متفرق مضامین

خلافت کے ذریعہ عالمی وحدت کا قیام

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

اللہ تعالیٰ جب بھی کوئی نبی مبعوث فرماتا ہے تو اُس کے ذریعہ قائم ہونے والی جماعت کے احباب روحانی اخوت ومحبت کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ وہ ایک خاندان کی طرح،ایک برادری بن کر نئی زندگی گزارنے والے ہوتے ہیں۔ نبی کی برکت اور اُس کی دعائوں کےطفیل وہ ایک دوسرے کے ہمدرد، خیر خواہ، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والے اور ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنے والے ہوتے ہیں۔ اُن کے دل ایک ساتھ دھڑکتے اور ان کی نبضیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔جس کی مثال عام دنیوی تعلّقات اور رشتوں میں نہیں ملتی۔ وہ ایک امام (نبی ) کے تابع فرمان ہوکر اُس کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ایک ہاتھ کے اشارے پر اُٹھتے اور بیٹھتے ہیں۔ نبی کا وجود اُن کی امیدوں کا مرکزو محور ہوتا ہے جس کے ہر پیغام اورہر حکم کو بجالانا وہ اپنی سعادتِ دارین سمجھتے ہیں۔

یہی نقشہ اوریہی حالات، باہمی الفت ومحبت اور اتحادو یگانگت کی روح،نبی کے بعد اُس کے خلفاء کے ذریعہ مومنین میں پھونکی جاتی ہے۔ خلیفہ ٔوقت اپنی دعائوں، قوّتِ قدسیہ اور شفقت ومحبت سے اُن کے دلوں کو ایک دوسرے کی محبت سے لبریز کردیتا ہے۔ اُس کا وجود بھی جماعتِ مومنین کی آرزوئوں، تمنائوں اور امیدوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ وہ اُس کے بے دام غلام بن جاتے ہیں اور اُس کے ایک اشارے پر ہروقت تن من دھن قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ خلیفۂ وقت کی تربیت کے نتیجے میں اُن کی ایسی کایا پلٹ جاتی ہے کہ وہ:’’جان و مال و آبرو حاضر ہیں تیری راہ میں‘‘کے نعرۂ کی حقیقی تصویر بن جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی قوتِ قدسیہ کی برکت سے جماعت مومنین کو بھائی بھائی بنادیا اور ان کی باہمی رنجشوںاور نفرتوں کو دُور کردیا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے:وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا۪ وَاذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا۔(اٰل عمران:۱۰٤)اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرواور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہوگئے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جماعت کے قیام اوراس کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاہے کہ وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۔(اٰل عمران :۱۰٥) اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بری باتوں سے روکیں۔ اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایک اور مقام پر تفرقہ سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وَلَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَاخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَاُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ۔ (اٰل عمران :۱۰٦) اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جو الگ ہوگئے اور انہوں نے اختلاف کیا۔ بعد اس کے کہ اُن کے پاس کھلے کھلے نشانات آچکے تھے۔ اور یہی ہیں وہ جن کے لئے بڑا عذاب (مقدر ) ہے۔

وحدت توڑنے والے سے قطع تعلق کرلو

پس جماعتی اور قومی ترقی کا راز وحدت ویکجہتی اور باہمی الفت ومحبت میں مضمر ہے۔ اگر تمام افراد جماعت اطاعتِ امام اور اطاعت ِنظام کی لڑی میں موتیوں کی طرح پروئے رہیں اور باہمی ہمدردی اور باہمی احترام کی دولت سے مالا مال رہیں تو جماعتی ترقی اور خوشحالی کی رفتار کو پَر لگ جاتے ہیں۔ یہ اتحادو اتفاق کی روح ہی ہے جو ہر معاشرہ کی جان اور کسی جماعت کی اصل پہچان ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کا ہاتھ ایسے لوگوں کے سرپر ہوتا ہے جبکہ جو شخص جماعت سے الگ ہوجائے وہ اپنے لیے آگ کی راہ منتخب کرتاہے۔وَیَدُ اللّٰہِ مَعَ الۡجَمَاعَۃِ وَمَنۡ شَذَّ شُذَّ اِلَی النَّارِ(الجامع الکبیر للترمذی،المجلد الرابع،أبواب الفتن با ماجاء فی لُزُومِ الۡجَمَاعَۃِ حدیث:۲۱٦۷، دارالغرب الاسلامی بیروت ۱۹۹٦ء) یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوتی ہے اور جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ گویا آگ میں پھینکا گیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور روحانی اُخوت کی دل وجان سے قدر کرتے ہوئے اس پر اُس کا عملی شکر بجالانا چاہیے۔

حضرت عرفجہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا آپؐ نے فرمایا: عنقریب خرابیاں ہوں گی۔ جو شخص اس امت کی وحدت کے معاملہ کو بگاڑنا چاہے اور وہ (امت) متحد ہو تو خواہ وہ کوئی ہو، اسے تلوار سے مارو۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ بَاب حُکۡم مَنۡ فَرَّقَ أَمۡرَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَھُوَ مُجۡتَمِعً حدیث:۳٤۲۸)حضرت عرفجہؓ سے ہی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سناکہ جو شخص تمہارے پاس آئے۔ تم ایک شخص پر متفق ہو اور وہ تمہارا عصا توڑنا چاہے یا تمہاری جماعت میں تفرقہ پیدا کرنا چاہے تو اسے قتل کردو۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ بَاب حُکۡم مَنۡ فَرَّقَ أَمۡرَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَھُوَ مُجۡتَمِعً حدیث:۳٤۲۹)یعنی ایسے شخص سے دُور رہو اور اُس کی بات نہ مانو۔

