۔ اس ٹور کے انتظامات میں منصور پیش پیش تھا۔ ہمارے ہم راہ شمشاد، عبدالخالق غوث، شفیق بھٹی، غزالہ، سیرت، تنویر بٹ، مسعود کھوکھر، محمد ایاز، ندیم، الیاس، شاہد سلیم، ظوھیر بخاری، شکیل، سیّد عاصم گیلانی، زاہد رفیع، کامران چغتائی، طارق رفیق سعید اور جمیل بھی تھے۔

اس پروگرام کی کامیابی کے بعد مری دیکھنے کا پروگرام بنایا گیا تاکہ ہم میدانی علاقوں کے باسی برف پوش پہاڑوں اور وادیوں کا نظارہ کرسکیں۔

مئی ۱۹۸۶ء میں رمضان کریم کے مہینے میں منصور نے کھانے کے مینیو میں رمضان کی مناسبت سے تبدیلی کی۔ صبح کی سحری اور شام افطاری میں بہترین کھانا کھلانے کا پروگرام بنایا۔ اسی دوران ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے امتحانات بھی شروع ہوگئے۔یوں ہم لوگ تقریباً سارا رمضان لاہور میں ہی مقیم رہے۔ہمارا گورنمنٹ کالج میں تعلیمی سفر آہستہ آہستہ گزرتا جارہا تھا۔ حتیٰ کہ جولائی اگست کا مہینہ آگیا۔گرمی لاہور میں اپنے عروج پر تھی اور ہمارےیونیورسٹی سطح کے سالانہ امتحانات شروع ہوچکے تھے۔ اگرچہ اب گورنمنٹ کالج خود ہی یونیورسٹی کا درجہ رکھتا ہے، خود ڈگری دینے کا مجاز ہے، پہلے گورنمنٹ کالج سے تعلیم مکمل کرنے والوں کو بھی پنجاب یونیورسٹی ہی ڈگری دیتی تھی۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں جونیئر طلبہ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ اس کی وجہ سے کئی کمرے خالی تھے۔ میرا کمرہ پہلے بھی تقریباً خالی ہی ہوتا تھا۔ میرے رُوم میٹ یا تو غائب ہوتے تھے یا اگر موجود بھی ہوتے تو صرف کپڑے تبدیل کرنے یا سونے کے لیے آتے۔ پڑھائی وغیرہ کبھی کرتے دکھائی نہ دیتے تھے۔ منصور میرے کمرے کے ساتھ والے کمرہ میں آگیا۔ اس کا سامنے والا دروازہ مقفل مگر پیچھے والا دروازہ کُھلا رہتا تھا۔

منصور فجر کی نماز کے بعد سیر کرنے باہر چلاجاتا جبکہ میں اپنے کمرہ میں ہی تیاری شروع کردیتا اور ہماری ملاقات آٹھ بجے صبح ناشتہ کی میز پر خیبر میس میں ہوتی۔ مَیں میس میں پہنچ کر اس کا انتظار کرتا۔ جونہی وہ آتا،کھانا ہمارے سامنے رکھا جاتا اور ہم ناشتہ کرکے اپنے اپنے کمرے میں آجاتے۔ مَیں پھر ناشتہ سے دوپہر کے کھانے تک لگاتار پڑھائی کرتا رہتا۔ میں اس انداز سے دہرائی کرتا تھا کہ دس دن میں پورا کورس مکمل ہوجائے۔ کیونکہ امتحانات کا دورانیہ بھی دس دنوں کا ہی ہوتا تھا۔ اس طرح ہر دس دن میں مکمل دہرائی کرتاجاتا۔اس دہرائی میں پورا انحصار speedاورجوابات لکھنے کی quality اور accuracy پر ہوتا تاکہ امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کیے جا سکیں۔ اس لیے لکھ لکھ کر تیاری میرا طریقہ تھا۔ جبکہ منصور نوٹس کو پڑھتا جاتا اور سمجھتا جاتا اور پھر کبھی لکھ بھی لیتا تھا۔ زیادہ تر اس کو سر جھکائے پڑھتے ہی دیکھا تھا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ اپنی سوچ اور اپنا انداز ہوتا ہے جوکہ اس کے اپنے ماحول، طبیعت اور اس کی سمجھ کی capacityکے مطابق ہوتا ہے۔

