متفرق مضامین

متبعین خلافت احمدیہ اور منکرین خلافت کی ترقیات میں حیران کن فرق: غیر مبائعین کی (غیر) متوقع ناکامی اورزوال خدا کی فعلی شہادت اور وعدوں کی صداقت

(شہود آصف۔ استاذ جامعہ احمدیہ گھانا)

الٰہی نوشتوں نے ازل سے مقدر کر دیا ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ (المجادلة:۲۲) اللہ تعالیٰ نے فرض کردیا ہے کہ ضرور بالضرور میں اور میرے پیغمبر ہی غالب آئیں گے۔اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ الٰہی جماعتوں کی سچائی کے لیے فیصلہ کن دلیل ہے۔انبیاء کی جماعتیں بظاہر کمزور اورناتواں انسانوں کے ہاتھوں میں شروع ہوتی ہیں۔ مخالفین،ایمان لانے والوں کو اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاۡیِ(ھود: ۲۴)کہہ کر حقارت کا اظہار کرتے ہیں۔ طاقت اور جتھے کے زور پر ان کودھمکاتے اور مارتے ہیں۔مگر تقدیر الٰہی نے یہ مقدر کر دیا ہوتا ہے کہ یہی کمزور اور بے کس جماعت ایک دن ایسے پھولے پھلے گی کہ بڑی بڑی سلطنتیں اس کی ضرب سے پاش پاش ہوجائیں گی۔ بڑے بڑے عظیم بادشاہ رسول کے کپڑوں سے حصول ِبرکت کےلیے لباس تلاش کرنے کو ترسیں گے۔پھر لباس چومنے کے بعد پُرمسرت انداز میں دوسروں کو بتائیں کہ مجھے بھی مامورمن اللہ کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کی سعادت ملی ہے۔ یہی تقدیر الٰہی ہے،یہی نوشت خداوندی ہے، یہی تاریخ عالم ہے۔

خدا کی یہی تقدیر ایک اور رنگ میں مومنین کی جماعت میں بھی جاری ہوتی ہے۔ انبیا ء کی جماعتوں میں ذاتی عزت،نام اور فائدہ حاصل کرنے والا ایک گروہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ایسے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے سہارے یہ مومنوں کی جماعت کھڑی ہے،ہمارے بل بوتے پر الٰہی جماعتوں کی ترقی ہو گی، ہماری لیاقت اور دانائی ہی حرف آخر ہے۔ہم ہیں تو کیا غم ہے۔انہی کے متعلق قرآن نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا کہ’’ اگر ان لوگوں کو رسول سے کچھ مل جاتاہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگران کو نہیں دیا جاتا تو ناراض ہو جاتے‘‘۔ اگرظاہر ی دنیاوی آنکھ سے دیکھا جائے تو دنیا میں غالب آنے کا ہر سامان،علم،دولت،منصوبہ بندی اِنہی لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔ اگر کچھ نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کا فضل نہیں ہوتا۔ تقدیر خداوندی بڑے جلال سے ایسے تمام فرقوں،گروہوں اور افراد کو باوجود سب کچھ ہونے کے نشان عبرت بنا دیتی ہے۔حقیقی غلبہ،ترقی اور عظمت خدائی جماعتوں کے انہی کمزوروں اور بےکسوں کو ملتی ہے جن کو مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنوں میں سے کمزور ایمان والے حقیر سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

دور ِآخرین میں تکمیل تبلیغ ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح پاک ؑکو مبعوث فرمایا۔ گذشتہ ۱۳٥سال سے طلوع ہونے والا ہر نیا دن غلبہ اور نصرت کا وعدہ الٰہی پورا ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ہر روز جماعت کی صداقت اور عظمت کے نئے نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ پُر شوکت خدائی وعدے کے پہلے اظہارکے تحت ماموریت کے دعویٰ کے ساتھ ہی، بڑے بڑے جبہ پوش مغرور علماء نے کہا کہ ہم نے ہی اس کو چڑھایا ہے اور ہم ہی اس کو گرائیں گے۔ بڑے بڑے لیڈر سامنے آئے کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے،طاقتور حکومتوں نے نوے سالہ مسئلہ حل کرنے کا اعلان کیا مگر خدا نے ان سب کو ایسے پاش پاش کیا کہ آج ان کا نام لینے والے شرماتے ہیں۔