جماعت کی برکت اور اُس کی اہمیت کے پیش نظر ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے یہ نصیحت فرمائی کہ تَلۡزَمُ جَمَاعَۃَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَاِمَامَھُمۡ (صحیح البخاری کتاب الفتن بَاب کَیۡفَ الۡأَمۡرُ اِذَا لَمۡ تَکُنۡ جَمَاعَۃٌ حدیث:۷۰۸٤) تم مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے امام کو لازم پکڑو۔اسی طرح آنحضرتﷺنے حضرت حذیفہ بن یمانؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :تَسۡمَعُ وَتُطِیۡعُ الْاَمِیۡرَ، وَاِنۡ ضُرِبَ ظَھۡرُکَ وَأُخِذَ مَالُکَ فَاسۡمَعۡ وَأَطِعۡ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ بَاب اَلۡاَمۡرُ بِلُزُوۡمِ الۡجَمَاعَۃِ عِنۡدَ ظُھُوۡرِ الۡفِتَنِ…حدیث:۳٤۲۱) تم امیر کی سنو گے اور اطاعت کرو گے، اگرچہ تیری پیٹھ پر مارا جائے اور تیرا مال لے لیاجائے (پھر بھی) سننا اور اطاعت کرنا۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: مَنۡ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الۡجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مِیۡتَۃً جَاھِلِیَّۃً (صحیح مسلم کتاب الامارۃ بَاب اَلۡاَمۡرُ بِلُزُوۡمِ الۡجَمَاعَۃِ عِنۡدَ ظُھُوۡرِ الۡفِتَنِحدیث:۳٤۲۲) جو اطاعت سے نکلا اور جماعت سے علیحدہ ہوا اور الگ رہا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی اور غلبہ حاصل نہیں کرسکتی جب تک اس میں اتفاق و اتحاد اور وحدت نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:اِنَّمَا الۡاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنۡ وَّرَائِہِ وَیُتَّقَی بِہِ (صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر بَاب یُقَاتَلُ مِنۡ وَّرَائِ الۡاِمَامِ وَیُتَّقَی بِہِ حدیث:۲۹٥۷)امام تو ایک ڈھال ہے جس کے پیچھے ہوکر لڑاجاتا ہے اور جس کے ذریعہ بچا جاتا ہے۔نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان کس قدر توجہ کے لائق اور عمل کے قابل ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اورہر قسم کی کامیابی کا راز خلافت سے وابستگی میں مضمر ہے یعنی حالات کیسے بھی ہوںاگر وہ خلافت سے وابستہ رہیں گے اور اُسے اپنی سِپربنائے رکھیں گے تو اس الفت ویگانگت اور باہمی اتحاد کی برکت سے وہ کامیابیوں کا منہ دیکھتے رہیں گے۔

تاریخ اسلام میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک بہت ہی دلدوز اور المناک واقعہ ہے۔آپؓ کی شہادت سے اُمّتِ مسلمہ کو ایک ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔باہمی جھگڑوں اور نفرتوں میں اضافہ ہوا۔آپؓ نے شہادت سے قبل شرپسندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاتھاکہ فواللّٰہ لئن قتلتمونی لا تتحابون بعدی أبدًا، ولا تصلون جمیعًا بعدی أبدًا ولا تقاتلون بعدی عدوًا جمیعًا أبدًا(تاریخ الأمم والملوک تاریخ الطبری، ذکرالخیر عن قتل عثمانؓ صفحہ ۷۷۱۔بَیۡتُ الاَفۡکَارُ الدَّوۡلِیّۃ،الریاض السعویۃ ) بخدا! اگر تم مجھے قتل کرو گے تو میرے بعد تم میں اتحادقائم نہیں رہے گااورتم کبھی متحد اور مجتمع ہوکر نماز نہیں پڑھ سکو گے اور نہ میرے بعد پھرکبھی تم متحد ہوکردشمن کا مقابلہ کرسکو گے۔

اس ارشاد اور تنبیہ کے باوجود جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تو مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا۔ان کا اتفاق واتحاد جاتا رہا،باہمی محبت والفت اور یگانگت کی جگہ دشمنی نے لے لی اور وہ باہم دست وگریباں ہوکر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے۔وہ جو تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّوَالتَّقۡوٰی (المائدۃ:۳)اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، کی زندہ علامت تھے وہ اس راہ سے بہت دُور ہٹ گئے۔الغرض حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے اس فتنہ نے عالم اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور کبھی بحیثیت اُمت اُن کی شیرازہ بندی نہ ہوسکی۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کو الفت ومحبت کی لڑی میں پرونا دراصل اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جس کے لیے اُس نے خلافت کا نظام عطا فرمایا ہے پس جب کبھی مسلمان اس آسمانی نسخہ کو چھوڑ یں گے وہ اتحاد کی راہ سے دُور ہوجائیں گے۔دلوں میں الفت و محبت پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ کوئی انسانی کوشش اور طاقت ایسا نہیں کرسکتی اور یہ اُس نظام کی برکت سے ہی ممکن ہے جو نبی کی وفات کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی صورت میںدنیا میں قائم کیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد  مبارک ہے کہ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّآ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِھِمۡ (الانفال:٦٤)اگر تُووہ سب کچھ خرچ کردیتا جو زمین میں ہے تب بھی تُو ان کے دلوںکو آپس میں باندھ نہیں سکتا تھا۔ پس یہ سراسر فضل واحسان الٰہی ہے کہ اُس نے اپنے اُسی وعدہ اور سنت کے مطابق جماعت آخرین میں خلافت کا نظام جاری فرماکر ایک بارپھر امت مسلمہ کو اتحادو یکجہتی اور شیرازہ بندی کا پلیٹ فارم مہیا فرمادیا ہے۔

