حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

وفات یافتہ کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَاۤ اٰتٰٮکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ وَمَا نَہٰٮکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا(الحشر:۸)یعنی یہ رسول جو کچھ تمہیں علم و معرفت عطا کرے وہ لے لو اور جس سے منع کرے وہ چھوڑ دو۔ جہاں تک وفات شدگان کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنے اور دینی مالی تحریکات میں ان کی طرف سے حصہ لینے کا تعلق ہے تو یہ امر آنحضورﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے کئی صحابہ کو ان کے پیاروں کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنے اور بعض ایسی نیکیاں بجالانے کی اجازت عطا فرمائی جن کا وہ وفات یافتگان اپنی زندگی میں ارادہ کر چکے تھے، لیکن کسی مجبوری کی بنا پر اسے بجا نہ لا سکے۔

لہٰذا وفات یافتگان کی طرف سے بعض نیکیاں بجالانے پر وفات کے بعد بھی ان فوت شدہ لوگوں کو ثواب پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب انسان مر جاتا ہے تو تین چیزوں کے علاوہ اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے ایک صدقہ جاریہ ۔ دوسرا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ اور تیسرا نیک بخت اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔ (صحیح مسلم کتاب الوصیۃ بَاب مَا يَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ)

…کسی فوت شدہ عزیز کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنے کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ کی والدہ کا انتقال ہوا جبکہ وہ ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور میں اس وقت موجود نہیں تھا۔ اگر میں ان کی طرف سے کوئی چیز خیرات کروں تو کیا انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ ہاں!اس پر حضرت سعدؓ نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ میری والدہ کی طرف سے خیرات ہے۔(صحیح بخاری کتاب الوصایا بَاب إِذَا قَالَ أَرْضِي أَوْ بُسْتَانِي صَدَقَةٌ لِلّٰهِ عَنْ أُمِّي فَهُوَ جَائِزٌ وَإِنْ لَمْ يُبَيِّنْ لِمَنْ ذَالِكَ)

…کسی وفات یافتہ کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا، چندے وغیرہ دینا یا کسی ایسی نیکی کو اس کی طرف سے بجا لانا جس کا اس نے ارادہ کیا تھا اور وہ اسے بجا لانا چاہتا تھا لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے یا موت کے آ جانے کی وجہ سے وہ اسے ادا نہ کرسکا، ایسی نیکی کو اس وفات یافتہ کی طرف سے بجا لاناجائز ہے۔ لیکن جن کاموں کو آنحضورﷺ نے نہ خود کیا اور نہ صحابہ کو کرنے کا ارشاد فرمایا، ان سے ہمیں بھی کلیۃً اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ کسی ایسے کام کوجاری کرنے کی کوشش کرنا جو قرآن، سنت اور احادیث سے ثابت نہیں، وہ بدعت کے زمرہ میں آتا ہےجس کے بارے میں حضورﷺ نے بہت سخت انذار فرمایا ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ۔(صحیح بخاری کتاب الصلح بَاب إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ)یعنی جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا نیا کام شامل کیا جو اس کا حصہ نہیں تو وہ قابل ردّ ہو گا۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۷۴ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۶؍اپریل۲۰۲۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button