اسی پُر عظمت وعدے کی دوسری تجلی مومنوں کی جماعت نے اس وقت دیکھی جب خلافت ثانیہ کے انتخاب کے وقت جماعت کے چندسرکردہ علماء اور بزعم خود کرتا دھرتا احباب نے سلسلہ احمدیہ پر اپنی گرفت کمزور ہوتے دیکھ کر خلافت کی بیعت سے انکار کیا۔ان لوگوں نے اعلان کیا کہ جماعت کا ۹٥ فیصد حصہ ہمارے ساتھ ہے۔انہی لوگوں نے قادیان کی عمارات کو دیکھ کر کہا کہ جلد ہی یہاں عیسائی قابض ہو جائیں گے، انہی لوگوں نے قادیان کے باسیوں کو قبروں کے مجاور اورموروثیت کا طعنہ بھی دیا۔ انہی لوگوں نے مسیح کی مقدس بستی میں رہنا گوارا نہ کیا۔جب یہ لوگ قادیان سے روانہ ہوئے تو معروف احمدی علماء کی ایک تعداد ان کے ساتھ تھی۔ یہی لوگ انجمن احمدیہ کے کرتا دھرتا تھے۔ جماعت کا علمی سرمایہ یعنی قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ و تفسیر بھی انہی کے پاس تھی۔ جماعت کا مالی سرمایہ بھی تمام کا تمام انہی کے ہاتھ میں تھا۔ قادیان کے خزانے میں چند روپوں کے سوا کچھ نہیں تھا،کارکنان کو کئی ماہ سے تنخواہ نہ ملی تھی اورصدر انجمن ا حمدیہ پر بڑا قرض تھا۔

کوئی بھی دنیا دار اگر دنیاوی نظر اور عقل سے دیکھے تو یہی نتیجہ نکالے گا جوخلافت کے منکر گروہ نے نکالا کہ ہمارے پاس علمی سرمایہ ہے، مالی سرمایہ ہے۔ مشہور علماء ہیں۔ ہندوستان میں لاکھوں لوگ ہمیں جانتے ہیں۔ اپنےنام سے ترجمہ اور تفسیر قرآن چھاپیں گے۔ شہرت دو چند ہو جائے گی۔ ہم لاہور مرکز بنائیں گے جہاں ریل گاڑی، ڈاک،رابطہ وغیرہ ہر طرح کی سہولت میسر ہے۔ بآسانی تبلیغ ہو گی۔ بڑے بڑے لوگ،سیاستدان،تاجر، حکومتوں کے نمائندےیہاں موجود ہیں۔ کون کچی سڑکوں پر گھنٹوں کا کٹھن سفر کر کے قادیان جائے گا۔پس اگر ہم ایسی بات کہیں جو مخالفین احمدیت کوزیادہ نہ چبھے تو ہم راتوں رات مشہور ہو جائیں گے۔ایک طرف یہ گروہ اپنی سکیم بنا رہا تھا دوسری طرف عرش پر خدا تعالیٰ کی تقدیر مسکرا رہی تھی۔وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَاللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ۔ انتخاب خلافت ثانیہ سے ہی دیکھ لیں،گذشتہ ایک سو دس سال سے دنیا کی نظر میں کمزور،غریب مگر خلافت احمدیہ کی مطیع جماعت دن دوگنی اور رات چوگنی ترقیات کی منازل طے کرتی جارہی ہے اور ہر ممکنہ دنیاوی سہولت رکھنے کے باوجودغیر مبائعین کی ترقی معکوس خدائی وعدہ و نصرت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صرف نبی اوراس کے حقیقی متبعین کو ہی غلبہ اورکامیابی ملے گی۔ ذیل میں موسلا دھار بارش کی طرح برسنے والی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے جماعت احمدیہ مبائعین اور غیر مبائعین کی موجودہ حالت کا مختصر موازنہ پیش ہے۔