خلافت کے قیام کی بے قرار تمنا

اگر عالم اسلام کی موجودہ صورتحال پرسرسری سی نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم جیسا عظیم الشان ضابطہ حیات اور سنت رسول ﷺ کے ہوتے ہوئے بھی دنیا بھرکے مسلمان بے چینی اور انتشار کا شکار ہیں اور اُن میں وحدت کا شدید فقدان پایا جاتاہے۔ اس کس مپرسی اور بے  چارگی کی بنیادی اور اہم وجہ یہی ہے کہ اُن کے پاس کوئی ایسا نظام موجود نہیں جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو اور نہ ہی اُن کے پاس کوئی ایسا راہنما ہے جس کی بات پر عمل کرنا وہ اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھیں۔مسلمانوں میں ایک عرصہ سے بڑے تکرار کے ساتھ خلافت کی اہمیت اور نظامِ خلافت کے قیام کی ضرورت کے بارے میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ مذہبی اور سیاسی تنظیموں اور گروہوں کے سربراہ اور لیڈر اپنے بیانات میں اس امر کا برملااظہار کررہے ہیں کہ خلافت ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج عالم ِاسلام خلافت کے قیام کے لیے جس قدر بے چین دکھائی دیتا ہے اس سے پہلے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ایک عام مسلمان سے لے کر صاحب علم وقلم اور دانشور برملا اپنی اس تمنا کا اظہار کرتے رہے ہیں۔بھارت کے مشہور کالم نویس جناب شاہد بدر فلاحی رقم طراز ہیں کہ ’’ خلافت ناگزیر ہے خلافت کے بغیر نہ تو دین غالب آسکتا ہے نہ عدل و انصاف کا قیام عمل میں آسکتا ہے نہ مشرکانہ نظام کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔نہ نماز کا مکمل قیام ہوسکتا ہے۔ نہ زکوٰۃ کا پورا انتظام نافذ ہوسکتا ہے۔ نہ نیکی فروغ پاسکتی ہے نہ برائی ختم ہوسکتی ہے۔ نہ جمعہ وعیدین کا انتظام ہوسکتا ہے۔ نہ اللہ کے رسولؐ کی پوری اطاعت ہوسکتی ہے۔ نہ مسلمانوں کی حالت درست ہوسکتی ہے۔ خلافت کے بغیر زندگی گزارنا جاہلیت ہے۔ بلکہ جینا درست نہیں۔ خلافت کے بغیر اسلام اپاہج لُولا اور لنگڑا ہے۔ ‘‘(ہفت روزہ نئی دنیا دہلی ۱۱؍مارچ ۱۹۹۲ء)

روزنامہ نوائے وقت میںجناب عمران یوسف زئی لکھتے ہیں:’’بیشک جس چیز کی اب ہمیں نہ صرف اشد ضرورت بلکہ جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں خالص اسلامی خلافت کی بحالی ہے وہ نظام جو کہ ہر طرح تمام زمانوں سے ہم آہنگ، آزمایا ہوا اور لامحدود دانائی کی بنیاد سے اخذ کیا گیا ہے یعنی اسلامی عقیدہ سے نیز اس کے دوبارہ قیام کی بشارت ہمیں الصادق والامینﷺ نے خود فرمائی ہے۔ ‘‘ ( نوائے وقت ۲٦؍اگست۲۰۰٦ء )

جناب فضل محمد یوسف زئی استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی لکھتے ہیں:’’مسلمان ترس رہے ہیں کہ کاش ہماری ایک خلافت ہوتی، ہمارا ایک خلیفہ ہوتا، کاش ہماری ایک بادشاہت ہوتی، کاش ہمارا ایک بادشاہ ہوتا جس کی بات پوری دنیا کے مسلمانوں کی بات ہوتی جس میں وزن ہوتا جس میں عظمت ہوتی جس میں شجاعت ہوتی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ میں ان کی حیثیت ہوتی عالمی برادری میں ان کی قیمت ہوتی ویٹوپاور میں ان کا مقام ہوتا سلامتی کونسل میں اس کا نام ہوتا۔ ‘‘(ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک۔ مارچ ۲۰۰۰ء صفحہ٥۸)

ابوعمارزاہدالراشدی صاحب خلافت کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ’’ آج کے دَور میں خلافتِ اسلامیہ کے احیا کی اہمیت کیا ہے اور اس کے لیے عملی طریق کیا ہوسکتاہے؟ خلافت کے احیا کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ یہ ہمارا اجتماعی شرعی فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے بغیر ہم دنیا بھر کے تمام مسلمان گناہ گار ہیں اور شرعی فرض کے تارک ہیں۔ پھر صرف اس ایک فرض کے تارک نہیں بلکہ خلافت کے ذریعے احکام اسلامی کے نفاذ، اقامت دین، جہاد اور شرعی قضا کے جو فرائض بجالائے جاسکتے ہیں ہم ان کے بھی تارک ہیں اور ان سب فرائض کو نظر انداز کرنے کا بوجھ ہم پر ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں سیاسی وحدت اور مرکزیت کے قیام کا واحد ذریعہ صرف اور صرف خلافت ہے اور گزشتہ صدی کے تجربات نے واضح کردیا ہے کہ سیاسی وحدت اور مرکزیت کے بغیر عالم اسلام تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کے باوجود اپنا ایک مسئلہ بھی حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس لیے آج عالم اسلام کا سب سے بڑا اور سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ خلافت کے احیاوقیام کی کوئی عملی صورت پیدا کی جائے۔‘‘(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ جون ۱۹۹٦ء صفحہ ۲۲)

عبدالرحمٰن صاحب مہتمم جامعہ اشرفیہ کراچی کہتے ہیں: ’’جہاں تک نظام خلافت اسلامیہ علیٰ منہاج النبوۃ کا تعلق ہے اس سے بہتر اور اچھا کوئی نظام نہیں۔ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بیشک اللہ تبارک وتعالیٰ نے خرید لیا ہے مومنین کا جان مال بدلے جنت کے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں میں آپس کے تنازعات عروج پر ہیں۔ جہاں تک خلافت کا تعلق ہے تو خلیفہ کس کو مانیں اور اگر مکہ مکرمہ سے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے تو سب سے پہلے تنازعہ بریلوی حضرات کریں گے اور میں نے خلافت کے بارہ میں ساتھیوں سے بھی مشورہ کیا ہے اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں نظام خلافت ممکن نہیں۔ ‘‘(ماہنامہ ضرب حق کراچی۔ ماہ اپریل ۲۰۰٤ء صفحہ ٤کالم ٦،٥۔ بقیہ صفحہ ۳کالم ۳)

