متفرق مضامین

’’زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت‘‘ ’’ضروری ہے کہ ہر الٰہی سلسلہ کی مخالفت ہو اور مخالفت کے بعد اس کو ترقی نصیب ہو‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ)

(ولید احمد۔ متخصص تاریخ و سیرت جامعہ احمدیہ جرمنی)

نبوت کے پانچ سال بعد جبکہ مکہ میں کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری تھا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحبِ استطاعت مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔جب یہ مہاجرین حبشہ پہنچ گئے تو مکہ والوں نے ان کو واپس بلانے کے لیے یہ افواہ عام کردی کہ قریش سب کے سب آپ  ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں۔ یہ افواہ جب ان تک پہنچی تواکثر مسلمانوں نے واپس مکہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ابھی یہ قافلہ مکہ کے قریب ہی تھا کہ انہیں اصل حقیقت سےآگاہی ملی کہ یہ سب کفار کی جھوٹی سازش تھی۔چنانچہ بعض لوگ وہیں سے واپس حبشہ چلے گئے لیکن کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے مکہ میں ہی رکنے کا فیصلہ کرلیا۔ان اصحابؓ میں سے ایک حضرت  عثمان  بن مظعونؓ بھی تھے۔ اس وقت عرب میں یہ رواج تھا کہ ایسی نازک صورتحال میں جب قوم اور قبیلے کی طرف سے مخالفت جاری ہو کسی شخص نے اگر واپس شہر میں آنا ہوتا تو کسی شخص کی ذمہ  داری اور امان میسر ہونے کی صورت میں ہی وہ شہر میں واپس داخل ہو سکتا تھا۔چنانچہ حضرت عثمان بن مظعونؓ اپنے والد کے ایک قریبی دوست ولید بن مغیرہ کی امان لے کر مکہ میں داخل ہوئےاور امن و سکون سے شہر میں رہنے لگے۔ لیکن ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ آپؓ نے یہ محسوس کیا کہ میں تو امن اور حفاظت سے مکہ میں رہ رہا ہوں لیکن میرے مسلمان بھائی تو آئے دن ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ آپؓ کی مذہبی غیرت نے اس بات کو ہرگز گوارا نہ کیا کہ آپؓ تو آرام سے رہیں اور آپ کے ساتھی دین کی خاطر قربانیاں پیش کرتے رہیں۔چنانچہ آپؓ اسی وقت ولید کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اے ابو عبد الشمس! ابھی اور اسی وقت یہ اعلان کردیں کہ عثمان بن مظعونؓ اب میری امان میں نہیں ہے۔ولید نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیا میری وجہ سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے؟ حضرت عثمانؓ نے اس موقع پر بہت ہی درد سے جواب دیا کہ نہیں، ایسا تو نہیں ہے لیکن مجھ میں صبر کی اب اور ہمت نہیں رہی۔ میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ میرے مسلمان بھائی تو اسلام کی خاطر دکھ اٹھائیں، قربانیاں پیش کریں اور میں آرام اورسکون سے اپنے گھر میں بیٹھا رہوں۔ اب میں بھی دوسرے عام مسلمانوں کی طرح صرف اللہ تعالیٰ کی امان میں رہنا چاہتا ہوں اور مجھے آپ کی ضمانت یا سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر ولید نے اپنی امان واپس لینے کا اعلان عام کر دیا۔

اس واقعہ کے بعد ایک مرتبہ حضرت عثمان بن مظعونؓ عرب کے ایک مشہور شاعر لبید بن ربیعہ کی مجلس میں آکر بیٹھے۔لبید لوگوں کو اپنے اشعار سنا رہا تھا۔اس نے اپنے ایک شعر کا مصرعہ پڑھا :اَلَا کُلُّ شَیْءٍ مَّا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلٌ

یعنی خبر دار! اللہ کے سوا سب کچھ باطل ہے۔ اس پر حضرت عثمانؓ کہنے لگے کہ تُو نے سچ کہا ہے۔ پھر لبیدنےاس کا دوسرا مصرعہ کہاوَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٌ۔کہ بیشک ہر نعمت زوال پذیر ہے۔ حضرت عثمانؓ نے جب یہ مصرعہ سنا تو کہا کہ تم نے غلط کہا ہے،جنت کی نعمتیں تو لازوال ہیں۔ لبید نے جب یہ سناتو کہنے لگا کہ اے گروہ قریش! تمہیں کیا ہوگیا ہے،آج سے پہلے تو تمہاری محفلیں ایسی نہ تھیں۔چنانچہ وہاں پر موجود ایک شخص غصے میں آکر کھڑا ہوگیا اور اس نے حضرت عثمانؓ کی آنکھ پر اس زور سے طمانچہ مارا کہ اس کی شدت سے آپ کی وہ آنکھ سوج گئی۔ آپؓ کے گرد موجود لوگوں نے کہا عثمانؓ! تم ایک مضبوط پناہ میں تھے اور تمہاری آنکھ اس تکلیف سے محفوظ تھی جو تمہیں اب پہنچی ہے۔ اس پر عثمانؓ نے کہا کہ اللہ کی امان زیادہ محفوظ اور معزز ہے اور یہ تو ایک آنکھ زخمی ہوئی ہے میری تو دوسری آنکھ بھی اسی طرح کی تکلیف اٹھانے کے لیے تیار ہے جو اس آنکھ کو پہنچی ہے۔ (اسد الغابہ جلد ٣ صفحہ ٥٨٩-٥٩٠ ’’عثمان بن مظعون‘‘ دار الکتب العلمیہ بیروت٢٠٠٣ء)

یہ واقعہ جہاں اس زمانہ میں مکہ کے خطرناک حالات اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالتاہے وہیں اس میں اصحابِ رسولؐ کے عظیم الشان رویے بھی دیکھنے کو ملتےہیں۔۵ سال کے عرصہ میں یہ اصحابؓ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐکی محبت میں بالکل فنا ہوچکے تھے۔ دین کی محبت اور اسلام کی غیرت ان کے دلوں میں ایسی جرأت پیدا کر چکی تھی کہ ان کے لیے یہ تکالیف اور مظالم کوئی حیثیت ہی نہ رکھتے تھے۔ظلم کے اس تاریک دور میں یہ تسلی انہیں اللہ تعالیٰ کے پاک نبیﷺ کی صحبت اور اس کلام کے ذریعہ سے ہی مل رہی تھی جو رسول ِپاکﷺ پر نازل ہورہا تھا۔چنانچہ حضور  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بالکل آغاز میں جب کہ ابھی مخالفت کا کوئی نام ونشان بھی نہ تھااللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی فتوحات کی خبریں ملنا شروع ہوگئی تھیں۔سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ اسی اول دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہیں،جن میں اسلام کی فتوحات کی خبروں کے ساتھ ساتھ آئندہ آنے والی مخالفت کی طرف بھی نشان دہی فرمادی گئی تھی۔یہ مضمون بالکل واضح کردیا گیا تھا کہ الٰہی جماعتوں کی یہی تاریخ ہے کہ ان کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن یہ ابدی سچائی بھی اسی تاریخ کا حصہ ہے کہ جب بھی الٰہی جماعتوں کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اسے ناکام و نامراد کر دیتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’ضروری ہے کہ ہر الٰہی سلسلہ کی مخالفت ہو اور مخالفت کے بعد اس کو ترقی نصیب ہو۔ غرض ان دونوں سورتوں سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام کو ہمیشہ شدید مخالفت کے بعد ترقی ہوتی ہے پس یہ دونوں سورتیں مضامین کے لحاظ سے آپس میں گہرا تعلق رکھتی ہیں ‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ١٢ صفحہ ۱۰۰۔١٠١۔ ایڈیشن ٢٠٢٣ء)اللہ تعالیٰ جو قادر اور توانا ہے اگر چاہے تو اپنے بھیجے ہوئے انبیاء کو پہلے دن ہی فتوحات عطا فرما دے لیکن اس طرح فتوحات عطا کرنے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا جو ابتلاؤں کے آنے سے پورا ہوتا ہے کیونکہ جب اس قسم کی تکالیف اور ابتلاآتے ہیں تو وہ ان قربانیوں کے نتیجے میں اللہ  تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچ کر لانے کا باعث بنتے ہیں، کھرے اور کھوٹے میں تمیز کر دیتے ہیں اور دین کی خاطر قربانیاں کرنے والے وجود نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’یہ سنت اللہ ہے کہ مامور من اللہ ستائے جاتے ہیں۔ دُکھ دئیے جاتے ہیں۔ مشکل پر مشکل اُن کے سامنے آتی ہے نہ اس لیے کہ وہ ہلاک ہو جائیں بلکہ اس لیے کہ نصرت الٰہی کو جذب کریں۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی مکی زندگی کا زمانہ مدنی زندگی کے بالمقابل دراز ہے۔ چنانچہ مکہ میں ۱۳ برس گذرے اور مدینہ میں دس برس‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ٤٢٤،ایڈیشن ١٩٨٨ء)