امتحان سے بیس دن قبل ہم نے یونیورسٹی کے پرانے پرچے حل کیے اور ان کے سوالوں کا جواب دینے کے انداز کو سمجھا تا کہ بہتر طریقے پر پرچہ حل کر سکیں۔ یوں دن گزرتے گئے اور ایک دِن ہمارے امتحانات کا دن آپہنچا۔ ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیاری مکمل کرلی تھی۔امتحان شروع ہوا۔ ایک کے بعد ایک پرچہ ہونے لگا۔ وقت کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اور ایک ایک کرکے ہمارے امتحانات کا دَور مکمل ہو گیا۔

۶؍اگست ۱۹۸۶ء بروز بدھ ہمارا آخری پرچہ تھا۔ الحمدللہ۔ بدھ کے روز ہمارے ہاسٹل میں چرغہ بنتا تھا۔ میرا پروگرام تھا کہ کھانا کھاکر عطاء الحبیب اور برہان کے ساتھ شام کو ربوہ چلاجاؤں گا۔ مگر امتحان کے فوراً بعد منصور نے مجھے روک لیا اور کہا کہ موٹر سائیکل پر بیٹھ۔ میں نے کہا کہ مجھے آج ربوہ واپس جانا ہے۔ اس نے کہا کل ربوہ جائیں گے۔ میرے منہ سے نکلا جٹ پیائی لسی تے غُل وِچ پائی رسی۔تو خوش ہوکر بولا ابھی لسی کے لیے ہی جارہے ہیں۔ دارالحمد چلتے ہیں۔ وہاں کوفتے کھاکر واپس ہاسٹل آئیں گے۔ پھر اُردو بازار جانا ہے۔ دارالحمد میں عطاء الحبیب اور برہان سے ملاقات ہوئی اور بتایا کہ میرا کل ربوہ جانے کا پروگرام ہے۔ آج منصور کے ساتھ ہوں۔ دارالحمد ہاسٹل آمد سے قبل منصور، عطاء اور مَیں پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں کھڑے تھے۔ امتحان کے بارے بات چیت کے بعد ربوہ واپسی کے پروگرام پر بات ہورہی تھی۔ عطاء الحبیب جلدی میں تھا جبکہ منصور نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر عطاء الحبیب ویگن پر بیٹھ کر دارالحمد چلاگیا۔

یہاں اعجاز رؤوف سے ملاقات ہوئی جو پنجاب یونیورسٹی سے M.Philکررہے تھے، آج کل ٹورنٹو کینیڈا میں مقیم ہیں۔ہمیں ان کو دیکھ کر رشک ہوتا تھا اور خیال تھا کہ ہم بھی اس کی طرح M.Philکریں گے۔

دارالحمد ہاسٹل میں مَیں نے منصور کی اپنے دو دوستوں سے بھی ملاقات کروائی۔ ایک سہیل صاحب دارالعلوم ربوہ جو گورنمنٹ کالج سے M.Sc.ریاضی کررہے تھے۔ بعد ازاں جرمنی اور پھر لندن آئے۔ بہت منکسرالمزاج، شریف انسان ہیں۔ دوسرے غلام احمد فرخ ابن میر محمود احمد صاحب۔ فرخ بھی گورنمنٹ کالج میں تھے اور B.Sc.کررہے تھے۔ فرخ گورنمنٹ کالج کے بعد قائداعظم یونیورسٹی میں آئے اور M.Sc.کمپیوٹر سائنسز میں کی۔ بعد ازاں امریکہ سے Ph.Dکی اور آج کل اپنے شعبہ میں ہی بطور واقفِ زندگی خدماتِ دینیہ بجا لا رہے ہیں۔

دارالحمد سے دوپہر کا کھانا کھاکر اور دیگر احباب سے ملاقات کرکے واپس نیو ہاسٹل آئے اور نمازیں اداکیں۔ پھر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اردو بازار گئے اور داتا دربار سے ہوتے ہوئے واپس ہاسٹل آ گئے جہاں رات کا کھانا کھا کر نماز ادا کی۔ اور پھر کچھ دیر ہوسٹل کے لان میں بیٹھ کر مزیدار آم کھائے۔ اس کے بعد منصور نے کہا کہ وہ اب نہا کرآرام کرنا چاہتا ہے۔ یہ میری منصور سے آخری ملاقات تھی۔وہ اپنے کمرے کی طرف چلاگیا جبکہ ہم کچھ دوست وہیں بیٹھے رہے۔