پس عالم اسلام کی یہ بے قرار تمنا مختلف اوقات میں مختلف شکلیں دھارتی رہتی ہے اوراس کے نتیجہ میں خلافت کے قیام کے لیے لاحاصل کوششیں بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر اُن کے ارادوں اور منصوبوں کو ہمیشہ خاک میں ملا دیتی ہے کیونکہ جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے مقابل پر آئے گا اُس کاایسا ہی انجام مقدر ہے۔ اے کاش! مسلمانوں کے ان نام نہاد دانشوروں اورمفکروں کو نظرِ بینا عطا ہواور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری کردہ نظام خلافت پر ایمان لے آئیں۔کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی تیار کردہ کشتی ہے جو اس میں سوار ہوگا وہی بچایا جائے گا اور اُسی کے اچھے مستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔

خلافت احمدیہ غیروں کی نظرمیں

اللہ تعالیٰ کے کام بہت پُرحکمت اور نرالے ہوتے ہیں۔ ایک عام انسان ان کی کنہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور جب وہ مقررہ وقت آن پہنچتاہے تواللہ تعالیٰ کے ارادہ اور منشا کے مطابق اپنی تکمیل کے مراحل طے کرنے لگتاہے۔ آسمان پر کسی تبدیلی کا فیصلہ ہوجائے تو زمینی حالات خود بخود سازگارہونا شروع ہوجاتے ہیںاور صاحبِ بصیرت ہوائوں کے رُخ سے موسم کی تبدیلی کا اندازہ لگالیتے ہیں۔چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اُسی آسمانی نظام کا حصہ ہے جو اِس سے پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ذریعہ اس دنیا میں جاری ہوچکا ہے۔ یہ نظام امن و آشتی، صلح جوئی اور آپس کی نفرتوں کو مٹا کر پیغام توحید کو عام کرنے والا نظام ہے۔جس کے ذریعہ دنیا کے تمام انسانوں کو خدائے واحد کے نام پرجمع کیا جائے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں  :’’  خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیامیں بھیجا گیا۔ ‘‘(الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰٦)

پس خدا تعالیٰ کی تقدیر کب،کس طرح اور کیسے جلوہ گر ہوگی اسے کوئی نہیں جانتا لیکن جب وقت کا پہیہ اپنی مقررہ جگہ پر پہنچ جائے تو سارے تانے بانے خود بخودملنے لگتے ہیں اورابدی صداقتیں حقیقت کا روپ دھارلیتی ہیں۔جب سورج نکل آئے تو اُجالے خود ہی نمودار ہوجایا کرتے ہیں اوردلوں کی گرہیں کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ایسے میں ذہنوں کی کثافتیں زائل ہوتی جاتی ہیں۔ تب ابدی سچائی اپنا اثر دکھاتی ہے اور دل اُسے قبول کرلیتے ہیں۔

دراصل الٰہی جماعتوں کی کامیابی کے پیچھے خدائی ہاتھ کارفرما ہوتاہے جب کُن کا مسحور کن نقارہ بجتا ہے تو فَیَکُوۡن کے جلوے خود بخود رونما ہونے لگتے ہیںاور روحانی طور پر مردہ جسموں میںزندگی کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں۔حالات بڑی سُرعت سے تبدیل ہورہے ہیں اورسعید فطرت لوگ اسلام کی امن پسند تعلیم کو سمجھنے کے لیے بے تاب ہیں۔ چنانچہ ہمارے پیارے اور محبوب امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جس علاقے اور ملک میں تشریف لے جاتے ہیں آپ کو سربراہان مملکت جیسا پروٹوکول دینے پر مجبور ہوتےہیں۔وہاں کی اسمبلیوں کے ممبرآپ کی خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ آپ کی مجالس میں شامل ہوکر آپ کی باتوں کو غور سے سنتے اور باہر آکر اپنے تاثرات میں اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ جو باتیں ہم نے خلیفہ کے منہ سے سنی ہیں یہی وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضاہیں۔ایسی حسین تعلیم اور اسلام کا ایسا خوبصورت چہرہ پہلے دیکھنے کو نہیں ملا اگر یہ اسلام ہے تو اس لائق ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔مشہور برطانوی مدبر جارج برنارڈشا (۱۹٥۶-۱۸٥۰ء) ایک نامور شخصیت تھے اور لندن سکول آف اکنامکس کے بانی شمار کیے جاتے ہیں وہ تحریر کرتے ہیں :’’قرون وسطیٰ کے پادریوں نے یا تو جہالت کی وجہ سے یا تعصب کی بناء پر محمدؐ کے دین کی نہایت تاریک تصویر کھینچی تھی۔ فی الحقیقت انہیں محمد(ﷺ) اور ان کے مذہب سے نفرت کرنے کی ٹریننگ دی گئی تھی ان کے نزدیک محمدؐ یسوع کے دشمن تھے۔ لیکن میں نے اس عظیم الشان شخصیت کا مطالعہ کیا ہے میری رائے میں وہ نہ صرف یہ کہ دشمن مسیح نہ تھے بلکہ انسانیت کے نجات دہندہ تھے میرا ایمان ہے کہ اگر موجودہ زمانہ میں محمدؐ جیسا انسان دنیا کا آمر بن جائے تو وہ ہمارے زمانہ کی مشکلات کا ایسا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائے گاجس کے نتیجہ میں مسرت اور امن حاصل ہوجائے۔ اب یورپ محمدؐ کے مذہب کے اصولوں کو سمجھنے لگا ہے اور آئندہ صدی میں یورپ اس بات کو اور زیادہ تسلیم کرے گا کہ اسلام کے اصول اس کی الجھنوں کا حل کرسکتے ہیں۔میری پیشگوئی کو ان حقائق کے ماتحت سمجھنا چاہئے موجودہ وقت میں بھی میری قوم اور یورپ کے کئی لوگ اسلام اختیار کرچکے ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ یورپ کے اسلامی بننے کا آغاز ہوچکا ہے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد ٤ صفحہ ۱٥۲-۱٥۳)

