حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ میں سے ایک صفت حمید کا مطلب ہے وہ جو تعریف کے قابل اور حقیقی تعریف اسی کو زیبا ہے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍فروری ۲۰۱۸ء)

جو ہے سورۃ المؤمن کی دوسری آیت ہے۔ پہلی بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ رحمن اور رحیم کی ترجمہ سے وضاحت ہو گئی۔ پھرحٰمٓ ہے جو حروف مقطعات ہیں۔ یہ جو فرمایاحٰمٓ۔ یہ حمید اور مجید کے الفاظ ہیں۔ حمید کا مطلب ہے وہ جو تعریف کے قابل اور حقیقی تعریف اسی کو زیبا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ ہی ہے جو صاحبِ حمد ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حمد کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’واضح ہو کہ حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی مستحقِ تعریف کے اچھے فعل پر کی جائے۔ نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو اور اپنی مشیّت کے مطابق احسان کیا ہو۔‘‘اور فرمایا ’’اور حقیقتِ حمد کما حقّہٗ صرف اسی ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض و انوار کا مبدء ہو اور علی وجہ البصیرت کسی پر احسان کرے نہ کہ غیر شعوری طور پر یا کسی مجبوری سے‘‘۔ حمد اسی کی کی جاتی ہے، حقیقی حمد کا وہی حقدار ہے جو احسان کسی وجہ سے نہیں، مجبوری سے نہیں کرتا بلکہ بےشمار احسانات کرتا چلا جاتا ہے اور فرمایا کہ’’حمد کے یہ معنی صرف خدائے خبیر و بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں اور وہی محسن ہے اور اوّل و آخر میں سب احسان اسی کی طرف سے ہیں اور سب تعریف اسی کے لئے ہے اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی۔ اور ہر حمد جو اس کے غیروں کے متعلق کی جائے اس کا مرجع بھی وہی ہے‘‘۔ (ماخوذ از اعجاز المسیح مترجم صفحہ 97 مطبوعہ نظارت اشاعت)

یعنی اگر کسی غیر کے متعلق حمد کی جاتی ہے تو وہ جو دوسروں کو تعریف کے قابل بنایا ہے یا اس قابل بنایا کہ انہوں نے کوئی ایسا کام کیا جس کی تعریف کی جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہی فیض ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے انہیں توفیق دی کہ وہ ایسا کام کریں جس سے ان کی تعریف ہو۔

حمد کے لفظ کی وضاحت فرماتے ہوئے مزید آپ نے فرمایا کہ’’حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی صاحب اقتدار شریف ہستی کے اچھے کاموں پر اس کی تعظیم و تکریم کے ارادے سے زبان سے کی جائے اور کامل ترین حمد ربِّ جلیل سے مخصوص ہے اور ہر قسم کی حمد کا مرجع خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہمارا وہ رب ہے جو گمراہوں کو ہدایت دینے والا اور ذلیل لوگوں کو عزت بخشنے والا ہے۔ اور وہ محمودوں کا محمود ہے‘‘۔ (کرامات الصادقین مترجم صفحہ 133مطبوعہ نظارت اشاعت)

