اس مدرسہ سے ایسے واقف زندگی نکلیں جو خدمت دین کو اختیار کریں
یہ مدرسہ اشاعت اسلام کا ایک ذریعہ بنے اور اس سے ایسے عالم اور زندگی وقف کرنے والے لڑکے نکلیں جو دنیا کی نوکریوں اور مقاصد کو چھوڑ کر خدمت دین کو اختیار کریں۔… مدرسہ کے متعلق میری روح ابھی فیصلہ نہیں کر سکی کہ کیا راہ اختیار کیا جاوے۔ایک طرف ضرورت ہے ایسے لوگوں کی جو عربی اور دینیات میں تو غّل رکھتے ہوں۔ اور دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو آجکل کے طرز مناظرات میں پکے ہوں۔ علوم جدیدہ سے بھی واقف ہوں۔کسی مجلس میں کوئی سوال پیش آجاوے تو جواب دے سکیں اورکبھی ضرورت کے وقت عیسائیوں سے یا کسی اَور مذہب والوں سے انہیں اسلام کی طرف سے مناظرہ کرنا پڑے توہتک کا باعث نہ ہوں بلکہ وہ اسلام کی خوبیوں اور کمالات کو پُرزور اور پُرشوکت الفاظ میںظاہر کر سکیں۔…اس زمانہ میں اسلام پر ہر رنگ اور ہر قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ اس قسم کے اعتراضوں کا اندازہ کیا تھا تو میں نے دیکھاکہ اسلام پر تین ہزار اعتراض مخالفوں کی طرف سے ہوا ہے۔ پس یہ کس قدر ضروری ہے کہ ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہو جو ان تمام اعتراضات کا بخوبی جواب د ے سکے۔ آجکل کے مناظروں اور مباحثوں کی حالت اَور بھی بُری ہو گئی ہے کہ اصول کو چھوڑ کر فروع میں جھگڑتے ہیں، حالانکہ اس اصل کو کبھی ہاتھ سے نہیں دینا چاہیےکہ جب کسی سے گفتگو ہو تو وہ ہمیشہ اصول میں محدود ہو،لیکن یا وہ گو اس طریق کو پسند نہیں کرتے وہ جہاں تک ان سے ہو سکتا ہے اس سے نکلتے ہیں اور فروعات میں آکر اُلجھ جاتے ہیں۔
(ملفوظات جلد ۴صفحہ ۶۱۸،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)