از مرکز

مجلس انصار اللہ برطانیہ کے زیر اہتمام مشاعرہ (نذرانۂ عقیدت ومحبت) بر موقع یوم خلافت

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے امسال قیادت تعلیم مجلس انصار اللہ برطانیہ کو یوم خلافت کی مناسبت سے پانچواں مشاعرہ منعقد کرنے کی توفیق ملی۔ مورخہ ۲۴؍مئی ۲۰۲۴ء بروز جمعۃ المبارک شام پونے سات بجے ایوانِ مسرور، اسلام آباد ٹلفورڈ، یوکے میں اس مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ اکثر شعراء اور مہمانوں نے نماز عصر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں مسجد مبارک میں ادا کی جس کے بعد ریفریشمنٹ کا انتظام مسرور ہال میں کیا گیا تھا۔یہ مشاعرہ دراصل یومِ خلافت کے موقع پر دربارِ خلافت میں ایک عاجزانہ نذرانۂ عقیدت و محبت تھا۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور پیارے آقا کی دعاؤں سے مشاعرہ بہت کامیاب رہا۔ مشاعرہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے تعاون سے مجلس انصار اللہ برطانیہ کے یوٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کیا گیا جسے دنیا بھر میں سینکڑوں ناظرین نے براہ راست بھی دیکھا اور سنا۔ لائیو پروگرام تقریباً پونے دو گھنٹے جاری رہا اور ساڑھےآٹھ بجے اختتام پذیر ہوا۔ مشاعرے کی صدارت مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن نے کی جبکہ میزبانی کے فرائض جناب مبارک احمد صدیقی صاحب نے ادا کیے۔ نیز اس مشاعرے میں امریکہ سے مدعو کیے گئے جماعت کے معروف شاعر جناب احمد مبارک صاحب نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔

مشاعرے کا آغاز جماعتی روایات کے مطابق تلاوت قرآن کریم سے کیا گیا۔ اس کے بعد مکرم عمر شریف صاحب نے خلافت سے متعلق مکرم چودھری محمد علی مضطؔر صاحب کا خوبصورت کلام دلسوز اور مترنم آواز میں پیش کیا جس سے محفل میں ایک سماں بندھ گیا۔ چند اشعار یوں ہیں:

دل و جاں پہ اس کی حکومت تو ہے

حکومت یہ اب تا قیامت تو ہے

محمدؐ کی، احمد کی، محمود کی

سپرد آج اس کے نیابت تو ہے

وہ ہے مظہرِ قدرتِ ثانیہ

وہ اللہ کی ایک آیت تو ہے

وہی تو ہے مہدیؑ کا فرزندِ خاص

وہی ہُوبہو شکل و صورت تو ہے

خلافت کی دستار ہے زیبِ سر

امانت کی کاندھوں پہ خلعت تو ہے

اس کے بعد میزبان مشاعرہ مکرم مبارک صدیقی صاحب نے حسبِ روایت سب سے پہلے اپنا دلکش اور پُرلطف کلام سنایا جس میں سے چند اشعار درج ذیل ہیں:

اے مرے خدا! مرے چارہ گر! اُسے کچھ نہ ہو

مجھے جاں سے ہے وہ عزیز تر، اُسے کچھ نہ ہو

جسے دیکھتے ہی بجھے دیے بھی دمک اٹھیں

جسے چُھو کے سنگ بنے گہر، اُسے کچھ نہ ہو

برکت ہے خلافت کی کہ اک ہاتھ پہ یارو

لاکھوں ہیں، کروڑوں ہیں جو اک جان ہوئے ہیں

طوفان کی مرضی تھی اجڑ جائیں یہ لیکن

بوٹے جو لگائے تھے گلستان ہوئے ہیں

سب اس کی عطا، اس کی عطا، اس کی عطا ہے

تاریخِ جماعت ہے کہ تاریخِ وفا ہے

میزبان شاعر کے بعد دیگر شعرائے کرام نے عقیدتومحبت پر مبنی کلام پیش کیا جن کا نمونۂ کلام ہدیۂ قارئین ہے:

جواد الکریم صاحب:

اک مسیحا جو ہمارا ہے، خدا جانتا ہے

وہ دل و جان سے پیارا ہے، خدا جانتا ہے

اس کی قربت میں گزارے ہوئے پل سونا ہیں

باقی تو صرف خسارہ ہے خدا جانتا ہے

سب منتظر کھڑے ہیں کہ آئیں مرے حضور

بے چینیوں کو چین دلائیں مرے حضور

سر پر رہے ہمیشہ خلافت کا سائباں

چلتی رہیں یہ ٹھنڈی ہوائیں مرے حضور

احسان قمر صاحب:

مہاراجا! مجھے یہ پیکرِ جاں دان کر دو نا!

