متفرق مضامین

کفالتِ یتامیٰ کے بارہ میں اسلامی تعلیم

(’ابن مریم فرخ‘)

یتیم کا لفظ الانْفراد یا فِقْدَانُ الأَب یعنی اکیلے یا باپ کے بغیر ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔اکیلے انسان کے کیا جذبات ہوسکتے ہیں اور بالخصوص ایسے اکیلے انسان کے جس کا باپ نہ ہو اور وہ انسان بالغ بھی نہ ہو، اُس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔اسی طرح اس انسان کے جذبات کا احساس کرنا بھی کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے جو اپنی اولاد کو بے سہارا چھوڑ کر اس دنیا سے کوچ کرنے والا ہو۔پہلی صورت میں باپ کی شفقت، محبت اور پیار سے محرومی کے جذبات بچے کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور دوسری صورت میں اپنی اور بچوں کی بے بسی اور بچوں کی تکلیف کا احساس باپ کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔دونوں تصورات ہی بہت تکلیف دہ ہیں۔ہر سمجھدار انسان اپنے یا اپنے کسی عزیز کے لیے ان دونوں صورتوں سے پناہ ہی مانگتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل اور آخری کتاب یعنی قرآن کریم کے نزول کے لیے ایک ایسے انسان کا انتخاب کیا جو یتیم تھا۔اللہ تعالیٰ سورۃ الضحیٰ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہےکہ اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى کیا اُس نے تجھے یتیم نہیں پایا تھا؟ پس پناہ دی۔ اس چھوٹی سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن تمام قسم کے جذبات کو سمودیا ہے جو آنحضورؐ کے دل میں بچپن سے پیدا ہوا کرتے تھے جن کا اظہار حضورؐ اپنی حساس طبیعت کے پیشِ نظر دنیا کے سامنے نہیں کرتے تھے لیکن کبھی کبھار وہ جذبات قدرتی طور پر ظاہر ہو ہی جاتے تھے جیسا کہ حضورؐ کا اپنے دادا کی وفات پر زار و قطار رونا۔(سیرت خاتم النبین ؐ صفحہ۱۱۲ مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ)

غور کیا جائے تو یہ آیت بہت ہی دردناک ہے اور حضورؐ کے غلاموں کو حضورؐ کے دل میں جھانک کردیکھنے کے لیے ایک موقع فراہم کرتی ہے۔کیسے حضورؐ اکیلا محسوس کرتے ہوں گے! حضورؐ کی کیا اُمنگیں ہوں گی! اپنے فطری جذبات کے اظہار کو کیسے دباتے ہوں گے! وغیرہ۔اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو جس عظیم الشان مقام پر فائز فرمایا، اس کی ابتدا نہایت تکلیف دہ اور عاجزی کے مقام سے فرمائی۔بقول شاعر

وہ بادشاہِ فراق و وصال ہے اس نے

جو بار سب پہ گراں تھا غلام پر رکھا

سورۃ الضحیٰ کی اسی آیت کے آخری لفظ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا حل بھی بیان کردیا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا اُس نے تجھے یتیم نہیں پایا تھا؟ پس پناہ دی۔یعنی اللہ تعالیٰ نے آنحضورؐ کو پناہ دی۔گویا یتیمی کی تکالیف کو خود اللہ تعالیٰ نے دور فرمایا۔حضورؐ کو جس خاص مقصد کے لیے مبعوث کیا گیا اس کے لیے ضروری تھا کہ حضورؐ کی زندگی کا ہر پہلو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں گزرے اور خود اللہ تعالیٰ ہی آپؐ کا کفیل ہو۔حضرت مسیح موعودؑ نے اس تصور کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔؎

ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے

گود میں تیری رہا میں مثلِ طفلِ شیر خوار

قانونِ قدرت کے تحت قیامت تک یتامیٰ ہر معاشرے میں موجود رہیں گے اور اس معاشرے کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ تا روزِ قیامت یتامیٰ کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائے اور اسی طرح انہیں اپنی پناہ میں لے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ ٖو سلم کو اپنی پناہ میں لیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یتامیٰ کی خبر گیری کی بہت تلقین فرمائی ہے اور اس سے غفلت برتنے پر سخت تنبیہ بھی فرمائی ہے۔

