حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قرآن مجید نبیوں پر سحر کے قصہ کو…ردّ کر دیتا ہے

جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کبھی عام اور وقتی نسیان ہو جاتا تھا اسی طرح صلح حدیبیہ کے بعد کچھ عرصہ کے لیے بیماری کے رنگ میں نسیان ہو گیا تھا۔ چنانچہ یہی وہ تشریح ہے جو سحر والی روایت کے مطابق روایت کے تعلق میں بعض گزشتہ علماء نے کی ہے۔ مثلاً علامہ مَازَرِیّ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر بیشمار پختہ دلائل موجود ہیں اور آپؐ کے معجزات بھی آپؐ کی سچائی پر گواہ ہیں۔ باقی عام دنیا کے امور جن کے لیے آپؐ مبعوث نہیں کیے گئے تھے سو اس تعلق میں یہ ایک بیماری کا عارضہ سمجھا جائے گا جیسا کہ انسان کو دوسری بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ اور علّامہ اِبنُ القَصار فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو یہ عارضہ نسیان کا پیش آیا تو یہ بیماریوں میں سے ایک بیماری تھی جیساکہ حدیث کے ان آخری الفاظ سے ظاہر ہے کہ اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے۔ (اس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔)

خلاصہ کلام یہ کہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حالت جسے دشمنوں کے سحر کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے وہ ہرگز کسی سحر، جادو وغیرہ کا نتیجہ نہیں تھی۔ بلکہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت محض بھولنے کی تکلیف تھی۔ نسیان کی بیماری تھی جسے بعض فتنہ پرداز لوگوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کے خلاف پراپیگنڈے کا ذریعہ بنا لیا۔ قرآن مجیدنبیوں پر سحر کے قصہ کو دور سے ہی دھکے دیتا ہے، ردّ کر دیتا ہے۔ عقل انسانی اسے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ حدیث کے الفاظ اس تشریح کو جھٹلاتے ہیں جو اس پر مڑھی جا رہی ہے۔ اور خود سرور کائنات افضل الرسلؐ کا ارفع مقام سحر والے قصہ کے تار پود بکھیر رہا ہے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بھی خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ جیسا کہ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (اس وقت اُن کی زندگی کی بات کر رہے ہیں) کی روایت ہے۔ اس روایت کے مطابق سیرۃالمہدی کے حصہ اول کی روایت نمبر 75 میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ ایک متعصّب ہندو جو گجرات کا رہنے والا تھا قادیان آیا تھا۔ اور وہ علم توجہ یعنی ہپناٹزم کے سحر کا بڑا ماہر تھا۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں حاضر ہو کر آپؑ پر خاموشی کے ساتھ توجہ ڈالنا شروع کی تا کہ آپؑ سے بعض نازیبا حرکات کر اکے آپؑ کو لوگوں کی ہنسی کا نشانہ بنائے مگر جب آپؑ نے اس پر توجہ ڈالی تو وہ چیخ مار کر بھاگا۔ اور جب اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں یہ کیا ہوا تھا تو اس نے جواب دیا کہ جب میں نے مرزا صاحبؑ پر توجہ ڈالی تو مجھے یوں نظر آیا کہ میرے سامنے ایک خوفناک شیر کھڑا ہے جو مجھ پر حملہ کرنے والا ہے اور مَیں اس سے ڈر کر بھاگ نکلا ہوں۔ تو آپؓ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں، جب خادم کا یہ مقام ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ہپناٹزم کا اثر نہیں ہونے دیا تو آقا کے متعلق یہ خیال کرنا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ خیال کرنا کہ آپؐ نعوذ باللہ ایک یہودی کے ہپناٹزم کا نشانہ بن گئے تھے یہ کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے۔

(ماخوذ ازمضامین بشیر جلد 3 صفحہ 642 تا 653 مضامین 1959ء)

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍ مارچ ۲۰۱۹ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲ اور ۲۹؍ مارچ ۲۰۱۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button