یورپ کے ایک اور مشہور مورخ پروفیسر ٹائن بی (Professor Toynbee) لکھتے ہیں:’’ مغرب سے ٹکرائو کے نتیجہ میں اب اسلام میں پھر جوش پیدا ہورہا ہے اور اس میں ایسی روحانی تحریکات جنم لے رہی ہیں جو ممکن ہے آئندہ جاکر عالمگیر مذہب اور تہذیب کی بنیاد بن جائیں مثلاً احمدیہ تحریک ہے۔ ‘‘ (تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۱٥۳)

٤؍دسمبر ۲۰۱۲ء کا دن ایک خاص اہمیت کا دن تھا جب یورپ کی ۲۸؍قوموںکو بیک وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چشمہ سے سیراب ہونے کا موقع ملا۔اُس روز سچائی کا آفتاب ایک نئی شان کے ساتھ مغرب کی طرف سے طلوع ہوا تھا۔اس موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے اعزاز میں یورپین پارلیمنٹ برسلز میں ایک انتہائی اہم تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میںشمولیت کے لیے ایک عیسائی راہنما جوBishop جیسے اہم عہدہ پر فائز ہیں جنیوا (سوئزرلینڈ) سے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :’’ یہ شخص جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔ لہجہ دھیماہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت، شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس طرح کا جرأت مند انسان مَیں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کی طرح کے صرف تین انسان اگر اس دنیا کو مل جائیں تو امن عامہ کے حوالے سے اس دنیامیں حیرت انگیز انقلاب مہینوں نہیں بلکہ دنوں کے اندر برپا ہوسکتا ہے اور یہ دنیا امن اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ مَیں اسلام کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا۔ آپ کے خطاب نے اسلام کے بارے میں میرے نقطۂ  نظر کو کلیۃً تبدیل کردیا ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ٤؍جنوری ۲۰۱۳ء صفحہ ۱٤)

ملک مالٹا (Malta) سے Prof.Amold Cassola تشریف لائے تھے۔ آپ یونیورسٹی آف مالٹا میں بطور پروفیسر کام کررہے ہیں۔ آپ ۳۰ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیںاور اٹالین پارلیمنٹ میں ممبر آف پارلیمنٹ رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس تقریب پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا :’’کانفرنس کا انتظام نہایت اعلیٰ تھا یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی خاص طور پر خیال رکھا گیا اور کہیں کسی قسم کی کمی نظر نہیں آئی۔ جماعت احمدیہ کا عالمی بھائی چارے کا تصور اور ماٹو ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ‘ایک نہایت اہمیت کا حامل تصور ہے جو تمام انسانیت کو اکٹھا کردیتا ہے اور ہر قسم کے نسلی اور مذہبی تفریق کو الگ کرکے انسانیت کو یکجا کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ خلیفہ (ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی تقریر عالمی امن کے قیام کی جدوجہد کی واضح عکاسی ہے۔ درحقیقت جماعت احمدیہ دنیا کے تمام لوگوں کے لئے جو امن اور رواداری کی تلاش میں ہیں مذاکرات کا ایک اہم پلیٹ فارم مہیا کررہی ہے، یہاں تک کہ سیاسی سطح پر بھی وہ اس معاملہ کو خوب اچھی طرح پیش کررہی ہے۔ ‘‘ ( الفضل انٹرنیشنل ٤؍جنوری ۲۰۱۳ء صفحہ ۱٥)

ملک مالٹا سے آنے والے ایک دوسرے مہمان Ivan Bartolo تھے آپ کا تعلق میڈیا سے ہے اور آپ دو پروگراموں کے پروڈیوسر اور میزبان ہیں۔ موصوف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :’’ درحقیقت عزت مآب خلیفہ امن کے عظیم سفیر ہیں اور مَیں آپ کی شخصیت اور امن اور عالمی بھائی چارے کے لئے آپ کے مشن اور جدوجہد سے بہت متأثر ہوا ہوں۔ ‘‘( الفضل انٹرنیشنل ٤؍جنوری ۲۰۱۳ء صفحہ ۱٥)سپین سے ایک اورممبر پارلیمنٹ محترمہ Rocio Lopez بھی اس اہم تقریب میں شامل تھیں۔موصوفہ سپین کے صوبہ Toledo سے کانگریس وومین ہیںآپ لکھتی ہیں :’’اس تقریب نے دوستی اور بھائی چارے کے اثرات چھوڑے ہیں۔ برسلز کے اس پروگرام نے ایک متحرک جماعت کا علم دیا جو مسلسل تعمیری کاموںمیں مصروف ہے۔ عزت مآب مرزا مسرور احمد کی قیادت میں ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ‘‘جیسے ماٹو کے تحت مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے احمدی باہم مل جل گئے ہیں۔دنیا جو اپنے نشے میں دھت چلی جارہی ہے اور جہاں امن اور محبت کا پیغام انتہائی اہم ہے، ایسی دنیا میں آپ لوگوں کے بارے میں جاننا ہی ایک اعزاز کی بات ہے۔ اس بات سے زیادہ کیا چیز خوبصورت ہوسکتی ہے کہ آپ کے امام سے کچھ تبادلہ خیال ہوجائے یا ان کی تشدد کے خلاف تقریر کو غور سے سنا جائے۔ میں آپ کے تصورات کی کامل تائید کرتی ہوں۔ میں اس مرد ِخدا کی طرف سے عالمی انسانی حقوق کی بحالی اور دنیا میں امن کے قیام کی تمام باتوں سے اتفاق کرتی ہوں۔میں ہمیشہ مذہب کی بنیاد پر مظالم کی مذمت کرتی رہوں گی۔ خدا آپ پر ہمیشہ مہربان رہے۔ (الفضل انٹرنیشنل ٤؍جنوری ۲۰۱۳ء صفحہ ۱٦)