مخالفت کی وجہ

مکہ میں اسلام کی عام تبلیغ شروع ہونے کے بعد قریش کے دلوں میں بے چینی سی پیدا ہوچکی تھی۔ وہ لوگ جو اس نئے سلسلہ کو محض کھیل اور مذاق سمجھ رہے تھے، اب اپنی جاہ و حشمت کھونے کے ڈر سے پریشان ہو چکے تھے۔آپس میں مشورہ کے بعد آخر وہ آپﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس آئے اور انہیں آنحضرتﷺ کوتبلیغ سے روکنے کا کہا۔پہلی مرتبہ تو ابو طالب نے انہیں تسلی دی اورسمجھا بجھا کر رخصت کردیا۔ لیکن چند روز بعدقریش نے جب یہ دیکھا کہ تبلیغ کا سلسلہ ابھی بھی ویسے ہی جاری ہے تو پھر وہ دوسری مرتبہ ابو طالب کے پاس آئے اور اس دفعہ انہوں نے آپ کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ اب ہم اور برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے بتوں پر عیب لگائے جائیں،ہمارے بزرگوں کو برا بھلا کہا جائے اور ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف قرار دیا جائے اس لیے یا تو آپ اپنے بھتیجے کو روکیں کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو بند کر دے یا پھر اگر آپ محمد (ﷺ ) کی نگہبانی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو ہم بھی پھر مجبور ہیں۔ہم مقابلے پر نکلیں گے یہاں تک کہ ہم دونوں میں سے کوئی ایک فریق ہلاک ہوجائے۔ابو  طالب یہ سن کرسخت گھبرا گئے اور آنحضرت  ﷺ سے اس کاذکر کیا اور دلی ہمدردی سے اس کام سے باز آنے کو کہا۔ آپﷺ نے یہ سب سن کربڑے ہی اطمینان سے جواب دیا کہ چچا یہ بدگوئی نہیں بلکہ حقیقت ہے اور میں انہی بد اعمالیوں اورشرمناک حرکات کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا ہوں جو اس وقت معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ پس مجھے اس راہ میں موت کا کوئی ڈر نہیں ہے۔نیز آپؐ نے بڑے ہی رقت بھرے الفاظ میں فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو پھیلانےسے نہیں رکوں گا،خدا کی قسم اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اس فرض کے ادا کرنے سے نہیں رکوں گا۔ ابو طالب نے جب آپؐ کا یہ جواب سنا تو کہا، جاؤ میرے بھتیجے،اپنے اس کام کو جاری رکھواور میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں تمہاری ہر طرح سے مدد کروں گا۔ توکل علی اللہ کا کیا ہی عظیم الشان خلق ہےجو اس موقع پر ہمیں آپﷺ کی شخصیت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ بعد میں آنے والے وقت نے یہ گواہی دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ محض وقتی جذبات پر مشتمل نہیں تھے بلکہ آپ دل کی گہرائی سے دین کو پھیلانے کے لیے ہر قربانی پیش کرنے کو تیار تھے۔ آپؐ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات بھی ان الفاظ کی عملی گواہی دے رہے ہیں کہ رسول کریمﷺ اور آپ کے اصحاب نے تمام مشکل حالات میں کیسے عظیم صبر کے نمونے دکھائے اور دین کی راہوں میں قدم آگے سے آگے بڑھاتے چلے گئے۔اس کے ساتھ ساتھ اس واقعہ سے اس زمانہ میں قریش کے اخلاقی حالات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہےجو بالآخر اسلام کے خلاف دشمنی کا باعث بنے۔(تلخیص از سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ ٢٦٥۔٢٦٦طبعہ ثانیہ ١٩٥٥ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’یہ حالات تیسرے سال کےبعد پیدا ہونے لگ گئے تھے چنانچہ اسلام کی ترقی کو دیکھ کر انہوں نے علی الاعلان کہنا شروع کر دیا کہ اب مذاق ہو چکا۔ اب ہم ان باتوں کو برداشت نہیں کر سکتے‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ١٢ صفحہ ١٠٧۔ ایڈیشن ٢٠٢٣ء)

