مساجد کے آداب
تدریجی وحدت کی مثال ایسی ہے جیسے خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہر ایک محلہ کے لوگ اپنی اپنی محلہ کی مسجدوں میں پانچ وقت جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ تمام شہر کے لوگ ساتویں دن شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوں یعنی ایسی وسیع مسجد میں جس میں سب کی گنجائش ہوسکے اور پھر حکم دیا کہ سال کے بعد عیدگاہ میں تمام شہر کے لوگ اور نیز گردونواح دیہات کے لوگ ایک جگہ جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ عمر بھر میں ایک دفعہ تمام دنیا ایک جگہ جمع ہو یعنی مکّہ معظمہ میں۔
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۴۵)
کون ظالم تر ہے کہ جو خدا کی مسجدوں کو اس بات سے روکے کہ ان میں ذکر الٰہی کیا جائے اور مسجدوں کے خراب اور منہدم کرنے میں کوشش کرے۔ یہ عیسائیوں کی بدچلنی اور مفسدانہ حرکت کا حال بتلایا ہے جنہوں نے بیت المقدس کا کچھ پاس نہ کیا اور اسے متکبّرانہ جوش میں آکر منہدم کیا اور بعد اس آیت کے فرمایا کہ جن عیسائیوں نے ایسی شوخی کی ان کو دنیا میں رسوائی درپیش ہے اور آخرت میں عذابِ عظیم۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۲۶۱ بقیہ حاشیہ نمبر ۱۱)
مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمرؓ نے ان کو منع کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے ہیں۔ تو آپؐ نے منع نہیں کیا، بلکہ آپؐ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو آپؐ نے اس کے لیے رحمت اﷲ فرمایا۔ اور جس کو آپؐ یہ فرمایا کرتے تھے وہ شہید ہو جایا کرتا تھا۔ غرض اس طرح پر اگر فسق و فجور کے گیت نہ ہوں، تو منع نہیں۔ مگر مردوں کو نہیں چاہیے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں۔ یہ یادرکھو کہ جہاں ذرا بھی مظنّہ فسق و فجور کا ہو وہ منع ہے۔
(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۴۰۴۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)