حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حقیقی مومن کی خصوصیات (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء)

اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَنَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ۔ (الحج: 42)یعنی وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں طاقت بخشیں تو وہ نمازوں کو قائم کریں گے اور زکوٰة دیں گے اور نیک باتوں کا حکم دیں گے اور بُری باتوں سے روکیں گے اور سب کاموں کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ حقیقی مومن وہ ہیں جو طاقت ملنے کی صورت میں، کمزوری اور بے چینی کے بعد امن ملنے کی صورت میں، بہتر حالات ہونے پر، آزادی سے اپنی عبادت اور مذہب پر عمل کرنے کے حالات پیداہونے کے بعد اپنی خواہشات اور اپنے ذاتی مفادات کی طرف توجہ دینے والے نہیں بن جاتے بلکہ نماز قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دینے والے ہوتے ہیں۔ اپنی مسجدوں کو آباد کرنے والے ہوتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے غریبوں اور مسکینوں کے لیے اپنے مال میں سے خرچ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اشاعتِ دین کے لیے قربانیاں کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لیے اپنے مال میں سے خرچ کر کے اسے پاک مال بناتے ہیں۔ نیک باتوں کی طرف خود بھی توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو بھی نیک باتیں کرنے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ برائیوں سے خود بھی رکتے ہیں اور دوسروں کو بھی برائیوں سے روکنے والے ہیں اور کیونکہ یہ سب کام اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے کرتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ بھی ان کے کاموں کے بہترین نتائج پیدا فرماتا ہے کیونکہ ہر چیز کا فیصلہ خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے۔ پس جو کام خدا تعالیٰ کی ہدایت پر، اُس کے حکم پر، اُس کی خشیت کو دل میں رکھتے ہوئے کیا جائے تو یقیناً اس کا انجام تو بہتر ہی ہو گا۔ پس یہ اصولی بات اگر ہم میں سے ہر ایک سمجھ لے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے و الے بنتے چلے جائیں گے۔

آپ نے یہاں مہدی آباد میں مسجد بنائی ہے۔ اسی طرح گذشتہ دنوں میں فلڈا (Fulda) میں اور ویزبادن (Wiesbaden) میں بھی مسجد کا افتتاح ہوا ہے۔ جماعت جرمنی سو مساجد کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجدیں بنانے کی توفیق پا رہی ہے اور یقینا ًاحبابِ جماعت مساجد کی تعمیر کے لیے اس لیے مالی قربانی کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے ہم نے اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہیں۔ پاکستان سے ہجرت کر کے آنے کے بعد یہاں آ کر ہمارے مالی حالات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ بات ہم میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہیے کہ ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں اور اس کا گھر تعمیر کریں جہاں ہم جمع ہو کر نماز کا قیام کر سکیں۔ باجماعت نمازیں ادا کر سکیں۔ اپنی نمازوں میں ایسی حالت پیدا کر سکیں جس سے اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توجہ پیدا ہو۔ آزادی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کر سکیں۔ پاکستان میں ہمیں مذہبی آزادی نہیں ہے۔ وہاں ملکی قانون ہمیں مسجدیں بنانے کی اجازت نہیں د یتا۔ ہمیں آزادی سے عبادت کرنے کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم وہاں اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر سکیں، اس کی عبادت کر سکیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کے لیے ہم مسجدیں بنا رہے ہیں۔ ہم پر اللہ تعالیٰ نے مالی لحاظ سے بھی فضل فرمایا ہے۔ اس لیے ہر ایک کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کریں گے اور کر رہے ہیں۔ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہے تاکہ اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں کو بہتر کریں تو ہماری یہ مسجدیں ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے والی ہیں اور ہونی چاہئیں۔ پس یہ سوچ ہے اور اس پر بھرپور عمل کی کوشش ہے جو ہر ایک احمدی کو یہاں رہتے ہوئے اپنے دماغوں میں بھی رکھنی چاہیے، دلوں میں رکھنی چاہیے اور اپنے عمل سے ثابت کرنی چاہیے ورنہ مسجدیں بنانا بے فائدہ ہے۔

