الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں ۔

حضرت امّاں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ ریحانہ گل صاحبہ نے حضرت امّاں جانؓ کے حوالے سے اپنی یادیں قلمبند کی ہیں ۔

حضرت امّاں جانؓ یہ دعا کیا کرتی تھیں کہ ’’اے خدا مجھے شوہر کا غم نہ دکھانامجھے ان سے پہلے اٹھا لینا۔‘‘ شوہر سے وارفتگی کا یہ انداز کوئی ملمع سازی نہیں تھا بلکہ یہ تو آپؓ کے دل کی آواز تھی کہ شاید یہ دل اتنا بڑا صدمہ سہ نہ پائے۔ لیکن یہی پیار کرنے والی بیوی جب اپنے شوہر کو نزع کی حالت میں دیکھتی ہے تو بڑے درد سے خدا سے التجا کرتی ہے:’’اے میرے پیارے خدا! یہ تو ہمیں چھوڑتے ہیں لیکن تُو ہمیں نہ چھوڑنا۔‘‘گویا محبتِ الٰہی سب سے بڑھ کر تھی۔

قادیان میں میری نانی جان محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ کو حضرت امّاں جانؓ کا ہمسایہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حضرت امّاں جانؓ کا گھر اونچا تھا اورمحترمہ نانی جان کا گھر نیچا تھا۔ حضرت امّاں جانؓ کے باورچی خانہ سے ہمارا گھر صاف نظر آتا تھا۔ کوئی بات کرنا ہوتی یا آواز دینا ہوتی تھی تو حضرت امّاں جانؓ اپنے باورچی خانہ میں آکر آواز دیتی تھیں ۔

میری والدہ محترمہ امۃالباری صاحبہ قریباً ۱۹۴۰ء میں پیدا ہوئیں اور ۲۰؍ستمبر۲۰۱۱ء کو ان کا انتقال ہوا۔ وہ بیان کیا کرتی تھیں کہ حضرت امّاں جانؓ کی طبیعت میں مزاح کا عنصر پایا جاتا تھا، بہت لطیف پیرائے میں بات کرتی تھیں ،طبیعت میں تکلّف بالکل نہ تھا۔ بچوں کو پیار کرنے کا ان کا اپنا ہی ایک انداز تھا۔ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں ۔ جب ہمارے گھر میں ساگ اور مکئی کی روٹی پکتی تھی تو مَیں حضرت امّاں جانؓ کے گھر دے کر آتی تھی۔ آپؓ ڈھیروں دعائیں دیتیں اور مجھ کو بھی دعائیں کرنے کی نصیحت کرتیں ۔ ایک دعا جو آپؓ سب لڑکیوں کو سکھاتی تھیں : ’’اے اللہ میرا نیک جوڑا بنا۔‘‘یہ دعا مجھے اس وقت سکھلائی جب مجھے اس کا مطلب بھی نہیں آتا تھا۔ چونکہ آپؓ دہلی سے آئی تھیں اور وہاں کی زبان اردو تھی، لیکن قادیان آئیں تو پنجابی کے لفظ بولنے آپؓ کو اچھے لگتے تھے۔ جب بچپن میں میرے سامنے والے ایک یا دو دانت ٹوٹ گئے تو آپؓ مجھے پیار سے دندبوڑی کہا کرتی تھیں ۔

حضرت امّاں جانؓ دہی جماتیں اور صبح صبح لسّی بناتی تھیں اور پھر اپنے باورچی خانہ میں کھڑے ہوکر آواز دیتیں کہ باری کو بھیجو آکر لسّی لے جائے۔ مَیں جاتی تو آپؓ لسّی کے اوپر مکھن کا پیڑا بھی ڈال کر دیتیں ۔