مشن ہائوسز و تبلیغ

غیر مبائعین کی آفیشل ویب سائٹ (aaiil.org)کے مطابق اس وقت دنیا کے ۱٦ممالک میں ان کی جماعتیں قائم ہیں۔ویب سائٹ پر ان کے ایڈریس وغیرہ درج ہیں۔جبکہ انگریزی ورژن ویب سائٹ(alahmadiyya.org) میں جہاں انہوں نے اپنے عالمگیر مشن ہائوسز کی تفصیل بتائی ہے وہاں ان کی تعداد ۱۰ ہے۔ ان میں سے اکثر مشن ہائوسز ابتدائی دور کےہیں۔ گذشتہ چالیس پچاس سال میں شاید ہی کوئی نیا مشن تعمیر کیا گیا ہو۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر مبائعین احباب کی زیادہ تر بیرون ہندوستان جماعتیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور معاً بعد کے عرصہ میں اُن ممالک میں جانے والے احمدی احباب کے ذریعہ قائم ہوئیں۔ آپؑ کے دور میں چونکہ برطانوی سلطنت دنیا کے متعدد ممالک میں غالب تھی۔ ہندوستانی افراد(جن میں احمدی بھی شامل تھے) بھی مختلف امور کے لیے ان ممالک کا سفر اختیار کرتے۔ چنانچہ کئی ممالک مثلاً مشرقی افریقہ میں آپؑ کے دور میں ہی جماعتیں قائم ہو گئی تھیں۔ انتخاب خلافت ثانیہ کے بعدغیر مبائعین الگ ہوگئے توہندوستان سے باہر ایسے احمدی احباب جو اِن کے زیر اثر تھے، اِن کے ساتھ شامل ہو گئے۔ چنانچہ ابتدا میں ایسے احمدی احباب کی جماعتوں کو غیر مبائعین نے اپنی تبلیغی مہمات قرار دیا۔ اسی طرح آغاز میں چند ایک ممالک میں غیر مبائعین نے اپنے مبلغین بھی بھجوائے۔ مگروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیر مبائعین کی تعداد اور مشن ہائوسز کی تعداد بھی خاطر خواہ کم ہو گئی۔ باقی ماندہ ممالک کی تعداد فی الوقت۱۰ یا زیادہ سے زیادہ ۱٦ ہے۔

دوسری طر ف اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش دیکھیے کہ خلافت اولیٰ کے اختتام تک صرف ایک ملک(برطانیہ؍۱۹۱۳ء) میں باقاعدہ مبلغ بھیجا گیا تھا۔خلافت ثانیہ کے آغاز سے ہی حضرت مصلح موعودؓ نے بیرون از ہندوستان میں مبلغین بھیجوانے شروع کر دیے۔ خلافت ثانیہ کے اختتام تک تقریباً ٤٦؍ممالک میں مشن قائم ہو چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ تعدادبڑھ کر اب ۲۱۲؍ممالک سے زائد ہو چکی ہے۔ان ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں مشن ہائوسزاور سنٹر قائم ہیں۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نئے لوگ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ احمدیت کی یہ ترقی غیروں کوورطہ حیرت میں ڈال رہی ہے اور اتنی بڑی تعداد کا احمدیت قبول کرنا معجزے سے کم نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے درختِ وجود کی سر سبز شاخیں دوسروں کی کشش کا باعث ہیں اور وہ دن بہت قریب ہیں جب دنیا کا ہر خطہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام سے گونج رہا ہو گا۔

تعمیر مساجد

اعلائے کلمة اللہ میں تعمیر مساجد کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ حضرت اقد س مسیح موعودؑ نے ایک جگہ بیان فرمایا ہے: ’’جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی….لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔محض للہ اسے کیا جائے۔نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو۔ ‘‘(ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۱۱۹۔ایڈیشن۱۹۸٤ء)

لاہوری جماعت کے مشن ہائوسز کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔ ان میں سے چند مشن ہائوسز کے ساتھ ابتدائے زمانہ سے مساجد قائم ہوئیں یا پہلے سے تعمیر شدہ مل گئیں۔ غیرمبائعین اپنی افرادی تعداد کی طرح اپنی مساجد کی تعداد بتانے سے بھی کتراتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی مساجد کی تعداد چند درجن سے زائد نہ ہو گی۔ ان میں سے دو مساجد کا ذکر کرنا ضروری ہے جس کا اہل لاہور ایک زمانے تک شدت سے پراپیگنڈا کرتے رہے۔