اس مختصر مضمون میں کفالتِ یتامیٰ کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو اکٹھا کرکے پیش کیا گیا ہے۔

کفالتِ یتامیٰ کے بارے میں اسلامی تعلیم

سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَالۡمَغۡرِبِ وَلٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَالۡمَلٰٓئِکَۃِ وَالۡکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ۚ وَاٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنَ وَابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَالسَّآئِلِیۡنَ وَفِی الرِّقَابِ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَالصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ۔(البقرہ :۱۷۸)نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو۔ بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر اور مال دے اس کی محبت رکھتے ہوئے اقرباءکو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو نیز گردنوں کو آزاد کرانے کی خاطر۔ اور جو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور وہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں جب وہ عہد باندھتے ہیں اور تکلیفوں اور دکھوں کے دوران صبر کرنے والے ہیں اور جنگ کے دوران بھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدق اختیار کیا اور یہی ہیں جو متّقی ہیں۔

سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَاذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَالۡاَقۡرَبِیۡنَ وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ۔(البقرہ: ۲۱۶)وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں۔ تُو کہہ دے کہ تم (اپنے) مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کرنا چاہو تو والدین کی خاطر کرو اور اقرباءکی خاطر اور یتیموں کی خاطر اور مسکینوں کی خاطر اور مسافروں کی خاطر۔ اور جو نیکی بھی تم کرو تو اللہ یقیناً اس کا خوب علم رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فِی الدُّنۡیَا وَالۡاٰخِرَۃِ ؕ وَیَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡیَتٰمٰی ؕ قُلۡ اِصۡلَاحٌ لَّہُمۡ خَیۡرٌ ؕ وَاِنۡ تُخَالِطُوۡہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ یَعۡلَمُ الۡمُفۡسِدَ مِنَ الۡمُصۡلِحِ ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعۡنَتَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ۔(البقرہ:۲۲۱)دنیا کے بارہ میں بھی اور آخرت کے بارہ میں بھی۔ اور وہ تجھ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ تُو کہہ دے ان کی اصلاح اچھی بات ہے۔ اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائی بند ہی ہیں۔ اور اللہ فساد کرنے والے کا اصلاح کرنے والے سے فرق جانتا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ضرور مشکل میں ڈال دیتا۔ یقیناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

ہر انسان اپنی اولاد کی دینی و دنیاوی کامیابی کے لیے فکرمند ہوتا ہے۔یہاں تک کہ انبیاء بھی اپنی اولاد کی دینی و دنیاوی ترقیات کے لیے دعاگو رہے۔اللہ تعالیٰ نے والدین کو کمزور اور اولاد کے پیچھے چھوڑ جانے سے بھی ڈرایا ہے۔جیساکہ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَیَوَدُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ تَکُوۡنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّاَعۡنَابٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ لَہٗ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ وَاَصَابَہُ الۡکِبَرُ وَلَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآءُ ۪ۖ فَاَصَابَہَاۤ اِعۡصَارٌ فِیۡہِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ۔(البقرہ:۲۶۷)کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ اس کے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے دامن میں نہریں بہتی ہوں۔ اس کے لئے اس میں ہر قسم کے پھل ہوں نیز اُس پر بڑھاپا آجائے جبکہ اس کے بچے ابھی کمزور (اور کم سِن) ہوں۔ تب اُس (باغ) کو ایک بگولہ آ لے جس میں آگ (کی تپش) ہو پس وہ جل جائے۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے (اپنے) نشان خوب کھولتا ہے تاکہ تم تفکر کرو۔

اس آیت سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ جو بچے اور بچیاں اس صورتحال سے دوچار ہیں ان کی مدد کرنا کس قدر ضروری ہے۔

سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہوَاِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنُ فَارۡزُقُوۡہُمۡ مِّنۡہُ وَقُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا۔ وَلۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ لَوۡ تَرَکُوۡا مِنۡ خَلۡفِہِمۡ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۪ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَلۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ۔(النساء:۱۰)اور جب (ترکہ کی) تقسیم پر (ایسے) اقرباء(جن کو قواعد کے مطابق حصہ نہیں پہنچتا) اور یتیم اور مسکین بھی آجائیں تو کچھ اس میں سے ان کو بھی دو۔ اور ان سے اچھی بات کہا کرو۔ اور وہ لوگ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑ جاتے تو اُن کے بارہ میں خوف کھاتے۔ پس چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور صاف سیدھی بات کہیں۔

سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلْيَخْشَ الَّذِيْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّيَّۃً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَيْھِمْ فَلْيَتَّقُوا اللّٰہَ وَلْيَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا ۔(النساء:۱۰)اور وہ لوگ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑ جاتے تو اُن کے بارہ میں خوف کھاتے۔ پس چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور صاف سیدھی بات کہیں۔

سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاعۡبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَالۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡجَارِ الۡجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا۔(النساء :۳۷)اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔

سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوۡلِ وَلِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا یَوۡمَ الۡفُرۡقَانِ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ؕ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔(الانفال: ۴۲) اور تم جان لو کہ جو بھی مالِ غنیمت تمہارے ہاتھ لگے تو اس کا پانچواں حصہ اللہ (یعنی دین کے کاموں کے لئے) اور رسول کے لئے اور اقرباءکے لئے اور یتامیٰ اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے، اگر تم اللہ پر ایمان لاتے ہو اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کر دینے کے دن اتارا تھا جس دن دو جمعیتوں کا تصادم ہوا تھا۔ اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتاہے۔

سورۃ الحشر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہمَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوۡلِ وَلِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ وَمَاۤ اٰتٰٮکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ٭ وَمَا نَہٰٮکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ۔(الحشر:۸) اللہ نے بعض بستیوں کے باشندوں (کے اموال میں) سے اپنے رسول کو جو بطور غنیمت عطا کیا ہے تو وہ اللہ کے لئے اور رسول کے لئے ہے اور اقرباء، یتامیٰ اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے۔ تا ایسا نہ ہو کہ یہ (مالِ غنیمت) تمہارے امراءہی کے دائرے میں چکر لگاتا رہے۔ اور رسول جو تمہیں عطا کرے تو اسے لے لو اور جس سے تمہیں روکے اُس سے رُک جاؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔

سورۃ الضحیٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْہَرْ ۔(الضحیٰ:۱۰)پس جہاں تک یتیم کا تعلق ہے تو اُس پر سختی نہ کر۔

سورۃ البلد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا الۡعَقَبَۃُ۔ فَكُّ رَقَبَۃٍ۔ اَوْ اِطْعٰمٌ فِيْ يَوْمٍ ذِيْ مَسْغَبَۃٍ۔ يَّـتِيْمًـا ذَا مَقْرَبَۃٍ۔ اَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ ۔ (البلد:۱۳تا۱۷) اور تجھے کیا سمجھائے کہ عَقَبَہ کیا ہے؟ گردن کاآزاد کرنا۔ یا ایک عام فاقے والے دن میں کھانا کھلانا۔ ایسے یتیم کو جو قرابت والا ہو۔ یا ایسے مسکین کو جو خاک آلودہ ہو۔

یتیم بچیوں سے نکاح کے بارہ میں اسلامی تعلیم

سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہوَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا۔(النساء:۴)اور اگر تم ڈرو کہ تم یتامیٰ کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔ دو دو اور تین تین اور چار چار۔ لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک (کافی ہے) یا وہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یہ (طریق) قریب تر ہے کہ تم ناانصافی سے بچو۔

سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللّٰہُ يُفْتِيْكُمْ فِيْہِنَّ وَمَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ فِيْ يَـتٰمَي النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا كُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْھُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْيَتٰمٰي بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ كَانَ بِہٖ عَلِــيْمًا۔(النساء:۱۲۸)اور وہ تجھ سے عورتوں کے بارہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ اللہ تمہیں ان کے متعلق فتویٰ دیتا ہے اور (متوجہ کرتا ہے اس طرف) جو تم پر کتاب میں اُن یتیم عورتوں کے متعلق پڑھا جا چکا ہے جن کو تم وہ نہیں دیتے جو اُن کے حق میں فرض کیا گیا حالانکہ خواہش رکھتے ہو کہ اُن سے نکاح کرو۔ اسی طرح بچوں میں سے (بے سہارا) کمزوروں کے متعلق (اللہ فتویٰ دیتا ہے) اور (تاکید کرتا ہے) کہ تم یتیموں کے حق میں انصاف کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ۔ پس جو نیکی بھی تم کروگے تو یقیناً اللہ اس کا خوب علم رکھتا ہے۔

یتامیٰ کے اموال کی حفاظت کے بارے میں اسلامی تعلیم

سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاٰتُوا الْيَــتٰمٰٓى اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيْثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓى اَمْوَالِكُمْ اِنَّہٗ كَانَ حُوْبًا كَبِيْرًا۔ (النساء:۳) اور یتامیٰ کو اُن کے اموال دو اور خبیث چیزیں پاک چیزوں کے تبادلہ میں نہ لیا کرو اور ان کے اموال اپنے اموال سے ملا کر نہ کھا جایا کرو۔ یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ وَلَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا وَّبِدَارًا اَنۡ یَّکۡبَرُوۡا ؕ وَمَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَمَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ فَاَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِمۡ ؕ وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا (النساء:۷) اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں۔ پس اگر تم ان میں عقل (کے آثار) محسوس کرو تو ان کے اموال ان کو واپس کر دو۔ اور اس ڈر سے اِسراف اور تیزی کے ساتھ اُن کو نہ کھاؤ کہ کہیں وہ بڑے نہ ہو جائیں۔ اور جو امیر ہو تو چاہئے کہ وہ (ان کا مال کھانے سے) کلیۃً احتراز کرے۔ ہاں جو غریب ہو تو وہ مناسب طریق پر کھائے۔ پھر جب تم ان کی طرف اُن کے اموال لوٹاؤ تو اُن پر گواہ ٹھہرا لیا کرو۔ اور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔

سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۚ وَاَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَالۡمِیۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ ۚ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا وَاِذَا قُلۡتُمۡ فَاعۡدِلُوۡا وَلَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی وَبِعَہۡدِ اللّٰہِ اَوۡفُوۡا ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ۔(الانعام:۱۵۳)اور سوائے ایسے طریق کے جو بہت اچھا ہو یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے اور ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو۔ ہم کسی جان پر اس کی وسعت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالتے۔ اور جب بھی تُم کوئی بات کرو تو عدل سے کام لو خواہ کوئی قریبی ہی (کیوں نہ )ہو۔ اور اللہ کے (ساتھ کئے گئے) عہد کو پورا کرو۔ یہ وہ امر ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔

سورۃ الاسراء (بنی اسرائیل) میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۪ وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا۔ (بنی اسرائیل:۳۵) اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریق پر کہ وہ بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے۔ اور عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔

سورۃ الکہف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَانْطَلَقَا حَتّٰٓي اِذَآ اَتَيَآ اَہْلَ قَرْيَـۃِۨ اسْـتَطْعَمَآ اَہْلَہَا فَاَبَوْا اَنْ يُّضَيِّفُوْہُمَا فَوَجَدَا فِـيْہَا جِدَارًا يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْہِ اَجْرًا ۔(الکہف:۷۸) وہ دونوں پھر روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس پہنچے تو اُس کے مکینوں سے انہوں نے کھانا مانگا۔ پس انہوں نے انکار کر دیا کہ ان کی میزبانی کریں۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا ہی چاہتی تھی۔ تو اُس نے اُسے سیدھا کر دیا۔ اس نے کہا اگر تُو چاہتا تو ضرور اس کام پر اُجرت لے سکتا تھا۔