اور اپنے دل کے سارے غم مرے مہمان کر دو نا!

تمہارا ظرف یہ کہ دل کے زخموں کو چھپاتے ہو

تمہاری یہ ادا کہ درد میں بھی مسکراتے ہو

پھر اک دن ’’دعا کریں‘‘ کہہ کر ہمیں پہروں رُلاتے ہو

تم ایسا عزم ایسا صبر میرا مان کر دو نا!

مہاراجا مجھے یہ پیکر جاں دان کر دو نا

ڈاکٹر طارق انور باجوہ صاحب:

خلافت ہے وہ حبلُ اللہ ، چمٹ جاتے ہیں لوگ اس سے

خود اپنی اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کو

خلافت کی اطاعت، جزو ایماں کا، سمجھتے ہیں

کہ اِس کے ماننے والے ہی سمجھے عہدِ بیعت کو

اماں پانے کو دنیا میں حصار اس کو بنایا ہے

بنا کر ڈھال بھیجا ہے خدا نے اس امامت کو

خلافت نے دلوں میں گھر کیا ہے اس طرح طارقؔ

سمجھ پائے گی کیا دنیا، خلافت کی محبّت کو

فاروق محمود صاحب:

ہم ذات سے باہر بھی ذرا دیکھیں نکل کے

جو غیر ضروری ہیں کریں بوجھ وہ ہلکے

جب صرف توانائی ہو تعمیری عمل پر

اور پورا بھروسا رہے تقدیر ازل پر

معمولی سی باتوں پہ اگر الجھا نہ جائے

جو کام دیا جائے وہی کام کیا جائے

یہ ساری ہی باتیں تو ستانے کا ہیں موجب

آقا کی پریشانی بڑھانے کا ہیں موجب

ہر احمدی بھائی کا مودت کا ہے رشتہ

ممتاسے کہیں بڑھ کے خلافت کا ہے رشتہ

اک پیٹ سے ہوتے ہیں جو ماں جائے، ہوں ایسے

تا حشر رہیں ایسے کہ اک جسم ہوں جیسے

خلوت میں بھی کرتا ہے جو تحریک دعا کی

جس پر ہے نظر ایک، فقط ایک خدا کی

مولانا عطاء المجیب راشد صاحب:

حمدِ رب العالمیں کرتے چلو

دم اسی کے شکر کا بھرتے چلو

دوسری قدرت کا ہے زندہ نشاں

دیدہ و دل فرشِ رہ کرتے چلو

حق نے بخشا ہے امیر المومنین

اس کے قدموں پر قدم رکھتے چلو

ہر نصیحت اس کی ہے درسِ حیات

سن کے تم لبیک بس کہتے چلو

ہر گھڑی دیتا ہے جو تم کو دعا

رات دن اس کو دعا دیتے چلو

خاکسار میر انجم پرویز :

تجھ سے کچھ اِس طرح ہوں وابستہ

روح جیسے بدن میں پیوستہ

تم ہو رہبر تو پھر مجھے کیا غم

کتنا مشکل ہے عشق کا رستہ!