یعنی وہ ہستیاں جو خود قابل حمد ہیں (قابل تعریف ہیں) وہ سب اس کی حمد میں لگی ہوئی ہیں۔ پھر آپ نے اسی لفظ حمد کی وضاحت کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ’’لفظ حمد میں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے (میرے) بندو! میری صفات سے مجھے شناخت کرو اور میرے کمالات سے مجھے پہچانو۔ میں ناقص ہستیوں کی مانندنہیں بلکہ میری حمد (کا مقام) انتہائی مبالغہ سے حمد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اور تم آسمانوں اور زمینوں میں کوئی قابل تعریف صفات نہیں پاؤ گے جو تمہیں میری ذات میں نہ مل سکیں۔ اور اگر تم میری قابلِ حمد صفات کو شمار کرنا چاہو تو تم ہرگز انہیں نہیں گن سکو گے۔ اگرچہ تم کتنا ہی جان توڑ کر سوچو اور اپنے کام میں مستغرق ہونے والوں کی طرح ان صفات کے بارے میں کتنی ہی تکلیف اٹھاؤ۔ خوب سوچو! کیا تمہیں کوئی ایسی حمدنظر آتی ہے جو میری ذات میں نہ پائی جاتی ہو؟ کیا تمہیں ایسے کمال کا سراغ ملتا ہے جو مجھ سے اور میری بارگاہ سے بعید ہو؟ اور اگر تم ایسا گمان کرتے ہو تو تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں اور تم اندھوں میں سے ہو‘‘۔ (پس ہر حمد اللہ تعالیٰ ہی کو زیبا ہے۔) فرمایا ’’بلکہ یقیناً مَیں (اللہ تعالیٰ) اپنی ستودہ صفات اور اپنے کمالات سے پہچانا جاتا ہوں اور میری موسلا دھار بارش کا پتہ میری برکات کے بادلوں سے ہوتا ہے۔ پس جن لوگوں نے مجھے تمام صفاتِ کاملہ اور تمام کمالات کا جامع یقین کیا اور انہوں نے جہاں جو کمال بھی دیکھا اور اپنے خیال کی انتہائی پرواز تک انہیں جو جلال بھی نظر آیا انہوں نے اسے میری طرف ہی نسبت دی اور ہر عظمت جو اُن کی عقلوں اور نظروں میں نمایاں ہوئی اور ہر قدرت جو اُن کے افکار کے آئینہ میں انہیں دکھائی دی انہوں نے اسے میری طرف ہی منسوب کیا۔ پس یہ ایسے لوگ ہیں جو میری معرفت کی راہوں پر گامزن ہیں۔ حق ان کے ساتھ ہے اور وہ کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘

فرمایا کہ’’پس اللہ تعالیٰ تمہیں عافیت سے رکھے۔ اٹھو! خدائے ذوالجلال کی صفات کی تلاش میں لگ جاؤ اور دانشمندوں اور غور و فکر کرنے والوں کی طرح ان میں سوچ و بچار اور اِمعانِ نظر سے کام لو۔‘‘ (یعنی گہری نظر سے کام لو۔ کیونکہ حمد کی صفت کا ادراک ہونے سے ہی باقی صفات کا بھی ادراک ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔) فرمایا کہ’’اچھی طرح دیکھ بھال کرو اور کمال کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالو اور اس عالم کے ظاہر میں اور اس کے باطن میں اسے اس طرح تلاش کرو جیسے ایک حریص انسان بڑی رغبت سے اپنی خواہشات کی تلاش میں لگا رہتا ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جاننے کے لئے، اس کی صفات کو جاننے کے لئے، اس کی حمد کرنے کے لئے، راستے تلاش کرنے کے لئے بڑی کوشش کرو۔ ایک حریص انسان کی طرح کوشش کرو۔) فرمایا کہ ’’پس جب تم اس کے کمالِ تام کو پہنچ جاؤ اور اس کی خوشبو پا لو تو گویا تم نے اسی کو پا لیا اور یہ ایسا راز ہے جو صرف ہدایت کے طالبوں پر ہی کھلتا ہے۔ پس یہ تمہارا ربّ اور تمہارا آقا ہے جو خود کامل ہے اور تمام صفات کاملہ اور محامد کا جامع ہے‘‘۔ (ماخوذ از کرامات الصادقین مترجم صفحہ 135 تا 137مطبوعہ نظارت اشاعت)