حضرت امّاں جانؓ میرے ماموں مکرم بدرالدین عامل صاحب درویش قادیان سے بہت پیار کرتیں ۔ ان کو بجلی کا کام آتا تھا۔ بجلی خراب ہوتی یابلب تبدیل کرانا ہوتاتو اُن کو بلوا لیتی تھیں ۔ میری ممانی جان معراج سلطانہ صاحبہ بیان کیا کرتی تھیں کہ جب میری شادی ہوئی تو حضرت امّاں جانؓ، حضرت اُمّ طاہر صاحبہؓ، حضرت آپا عزیزہ صاحبہ اور حضرت چھوٹی آپا صاحبہ تشریف لائیں ۔حضرت امّاں جانؓ نے مجھے پانچ یا دس روپے سلامی دی۔ ایک دو دن بعد آپؓ پھر ہمارے گھر آئیں تو اُس وقت مَیں جھاڑو دے رہی تھی۔ آپؓ نے میری ساس سے فرمایا: غلام فاطمہ! دلہن سے ابھی کام نہ کراؤ، کام کے لیے تو ساری عمر پڑی ہے۔

ممانی جان مزید بیان کرتی ہیں کہ حضرت امّاں جانؓ ہر صبح ایک عورت کے ساتھ بہشتی مقبرہ جاتی تھیں ۔ وہاں مالی کی بیوی آپ کے لیے موتیے کا ہار پرو کر رکھتی تھی۔ آپؓ گلے میں وہ ہار پہن لیتیں اور گھر پہنچ کر دروازے سے ہی آواز دیتیں : بہو۔ مَیں بھاگی جاتی تو وہ ہار اپنے گلے سے اتارکر میرے گلے میں ڈال دیتیں ۔مجھے نصیحت کیا کرتی تھیں کہ میاں کے سامنے خوبصورت بن کر رہا کرو، اچھا لگتا ہے۔ کبھی فرماتیں : میاں کو بہت پیار دینا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا۔ اپنے باورچی خانہ سے مجھے آواز دیتیں ۔ آپؓ ہمیشہ بہو کہہ کر مخاطب ہوتیں ،کبھی نام نہ لیتیں ۔ مَیں فوراًلپک کر آتی تو فرماتیں ساڑھی پہن کر دکھانا۔ مَیں جب ساڑھی پہن کر آتی تو بہت خوشی کا اظہار کرتیں اورفرماتیں : ہمیشہ ایسے ہی تیار رہا کرو۔

حضرت امّاں جانؓ بہت خوش لباس تھیں ۔ خوبصورت رنگوں کی لمبی قمیص، تنگ پاجامہ جس پر پٹی لگی ہوتی تھی، بڑا دوپٹہ اوڑھتی تھیں جس پر چنٹ بھی ڈلی ہوتی تھی۔ کئی دفعہ دوپٹے چنٹ ڈالنے کے لیے مجھے دے دیتی تھیں ۔ ٹوپی والا برقعہ پہنتیں ۔ سفید رنگ کا ترکی کوٹ جس کی دو جیبیں ہوتیں اوپر گول ٹوپی والی ابری ہوتی تھی۔ چھتری لے کر چلتی تھیں ۔ اگر کوئی آدمی آجاتا تو چھتری کو نیچے کر کے پردہ کر لیتی تھیں ۔ آپؓ کے گھر سے اکثر ہمارے ہاں تبرک آتا تھا۔

………٭………٭………٭………

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ لبنیٰ مبشر صاحبہ اور مکرمہ شازیہ مبشر صاحبہ نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے کہ ہماری نانی جان مکرمہ شریفہ بیگم صاحبہ حضرت امّاں جانؓ سے وابستہ چند یادیں ہمیں بتاتی ہیں کہ کس طرح آپؓ نے اُن کی والدہ حضرت طالعہ بیگم صاحبہؓ کی پرورش فرمائی اور بعد میں یہ محبت و پیار کا سلوک نانی جان سے بھی روا رکھا۔