لٹوں نے اس کی ہے لوٹا قرار راتوں کا

کیا ہے دامنِ دل تار تار راتوں کا

ہؤا ہے دل کے اُفق پر وہ بدر جب سے طلوع

دنوں میں ہونے لگا ہے شمار راتوں کا

ظہورِ فجر ہؤا ہے ہزار رات کے بعد

یہ مسئلہ نہیں ہے تین چار راتوں کا

وہ ایک لمحۂ وصلش نصیب ہو جائے

کہ طے ہو فاصلہ جس میں ہزار راتوں کا

مبارک احمد ظفر صاحب:

ہم کو مولیٰ نے اک سائباں دے دیا

اپنی قدرت کا زندہ نشاں دے دیا

قافلے کے لیے سائباں دے دیا

بے سہاروں کو دارالاماں دے دیا

جو خلافت کے منصب پہ مامور ہے

مردِ آہن ہے وہ، ابن منصور ہے

ساتھ جس کے خدا ہے وہ مسرور ہے

اس کی ہر بات قانون و دستور ہے

جناب احمد مبارک صاحب:

سب سے آخر پر مجلس انصار اللہ یوکے کی دعوت پر امریکہ سے تشریف لانے والے اس مشاعرے کے مہمانِ خصوصی جناب احمد مبارک صاحب نے اپنے پُر لطف اور نہایت عمدہ کلام سے محفل کو چار چاند لگا دیے اور سامعین آپ کے خوبصورت کلام اور پُرشوکت آواز سے خوب لطف اندوز ہوئے اور فرطِ جذبات میں سر دُھنتے رہے۔ آپ کے چند اشعارہیں:

غار کی ہو یا طور کی آواز

گونجتی ہے ظہور کی آواز

اس زمیں کے سبھی کناروں تک

جا رہی ہے حضور کی آواز

اپنے اطراف سے ہوں بےبہرہ

سن رہا ہوں میں دور کی آواز

با ادب با ملاحظہ ہشیار

آ رہی ہے حضور کی آواز

مجھے رستہ دکھانے کو ستارہ دور تک پہنچا

کہیں بھٹکا نہیں، سیدھا درِ مسرور تک پہنچا

مئے عرفانِ تازہ چل رہی تھی اس کی مجلس میں

پیالہ در پیالہ مجھ دلِ مخمور تک پہنچا

زمانہ چل رہا ہے کس قدر بے سمت وبے منزل

مرے مالک! تو اس کو وقت کے مامور تک پہنچا

ترے حضور مرا نام اور نمود ہے کیا

ترے بغیر بھی میرا کوئی وجود ہے کیا

پھر آج کون اٹھاتا یہ بارِ ہفت افلاک

ترے سوا بھی جہاں میں کوئی وجود ہے کیا

کبھی کبھی میں ستاروں میں جا نکلتا ہوں

یہ بھول کر کہ ترے حسن کی حدود ہے کیا

دکھا رہی ہے یہ زندہ خلافتوں کی بہار

جہاں میں جاری وساری ہے کیا، جمود ہے کیا

میرے فردا کے لیے رات کو رونے والے

تجھ کو کیا جانتے ہیں چین سے سونے والے

گوشۂ سایہ گل تجھ کو بلاتا ہی رہا

رات دن بارِ غمِ دنیا کو ڈھونے والے

ایوان مسرور میں مجلس عاملہ انصار اللہ برطانیہ ، ریجنل ناظمین اعلیٰ اور مرکزی دفاتر کے کارکنان کے علاوہ یورپین ریفریشر کورس پر آنے والے تمام مہمان مدعو تھے۔ اس طرح مہمانوں اور کارکنان کی کُل تعداد ۲۵۰؍ کے قریب تھی۔

آخر پر مشاعرے کے ناظمِ اعلیٰ راجہ برہان احمد صاحب قائد تعلیم نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے کسی بھی طرح تعاون کرنے والوں نیز شاملین محفل اور پروگرام کو براہ راست دیکھنے والوں کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد مولانا عطاءالمجیب راؔشد صاحب نے اختتامی دعا کروائی۔

مشاعرہ ساڑھے آٹھ بجے اختتام پذیر ہوا جس کے بعد شرکائے مشاعرہ کی خدمت میں طعام پیش کیا گیا۔ کھانے کے بعد مہمانوں نے مسجد مبارک اسلام آباد میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی اقتدامیں نمازِ مغرب و عشاء ادا کیں۔

اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں صدر مجلس انصار اللہ برطانیہ مکرم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب کی راہنمائی کے علاوہ دیگرانتظامیہ کا بھرپور تعاون بھی حاصل رہا۔

(رپورٹ:میر انجم پرویز۔ مربی سلسلہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button