ساری حمد، ساری تعریفیں یا تعریف کے قابل چیزیں اسی میں جمع ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے صاحبِ حمد ہونے کا یہ ادراک ہے جو ہمیں حاصل ہونا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی باقی صفات کو بھی ہم پہچان سکیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجید ہے۔ صاحبِ مجد ہے۔ بزرگی والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بزرگی وہ بزرگی نہیں ہے جو ہم انسانوں کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ بڑا بزرگ ہے یا بڑی عمر کے لوگوں کو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ بزرگ ہو گئے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ بہت ہی قابل تعریف اور بلند شان والا ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ وہ جس کے فیض کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ جو دیتا ہے اور دیتا چلا جاتا ہے، کبھی نہیں تھکتا۔ پس آیت پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے صاحبِ مجد ہونے کے یہ معنی سامنے ہونے چاہئیں۔ پہلے حمد کے معنی پھر اس کے مجید ہونے کے معنی۔ پھر فرمایا کہ وہ عزیز ہے۔ یعنی وہ طاقتوں کا مالک ہے۔ سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ ناقابل شکست ہے۔ اسے شکست دینا ناممکن ہے۔ سب عزّتیں اسی کی ہیں۔ اس کی قدر و قیمت کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ وہ ہر چیز پر غالب ہے۔ اس جیسا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ہے عزیز کے معنی۔

پھر فرمایا وہ علیم ہے۔ یعنی وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس چیز کا بھی جو ہو چکی ہے اور اس بات کا بھی جو آئندہ ہونے والی ہے۔ جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے جس کا علم مکمل طور پر ہر چیز پر حاوی ہے۔ پس یہ وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب اتاری ہے یعنی قرآن کریم اور جس نے یہ آخری شریعت اتاری ہے۔ اس نے ہر زمانے کی ضروریات کا علم اس میں مہیا کر دیا اور اب ہر قسم کی حفاظت اور غلبہ اس پر حقیقی رنگ میں عمل کرنے سے ہو گا اور ہو سکتا ہے۔

پھر فرمایا وہ غَافِرُ الذَّنْبہے۔ گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ پس اس کے آگے جھکتے ہوئے گناہوں کی بخشش مانگنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بہت جگہ وضاحت فرمائی ہے کہ اپنے گناہوں کی ہمیشہ بخشش مانگتے رہنا چاہئے۔ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ انسان کو جو روشنی عطا ہوتی ہے وہ عارضی ہوتی ہے۔ یعنی کوئی بھی دینی روحانی روشنی عطا ہوتی ہے تو وہ عارضی ہوتی ہے۔ اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے کے لئے استغفار کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’انبیاء جو استغفار کرتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ نور کی جو چادر ہمیں عطا کی گئی ہے ایسا نہ ہو کہ وہ چھن جاوے‘‘۔ فرمایا کہ’’استغفار کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خدا تعالیٰ سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اور ملے۔‘‘ فرمایا کہ’’اس کی تحصیل کے لئے‘‘ (اسے حاصل کرنے کے لئے) ’’پنجگانہ نماز بھی ہے‘‘۔ مغفرت کو حاصل کرنے کے لئے، اس نور کو حاصل کرنے کے لئے نماز بھی اسی کا حصہ ہے۔ کیونکہ نماز میں بھی انسان گناہوں سے توبہ کرتا ہے۔ معافی مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بخشش مانگتا ہے۔ فرمایا ’’تا کہ ہر روز دل کھول کھول کر خدا تعالیٰ سے مانگ لیوے۔ جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پا سکتا ہے۔‘‘ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 124-125۔ ایڈیشن 1985ء)

یعنی روحانی اور جسمانی ہر قسم کے امراض کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اور دعاؤں میں استغفار کی ضرورت ہے اور نماز بھی اسی کا حصہ ہے۔ پس جب ان آیات کے پڑھنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو صرف پڑھنے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ عملی حالت بھی بہتر کرنی ہو گی۔ اپنی طرف توجہ رکھنی ہو گی کہ کس طرح ہم نے استغفار کرنی ہے۔ کس طرح ہم نے اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہے تا کہ پھر ہماری بھی حفاظت ہو۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button