ہماری نانی جان کے نانا حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے والے اپنے گائوں پھیروچیچی کے پہلے فرد تھے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد انہوں نے قادیان میں بہشتی مقبرہ میں مالی کی ملازمت اختیار کرلی۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت امّاں جانؓ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد دونوں اکثر بہشتی مقبرہ کی طرف جہاں حضورؑ کا آموں کا باغ تھا، چہل قدمی کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔پُل گزرتے ہی اوّل ہمارے غریب خانہ کے پاس آ کر آواز دیتے : ’’ہمارے مالی صاحب گھر میں ہیں ؟‘‘ ہم دونوں میاں بیوی پہلے سے ہی یہ پیاری آواز سُننے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے تھے۔

قریباً۱۹۰۷ء میں ایک دن حضرت امّاں جانؓ تشریف لائیں اور حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ کی بیوی حضرت کریم بی بی صاحبہؓ سے فرمایا کہ تمہاری دو بیٹیاں ہیں ، ان میں سے طالعہ بیگم مجھے دے دو، مَیں اس کی اپنی بیٹی کی طرح پرورش کروں گی۔ اس کے ساتھ ا مۃالحفیظ کا بھی دل لگا رہے گا۔ چنانچہ اُسی وقت بچی آپؓ کے ہمراہ دارالمسیح چلی گئی۔ آپؓ نے اُس بچی کو ایسا پیار دیا کہ وہ اپنا گھر بھی بھول گئی۔ جب گئی تھی تو تقریباً سات برس کی تھی اور پھر تیرہ برس تک وہ آپؓ کی خدمت میں رہی۔ جب ہماری منشاء سے ہمارے خاندان میں اس کا رشتہ طے کردیا تو وہ خلافتِ ثانیہ کا دَور تھا۔ برات پھیروچیچی سے قادیان پہنچی تھی اور دارالمسیح قادیان سے ہی اُس کا رُخصتانہ ہوا تھا۔ حضرت امّاں جانؓ نے جہیز میں اُس زمانہ کے لحاظ سے سب کچھ عنایت فرمایاحتیٰ کہ سوت کاتنے والا ایک بہت ہی خوبصورت رنگین چرخہ بھی آپؓ نے تیار کروا کر جہیز میں دیا تاکہ دیہات میں بیٹی کو کسی سے مانگنا نہ پڑے۔ وہ رنگین چرخہ طالعہ بیگم صاحبہؓ کی وفات کے بعد بھی گائوں میں گھر بہ گھر چلایا جاتا رہا۔

مکرمہ طالعہ بیگم صاحبہؓ شادی کے کچھ عرصے بعد وفات پاگئیں تو اُن کی بیٹی شریفہ بیگم صاحبہ (ہماری نانی جان) کی عمر دو سال کی تھی۔ حضرت امّاں جانؓ نے اس بچی کے ساتھ بھی اسی طرح پیار و محبت کا تعلق قائم رکھا اور جب وہ ذرا بڑی ہوئیں تو اپنے پاس قادیان لے گئیں ۔ ایک دن ملاقات کے لیے آنے والی کسی خاتون نے حضرت امّاں جانؓ سے پوچھا کہ یہ کس کی بچی ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میری نواسی ہے۔ بعد میں حضرت امّاں جانؓ کسی کام سے کمرہ میں تشریف لے گئیں تو اُس خاتون نے نانی جان سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ تم کس کی لڑکی ہو؟ باہر تشریف لاتے ہوئے آپؓ نے اُن کی بات سُن لی اور فرمایاکہ مَیں نے بتایا نہیں کہ یہ میری نواسی ہے۔

قادیان میں چند روز گزارنے کے بعد میری نانی جان اپنے ابو کو یاد کرتے ہوئے اپنے گھر واپس آگئیں مگر بعد میں حضرت امّاں جانؓ کے پیارکو یاد کرتی رہیں اور کہتیں کہ کاش مجھے سمجھ ہوتی تو مَیں حضرت امّاں جانؓ کی قربت میں اپنی زندگی گزارتی۔