رات کے تقریباً ایک سے اُوپر کا وقت تھا۔ سب کو خیال آیا کہ پُرانی انار کلی سے لسی پی جائے۔ ہم سب چل پڑے اور مال روڈ سے ہوتے ہوئے پُرانی انارکلی آئے۔ وہاں سے بڑا گلاس ٹھنڈی لسی پی اور پھر آہستہ آہستہ ٹولیوں کی صورت میں واپس ہاسٹل آگئے۔

میں اور عبدالخالق اپنے کمرے میں آگئے۔ میں تو جلدی سوگیا مگر عبدالخالق کچھ چیزیں اکٹھی کرتا رہا اور پھر وہ بھی سوگیا۔ اس نے سونے سے قبل ہمارے اور منصور کے کمرے کے درمیانی دروازے کو چٹخنی لگادی۔ حالانکہ میں کبھی ایسا نہیں کرتا تھا کیونکہ منصور صبح کی نماز کے لیے مجھے آواز دیتا تھا۔

صبح کوئی سات بجے کے قریب منصور کا ایک احمدی دوست آیا اور مجھے اٹھا کر کہنے لگا: منصور اور میرا صبح صبح کہیں جانے کا پروگرام تھا مگر منصور اٹھ نہیں رہا۔ اسے اٹھا دیں۔

ہم عقبی دروازے سے منصور کے پاس پہنچے جو قمیص اتار کر چارپائی پر سویا ہوا تھا۔ اُس نے پنکھے کا رُخ اپنی طرف کر کے فُل سپیڈ پر چلا رکھا تھا۔ میں نے اُسے آواز دی لیکن کوئی جواب ندارد۔ منصور کا دوست بھی اُسے اٹھانے کی کوشش کر چکا تھا۔

باوجود کافی کوشش کے جب منصور نہ اٹھا تو ہمیں پریشانی ہونے لگی۔ میں نے فوراً عبدالخالق کو اٹھا کر ہاسٹل کے ڈاکٹر کے پاس بھجوایا۔ ڈاکٹر صاحب چند منٹوں میں آگئے۔ انہوں نے کچھ دیر منصور کو دیکھا اور پھر کہنے لگے کہ جوان اللہ کو پیارا ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ہم وہاں کچھ دیر بُت بنے کھڑے رہے۔ یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ خیر اِدھر منصور کی وفات کے بعد ضابطے کی کارروائیوں کا آغاز ہو گیا اور مَیں فزکس کے دوست حنیف ساہیوال کے ساتھ GPO سے ربوہ فون کرنے چلا آیا۔ صبح ساڑھے سات بجے کا وقت،دِن جمعرات، تاریخ ۷ اگست ۱۹۸۶ء۔ GPO والوں کو بتایا کہ ربوہ ایک emergency کال کرنی ہے اور فوتگی کی اطلاع کرنی ہےجس پر ہمیں ربوہ فری ٹرنک کال ملادی گئی۔ مجھے منصور کے ہمسائے میں ایک دوست کا نمبر معلوم تھا۔ ان کو صبح صبح درخواست کی کہ برائے مہربانی آپ چودھری شریف صاحب (منصور کے والد)کو بُلا لائیں، ایک ضروری بات کرنی ہے۔ میں کچھ دیر بعد دوبارہ فون کرتا ہوں۔ حنیف کے کہنے پر پانچ منٹ بعد ہی کال کی تو چودھری صاحب دوسری طرف موجود تھے۔

السلام علیکم۔ چودھری صاحب

چودھری صاحب: جی مَیں چودھری شریف بول رہا ہوں۔

خاکسار: مَیں منصور کا دوست محمد احمد بول رہا ہوں لاہور گورنمنٹ کالج سے۔ چودھری صاحب میرا پیغام آپ نے بڑی ہمت سے سُننا ہے!