پس ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا مقصد مسجدیں بنانے سے پورا نہیں ہو گا بلکہ اس وقت پورا ہو گا جب وہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دیں گے اور اپنی نمازوں کو قائم کریں گے۔ باجماعت نمازوں کے لیے مسجد میں آئیں گے۔ اپنی توجہ نمازوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف رکھیں گے، اسے قائم کریں گے۔ اگر توجہ اِدھر اُدھر ہوتی ہے تو فوراً واپس توجہ نماز کی طرف اور خدا تعالیٰ کی طرف پھیریں گے۔ اس بات کی حقیقت کو سمجھیں گے کہ نماز میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ صرف ٹھونگے نہیں مارنے، صرف سجدے نہیں کرنے، صرف عربی الفاظ نہیں اد اکرنے بلکہ اپنی زبان میں بھی باتیں کرنی ہیں۔ ایسی نمازوں کی کوشش ہونی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ کا لقا حاصل ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام متقی کی صفات بیان کرتے ہوئے، حقیقی مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کرنے والے ہیں۔ وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں۔ متقی سے جیسا ہو سکتا ہے وہ نماز کھڑی کرتا ہے یعنی کبھی نماز گر پڑتی ہے پھر اسے کھڑا کرتا ہے۔ فرمایا یعنی متقی خدا تعالیٰ سے ڈرا کرتا ہے اور وہ نماز کو قائم کرتا ہے۔ اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کر اس کے حضور میں حارج ہوتے ہیں۔ دلوں کے وسوسے، خیالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے توجہ پھیرتے ہیں۔ یہ دلوں کے وسوسے اور خیالات جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توجہ پھیرتے ہیں یہی نماز کا گرنا ہے اور واپس اس کو کھڑی کرنا یہی ہے کہ پھر دوبارہ توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے لیکن اگر دل میں تقویٰ ہے۔ تو فرمایا ایک متقی، ایک حقیقی مومن نفس کی اس کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے یعنی نماز تو گرتی ہے، بعض دفعہ توجہ ادھر ادھر چلی جاتی ہے لیکن تقویٰ یہ تقاضا کرتا ہے کہ کوشش کر کے پھر نماز کو کھڑا کریں۔ پھر اپنی توجہ دوبارہ نماز کی طرف لے کر آئیں اور خدا تعالیٰ کی طرف لے کر آئیں تو یہ اسے کھڑا کرنا ہے۔ فرمایا کہ وہ تکلّف اور کوشش سے بار بار اسے کھڑا کرتا ہے اور اگر مستقل مزاجی سے نماز پر انسان قائم رہے اور اس بات کی کوشش کرتا رہے کہ میں نے اپنی نماز کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں تو پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے ذریعہ ہدایت عطا کر دیتا ہے۔ پھر آپؑ نے ہدایت کی وضاحت فرمائی کہ ہدایت کیا ہوتی ہے؟ فرمایا کہ وہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ جب نماز کے کھڑی کرنے، اس کو قائم کرنے کی کوشش کا معاملہ نہیں رہتا۔ یہ نہیں ہوتا کہ نماز گر گئی۔ نماز سے توجہ ہٹ گئی اور پھردوبارہ نماز کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ یہ معاملہ نہیں رہتا بلکہ ہدایت حاصل کرنے کے بعدنماز اس کے لیے بمنزلہ غذا ہو جاتی ہے۔ اس طرح ہو جاتی ہے جس طرح خوراک ہے۔ کھانا کھانا انسان کے جسم کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح روحانی نشوونما کے لیے نماز اس کا حصہ بن جاتی ہے، غذا بن جاتی ہے۔ فرمایا جس طرح مادی غذا کے بغیر زندگی نہیں رہتی، یہ وضاحت مَیں اس کی کر رہا ہوں کہ جس طرح مادی غذا کے بغیر زندگی نہیں رہتی اسی طرح نماز کے بغیر بھی زندگی نہیں رہتی اور صرف یہی نہیں کہ صرف زندگی قائم رکھنے کے لیے غذا کھانی ہے بلکہ فرمایا کہ یہ غذا ایسی ہے کہ اس کا مزہ بھی آتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ نماز میں اس کو وہ لذت اور ذوق عطا کیا جاتا ہے جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ نہایت رغبت سے اسے پیتا ہے اور سیر ہو کر اس سے حظّ اٹھاتا ہے۔ پیاس لگی ہو، شدید پیاس ہو، برا حال ہو، پانی نہ مل رہا ہو، پھر پانی مل جائے اور ٹھنڈا پانی مل جائے تو اس سے جو لطف آتا ہے وہ اسی طرح ہے جس طرح ایک حقیقی ہدایت یافتہ کو نماز پڑھنے سے آتا ہے یا پھر ایک اَور مثال آپؑ نے دی کہ کوئی بھوکا ہو اور اسے نہایت اعلیٰ قسم کا خوش ذائقہ کھانا مل جائے تو اسے کھا کر خوشی ملتی ہے۔ ایسے ہی حقیقت میں خوشی حقیقی نماز پڑھنے والے کو ملتی ہے۔ پس یہ وہ نمازیں ہیں جو حقیقت میں نمازیں ہیں کہ خوش ہو کر نماز پڑھنی ہے نہ کہ بوجھ سمجھ کر نمازیں پڑھنی ہیں بلکہ آپؑ نے یہ مثال بھی دی ہے کہ حقیقی مومن کے لیے نماز ایک قسم کا نشہ ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ سخت کرب محسوس کرتا ہے۔ جس طرح کہ نشئی آدمی جو ہوتا ہے اس کو نشہ نہ ملے تو بڑی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ بڑا اضطراب اور بے چینی محسوس کرتا ہے لیکن نماز کے ادا کرنے سے اس کے دل میں ایک خاص سرور اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ الفاظ میں وہ لذت بیان نہیں ہو سکتی جو حقیقی نماز پڑھنے والے کو لذت ملتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ مومن متقی نماز میں لذت پاتا ہے اس لیے نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے۔ فرمایا نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے اور اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 8صفحہ 309-310)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button