سورۃ الکہف میں ہی اس واقعہ کی وضاحت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَکَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَیَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا ٭ۖ رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ۚ وَمَا فَعَلۡتُہٗ عَنۡ اَمۡرِیۡ ؕ ذٰلِکَ تَاۡوِیۡلُ مَا لَمۡ تَسۡطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا (الکہف:۸۳)اور جہاں تک دیوار کا تعلق ہے تو وہ شہر میں رہنے والے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کے لئے خزانہ تھا اور اُن کا باپ ایک نیک شخص تھا۔ پس تیرے ربّ نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکالیں۔ یہ تیرے ربّ کی طرف سے بطور رحمت تھا۔ اور میں نے ایسا اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ حکمت تھی ان باتوں کی جن پر تجھے صبر کی استطاعت نہ تھی۔

سورۃ الکہف کی مندرجہ بالا آیات ۷۸ اور ۸۳ حضرت موسیٰؑ کے ایک رؤیا کے ذکر میں بیان ہوئی ہیں اور ان میں امتِ محمدیہ کے لیے عظیم پیشگوئیوں کا ذکر ہے، ان کی تفصیل حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تفاسیر میں موجود ہے۔لیکن ظاہر پر نظر رکھتے ہوئے ان آیات سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ امتِ محمدیہ میں کفالتِ یتامیٰ کے لیے مخصوص تعلیم ہوگی اور ان کے اموال کی حفاظت پر خاص توجہ دی جائے گی اور قرآنِ کریم میں سورۃ النساء، سورۃ الانعام اور سورۃ الاسراء (بنی اسرائیل) میں ان احکامات کی تفصیل موجود ہے۔

کفالتِ یتامیٰ نہ کرنے پر اظہارِ ناراضگی

سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَقُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا وَّاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡکُمۡ وَاَنۡتُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ(البقرہ:۸۴)اور جب ہم نے بنی اسرائیل کا میثاق (اُن سے) لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور والدین سے احسان کا سلوک کروگے اور قریبی رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے بھی۔ اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اس کے باوجود تم میں سے چند کے سوا تم سب (اس عہد سے) پھر گئے۔ اور تم اِعراض کرنے والے تھے۔

سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا (النساء:۱۱)یقیناً وہ لوگ جو یتیموں کا مال ازرہِ ظلم کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ جھونکتے ہیں۔ اور یقیناً وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑیں گے۔

سورۃ الفجر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَمَّاۤ اِذَا مَا ابۡتَلٰٮہُ فَقَدَرَ عَلَیۡہِ رِزۡقَہٗ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَہَانَنِ۔ کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ ۔ وَلَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ۔ وَتَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا۔ وَّتُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ۔ کَلَّاۤ اِذَا دُکَّتِ الۡاَرۡضُ دَکًّا دَکًّا ۔ (الفجر:۱۷تا۲۲) اور اس کے برعکس جب وہ اُس کی آزمائش کرتا اور اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے ربّ نے میری بے عزتی کی ہے۔ خبردار! درحقیقت تم یتیم کی عزّت نہیں کرتے۔ اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو۔ اور تم ورثہ تمام تر ہڑپ کر جاتے ہو۔ اور مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو۔ خبردار! جب زمین کُوٹ کُوٹ کر ریزہ ریزہ کردی جائے گی۔

سورۃ الماعون میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہاَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یُکَذِّبُ بِالدِّیۡنِ۔ فَذٰلِکَ الَّذِیۡ یَدُعُّ الۡیَتِیۡمَ۔ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ۔ (الماعون:۳تا۵)کیا تُو نے اس شخص پر غور کیا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ پس وہی شخص ہے جو یتیم کو دھتکارتا ہے۔ اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔

یتامیٰ سے حسنِ سلوک کرنے والوں کے لیے انعام

اللہ تعالیٰ سورۃ الدھر میں فرماتا ہے کہ اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُہَا كَافُوْرًا۔ عَيْنًا يَّشْرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ يُفَجِّرُوْنَہَا تَفْجِيْرًا۔ يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُوْنَ يَوْمًا كَانَ شَرُّہٗ مُسْـتَطِيْرًا۔ وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۔ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا ۔(الدھر:۶تا ۱۰)یقیناً نیک لوگ ایک ایسے پیالے سے پیئیں گے جس کا مزاج کافوری ہوگا۔ ایک ایسا چشمہ جس سے اللہ کے بندے پیئیں گے جسے وہ پھاڑ پھاڑ کر کشادہ کرتے چلے جائیں گے۔ وہ (اپنی) منت پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کا شر پھیل جانے والا ہے۔ اور وہ کھانے کو، اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے، مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔ ہم تمہیں محض اللہ کی رضا کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم ہرگز نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کوئی شکریہ۔

کفالتِ یتامیٰ کے بارے میں منتخب احادیث

مندرجہ بالا قرآنی آیات کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذیل میں دو احادیث بھی پیش ہیں:عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِیَ اللّٰہِ عَنْہُ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: اَنَا وَ کَافِلُ الْیَتِیْمِ فِی الْجَنَّۃِ ھٰکَذَا وَ اَشَارَ بِالسَّبَّابَۃِ وَ الْوُسْطٰی وَ فَرَّجَ بَیْنَھُمَا ۔(بخاری کتاب الادب باب فضل من یعول یتیمًا)حضرت سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔میں اور یتیم کی دیکھ بھال میں لگا رہنے والا جنّت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے۔آپؐ نے وضاحت کی غرض سے انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر دکھایا کہ اس طرح۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ: خَیْرُ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُحْسَنُ اِلَیْہِ وَ شَرُّ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُسَاءُ اِلَیْہِ۔(ابنِ ماجہ ابواب الادب۔کتاب حق الیتیم)حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے۔

کفالتِ یتامیٰ کے بارے میں اسلامی تعلیم کا خلاصہ

کفالتِ یتامیٰ کے بارےمیں اسلامی تعلیم کا خلاصہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیلجیم کی واقفاتِ نو کے ساتھ ایک ورچوئل ملاقات منعقدہ ۱۹؍نومبر ۲۰۲۳ء میں ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ’’اسلام کہتا ہے کہ تم لوگوں پر فرض ہے کہ جو یتیم بچے ہیں اُن کو سنبھالو، اُن کی پرورش کرو۔اگر ماں باپ بچپن میں فوت ہوجاتے ہیں تو اُن کو سنبھالو اور اُن کی پرورش کرو، اُن کو پڑھاؤ، اُن کی تعلیم کا خیال رکھو۔اگر اُن کی جائیدادیں ہیں تو قرآن شریف میں یہ بھی لکھا ہے کہ اُن کی جائیدادوں کا خیال رکھو اور جب وہ صحیح عمر کو پہنچ جائیں، جب اپنی جائیداد، اپنے ماں باپ کی پراپرٹی (property) سنبھال سکیں تو اُن کے سپرد کردو اور اُن کی پرورش کرتے ہوئے، اُن کے بڑے ہونے سے پہلے پہلے اتنا نہ کھاؤ کہ کہو ہم ختم کردیں۔

بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والا قیامت کے دن اس طرح ہوں گے، دو انگلیوں کو ملا کے بتایا کہ ہم ایک جگہ ہوں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یتیم کی پرورش کرنے والے کو اتنا بڑا مقام دیا ۔

ماں باپ اگر کسی وجہ سے فوت ہوجاتے ہیں اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں تو معاشرے، سوسائٹی (society) اور جماعت کا کام ہے کہ ان یتیم بچوں کو سنبھالے، پڑھائے، اُن کی بڑھوتری کرے۔اگر اُن کے پاس وسائل، ذرائع نہیں ہیں تو اُن کو پوری طرح وسائل مہیا کرکے اُن کی تربیت کے سامان پیدا کرے اور اگر اُن کی جائیدادیں ہیں تو اس میں سے اُن کو بھی سنبھال کر رکھے اور جب بڑے ہوں تو اُن کے سپرد کردے اور اگر کوئی پرورش کرنے والا ایسا ہے جس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ صحیح طرح اُن کی پرورش کرسکے تو پھر مناسب طور پر اُن کی جائیداد میں سے تھوڑا تھوڑا اِن کے اوپر خرچ کرتے رہو جس طرح اُن کے ماں باپ نے خرچ کرنا تھا اور پھر جب وہ بڑے ہوجائیں تو اُن کے سپرد کردو، یہی ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