مسجد شاہ جہان ووکنگ انگلستان

لندن سے تقریباً ۳۰؍میل دور ووکنگ میں ۱۸۸۹ء میں ایک انگریز Dr Gottleib Wilhelm Leitneنے بھوپال کی نواب بیگم شاہ جہان کی مالی امداد کے ذریعہ تعمیر کروائی تھی۔شروع میں یہ مسجد زیادہ عرصہ مقفل ہی رہی۔۱۸۹۹ء میں Dr Leitne کی وفات ہو گئی اور اس مسجد کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی باقی نہ رہا۔۱۹۱۲ء کے اخیر میں بمبئی کے ایک احمدی تاجر کو ایک مقدمہ کے سلسلہ میں کسی وکیل کو لندن بھجوانا مقصود تھا۔ اسی دوران ان کی ملاقات خواجہ کمال الدین صاحب سے ہوئی۔احمدی تاجر نے ان کو سفر خرچ اور مقدمے کی فیس کی مد میں ایک خطیررقم دے کر لندن جانے کا کہا۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے لوگوں میں یہ مشہور کر دیا کہ اعلائے کلمۃ اللہ کے سلسلہ میں وہ اپنی پریکٹس چھوڑ کر لندن جا رہے ہیں۔ ۱۹۱۳ء میں جب خواجہ صاحب لندن پہنچے تو مسجد بند پڑی تھی۔خواجہ صاحب نے مسجد کے ٹرسٹی احباب سے بات کر کے اسے کھلوایا اور باقاعدہ امام کے طور پر کام شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہندوستان میں پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ ایک عظیم الشان مشن اور مسجد کا آغاز ہو گیا ہے اور اپنے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کے ایک خواب کا مصداق قرار دیا۔ووکنگ مشن و مسجد کا انگلستان اور ہندوستان میں بہت شہرہ ہوا۔اختلافات سلسلہ کے وقت خواجہ صاحب لاہوری گروہ کے ساتھ مل گئے۔ غیر مبائعین طویل عرصے تک ووکنگ مسجد اورانگلستان میں تبلیغ کو اپنی عظیم کامیابی گنواتے رہے کہ ہم عیسائیت کے گڑھ اور دہریت کے مرکز میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں۔ بعد ازاں خواجہ صاحب نے از خود اس مسجد کا سہرا اپنے سر باندھ لیا اور لاہوری جماعت سے اپنے آپ کو دُور کر لیا۔

تائید الٰہی سے دوری اور ذاتی مفاد کے لیے اپنی کامیابی کا ڈھول بجانےکا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹٦۸ءمیں غیر مبائعین کے لیڈر حافظ بشیر احمد مصری صاحب (ابن عبد الرحمان مصری ) نے خود بھی جماعت چھوڑ دی اور یہ مسجد بھی غیر احمدیوں کے حوالے کر دی۔ اس طرح غیر مبائعین کے انگلستان میں تبلیغ کا خاتمہ ہو گیا۔مسجد کے ساتھ ان کا بہت سارا لٹریچر اور قرآن کا مطبوعہ ترجمہ بھی ضائع ہو گیا۔بعد ازاں ۱۹۷٤ء میں لندن میں غیر مبائعین کا مرکز قائم کیا گیا۔ مگر وہاں تاحال کوئی مسجد نہیں تعمیر کی جا سکی۔ سنٹر کی کسمپرسی کا حال یہ ہے کہ۱۹۷٦ء میں ان کے امیر نے لند ن کا دورہ کیا اور رپورٹ میں اظہار افسوس کیا کہ لندن احمدیہ سنٹر میں ابھی تک نماز جمعہ کا انتظام بھی نہیں کیا جا سکا۔(تبلیغ بلاد غیر۔صفحہ٤)

برلن مسجد

غیر مبائعین کی دوسری اہم ترین مسجد برلن میں ہے۔ برلن مشن ۱۹۲۰ء میں قائم ہوا اور ۱۹۲٤ءمیں برلن شہر میں ٤۰x٤٦فٹ کی مسجد کی تعمیر شروع کی گئی۔اس پر بہت پراپیگنڈا کیا گیا کہ مشرقی و مغربی فن تعمیر کے حسین امتزاج اور تاج محل کی طرح دکھنے والی مسجد بنا دی گئی ہے۔اس مسجد کی مدد سے سینکڑوں جرمنوں کو احمدی بنانے کا دعویٰ کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس مسجد کو جرمن فوجیوں نے رہائش گاہ اور مورچہ بنا لیا اور غیر مبائعین کو وہاں سے نکلنا پڑگیا۔ جنگ کے دوران مسجد کے مینار اورگنبدکوشدید نقصان پہنچا۔۱۹٥۹ءتک یہ مسجد اسی مخدوش حالت میں تقریباً ملبے کا ڈھیر بنی رہی۔ بعد ازاں جرمن محکمہ آثار قدیمہ اور جرمن کلاس لاٹری کی مدد سے رقم حاصل کر کے اس کی مرمت کا کام شروع کیا گیا۔۱۹۹۹/۲۰۰۰ء میں اس کے مینارہ کی مرمت بھی محکمہ آثار قدیمہ نے ہی کی۔ غیر مبائعین جماعت کے پاس اس قدر سرمایہ ہی جمع نہیں ہو سکا کہ اس مسجد کی از خود مرمت کر لیں۔ اسی طرح اس مسجد کے ساتھ ایک میموریل ہال کی تعمیر کی سکیم بھی پیش کی گئی جو پچاس سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بن سکا۔ ایک جرمن احمدی دوست نے بتایا کہ نمازیوں کے نہ ہونے سے مسجدتقریباًبے آباد ہی رہتی ہے۔