چودھری صاحب: آپ احمد بول رہے ہیں؟

خاکسار: جی احمد بول رہا ہوں۔

چودھری صاحب: بیٹا کیا پیغام ہے؟

خاکسار: چودھری صاحب۔ منصور کی رات کو ہاسٹل میں وفات ہوگئی ہے۔ اب منصور اس دُنیا میں نہیںرہا۔ منصور کا جسدخاکی ہاسٹل میں ہے۔ ابھی ہم وارڈن صاحب سے پتا کرکے بتاتے ہیں کہ اب کیا کارروائی ہونی ہے۔ اس کی اطلاع دس منٹ بعد دوبارہ کرتا ہوں۔

پھر ہم نے ہاسٹل فون کیا تو وارڈن صاحب خود فون پر تھے۔ انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ منصور کے والد صاحب کو کہو کہ وہ میو ہسپتال کے سرد خانہ میں پہنچ جائیں۔ پولیس نے اپنی رپورٹ وہیں بنانی ہے۔ جسدِ خاکی کو ورثا کے حوالہ کرنے کا فیصلہ وہیں ہوگا۔ مَیں نے بذریعہ فون چودھری صاحب کو وارڈن صاحب کا پیغام دے دیا۔

چودھری صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وجہ بنی؟ چودھری صاحب کی آواز میں افسردگی صاف جھلکتی تھی۔ مَیں نے جواباً کہا کہ کوئی علم نہیں۔ ابھی پولیس اور ڈاکٹر صاحبان اپنی رپورٹ بنائیں گے۔پھر علم ہوگا کہ کیا ہوا۔

ہم GPO سے واپس ہاسٹل آئے تو منصور کی میّت کو کمرے سے اُٹھا کر نیچے دفتر لایا گیا۔ موقعہ پر پولیس بھی موجود تھی۔ پولیس افسر نے دُکھ کا اظہار کیا کہ کس قدر نوجوان انسان کی موت ہے۔ مگر اس نے کہا کہ جسم پر کسی قسم کا کوئی نشان نہیں اور نہ ہی منہ پر ایسی چیز کے آثار ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ عزیز کو زہر دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ ایک قدرتی موت ہے۔ اب پولیس میڈیکل رپورٹ کا انتظار کرے گی جوکہ میوہسپتال میں ہوگی۔

دوپہر کے وقت مَیں میو ہسپتال پہنچ گیا۔ منصور کے والد صاحب کا انتظار تھا۔ بارش ہورہی تھی۔اسی اثنا میں میری ملاقات میرے دسویں جماعت کے کلاس فیلو حافظ فضل الرحمٰن صاحب (دارالرحمت وسطی) سے ہوئی جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم تھے۔ انہوں نے کافی دُکھ اور غم کا اظہار کیا اور مجھے غمناک پاکر تسلّی بھی دی۔ حافظ ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب آج کل تنزانیہ دارالسلام میں جماعت کے ہسپتال میں خدمات بجالارہے ہیں۔

منصور کے والد دوپہر ایک بجے کے قریب ربوہ سے میو ہسپتال پہنچ گئے۔ پہلی بار منصور کے چہرے پر نظر ڈالتے ہی چودھری صاحب کے منہ سے بے اختیار ایک آہ نکلی اور پھر کمال صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ منصور کی کلائی پر ابھی بھی اُس کی گھڑی موجود تھی۔ مَیں نے گھڑی اُتار کر چودھری صاحب کے حوالے کردی جسے انہوں نے بڑے پیار اور احترام سے سنبھال لیا۔

چودھری صاحب منصور کی میّت کو ایمبولینس میں ربوہ لے گئے۔ میں منصور کے بعض دوستوں کے ہمراہ رات گیارہ بجے کے قریب ربوہ اپنے گھر پہنچا۔ میرے گھر پہنچنے پر میری والدہ کی جان میں جان آئی جو منصور کی وفات پر افسردہ اور میری خیریت کے بارے میں پریشان تھیں۔

اگلے روز مسجد مبارک میں منصور کا جنازہ ہوا جس میں اُس کے محلے کا ہر چھوٹا بڑا افسردہ نظر آیا۔ منصور موصی تھا مگر پولیس تفتیش کے باعث قبرستان عام میں امانتاً تدفین ہوئی۔ کچھ عرصے بعد اس کے جسدِ خاکی کو بہشتی مقبرہ منتقل کر دیا گیا۔ ہم نے نماز جنازہ کی اطلاع پیشگی گورنمنٹ کالج پہنچا دی تھی لہٰذا لاہور سے ایک بس بھر کے ہمارے چند سینئرز اور کلاس فیلوز ربوہ پہنچے اور جنازے میں شامل ہوئے۔