اور یتیم کو پالنے کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن شریف میں کئی جگہ اِس کا حکم ہے کہ یتیم کی پرورش کرو، اس کو سنبھالو۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مَیں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ہوں گے جس طرح دو انگلیاں ہوتی ہیں، تو یہ مقام ملتا ہے۔ اس بچے کو جس کے ماں باپ فوت ہوگئے ہم نے بالکل چھوڑ ہی نہیں دیا، بلکہ اسلام نے، اللہ تعالیٰ نے بڑی سخت ڈیوٹی (duty) لگادی کہ ایسے بچے جو ماں باپ کے بغیر ہیں، ان کی پرورش کرنا تمہارا فرض ہے اور تمہیں اس کا ثواب ہے اور اگر نہیں کرتے تو تمہیں اس کا گناہ ہے۔

تو ایک قانونِ قدرت کے تحت اگر وہ مر جاتے ہیں، فوت ہوجاتے ہیں تو اُن کی نسل کو سنبھالنا ہمارا کام ہے۔ اس لیے جماعت احمدیہ میں یتامیٰ فنڈ بھی قائم ہےاور اس لیے ہم یتیموں کو سنبھالتے ہیں، خرچ دیتے ہیں، پڑھاتے ہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍نومبر ۲۰۲۳ء صفحہ ۳)

حرفِ آخر اور عاجزانہ درخواست

کفالتِ یتامیٰ کے بارےمیں اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک کمیٹی قائم فرمائی ہے جس کا نام ’’کفالت یکصد یتامیٰ کمیٹی‘‘ہے اور اس وقت تقریباً ایک ہزار چھ صد (۱۶۰۰) یتامیٰ اس کمیٹی کے زیرِ کفالت ہیں۔زیرِ کفالت یتامیٰ کے اخراجات کی مختلف مدات ہیں جن میں اخراجات، خور و نوش، لباس و پوشاک، رہائش، علاج معالجہ، تعلیم و تربیت، تحفۂ عیدین اور تحفۂ شادی شامل ہیں۔اس کے علاوہ زیرِ کفالت فیمیلیز کو بعض مرتبہ ہنگامی اور غیر متوقع مصارف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔سرِ دست ’’مد کفالت یتامیٰ‘‘ میں آمد کم ہے اور اخراجات آمد سے بہت زیادہ ہیں جن کو قرض لے کر پورا کیا جارہا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ارشادِ مبارک الدال علی الخیرِ کفاعِلِہ پر بنا کرتے ہوئے خاکسار آپ سب سے درخواست کرتا ہے کہ

۱۔آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو کفالتِ یتامیٰ کی اسلامی تعلیم پر کماحقہٗ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان یتامٰی کو دنیا و آخرت میں اپنی پناہ میں لے لے۔

۲۔آپ کفالتِ یتامیٰ کے لیے جماعت کے معاون و مددگار ہوں اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کارِ خیر میں حصہ لیں اور زیادہ سے زیادہ چندہ ’’مد کفالت یتامیٰ‘‘ میں جمع کروائیں۔

۳۔ صاحبِ حیثیت احباب و خواتین اپنے اوپر لازم کرلیں کہ ہر سال خطیر رقم اس مد میں پیش کریں گے۔

اللہ تعالیٰ اس مد میں حصہ لینے والوں کے مال و نفوس میں برکت ڈالے اور ان کو دینی و دنیاوی ترقیات عطا فرمائے۔ آمین اللّٰھم آمین

کفالتِ یتامیٰ میں حصہ دار بننے کی بنا پر ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں آنحضورؐ کی معیت عطا فرمائے گا اور اس طرح خود ہم بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائیں گے، اور اس سے بڑی کامیابی کیا ہوسکتی ہے؟ و باللہ التوفیق

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button