احد احد

قریش کو جب ابو طالب کی طرف سے کوئی کامیابی نہ مل سکی تو آخر انہوں نے اس سلسلہ کو مٹانے کے لیے خود سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپس میں مشورہ کے بعد یہ تجویز منظور ہوئی کہ ہر کوئی اپنے قبیلہ کے لوگوں اور رشتہ داروں پرجو مسلمان ہوچکے ہیں دباؤ ڈالے اور انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرے اور یوں ظلم کے ایک بدترین دور کا آغاز ہوگیا۔ گو اس تکلیف دہ دور میں طاقتور اور صاحب استطاعت مسلمانوں کو بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑالیکن جو سلوک کمزور طبقوں سے کیا گیا وہ نہایت ہی دردناک ہے۔ چنانچہ حضرت بلالؓ جو اولین مسلمانوں میں سے تھے مکہ کے ایک بڑے سردار امیہ بن خلف کے غلام تھے۔اس فیصلہ کے بعد اس شریر دشمنِ اسلام نے آپؓ پر ظلم کا سلسلہ شروع کردیا۔مکہ کی شدید گرمی میں آپؓ کو پتھریلی زمین پر لٹاتا اور آپؓ کے اوپر گرم پتھر رکھ دیتااور کہتا لات اور عزیٰ بتوں کی پرستش کرو اور محمد سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرو ورنہ میں تمہیں مار ڈالوں گا۔حضرت بلالؓ چونکہ حبشی تھے عربی زیادہ نہیں جانتے تھے،بس یہی کہتے جاتے احدٌاحدٌ یعنی اللہ ایک ہے اللہ ایک ہے۔یہ سن کر امیہ آپ کو پہلے سے بھی زیادہ مارتا اور جب آخر مار مار کر تھک جاتا تو مکہ کے اوباش لڑکوں کے سپرد کر دیتاجو آپؓ کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے چلے جاتے۔جب یہ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ گیا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آپ کو خرید کر آزاد کردیا۔امیہ بن خلف کے بیٹے صفوان کے ایک غلام ابو فکیہہ بھی مسلمان ہوچکے تھے انہیں بھی اسی طرح کی تکالیف دی جاتیں۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ ١٧٤۔١٧٦’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت ١٩٩٠ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’تو یہ باتیں ان کے لیے بالکل نا قابلِ برداشت ہو گئیں۔ کیونکہ اوّل تو ان کے بتوں کو برا بھلا کہا جاتا تھا اور پھر کہنے والے وہ تھے جو ان کے غلام تھے‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد١٢ صفحہ ١٠٧۔ ایڈیشن ٢٠٢٣ء)