خدا تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ جسے چاہتاہے نمایاں اور ممتازکرکے تخت شاہی پر بٹھا دیتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یُرِیۡدُ(الحج:۱٥) یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ (الحج:۱۹) یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

جس کو چاہے تختِ شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو

جس کو چاہے تخت سے نیچے گرادے کرکے خوار

پس دلوں کے حال اور نیتوں کو جاننے والی صرف ایک ہی ہستی ہے۔وہی بہتر جانتا ہے کہ کون عزت کے لائق اور اس قابل ہے کہ اُسے مقربین میں شمار کیاجائے۔ چنانچہ جب خدا  تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے چاہااُس نے ایک ایسے شخص کواپنے دین کے احیاء اور خدمت واشاعت کے لیے چُن لیا ہے جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ایک ایسی بستی کا باسی تھا جسے کوئی نہ جانتاتھا۔خدا تعالیٰ جوحضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے دل کا رازدان تھا اُس نے آپ کو اپنے دین کی آبیاری اور اپنے نام کی سرفرازی کے لیے منتخب کرکے زمانے کی سرداری عطا فرمادی۔حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :’’اگر اس عاجز کی فریادیں ربّ العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جو نورِ محمدی ﷺ اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلاویں۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ ٥۔مکتوب نمبر٥)

پس آج ایک دو نہیں بلکہ دنیاکے کونے کونے میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں احمدی مسلمان گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کی دعاؤں کو اس قدر پھل عطا فرمائے ہیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیںاور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفۂ برحق کی اقتدا اور راہنمائی میں، اطاعت کے کامل نمونے دکھاتے ہوئے حضور انور کے تمام ارشادات کو سنیں،سمجھیں اور اُن پر دل وجان سے عمل پیرا ہوںتاکہ اسلام کا دلکش پیغام دنیا کے ہر فرد تک پہنچ جائے۔جناب سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ’’ریاست‘‘ دہلی کافی سال پہلے پاکستان آئے تو انہیں ربوہ میں آنے کا بھی موقع ملا۔بعدازاں انہوں نے اپنے تاثرات پر مشتمل ایک طویل مضمون تحریر کیا جس کے آخر پرجماعت احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ’’جماعت کے لوگ عام طور پر غریب یا درمیانہ حیثیت کے ہیں جو اپنی ضروریات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی اپنی فدا ہونے والی قابلِ قدر سپرٹ کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی جماعت کی خدمت کرنا اپنا ایمان اور فرض سمجھتے ہیں اور یہی سپرٹ احمدیت کے مذہبی جھنڈے کو ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ اکثر غیر ممالک میں بھی بلند کرنے کا باعث ہے۔ ‘‘(ماہنامہ الفرقان ربوہ اپریل ۱۹٦۰ء صفحہ ۱۳)

پس اسلام کی ترویج واشاعت، اُس کی ترقی اورحضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺکے امن وآشتی کے جھنڈے کو پوری دنیا میں لہرانے کے لیے انہی فدایانہ جذبوں اور سپرٹ کی ضرورت ہے جسے آج سے کئی سال پہلے ایک غیر نے محسوس کیا تھا۔اب ایک غیر از جماعت کی چشم کشاتحریر ملاحظہ فرمائیے۔ حیدرآبادکے جناب ابوبکر بلوچ زیر عنوان ’’ ۳۰لاکھ افراد کا کفر ایک لمحہ ٔ فکریہ !‘‘ رقمطراز ہیں :’’قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا۔ قادیانیوں کے قتل کو مباح (حلال ) قرار دیا گیا مگر یہ ختم نہ ہوئے۔ قتل کے جھوٹے ڈرامے رچائے گئے لیکن بیکار۔ … ہمارے معاشرہ سے دن بدن امن اُٹھ رہا ہے۔ بے حیائی اور گناہ زوروں پرچل رہا ہے۔ رشوت، غبن اور فراڈ ہمارے ماتھے پر کلنک ہیں۔ بڑے بڑوں کے گند کھل کر عوام کے سامنے آرہے ہیں۔ نائٹ کلب، فیشن شو، ویڈیو اور ڈش کی تباہ کاریاں اخلاقی اقدار کو کچلے جارہی ہیں اور ہمارے محترم علماء آپس میں دست و گریباں ہیں۔ عوام سے جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم قادیانیوں کا برطانیہ سے صفایا کرآئے ہیں۔ یہ اچھا صفایا ہے کہ ہر سال گمراہ ہونے والوں کی تعداد دو گنا ہوجاتی ہے …قادیانیوں کی روز افزوں ترقی، لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا قادیانی مذہب میں داخل ہونا اور دنیا کا قادیانیت کی طرف بڑھتا ہوا میلان، بظاہر اس بات کی علامت معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اِ ن کی طرف کھڑاہے، کیونکہ ہر آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ ساری اُمت ایک طرف اور ایک چھوٹی سی جماعت دوسری طرف۔ تیل کی دولت، حکومتوں کا ساتھ، سوادِ اعظم کا دعویٰ نتیجہ صفر۔ کفر پھیلتا جارہا ہے اور یہ مسلمان دن بدن اخلاقی، روحانی، مالی اور دینی انحطاط کا شکار۔ آخر کیوں! اگر یہ ساری طاقتیں اور وسائل قادیانیت کا مقابلہ کرنے اور اُسے ختم کرنے کے لئے ناکافی ہیں تو پھر ہم سب بارگاہِ الٰہی میں گر کیوں نہیں جاتے۔ اس کے مقابل پر ہر مسجد سے یہ اعلان کیوں نہیں ہوتا کہ فتنۂ قادیانیت کے قلع قمع کے لئے ساری اُمّت راتوں کو جاگ جاگ کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے کہ اے خدا تو نے ہمیں سارے وسائل عطا کئے لیکن ہم آپس کے اختلافات اور اپنی کمزوری ایمان کے باعث اس فتنہ کو کچلنے میں ناکام رہے ہیں۔ اے خدا تُو تو جانتا ہے کہ قادیانی جھوٹے ہیں اس لئے ہم دردمندانہ دعا کرتے ہیں کہ تُو اِن کی پشت پناہی اور تائید چھوڑ کر انہیں ذلیل اور رسوا کردے۔ اور ہمیں ان پستیوں سے نکال جن میں گرے ہوئے ہیں۔