لاہور میں ان کی مرکز ی مسجددار الاسلام کی حالت یہ ہے کہ ۲۰۰۲ء میں اس کی مرمت اور برآمدوں کی تعمیر کے لیے سات لاکھ روپے کی اپیل کی گئی۔ کئی ماہ کے اعلانات کے بعد ساڑے چار لاکھ روپے جمع ہوئے۔ جس میں سے تین لاکھ امریکہ میں ایک دوست نے دیے اور ڈیڑھ لاکھ مقامی طور پر جمع ہوئے۔

دوسری طرف خلافت احمدیہ کے زیر سایہ جماعت احمدیہ نے اس میدان میں اس قدر ترقی کی ہے کہ ایک عالم کا عالم ششدر رہ گیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں احمدیہ مساجد کی تعداد پندرہ ہزارسے زائد ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔برطانیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی مساجد کی تعداد ۴۵؍کے قریب ہے۔جرمنی میں احمدیہ مساجد کی تعداد ۶۰؍ہے۔امریکہ میں احمدیہ مساجد کی تعداد ۵۷؍ہے۔ متعدد افریقی اور ایشیائی ممالک میں احمدیہ مساجد کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

مبلغین سلسلہ

حضرت مسیح موعودؑ کے دورِ مبار ک میں جید علماء کی وفات پر آپؑ نے ۱۹۰٦ء میں مبلغین سلسلہ کی تیاری کے سلسلہ میں دینی مدرسہ قائم کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ غیر مبائعین کے سرکردہ احباب اُس وقت بھی دینیات کلاس یا مدرسہ احمدیہ شروع کرنے کی بجائے محض دنیاوی تعلیم کے لیے ہائی سکول کا قیام رکھنے پرزور دے رہے تھے۔تاہم حضرت مسیح موعودؑنے تعلیم الاسلام سکول سے الگ دینیات کلاس شروع فرمائی جو بعد ازاں مدرسہ احمدیہ اور پھر جامعہ احمدیہ کی شکل اختیار کر گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسیح پاکؑ کے ہاتھ لگنے والے پودے نے اتنی ترقی حاصل کر لی ہے کہ آج ایک مضبوط تناور درخت بن گیاہے۔ اسی جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے مبلغین نے اکناف عالم تک تبلیغ اسلام پہنچانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ جامعہ احمدیہ کی آٹھ ممالک میں شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔ جبکہ بہت سے ممالک میںمعلمین کی تیاری کے لیے جامعۃ المبشرین قائم ہیں۔ ۲۰۲۳ء تک دنیا بھر میں مبلغین اور معلمین کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ جبکہ ایک ہزار سے زائد طلبہ ان جامعات میں زیر تعلیم ہیں۔دنیا بھر میں واقفین نو کی تعداد ۸۰ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔

دوسری طرف غیر مبائعین کی حالت اس طرح سے ہے کہ ابتدا سے مبلغین کی تیاری کے لیے کوئی جامعہ یا کلاس شروع نہ کی جا سکی۔ابتدائی طور پر جو علماء موجود تھے ان کو بطور مبلغ دوسر ے ممالک بھی بھجوایا جاتا رہا مگر یہ تعداد معدودے چندسے زائد نہ تھی۔محض ایک یا دو سکول(بدوملّی میں سکول ۱۹۱۸ء، مسلم ہائی سکول لاہور۱۹۲٥ء) قائم کیے گئے۔ بعد ازاں یہ بھی ختم ہو گئے۔ کچھ عرصہ معلمین کی تیاری کے لیےلاہور کی مسجدکے ہی ایک کونے میں چند طلبہ کی کلاس جاری رہی۔۲۰۱۰ءسے لاہور میں احمدیہ سکول آف ایجوکیشن ان ریلیجن شروع کرنے کا اعلان ہوا اور داخلہ کے اشتہار ’پیغام صلح‘ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ایک دوست نے لاہور میں ان کے ادارے کا دورہ کیا تو وہاں دینی تعلیم سکھانے والے ادارے میں محض آٹھ طلبہ تھے۔ اس کے پرنسپل ایک نومبائع قاری صاحب تھے جو اہل حدیث سے احمدی ہوئے تھے پھر لاہوری ہو گئے۔