صبرً ا اٰل یاسر

مظالم کا نشانہ بننے والے ان کمزور مسلمانوں میں حضرت عمارؓ، ان کے والد یاسرؓ اور والدہ سمیہؓ  بھی تھے۔حضرت سمیہؓ اس سے پہلے بنو مخزوم کی غلام بھی رہ چکی تھیں۔ یہ وہی خاندان تھا جس سے اسلام کے سب سے بڑےدشمن عمرو بن ہشام،ابو جہل تعلق رکھتا تھا۔ابوجہل کو جب ان کے اسلام قبول کرنے کی خبر ملی تو اس نے اس کمزور خاندان کو ظلم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور انہیں شدید تکالیف دینا شروع کردیں۔آنحضرتﷺ کو اس مظلوم خاندان کے مصائب کا اندازہ تھا اس لیے جب انہیں یہ اذیتیں پہنچائی جارہی تھیں تو آنحضرتﷺ نے ان کی طرف یہ پیغام بھجوایاکہ صَبْرًا اٰلَ یَاسَر فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ یعنی اے آل یاسر! صبر کرو یقیناً خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تکالیف کے بدلہ میں جنت تیار کر رکھی ہے۔ ظلم و تعدی اور شدید مصائب و آلام کا یہ سلسلہ جاری رہا اور حضرت عمار کے والد یاسر اسی حالت میں وفات پاگئے۔اسی طرح حضرت سمیہؓ  کو خود ابو جہل نے بڑی ہی بےدردی سےبرچھی مار کر شہید کردیا۔حضرت عمارؓ کے لیے ان کے والدین کی اس طرح سے وفات ایک زلزلے سے کم نہ تھی۔ اور اس پر اضافہ یہ تھا کہ اس دکھ کےساتھ ساتھ ان پربھی برابر ظلم کا سلسلہ جاری تھا۔ کفار نے آپ سے کہا کہ اگر تم یہ اقرار کردو کہ محمدﷺ جھوٹے ہیں تو ہم تمہیں اور تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔جب یہ ظلم ناقابل برداشت ہو گیا تو حضرت عمارؓ نے ایک مرتبہ اس ظلم کی شدت کے باعث کچھ نامناسب الفاظ کہہ دیے جس پر کفار نے آپ کو رہا کردیا۔لیکن آپؓ کے ایمان کا یہ حال تھا کہ فوراً نبی کریمﷺ کی خدمت میں روتے روتے حاضر ہوئے اور آپﷺ سے کہا:میں ہلاک ہوگیا میں ہلاک ہوگیا۔آپﷺ نے پوچھا آخر ہوا کیاہے۔آپ نے عرض کیا کہ مجھے کفار نے اتنی تکلیف دی کہ میں نے آپﷺ کے بارے میں کچھ نامناسب الفاظ کہہ دیےہیں۔آپﷺ نے فرمایا، تم اپنے دل کوکیسا پاتے ہو؟حضرت عمارؓ نے جواب دیا کہ میں تو اپنے دل میں اسی طرح ایمان اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت پاتا ہوں۔اس پر رسول کریمﷺ نے فرمایا،پھر کوئی پریشانی نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہاری اس کمزوری کو معاف فرمادے گا۔ حضرت سمیہؓ کے علاوہ بنو مخزوم کی محکوم عورتوں میں ایک اور خاتون زنیرہ بھی تھیں جنہیں ابو جہل قبولیتِ اسلام کی وجہ سے بہت مارتا تھا۔ آپ کو بھی حضرت ابو  بکر صدیقؓ نے خرید کر آزاد کردیا۔(الطبقات الکبریٰ جلد ٣ صفحہ ١٨٦۔١٨٩عمار بن یاسرؓ  مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت ١٩٩٠ء)