میری علماء اور درد مند دل رکھنے والے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ اس میدان میں نکلیں اور خدا تعالیٰ کو محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کا واسطہ دے کر اس سے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس مٹھی بھر گروہ کے خلاف ہماری مدد فرمائے۔ اگر ہم نے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ پر غور اور عمل نہ کیا تو جس رفتار سے قادیانیت کا یہ سیلاب بڑھ رہا ہے۔ اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ چند برسوں میں یہ ساری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی بہا لے جائے گا…اگر علماء حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ قومی اسمبلی نے فیصلہ کردیاتھا کہ قادیانی غیر مسلم ہیںاور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اس لئے اب اَور کسی فیصلے کی ضرورت نہیں تو میری عاجزانہ سی درخواست کا جواب دیں کہ کیا خدا کی ناراضگی اور غضب کی یہ علامات ہیں کہ ایسے گروہ کو ترقی پر ترقی دیتا چلا جاتا ہے جو ساری امت مسلمہ کے فیصلہ کے مطابق دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اور دوسری طر ف اس کی تائید ونصرت اس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہے بے سہارا، بے بس اور مغلوب ہے۔ افغانستان میں وہ جہاد کے نام پر ایک دوسرے کو بھون رہا ہے تو اسرائیل اور کشمیر میں ہنود ویہود کا تختہ ٔمشق بن کر رہ گیا ہے۔ کویت اور عراق میں امریکی اسلحہ کا نشانہ بن رہا ہے تو پاکستان میں خود ہم وطنوں کی شعلہ زن بندوقوں کی زد میں ہے۔‘‘(ماہنامہ دفاع کراچی،اگست ۱۹۹۷ء صفحہ ٤۰)

خلفائے احمدیت کے چند اقتباسات

ذیل میںخلافت کی اہمیت و افادیت کے متعلق خلفاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوگا کہ خلافت جیسی عظیم نعمت ہی امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کرسکتی ہے اور اسی کے ساتھ دنیا کے امن، سلامتی، بھائی چارے اوراُن کی روحانی ترقی کا راز وابستہ ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ جماعتی وحدت کو قائم رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ وحدت پیدا ہو۔اسلام کے ہر امر میں وحدت کی روح پھونکی گئی ہے۔ جب تک وحدت نہ ہو اس پر اللہ کا ہاتھ نہیں ہوتا جو جماعت پر ہوتا ہے۔ میں درختوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ اگر ایک ایک پتہ کہے کہ میں ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں اور اپنے ربّ سے مانگتا ہوں وہ مجھے سرسبز کر دے گا۔کیا وہ الگ ہو کر سرسبز رہ سکتا ہے ؟ہرگز نہیں بلکہ وہ مرجھا جائے گا اور ادنیٰ سے جھونکے سے گر جائے گا۔اس لئے ضروری ہے کہ ایک شاخ سے اس کا تعلق ہو اور پھر اس شاخ کا کسی بڑی شاخ سے اور اس کا کسی بڑے تنے سے تعلق ہو جو جڑ اور اس کی رگوں سے اپنی خوراک کو جذب کرے۔یہ سچی مثال ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بیج لگاتا ہے تو جو شاخ اس سے الگ ہو کر بار آور اور ثمر دار ہونا چاہے وہ نہیں رہ سکتی خواہ اسے کتنے ہی پانی میں رکھو۔وہ پانی اس کی سرسبزی اور شادابی کی بجائے اس کے سڑنے کا موجب اور باعث ہو گا۔پس وحدت کی ضرورت ہے۔‘‘ (خطبات نور صفحہ۱۲٦)

یاد رکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے ایک اور خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے جماعت کو اتفاق و اتحاد کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’پس میں تم کو نصیحت کرتا ہوں۔پھر نصیحت کرتا ہوں۔پھر نصیحت کرتا ہوں۔پھر نصیحت کرتا ہوں۔پھر نصیحت کرتا ہوں۔پھر کرتا ہوں۔پھر کرتا ہوں۔پھر کرتا ہوں۔پھر پھر پھر کرتا ہوں کہ آپس کے تباغض و تحاسد کو دور کر دو۔یہ مجتہدانہ رنگ چھوڑ دو۔جو مجھے نصیحت کرنے میں وقت خرچ کرنا ہے وہ دعا میں خرچ کرو اور اللہ سے اس کا فضل چاہو…میں تمہارے ابتلاء سے بہت ڈرتا ہوں…بم کے گولے اور زلزلے سے بھی زیادہ خوفناک یہ بات ہے کہ تم میں وحدت نہ ہو۔‘‘(خطبات نور صفحہ٤۲۲-٤۲۱)

