حضرت عثمان بن مظعونؓ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍ اپریل ۲۰۱۹ء)
آج جن بدری صحابی کا میں ذکر کروں گا ان کا نام ہے حضرت عثمان بن مظعونؓ۔ ان کی کنیت ابوسائب تھی۔ حضرت عثمانؓ کی والدہ کا نام سُخَیْلَہ بنت عَنْبَسْ تھا۔ حضرت عثمانؓ اور آپؓ کے بھائی حضرت قُدَامَہؓ حلیےمیں باہم مشابہت رکھتے تھے۔ آپؓ کا تعلق قریش مکہ کے خاندان بَنُو جُمَحْ سے تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ305-306’’عثمان بن مظعون‘‘۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت عثمان بن مظعونؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ اس طرح ملتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اپنے گھر کے صحن میں تشریف فرما تھے۔ وہاں سے عثمان بن مظعونؓ کا گزر ہوا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر مسکرائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تم بیٹھو گے نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ چنانچہ وہ آپؐ کے سامنے آ کے بیٹھ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بات کر رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہیں اوپر کو اٹھائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمحے کے لیے آسمان کی طرف دیکھا۔ پھر آہستہ آہستہ اپنی نگاہیں نیچی کرنے لگے یہاں تک کہ آپؐ نے زمین پر اپنے دائیں طرف دیکھنا شروع کر دیا اور اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے عثمان سے منہ پھیر کر دوسری طرف متوجہ ہو گئے اور اپنا سر جھکا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران میں اپنے سر کو یوں ہلاتے رہے گویا کسی بات کو سمجھ رہے ہیں۔ عثمان بن مظعونؓ پاس بیٹھے ہوئے تھے، یہ سب دیکھ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام سے فارغ ہوئے یا جو بھی اس وقت صورت حال تھی اس سے فارغ ہوئے اور جو کچھ آپؐ سے کہا جا رہا تھا، جو بظاہر لگ رہا تھا کہ کچھ کہا جا رہا ہے، حضرت عثمانؓ کو تو نہیں پتا تھا لیکن بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جا رہا تھا وہ آپؐ نے سمجھ لیا تو پھر آپؐ کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھیں جیسے پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ آپؐ کی نگاہیں کسی چیز کا پیچھا کرتی رہیں یہاں تک کہ وہ چیز آسمان میں غائب ہو گئی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے کی طرح عثمان بن مظعونؓ کی طرف متوجہ ہوئے تو عثمانؓ کہنے لگے کہ میں کس مقصد کی خاطر آپؐ کے پاس آؤں اور بیٹھوں؟ حضرت عثمانؓ نے کہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سو ال کیا کہ آج آپؐ نے جو کچھ کیا ہے اس سے پہلے میں نے آپؐ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے مجھے کیا کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ عثمان بن مظعونؓ کہنے لگے کہ میں نے دیکھا کہ آپؐ کی نظریں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ پھر آپؐ نے دائیں جانب اپنی نظریں جما دیں۔ آپؐ مجھے چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہو گئے۔ آپؐ نے اپنا سر ہلانا شروع کر دیا گویا جو کچھ آپؐ سے کہا جا رہا ہے اسے آپؐ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کیا واقعی تم نے ایسا محسوس کیا ہے؟ عثمان بن مظعونؓ کہنے لگے۔ جی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی ابھی میرے پاس اللہ کا قاصد آیا تھا، پیغام لے کے آیا تھا جب تم میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ عثمان بن مظعونؓ نے کہا کہ اللہ کا قاصد؟ سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ عثمانؓ نے پوچھا پھر اس نے کیا کہا؟ آپؐ نے فرمایا اس نے کہا یہ تھا کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِیۡتَآءِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَیَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ وَالۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ۔ یعنی یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقربا پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم عبرت حاصل کرو۔ عثمان بن مظعونؓ کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب میرے دل میں ایمان نے اپنی جگہ پکّی کر لی اور مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو گئی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 807مسند عبداللہ بن عباس حدیث نمبر2921عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوّت کے بعد ابتدائی دَور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک قریب زمانہ میں یعنی اس زمانے کے ابتدا میں طلحہؓ اور زبیرؓ اور عمرؓ اور حمزہؓ اور عثمان بن مظعونؓ اس قسم کے ساتھی آپؐ کو مل گئے جن میں سے ہر شخص آپؐ کا فدائی تھا۔ ہر شخص آپؐ کے پسینے کی جگہ اپنا خون بہانے کے لیے تیار تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تیرہ سال تک مصائب بھی آئے، مشکلات بھی آئیں، تکالیف بھی آپؐ کو برداشت کرنی پڑیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان تھا کہ ان مکہ والوں میں سے عقل والے، سمجھ والے، رتبے والے، تقویٰ والے، طہارت والے مجھے مان چکے ہیں اور اب مسلمان ایک طاقت سمجھے جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتا کہ نعوذ باللہ وہ پاگل ہیں تو اس کے دوسرے ساتھی ہی اسے کہتے کہ اگر وہ پاگل ہے تو فلاں شخص جو بڑا سمجھ دار اور عقل مند ہے اسے کیوں مانتا ہے۔ یہ ایک ایسا جواب تھا جس کے جواب میں کوئی شخص بولنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔
یورپین مصنف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے تمام زورِ بیان صرف کر دیتے ہیں، بہت خلاف بولتے ہیں اور بسا اوقات آپؐ پر گند اچھالنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اب بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ مگر جہاں ابوبکرؓ کا نام آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ابو بکرؓ بڑا بے نفس تھا۔ اس پر بعض دوسرے یورپین مصنف لکھتے ہیں کہ جس شخص کو ابوبکرؓ نے مان لیا وہ جھوٹا کس طرح ہو گیا؟ اگر تم ابوبکرؓ کی تعریف کر رہے ہو تو جس کو ابوبکرؓ نے مانا وہ بھی یقیناً قابل ِتعریف ہے۔ اگر وہ بے نفس تھا، ابوبکرؓ اگر بے نفس تھا تو اس نے ایسے لالچی کو کیوں مانا اور اگر وہ واقعی میں بے نفس تھا تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کا آقاؐ بھی بے نفس تھا۔ یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے جس کو ردّ کرنا آسان نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں بھی پھر اس کو اس سے جوڑا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ آپؑ کو جاہل کہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو ردّ کرنے کے لیے ایسے سامان کر دیے کہ حضرت خلیفہ اولؓ شروع میں ہی آپؑ پر ایمان لے آئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی دعویٰ سے پہلے آپؑ کی تعریف کرنے والے تھے۔ پھر جب آپؑ نے دنیا میں اپنی ماموریت کا اعلان کیا تو اس کے بعد تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک جماعت اللہ تعالیٰ نے ایسی کھڑی کر دی جو فوراً آپ پر ایمان لے آئی۔ یہ تعلیم یافتہ لوگ علماء میں سے بھی تھے، امراء میں سے بھی تھے، انگریزی دان طبقے میں سے بھی تھے۔ تو آپؓ اس کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ رعب اور دبدبہ تین چیزوں سے ہی ہوتا ہے یا تو ایمان سے ہوتا ہے یا علم سے ہوتا ہے یا روپے سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تینوں چیزیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں بھی پیدا کر دیں۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 139-140)
اور آپؑ کو بھی ایسے ساتھی شروع میں مہیا کر دیے جن کی دوسری دنیا تعریف کرتی تھی بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی حکمت کا لوہا آج تک مانا جاتا ہے۔ غیر احمدی حکماء بھی آپؓ کے نسخے استعمال کرتے ہیں اور اس بارے میں لکھتے ہیں تو بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ایسے لوگ اس وقت عطا ہوئے جو ہر طبقے کے لوگ تھے اور بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ تھے۔