مذکورہ بالا اصحاب کے علاوہ صہیب بن سنانؓ اور حضرت  خبابؓ بھی تھے جنہیں طرح طرح کی تکالیف پہنچائی گئیں۔یہ دونوں اصحاب پہلے غلام تھے اب آزاد ہوچکے تھے۔حضرت صہیبؓ وہ پہلے رومی مسلمان تھے جن کے قبول اسلام کی وجہ سے قریش آپ کو بہت مارا کرتے تھے۔حضرت خبابؓ لوہار کا کام کرتے تھے،آپ کو بھی قریش کے ظلم کا سامنا کرنا پڑتا، ایک مرتبہ آپ کو جلتے ہوئے کوئلوں پر لٹا دیا گیااور ایک شخص آپ کے اوپر کھڑا ہوگیا تاکہ آپ ہل نہ سکیں،چنانچہ وہ تب تک نہ اٹھا جب تک کہ وہ کوئلے آپ کے جسم پر جل کرٹھنڈے نہ ہوگئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد ٣ صفحہ١٢٣ اور١٧١مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت ١٩٩٠ء)

بااثر مسلمانوں پر بھی تکالیف

کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے ان مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مکہ میں موجود طاقتور اور بااثر لوگوں کو بھی مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ حضرت عثمان بن عفانؓ مکہ کے ایک مستحکم خاندان کا حصہ تھے اور خود بھی معاشرے کے بہترین افراد میں شمارکیے جاتے تھے۔ قریش کے ظالمانہ فیصلے کے بعد ایک مرتبہ آپ کے چچا حکم بن ابی العاص نے آپ کورسی سے باندھ کربہت مارا لیکن آپؓ نے اس ظلم کو بڑے صبر کے ساتھ برداشت کیا اور بے صبری کا کوئی کلمہ آپ کے منہ سے نہ نکلا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد ٣ صفحہ ٤٠مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت ١٩٩٠ء)

اسی طرح حضرت زبیربن العوامؓ کا ایک چچا بھی اس معاملے میں بہت سخت واقع ہوا تھا۔ قبول اسلام کے بعد وہ آپؓ کو چٹائی میں باندھ کر ناک میں دھواں دیا کرتا تھا۔(شرح زرقانی جزء٤صفحہ٥٤٥ دارالکتب العلمیۃ مطبوعہ١٩٩٦ء)

حضرت عمرؓ کے چچا زاد بھائی اور بہنوئی سعید بن زید بھی اولین مسلمانوں میں سے تھے،آپؓ کو حضرت عمرؓ کی طرف سے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے نہایت سختی اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔( سیرت ابن ہشام جلد ١ صفحہ ٣٤٤ طبعہ ثانیہ ١٩٥٥ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’ ان کے دلوں میں اسلام کی مخالفت کا جوش پیدا کرنے والی دوچیزیں تھیں ایک غلاموں کا اسلام میں شامل ہونا۔ دوسرے رؤسا میں سے بعض نوجوانوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آنا۔ حضرت عثمانؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ ایسے خاندانوں میں سے تھے جو مکہ کے رؤوسا میں شمار ہوتے تھے۔ جب یہ لوگ ایمان لے آئے تو وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پاگل کہا کرتے تھے ان لوگوں نے طعنہ دینا شروع کر دیا کہ کیا یہ پاگل ہے یہ تو تمہارے گھروں میں سے نو جوانوں کو اپنی طرف کھینچ کر لے گیا ہے اور تم اسی خیال میں مست ہو کہ یہ پاگل ہے ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ١٢ صفحہ ١٠٧، ایڈیشن٢٠٢٣ء)