بعد میں ہمارا خاندان ناصرآباد سندھ میں حضرت مصلح موعودؓ کی زمینوں پر آباد ہو گیا۔ قیامِ پاکستان سے قبل ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ سندھ کے دورے پرتشریف لائے تو حضرت امّاں جانؓ بھی ساتھ تھیں ۔جب ہماری نانی جان شریفہ بیگم صاحبہ آپؓ سے ملاقات کے لیے گئیں تو آپؓ بہت محبت سے ملیں ۔جب پتہ چلا کہ ان کی شادی ہونے والی ہے تو آپؓ نے حضورؓسے فرمایا کہ یہ ہماری نواسی ہے اس کی شادی پر ضرور کچھ دینا ہے۔پھر آپؓ نے چھ سو روپے دے کر فرمایا کہ اس سے اپنا زیور بنوالو۔

………٭………٭………٭………

حضرت امّاں جانؓ کی مہربانیاں

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے ۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ مبارکہ اشرف صاحبہ نے حضرت امّاں جانؓ کی شفقت کے حوالے سے اپنے مشاہدات قلمبند کیے ہیں ۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے اباجان مولوی محمدابراہیم بقا پوری صاحبؓ جماعت کے فعال رکن تھے۔جماعتی کام کے سلسلہ میں اکثرگھر سے باہر رہتے تھے۔ ایسے میں حضرت امّاں جانؓ ہمارا بہت خیال رکھا کرتی تھیں ۔میری عمر اس وقت پندرہ برس تھی۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی کوٹھی ہمارے گھر کے قریب تھی۔ حضرت امّاں جانؓ کا معمول تھا کہ آپؓ روزانہ سیر پر جاتے ہوئے ہمارے گھر پر ضرور رکتیں ۔ آپؓ کو د یکھنے کے شوق میں مَیں پہلے ہی دروازے پہ آکھڑی ہوتی۔آپؓ کالے برقعہ میں ملبوس ہوتیں ۔

میری ایک بڑی بہن کا نام بھی مبارکہ تھا۔ ۱۵؍سال کی عمر میں علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا تو والدہ صاحبہ بہت بیمار پڑگئیں یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔والد صاحب ان دنوں سندھ میں بطور مبلغ تعینات تھے۔ حضرت امّاں جانؓ اکثروالدہ صاحبہ کی عیادت کو آیا کرتی تھیں ۔ پھر ایک دن والدہ صاحبہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ چھت پہ کھڑی ہیں اور حضرت امّاں جانؓ نیچے سے آواز دے کر کہتی ہیں کہ ’’میری جھولی میں چھلانگ لگاؤ۔‘‘ وہ جھجکتی ہیں کہ مَیں کیسے اتنی بڑی ہستی کی گود میں چھلانگ لگاؤں ۔ حضرت امّاں جانؓ نے ایسا جب تیسری مرتبہ کہا تو پھر آپ نے اُن کی بات مانی اور ایک پھول کی مانند اُن کی گود میں آگریں ۔ صبح آپ نے جب حضرت امّاں جانؓ کو یہ خواب سنایا تو آپؓ مسکرا کرفرمانے لگیں کہ پہلی دفعہ ہی چھلانگ لگادیتی تو جلد صحت یاب ہوجاتی۔

میرے دو بڑے جڑواں بھائی محمد اسمٰعیل صاحب اور محمداسحٰق صاحب تھے۔ چھوٹے بھائی صحت کے لحاظ سے کافی کمزور تھے۔ایک دن حضرت امّاں جانؓ نے اُن کو دیکھا تو گود میں لے کر نہلایا اور روئی گرم کرکے ان کے سینے پہ رکھ کر لپیٹ دیا اور کپڑے پہنا دیے۔پھر آپؓ ہر دوسرے تیسرے دن آکر ایسا ہی کرتیں جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھائی جان کو صحت ہو گئی۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button