حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مساجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے

گمشدہ اشیاء کے مساجد میں اعلانات کی ممانعت کی بابت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جب ہم اسلام کا اور خصوصاً قرون اولیٰ کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے مساجد کو صرف ذکر الٰہی کی جگہ ہی نہیں بنایا بلکہ بعض دنیوی امور کے تصفیہ کا مقام بھی بنایا ہے۔ رسول کریمﷺ کی مجالس میں ہم دیکھتے ہیں کہ لڑائیوں کے فیصلے بھی مساجد میں ہوتے تھے۔ قضائیں بھی وہیں ہوتی تھیں۔تعلیم بھی وہیں ہوتی تھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد صرف اللہ اللہ کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ بعض دوسرے کام بھی جو قومی ضرورت کے ہوتے ہیں مساجد میں کیے جا سکتے ہیں۔ ہاں مساجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے مثلاًرسول کریم ﷺ نے فرمایاہے اگر کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے تو وہ اس گمشدہ چیز کے متعلق مسجد میں اعلان نہ کرے اگر وہ اس گمشدہ چیز کے متعلق اعلان کرے تو خدا تعالیٰ اس میں برکت نہ ڈالے۔ پس ایک طرف تو مساجد میں جنگی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں، تعلیم دی جاتی ہے، قضائیں ہوتی ہیں لیکن دوسری طرف گمشدہ چیز کے متعلق اعلان کرنا مسجد میں منع کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسجد میں جو کام ہوں وہ قومی ہوں، ذاتی نہیں۔ گویا مسجد اجتماعی جگہ ہے اور وہاں ایسے کام ہوسکتے ہیں جو اجتماعی اور قومی ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ جو کام وہاں ہوں وہ قومی فائدہ کے بھی ہوں اور نیکی کے بھی ہوں۔ گویا جو کام نیک ہے اور قومی فائدہ کا ہے اسے ذکر الٰہی کا قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ ۲۹؍اگست ۱۹۵۲ء، مطبوعہ روزنامہ الفضل لاہور ۱۱؍ ستمبر ۱۹۵۲ءصفحہ ۲)

پس ان ارشادات کی روشنی میں یہ بات تو واضح ہے کہ کسی ذاتی گمشدہ چیز کا مساجد میں اعلان کرنا منع ہے، کیونکہ یہ ذاتی نوعیت کا کام ہے اور اس کا قومی فائدہ سے تعلق نہیں۔ البتہ بچوں وغیرہ کی گمشدگی یا گمشدہ بچوں کے ملنے کا اعلان اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ کسی کی زندگی موت کا مسئلہ ہوتا ہےنیز اس کا شمار قومی فائدہ اور نیکی کے کاموں میں ہوتا ہے۔تاہم کسی چیز کے مسجد میں گم ہونے یا مسجد سے کسی چیز کے ملنے کے متعلق مسجد میں آنے والے احباب کو مطلع کرنے کے لیے مسجد کے بیرونی دروازہ کے ساتھ کسی نوٹس بورڈ پر اس قسم کے امور کے نوٹس لگانے میں کوئی ہرج نہیں اور بعض پرانے فقہاء نے بھی اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۶۹ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۷؍ جنوری ۲۰۲۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button