آنحضرتﷺ کی ذاتی تکالیف

آنحضرتﷺ کے لیے اپنے ان پیارے اصحاب پر ڈھائے جانے والے مظالم نہایت ہی تکلیف دہ ہوتے تھے۔ان مومنین کو تکلیف میں ڈالنے کی اصل غرض بھی آنحضرتﷺ کو اس الٰہی مشن کے پھیلانے سے روکنا ہی تھی لیکن کفار کے لیے ان نومسلموں کا صبر اور استقلال نہایت حیران کن تھا۔چنانچہ اب جبکہ وہ اس طریق پربھی اسلام کی اشاعت کو روکنے میں ناکام رہے تو بالآخر انہوں نے براہ راست آنحضرتﷺ کی ذات کے خلاف بھی ایذا رسانی کا آغاز کردیا۔ آپؐ کو تکلیف پہنچانے کے ہر ممکنہ طریق کو اختیار کیا گیا اور اس ظلم میں غیروں کے ساتھ ساتھ آپ کی قوم، قبیلے اور خاندان کے بعض لوگ بھی شامل تھے جو محض آپﷺ کی ترقی کو دیکھ کر حسد اوربغض کی وجہ سے آپ کے جانی دشمن بن گئے۔چنانچہ ایک طرف آپؐ کا ایک چچا ابولہب آپﷺ کو تبلیغ سے روکنے اور لوگوں کو آپﷺ کےخلاف ورغلانے میں لگا رہتا تو دوسری طرف چچی ام جمیل آپﷺ کے راستوں میں کانٹے بچھاتی چلی جاتی۔ابو لہب کی اس عداوت کو دیکھ کر باقی مکہ والے بھی آپﷺ کی دشمنی میں دلیر ہو گئے۔راستے میں آپ کو مختلف قسم کی تکالیف پہنچائی جاتیں،اوربعدازاں ہنسی اور ٹھٹھا کیا جاتا۔ گھر ہوتے تو گندگی آپ کے دروازہ کے آگے پھینک دی جاتی اور پتھر برسائے جاتے۔آپﷺ کو محمد کی بجائےمکہ میں مذمم کہا جانے لگا۔ اور بالآخر یہ عداوت اتنی بڑھ گئی کہ ایک مرتبہ جبکہ رسول کریمﷺ صحن ِکعبہ میں عبادت میں مشغول تھے، ایک بدبخت اور شریر شخص عقبہ بن ابی معیط آپؐ کے گلے میں کپڑا ڈال کرآپؐ کی جان لینے کے لیے تیار ہو گیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے جب یہ دیکھا تو فوراً عقبہ کو پکڑ کر پیچھے ہٹایا اور کہا أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ يَقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ یعنی کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔(صحیح بخاری کتاب فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر۳۶۷۸)

حضرت مسیح موعودؑ اس دور میں آنحضرتﷺ کو پہنچنے والی تکالیف کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں:’’حضرت کے اوپر جو ظلم ہوتا تھا اُسے جس طرح بن پڑتا تھا وہ برداشت کرتے تھے مگر اپنے رفیقوں کی مصیبت دیکھ کر اُن کا دل ہاتھ سے نکل جاتا تھا اور بیتاب ہو جاتا تھا۔‘‘ ( چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ٢٣ صفحہ ٢٥٨)

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’آپؐ کی ابتدائی حالت میں کوئی آپؐ پر میلا ڈالتا، کوئی دھکا دیتا، کوئی گلے میں پٹکا ڈالتا۔ غرض کوئی تکلیف نہ ہوتی جو پہنچائی نہ جاتی اور کوئی سخت سلوک نہ تھا جو آپؐ کے ساتھ کیا نہ گیا۔ کیا اُس وقت کی حالت کے دیکھنے سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ آج جس کو ذلیل سمجھا جاتا ہے وہی دنیا میں سب سے زیادہ عزت دار ہو گا۔ آج جس کے گلے میں پٹکا ڈالا جاتا ہے وہی ہوگا جس کے آگے دنیا کے بڑے بڑے لوگوں کی گردنیں جھک جائیں گی.. .ہرگز نہیں۔ اس کے گمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ وہ شخص جسے ہر شخص پاگل خیال کرتا اس قدر بڑھے گا کہ دنیا کے عقلمند، دنیا کے طاقتور، دنیا کے عزت دار اس کی غلامی کو فخر سمجھیں گے۔ مگر وہ بڑھا، اس کی تعلیم دنیا کے گھر گھر میں پھیل گئی، بڑے بڑے بادشاہ اس کی غلامی کو فخر سمجھنے لگ گئے۔ اور یہ سب اس لیے ہوا کہ اس نے نہایت تاریکی کے دنوں میں خدا کا نام لیا اور خدا نے اسے روشن کرنے کا وعدہ کیا‘‘۔( الفضل ٩؍نومبر ١٩٢٦ءصفحہ ٧)

