خدا کی طرف محبت اور وفا کے ساتھ جھکنے والے ہرگز ضائع نہیں کئے جاتے
یاد رہے کہ پانچ موقعے آنحضرتﷺ کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا اگر آنجناب درحقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے۔ ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرتﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھا لی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے۔ (۲)دوسرا وہ موقعہ تھا جب کہ کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرتﷺ مع حضرت ابوبکر کے چھپے ہوئے تھے۔ (۳) تیسرا وہ نازک موقعہ تھا جب کہ احد کی لڑائی میں آنحضرتﷺ اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپؐ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگر کوئی کار گر نہ ہوئی یہ ایک معجزہ تھا۔ (۴) چوتھا وہ موقعہ تھا جب کہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا۔ (۵) پانچواں وہ نہایت خطرناک موقعہ تھا جبکہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرتﷺ کے قتل کے لئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ کا ان تمام پُر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخرکار غالب ہو جانا ایک بڑی زبردست دلیل اس بات پر ہے کہ درحقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا۔
(چشمہ ٔمعرفت، روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ ۲۶۴،۲۶۳حاشیہ)
درحقیقت وہ خدا بڑا زبردست اور قوی ہے جس کی طرف محبت اور وفا کے ساتھ جھکنے والے ہرگز ضائع نہیں کئے جاتے۔ دشمن کہتا ہے کہ مَیں اپنے منصوبوں سے ان کو ہلاک کر دوں اور بد اندیش ارادہ کرتا ہے کہ مَیں ان کو کچل ڈالوں۔ مگر خدا کہتا ہے کہ اے نادان کیا تُو میرے ساتھ لڑے گا؟ اور میرے عزیز کو ذلیل کر سکے گا؟ درحقیقت زمین پر کچھ نہیں ہوسکتا مگر وہی جو آسمان پر پہلے ہو چکا۔ اور کوئی زمین کا ہاتھ اس قدر سے زیادہ لمبا نہیں ہو سکتا جس قدر کہ وہ آسمان پر لمبا کیا گیاہے۔
(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳صفحہ۱۹)
افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدر متواتر نامرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ درپردہ ایک ہاتھ ہے جو ان کے ہر ایک حملہ سے اس کو بچاتا ہے۔ اگر بدقسمتی نہ ہوتی تو ان کے لئے یہ ایک معجزہ تھا کہ ان کے ہر ایک حملہ کے وقت خدا نے مجھ کو ان کے شر سے بچایا اور نہ صرف بچایابلکہ پہلے اِس سے خبر بھی دے دی کہ وہ بچائے گا۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۲۵)