تراجم قرآن کریم اور دیگر لٹریچر

دور حاضر میں امام الزمانؑ علمی اور روحانی خزائن بانٹنے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔ آپؑ نے تبلیغ اسلام کی شاخوں میں سے تالیف و تصنیف کو ایک اہم شاخ قرار دیا ہے۔ اس میدان میں بھی اللہ تعالیٰ نے خلافت کے متبعین کو غیر معمولی کامیابی عطا فرمائی ۔

انکار خلافت کے بعد غیر مبائعین نے سب سے زیادہ شور یہ مچایا کہ قرآن کریم کی تفسیر و ترجمہ لکھ کر جو خدمت ہم کررہے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں۔تاہم گزشتہ ایک سو دس سالہ تاریخ کے مطابق غیر مبائعین کے شائع شدہ تراجم و مختصر تفسیری نوٹس کی تعداد محض ۷ہے۔ان میں سے سب سے زیادہ معروف مولوی محمد علی صاحب کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر ہے جو ۱۹۱۷ء میں شائع ہوئی۔ ترجمہ اور تفسیر کا یہ کام دراصل ۱۹۰۹ء میں جماعت نے ہی مولوی محمد علی صاحب کے سپرد کیا تھا۔اس مقصد کے لیے ایک نیا دفتر تعمیر کر کے دیا گیا اور تمام ضروری سامان خرید کر دیا گیا۔مولو ی صاحب کو معقول مشاہرہ بھی دیا جاتا رہا۔ابھی کام مکمل نہیں ہواتھا کہ حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات ہو گئی۔ انتخاب خلافت ثانیہ ہونے پر مولوی صاحب قادیان سے روانہ ہوگئے اور ترجمہ اور تفسیر کا تمام کام (جو کہ جماعت کی ملکیت تھی) اٹھا کر اپنے ساتھ لاہور لے گئے اور ۱۹۱۷ء میں اپنے نام سے شائع کر دیا۔

اختلافات سلسلہ کے وقت سلسلہ کےجوچندمعروف علماء تھے غیر مبائعین کی طرف چلے گئے۔ جن میں مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی صدر الدین صاحب وغیرہ شامل تھے۔ ابتدا میں ان علماء نے متعدد کتب تصنیف کیں۔تاہم اِن کے علاوہ اگر غیر مبائعین کے دوسرےلٹریچر کا جائزہ لیں تو چند ایک کتب ہی نظر آتی ہیں۔ابتدائی زمانہ میں کتب حضر ت مسیح موعودؑ میں سے چند ایک کے تراجم نظر آتے ہیں۔ تاہم اب کئی دہائیوں سے کتابوں کی تالیف و اشاعت کے علمی افق پر سناٹا طاری ہے۔

دوسری طرف قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر جماعت احمدیہ کا تمغہ امتیاز ہے۔ ۲۰۲۳ء تک اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت کو اب تک ۷٦ زبانوں میں مکمل قرآن کریم شائع کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔ مزید دو زبانوں میں ترجمہ تکمیل کے قریب ہے۔ تفسیر کے میدان میں حضرت مسیح موعودؑ،حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ،حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر علوم و معرفت کے بحر بے کنار ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ  کا ترجمہ اس صدی کا شاہکار ہے۔ترجمہ اور تفسیری معارف سے پُر ۳۰٥ ویڈیو کلاسز علوم و معارف کا لامتناہی خزانہ ہیں۔قرآن کریم باترجمہ اور سادہ کی دنیا کے مختلف ممالک میں کثرت سے طباعت اور اشاعت ہو رہی ہے۔

رپورٹ جلسہ سالانہ ۲۰۲۳ء کے مطابق گذشتہ سال تک حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ۸۸کتب میں سے ۸۷ کتب کےمختلف زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ جرمن میں حضرت مسیح موعود کی ۸۲کتب کے تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ بنگلہ زبا ن میں ۲۰کتب شائع ہوئی ہیں۔ عربی ڈیسک کے تحت گذشتہ سال تک ۱۸۷کتب اور پمفلٹس عربی زبان میں تیار ہوکر شائع ہوچکے ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کی ۳٦کتب کا عربی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ملفوظات کی دس جلدوں پر مشتمل مکمل سیٹ عربی زبان میںترجمہ مکمل ہو چکا ہے۔ جس کے بعد عربی زبان میں کُل کتب اور مجلدات کی تعداد ۱۸۸ ہوجائے گی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ۳٤ کتب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا ہے جن میں تفسیر کبیر شامل ہے۔ دنیا کے ۱۰٤ممالک میں ٦۲۰ سے زائد ریجنل لائبریریز کا قیام ہوچکا ہےجن کے لیے لندن اور قادیان سے کتب بھجوائی گئی ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تصنیف و تالیف میں خدمات اور کامیابیاں اس قدرزیادہ ہیں کہ ان کے صرف خلاصہ کے لیے ہی ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔

اخبارات و رسائل

غیر مبائعین کی اپنی فراہم کردہ معلومات کے مطابق گذشتہ ایک سو دس سال میں مختلف ممالک میں ان کی طرف سے چھ زبانوں میں ۳۸؍اخبارات و رسائل شروع کیے گئے تھے۔بعد ازاں فنڈز کی کمی اور دیگر مسائل کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ ختم ہوتے چلے گئے۔ان اخبارات و رسائل کا آج کی تاریخ کے مطابق جائزہ لیں تو آفیشل ویب سائٹ کے مطابق محض ۳تا٤ رسالے ایسے ہیں جو انٹرنیٹ یا پرنٹ کی شکل میں شائع ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں کسی قدر تواتر سے نکلنے والا واحد رسالہ پیغام صلح لاہور ہے۔ اس کا آغاز ۱۹۱۳ء میں ہوا۔ ابتدا میں یہ سہ روزہ اخبار تھا۔ بعد ازاں۱۹٤۲ء سے یہ ہفتہ وار ہو گیا۔پھر کچھ عرصہ کے لیے پندرہ روزہ ہو گیا۔۲۰۰۹ء سے یہ ماہنامہ کے طور پر شائع ہونے لگا۔ البشاشر کے نام سے ۲۰۰٥ء سے ماہانہ رسالہ آسٹریلیا سے جاری ہوا۔ دسمبر ۲۰۲۳ء تک یہ رسالہ جاری رہا۔اس کے بعد ابھی تک اس کا کوئی نیا شمارہ نہیں آیا۔ اسی طرح سرینام سے ایک میگزین الرسالة کے نام سے ۲۰۰۷ء سے جاری ہوا۔اس کے چند شمارے ملتے ہیں۔امریکہ سے ۱۹۹۱ء میں ایک رسالہThe light and Islamic Review میں جاری ہوا۔ پہلے ہر دو ماہ کے بعد،پھر سہ ماہی،پھر شش ماہی اور اب سال میں ایک شمارہ اس کا نکل پاتا ہے۔یہ رسالہ بھی بوجوہ متعدد بار بند ہوتا رہا ہے۔ Lighthouse کے نام سے اطفال وخدام کے لیے فجی سے نکلنے والا رسالہ جاری ہوا۔ ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۱ء تک نکلا بعد ازاں دس سال بند رہنے کے بعد۲۰۲۱ء تاجون ۲۰۲۲ءکے شمارے شائع ہوسکے۔یوکے سے ماہنامہ النور انٹرنیشنل رسالہ جاری ہوا جس کے گذشتہ ۱۰ سال میں صرف ۱۱ شمارے ہی نکل سکے ہیں۔

اس کے بالمقابل جماعت احمدیہ مبائعین نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے سہارے اس میدان میں بھی بے انتہاترقی کی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دور میں دو اخبارات اور ایک رسالہ شائع ہوتا تھا ۔ البدر،الحکم اور ریویو آف ریلیجنز۔ جماعت نے آپؑ کی یادگار کے طور پر البدر کو ۱۹۱۳ء میں بند ہونے کے بعد ۱۹٥۳ء میں دوبارہ قادیان سے شروع کیا۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ اخبار ہفتہ وار نکل رہا ہے۔اسی طرح الحکم (جو کہ ۱۹٤۳ء میں بند ہوا) کی یادمیں لندن سے انگریزی زبان میں الحکم ۲۰۱۸ء سے دوبارہ شروع کیا۔ انگریزی زبان میں ریویو آف ریلیجنز ۱۲۲؍سال سےتبلیغ اسلام میں مصروف ہے۔ ریویو آف ریلیجنز سال (۲۰۲۲-۲۰۲۳)میں دو لاکھ سے زائد تعداد میں پرنٹ ہوا۔۱۹۱۳ء میں خلافت اولیٰ میں شروع ہونے والاالفضل قادیان،ربوہ سے ہوتا ہوا لندن میں روزنامہ الفضل انٹرنیشنل کی شکل میں نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ یہ چند ایک مرکزی اخبارات و رسائل کا تعارف ہے۔ اگر عالمی طور پر پوری دنیا کا جائزہ لیں تو جلسہ سالانہ ۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق ۱۰٥؍ممالک میں ٤۷زبانوں میں ا مسال ٤٤۸؍کتب وپمفلٹ لاکھوں کی تعداد میں طبع ہوئے۔۲٦؍زبانوں میں مختلف رسائل اور اخبارات شائع ہو رہے ہیں۔ جدید ذرائع مثلاً یوٹیوب، ویب سائٹس، موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعہ ان کی کثرت سے اشاعت ہو رہی ہے۔درجن سے زائد ممالک میں جماعتی پریس کام کر رہے ہیں۔