اسلام کی فتح

پس ظلم اور تاریکی کے ان دنوں میں ان کا مضبوط ایمان اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتوحات اور ترقیات کے وہ وعدے ہی تھے جومسلمانوں کی تسلی اور امید کا ذریعہ بنے رہے،جو انہیں یہ یقین دلاتے رہے کہ باوجود اس ظلم کے ان کی یہی ثابت قدمی انہیں آخرکار کامیابی کی راہوں کی طرف لے کر جائے گی۔ یہ یقین اس سبب سے تھا کہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے نبیوں اور ماموروں کے ذریعے سے ہی دنیا کی ہدایت کے سامان بھی کرتا ہے اور سچے دین کو فتوحات بھی عطا کیا کرتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے ترقی کے ان وعدوں اور ان کے بلند حوصلوں کو دیکھ کردشمنانِ اسلام حیران بھی ہوا کرتے تھے اور پریشان بھی۔ وہ ہزار کوششوں کے باوجود آپس میں وہ محبت، اتفاق اور یکجہتی پیدا نہیں کر پاتے تھے جو مسلمانوں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی برکت سے پائی جاتی تھی۔ جیسے جیسے وہ ظلم کی آگ کو بڑھاتے جا رہے تھے ویسے ویسے مسلمان اس آگ میں پڑ کر کندن بنتے چلے جا رہے تھے۔ ان مشکل اور کٹھن حالات میں نبی کریمﷺ اور صحابہ کا صبر و استقلال آج بھی تمام مسلمانوں کے لیے اپنے اندر ایک سبق رکھتا ہے۔مسلمانوں کی ترقی کا راز اور اسلام کی فتوحات کا خواب آج بھی اجتماعیت اور ایک ہاتھ پر اکٹھے ہونے میں ہی پنہاں ہے۔اس زمانہ کے امام اوران کے خلیفہ کی کامل اطاعت پر ہی اسلام کی ترقی کا تمام تر انحصار اور دارومدار ہے جس کی پیشگوئی ہمارے نبی کریمﷺنے آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے فرمادی تھی۔جیسےہی مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ کے مامور کی اتباع کے ذریعے سے یہ اجتماعیت پیدا ہوجائے گی اسلام ایک مرتبہ پھر قرآن کریم اور احادیث میں بیان کردہ وعدوں کے مطابق دنیا پر اپنا غلبہ حاصل کرلے گا۔انشاءاللہ

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:ان دونوں سورتوں (سورۃ الاعلیٰ اورالغاشیۃ) کا مضمون ایسا ہے جو شروع زمانہ اسلام سے آخر زمانۂ اسلام تک تعلق رکھنے والا تھا۔ اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ جمعہ اور عیدین میں بالالتزام ان دونوں سورتوں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ جمعہ اور عیدین جو اجتماع کے مواقع ہیں ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دونوں سورتوں کی تلاوت کرنا بتاتا ہے کہ جب بھی مسلمان اجتماعی طاقت پکڑنے کی طرف متوجہ ہوں گے اور جب بھی خدا تعالیٰ مسلمانوں کی کمزوری کو دور کرنے لگے گا اس وقت یہ دونوں سورتیں اپنے مطالب کے لحاظ سے ظاہر ہو جا ئیں گی۔ سورۃ الاعلیٰ میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ مسلمانوں کی ترقی اسی وقت ہوگی جب قرآن کریم کے معارف اور اس کے علوم کو ظاہر کرنے والا مامور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گا۔ گویا مسلمانوں کی ترقی کبھی بھی دنیوی ذرائع سے نہیں ہوگی بلکہ مامورین پر ایمان لانے اور ان کی ہدایات پر چلنے کے ذریعہ ہوگی۔(تفسیر کبیر جلد ١٢ صفحہ ١٠٠۔ ایڈیشن٢٠٢٣ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button