خاکسار نے منصور کی اس ناگہانی وفات موت کا کافی اثر لیا۔ لیکن خیال کرنے والے چند دوستوں کے تعاون سے چند ماہ میں بہت بہتر ہو گیا اور پڑھائی میں بھی نارمل ہو گیا۔

منصور کو فوت ہوئے چند ماہ گزر چکے تھے۔ میرا خیال تھا کہ میں اب نیو ہاسٹل میں اکیلا احمدی رہ گیا ہوں کہ مجھے اتفاقاً ایک اَور احمدی دوست جو قدوجسامت اور بات چیت میں منصور جیسا تھا ملا۔ اُن کا نام وقار منظور بسراء تھا جو ایم اے انگریزی پارٹ ٹو کے طالب علم تھے۔ ان کی ملاقات سے دِل کو بہت تسلّی اور سکون ملا۔ ان سے میرا تعلق کافی اچھا رہا۔ آپ بعد میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں پڑھاتے رہے اور آج کل بطور ہومیوپیتھی ڈاکٹر بے مثال خدمتِ انسانیت بجا لا رہے ہیں۔

منصور کی وفات کا اثر اس کی والدہ پر بہت زیادہ ہوا۔ بیٹے کے صدمے کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ مکرم چودھری صاحب نے مجھے کہا کہ آپ ہر دفعہ جب لاہور سے آئیں تو میرے گھر آیا کریں اور منصور کی والدہ کو بتایا کریں کہ وہ کیسا ہے؟ منصور کی والدہ باربار مجھ سے ایک ہی بات پوچھتیں کہ منصور کب آئے گا؟ پھر چودھری صاحب مجھے کپڑوں کا ایک بیگ دیتے جو منصور کی امی نے منصور کے لیے تیار کررکھا ہوتا اور اُونچی آواز میں مجھے کہتے کہ یہ بیگ منصور کو دے دینا۔ اور پھر مَیں گھر سے باہر آجاتا۔ پھر چودھری صاحب میرے ساتھ ساتھ چلنے لگتے اور کچھ فاصلہ پر مجھ سے بیگ واپس لے لیتے۔ یہ سلسلہ دوتین ماہ چلتا رہا۔ اور پھر منصور کی والدہ بھی منصور کے پاس چلی گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

لگ بھگ تین سال بعد منصور کے والد محترم چودھری شریف ڈھلوں صاحب بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ بہشتی مقبرہ میں منصور کی قبر کے قریب اسی قطعہ میں مدفون ہیں۔

منصور ڈھاکہ میں جولائی ۱۹۶۱ء میں پیدا ہوا اور پچیس سال کی جواں سال عمر میں گورنمنٹ کالج لاہور میں دورانِ تعلیم اللہ کو پیارا ہو گیا۔ منصور ایک ذہین و فہیم، محنتی انسان تھا جس میں انسانی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہر ایک کی مدد کرنا اُس کا مقصدِحیات تھا۔ اُس کی کسی سے کوئی عداوت یا بَیر نہ تھا۔ سب اُس کی خوبیوں کے معترف تھے۔

منصور ایک محنتی اور سنجیدہ طالب علم تھا۔ ایم ایس سی پارٹ وَن اس کا رِزلٹ فرسٹ کلاس آیا۔ وفات سے ایک دِن قبل دارالحمد ہاسٹل جاکر اپنے سینئر اعجاز رؤوف سے اس وجہ سے ملا تاکہ ایم ایس سی پارٹ ٹو کی تیاری کرے اور مستقبل میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مناسب سمت کی تعیین کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اعجاز رؤوف کو کیمبرج یونیورسٹی سے، عطاء الحبیب کو کنگز کالج لندن سے اور خاکسار کو امپیریل کالج لندن سے فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کی توفیق ملی۔ الحمد للہ۔ اگر منصور زندہ رہتا تو شاید کیمبرج یا آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی فزکس کرتا کیونکہ مرحوم ہر وہ خوبی رکھتا تھا جو ان عالی شان درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

منصور جماعتی کاموں میں بھی بہت بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے اُس کا خاص تعلق تھا اور حضور کو اکثر خط لکھتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اُس کی وفات پر فرمایا: ’’بہت مخلص اور فدائی نوجوان تھا۔ اللہ غریق رحمت فرمائے۔‘‘

اب بھی تمام دوست منصور کو یاد کرتے ہیں اور اُس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ منصور کو اعلیٰ مقامِ جنّت عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button