حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعہ کا بیان اور فلسطین، سوڈان نیز یمنی اور پاکستانی احمدیوں کے لیےدعا کی تحریک: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ مئی ۲۰۲۴ء
٭… حضرت خبیبؓ پہلے صحابی تھے جو اللہ کی خاطر صلیب دیے گئے
٭… شہادت سے قبل حضرت خبیبؓ نے دو نفل نماز ادا کرنے کے بعد کہا کہ
میرا دل تو چاہتا تھا کہ نماز کو لمبا کروں لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ مَیں موت کو پیچھے ڈالنے کے لیے نماز کو لمبا کر رہا ہوں
٭… اللہ تعالیٰ نے اُن کی لاش کو بےحرمتی سے محفوظ رکھا۔ کفار جو کچھ کرنا چاہتے تھے وہ نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی اپنے پیاروں کی حفاظت کرتا تھا
٭… فلسطین ،سوڈان نیز یمنی اور پاکستانی احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک
٭… مکرم چودھری منیر احمد صاحب (مربی سلسلہ ) ڈائریکٹر فار آمیریکازاور مسرور ٹیلی پورٹ یو ایس اے (ایم ٹی اے انٹرنیشنل)
اور مکرم عبدالرحمٰن کٹی صاحب آف کیرالہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۱؍مئی ۲۰۲۴ء بمطابق۳۱؍ہجرت ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۳۱؍مئی ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک سریے کے ذکر میں
حضرت خبیبؓ کے شہیدکیے جانے کا ذکر ہورہا تھا، اس کی مزید تفصیل میں لکھا ہے کہ یہ پہلے صحابی تھے جنہیں لکڑی سے باندھ کر شہیدکیا گیا یعنی صلیب کی طرح۔
علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ حضرت خبیبؓ پہلے صحابی تھے جو اللہ کی راہ میں صلیب دیے گئے۔ شہادت کے وقت قریش نے حضرت خبیبؓ کو اسلام سے رجوع کی صورت میں چھوڑ دیے جانے کی پیشکش کی تھی مگر حضرت خبیبؓ نے فرمایا کہ
اسلام کی راہ میں میرا شہید کیا جانا تو معمولی بات ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ سے یوں گویا ہوئے کہ
اے اللہ! یہاں کوئی ایسا نہیں جو تیرے رسولﷺ تک میرا سلام پہنچائے پس تُو خود میرا سلام رسول اللہﷺ تک پہنچادے اور جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا وہ آپؐ کو بتادے۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ ایک روز حضورﷺ صحابہؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؐ پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور آپؐ نے فرمایا: اُس پر بھی سلامتی اور رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ پھر جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کہ
یہ جبرائیل تھے جو مجھے خبیبؓ کا سلام پہنچارہے تھے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ رؤسائے قریش کی قلبی عداوت کے سامنے رحم و انصاف کا جذبہ خارج ازسوال تھا۔ چنانچہ ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ بنو حارث کے لوگ اور دوسرےرؤسائے قریش خبیب ؓکو قتل کرنے اور اُن کے قتل پر جشن منانے کے لیے انہیں ایک کھلے میدان میں لے گئے۔ آپؓ نے مرنےسےپہلے دو نوافل ادا کرنے کی اجازت چاہی پھر حضورِقلب کے ساتھ نوافل اداکیے اور کہا کہ
میرا دل تو چاہتا تھا کہ نماز کو لمبا کروں لیکن پھر مجھے یہ خیال آیا کہ تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ مَیں موت کوپیچھے ڈالنے کے لیے نماز کو لمبا کررہا ہوں۔
پھر خبیب یہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے جھک گئے۔
وَ مَا اَنْ اُبَالِی حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَ ذَالِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَ اِنْ یَّشَاء
یُبَارِک عَلٰی اَوْصالِ شِلْوٍ مُّمَزَّعِ
یعنی جبکہ میں اسلام کی راہ میں اورمسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے یہ پروا نہیں ہے کہ میں کس پہلو پرقتل ہوکر گروں۔ یہ سب کچھ خدا کے لیے ہے اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔
حضرت خبیبؓ نے بوقتِ شہادت دعا کی تھی کہ اے خدا! ان ظالموں کو چُن چُن کر ہلاک کر۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ اس قتل میں شریک تمام ظالم ہلاک ہوگئے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ یہ تو ثابت نہیں ہے، باقی جگہوں سے نہیں ملتا کہ ایک سال ابھی ختم نہ ہوا تھا اور یہ سارے لوگ ختم ہوگئے۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے اکثریت ماری گئی یا فتح مکّہ تک انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
جس مجمع نے حضرت خبیبؓ کو شہیدکیاتھا اس میں ایک شخص سعید بن عامر بھی تھا۔ یہ شخص بعد میں مسلمان ہوگیا اور حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت تک اس کا یہ حال تھا کہ جب اسے حضرت خبیبؓ کی شہادت کا واقعہ یادآتا تو اس پر غشی طاری ہوجاتی۔
حضرت عمرؓ نے سعیدبن عامر کو ملک شام میں ایک جگہ کا عامل مقرر فرمایا تھا اور ان کا یہ حال تھا کہ لوگوں کے درمیان بھی اگر اس واقعہ کا ذکر ہوتا تو انہیں غشی کا دورہ پڑ جاتا۔ لوگوں نے اس کا ذکر حضرت عمرؓ سے کیا کہ آپ نے ہم پر ایک بیمار شخص کو امیر مقرر فرمایا ہے۔ جب سعید بن عامر حضرت عمرؓ سے ملاقات کے لیے آئے تو آپؓ نے ان سےپوچھا کہ اے سعید! تجھے کوئی بیماری لاحق ہے؟ سعید بن عامر نے جواب دیا نہیں! مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔بات صرف یہ ہے کہ جس وقت خبیبؓ کو قتل کیا جارہا تھا مَیں بھی وہاں موجود تھا اور اب جب بھی مجھے حضرت خبیبؓ کی وہ دعا یاد آتی ہے تو مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔
قریش نے حضرت خبیب ؓکی نعش کو سُولی پر ہی لٹکا چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ گَل سڑ جائے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت خبیب ؓکی لاش کو سُولی سے اتارنے کے لیے تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے کون خبیب کی لاش کو سُولی سے اتارے گا۔ اس پر
حضرت زبیر بن عوّامؓ نے کہا کہ مَیں اور میرا ساتھی مقداد بن اسودؓیارسول اللہﷺ! جب یہ دونوں لاش کے پاس پہنچے تو وہاں انہوں نے چالیس آدمیوں کو پایامگروہ سب کے سب مدہوش سوئے ہوئے تھے۔ ان دونوں نے حضرت خبیبؓ کو اتار لیا اور یہ حضرت خبیبؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد کا واقعہ ہے۔
سیرت کی کتابوں میں مذکور روایات میں حضرت خبیبؓ کی لاش کو لانے کے لیےبعض اَور افرادکا بھی ذکر ملتا ہے۔چنانچہ ایک روایت کے مطابق آنحضورﷺ نے حضرت عمرو بن امیّہ ؓکو تنہا اس کام کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ایک روایت میں حضرت عمرو بن امیّہؓ کے ساتھ حضرت جبار بن صخر انصاریؓ کا نام بھی مذکور ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ
ہم نے لاش سُولی سے اتار لی اور جب قریشیوں نے ہمارا پیچھا کیا تو مَیں نے حضرت خبیبؓ کی لاش ندی میں پھینک دی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت خبیبؓ کی لاش کو کافروں سے غائب کردیا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کی لاش کو بےحرمتی سے محفوظ رکھا۔ کفار جو کچھ کرنا چاہتے تھے وہ نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی اپنے پیاروں کی حفاظت کرتا تھا۔ بہت سارے ایسے مواقع ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے لاشوں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھا۔ پچھلی دفعہ بھی مَیں نے ایک واقعہ بیان کیا تھا جہاں بھڑوں اور شہدکی مکھیوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے لاش کو محفوظ رکھا اور بےحرمتی نہیں ہوسکی۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اس سریے کا ذکر یہاں ختم ہوگیا۔
دعاکی تحریک کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ مَیں دعاکی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ فلسطینیوں کے لیے دعا کریں اب تو انتہا ہوگئی ہے۔
رفح کے بارے میں پہلے امریکہ کہتا تھا کہ یہ ہماری ریڈ لائن ہوگی۔ اب کہتے ہیں نہیں! ابھی نہیں ختم ہوئی۔پتا نہیں ان کا ریڈلائن کا معیار کیا ہے؟ کتنے لاکھ آدمیوں کو انہوں نے مارنا ہے پھر ہِل جُل پیدا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے دنیا کو نجات دے اور مظلوم فلسطینیوں کو بھی نجات دے۔ آمین۔
اسی طرح
سوڈان کے لوگوں کے لیے بھی دعاکریں۔
وہاں تو خود اپنی ہی قوم کے لوگ،مسلمان مسلمانوں کو مار رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل دے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچنے والے ہوں۔ اُس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں۔
یمن کے اسیران کے لیے دعا کریں۔پاکستان کے لیے بھی دعاکریں۔
وہاں بھی حالات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ عید قریب آرہی ہے ان دنوں میں مولوی مزید سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔ اسیران کی رہائی کے بھی جلد سامان پیدا فرمائے۔ آمین
خطبے کے اگلے حصّے میں حضورِانور نےدرج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیراور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:
۱:مکرم چودھری منیر احمد صاحب مربی سلسلہ ڈائریکٹر ایم ٹی اے انٹرنیشنل ٹیلی پورٹ امریکہ۔ گذشتہ دنوں ۷۳؍سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم کو ۱۹۸۱ءتا ۱۹۹۰ء اور پھر ۱۹۹۴ءسے تادمِ آخر امریکہ میں جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ ایم ٹی اے ٹیلی پورٹ امریکہ کے قیام میں آپ نے نمایاں کردارادا کیا۔حضورِانور نے فرمایا کہ بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کرنےوالے تھے۔ تکنیکی امور کو بھی ازخود کوشش کرکے سیکھا اور بڑی مہارت کے ساتھ سب کام چلایا۔ مرحوم دعا گو، خلافت سے تعلق رکھنے والے، مہمان نواز شخصیت کے مالک تھے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ مثالی واقفِ زندگی تھے۔
۲:مکرم عبدالرحمٰن کٹی صاحب آف کیرالہ۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔مرحوم موصی تھے۔ سولہ سال کی عمر میں انہوں نے بیعت کی توفیق پائی۔مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند،جماعت کے ساتھ اخلاص کا تعلق رکھنے والے، سادہ طبیعت کے مالک، عاجز اور نیک انسان تھے۔ مرحوم کے ایک بیٹے مکرم شمس الدین مالا باری صاحب مبلغ انچارج کبابیر کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہے ہیں جو جنازے میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔
حضورِ انور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