’’یہی تمہارے لئے بابرکت راہ ہے۔ تم اس حبل اللہ کو اب مضبوط پکڑ لو۔ یہ محض خدا ہی کی رسی ہے جس نے تمہارے متفرق اجزاء کو اکٹھا کردیا ہے۔ پس اسے مضبوط پکڑے رکھو۔‘‘(بدریکم فروری ۱۹۱۲ء بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ یکم جولائی ۲۰۰۳ء صفحہ ٤)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جماعت کے اتحاد اور شریعت کے احکام کو پورا کرنے کے لئے ایک خلیفہ کا ہونا ضروری ہے جو اس بات کو ردّ کرتا ہے وہ گویا شریعت کے احکام کوردّ کرتا ہے۔ صحابہؓ کا عمل اس پر ہے اور سلسلہ احمدیہ سے بھی خدا تعالیٰ نے اسی کی تصدیق کرائی ہے۔ جماعت کے معنی ہی یہی ہیں کہ وہ ایک امام کے ماتحت ہو جو لوگ کسی امام کے ماتحت نہیں وہ جماعت نہیں اور ان پر خدا تعالیٰ کے وہ فضل نازل نہیں ہوسکتے جو ایک جماعت پر ہوتے ہیں۔‘‘ (کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے، انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۳)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’یاد رکھیں کہ آپ کی وحدت خلافت سے وابستہ ہے اور اُمّتِ واحدہ بنانے کاکام خلافت احمدیہ کے سپرد ہے اور کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا۔ مَیں خدا کی قسم کھاکر اس مسجد میں اعلان کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ وآلہ وسلم کی غلام امت  ِواحدہ بنانے کا کام خدا تعالیٰ نے اِس دَور میں خلافت  ِاحمدیہ کے سپرد کردیا ہے۔ جو اس سے تعلق کاٹے گا وہ اُمّتِ واحدہ سے اپنا تعلق کاٹ لے گا۔ اس کی کوئی کوشش خواہ نیکی کے نام پر ہی ہو کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔پس خدا کے واضح اعجازی نشانوں کے ذریعہ جو بات ثابت ہوچکی ہے اس کو دیکھ کر آپ اپنی آنکھیں بند کرکے کدھر جائیں گے؟اس سے مضبوطی سے چمٹ جائیں اور اس میں کوئی خطرہ نہیں۔اس وفا کے اندر آپ کی خدا سے وفا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے وفا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وفا ہے کیونکہ خلیفہ اپنی ذات میں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ آپ سے بہت بڑھ کر اپنے گناہوں کو جانتا ہے۔ اپنی عاجزی کو جانتا ہے مگر جانتا ہے کہ جس منصب پر وہ فائز کیا گیا ہے اللہ اس منصب کی غیرت رکھتا ہے … پس خلافت احمدیہ وہ شاخ ِ مثمرم ہے،وہ مثمرم شاخ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے توحید کے پھل لگانے کے لیے سرسبز وشاداب کرکے دوبارہ دنیا میں قائم کیا ہے۔ ‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۱٦؍جولائی ۱۹۹۳ء۔ ہفت روزہ بدر قادیان ۱۲؍اگست ۱۹۹۳ء صفحہ ۸تا ۱٤)

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وحدت قومی کے تعلق میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صر ف ہادیٔ کاملﷺ کی اُمت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظام خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کاٹوٹنا ممکن نہیں۔لیکن یاد رکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ اگر ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔اس لئے اس حکم کو ہمیشہ یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ ے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو۔ کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۳ء صفحہ ٥)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے منصبِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعداحباب جماعت کے نام اپنے پہلے تحریری پیغام میں خلافت سے وابستگی کی برکات بیان کرتے ہوئے تحریرفرمایا تھاکہ’’قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحدکرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے۔ اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو دین حق کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں۔ امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جس طرح وہی شاخ پھل لا سکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کرسکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کرسکے گا جتنا بکری کا بکروٹا۔‘‘

پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہوجائیں۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔ اللہ آپ سب کا حامی وناصر ہو اورآپ کو خلافت ِ احمدیہ سے کامِل وفا اور وابستگی کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍مئی تا٥؍جون ۲۰۰۳ء صفحہ۱)

خلاصہ کلام یہ کہ اُمّتِ مسلمہ کی موجودہ حالت پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہر صاحب ِ بصیرت جان سکتا ہے کہ وہ غیرمعمولی طور پرافتراق و انتشار کا شکار ہے۔اتحاد واتفاق اور اجتماعیت کی اسی کمی کے باعث اُن کی اکثریت نہ صرف غربت وافلاس کی چکی میں پِس رہی ہے بلکہ اُن میں ذہنی و فکری پسماندگی اپنے عروج پر ہے۔ اُن کے سامنے نہ توکوئی مقصد ہے اور نہ ہی کوئی مربوط لائحہ عمل جبکہ اُن کے دل جدا جدا ہیں۔قرآن حکیم نے اُن کی اسی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا ہے کہ تَحۡسَبُہُمۡ جَمِیۡعًا وَّقُلُوۡبُہُمۡ شَتّٰی(الحشر:۱٥) توانہیں اکٹھا سمجھتا ہے جبکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔

سوخلافت ہی وہ حبل اللہ ہے جو جماعت مومنین کو وحدت کی لڑی میں پَروکراُن کی شیرازہ بندی کرتی ہے اور اتحادو اتفاق کی اسی برکت سے جماعت ہر جہت سے بےمثال ترقی کرتی ہے۔گویا خلافت ہی فتح و ظفر کی اصل کلید ہے جس کے ذریعہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمۡ دِیۡنَھُمُ الَّذِیۡ ارۡتَضٰی لَھُمۡ (النُّور:٥٦) کے نظارے دکھائی دیتے ہیں۔جماعت احمدیہ ہی وہ خوش نصیب جماعت ہے جو خلافت جیسی عظیم نعمت سے متمتع ہو رہی ہے اور اسی نعمت کے سائے تلے ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے۔ کیونکہ قوموں کی ترقی اوراُن کی تمام تر کامیابیوں کا راز وحدت ویکجہتی، الفت و یگانگت اور باہمی پیارو محبت میں پنہاں ہے جو خلافت کے بغیر ممکن نہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button