نظام وصیت

۱۹۰٥ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے رسالہ الوصیت تصنیف فرمایا جس میں قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت اور نظام وصیت کا ذکر تھا۔غیر مبائعین نے پہلے قدرت ثانیہ کا انکار کیا اور بعد ازاں نظام وصیت سے بھی روگردانی اختیار کر لی۔آپؑ کے وقت میں مولوی محمد علی صاحب کا نظام وصیت کے متعلق جوش ان کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ لکھتے ہیں’’یہ سلسلہ وصیتوں کا ایسا ہے جو انشاء اللہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا بلکہ الٰہی سلسلہ کی ترقی کے ساتھ ترقی کر کے بدزبان مخالفوں کا منہ کالا کرے گا۔(الحکم ۷؍اگست۱۹۰٦ءصفحہ۱۱)

انکار خلافت کے بعد الوصیت کے نظام سےبھی دور ہوگئے۔چنانچہ مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں ’’جماعت(غیر مبائعین)نے الوصیت کے عملی حصہ کو اختیار کرنے میں کمزوری دکھلائی اور اس کی وجہ سے خود کمزور ہوگئی۔اس با رہ میں سب سے زیادہ قصوروار وہ شخص ہے جو اس وقت تمہارے سامنے کھڑا ہے۔گناہ کے اس احساس کے ساتھ جو کہ ایک بدترین گنہگارکو ہو سکتا ہے میں اس قصور اور کوتاہی کا اقرارکرتاہوں کہ سب سے زیادہ کمزوری میں نے دکھلائی ہے۔‘‘(پیغام صلح٤؍جنوری۱۹۳۷ءصفحہ۸)

اس احساس گناہ کے ساتھ اعلان کیا کہ اب جماعت کو وصیت کی مالی قربانی کی طرف راغب ہونا چاہیے تاکہ قرآن کی اشاعت ہو سکے مگر اللہ تعالیٰ نےاس میں بھی ان کو کامیاب نہیں کیا۔

دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مبائعین ۱۹۰٦ء سے ہی نظام وصیت پر کاربندہے۔ دنیا کے ۱۲۷ ممالک میں یہ نظام قائم ہے۔ربوہ اور قادیان کے بعد ۲۱ ممالک میں مقبرہ موصیان قائم ہیں۔ ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد احمدی احباب اس میں شامل ہو چکے ہیں۔دور خلافت خامسہ میں اس تحریک میں بے انتہا وسعت ہوئی ہے۔

غیر مبائعین کی تعداد

۱۹۱٤ء میں انتخاب خلافت ثانیہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی جماعت کو اپنے وعدے کے مطابق خلافت کے سائبان تلے جمع کیا، ان کے دلوں کو تسکین دی اور تمکنت دین عطا کی۔ بہت ہی تھوڑے ایسے افراد تھے جنہوں نے حضرت خلیفہ ثانی ؓکی بیعت سے انکار کیا۔ دوسر ی طرف منکرین خلافت نے اس موقع پر فخریہ طور پر اعلان کیا کہ ان کو اکثریت حاصل ہے اور چند لوگ ہیں جو خلافت کے مؤید اور بیعت میں شامل ہیں۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب حضرت مصلح موعود ؓکے متعلق لکھتے ہیں ’’وہ شخص جو پانچ لاکھ آدمیوں میں سے دسواں حصہ بھی ایسا نہیں دکھاسکتا جس نے انہیں خلیفہ یا مطاع تسلیم کیا ہو‘‘۔(پیغام صلح ۲۱؍اپریل ۱۹۱٤ء) پھر مئی ۱۹۱٤ء میں پیغام صلح نے لکھا’’ ابھی بمشکل قوم کے بیسویں حصہ نے خلیفہ تسلیم کیا ہے۔‘‘(پیغام صلح٥؍مئی ۱۹۱٤ء)

اگرچہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ابتدا سے ہی جماعت احمدیہ کی اکثریت کو خلافت کے جھنڈے تلے جمع کر دیا تھا۔ بلکہ غیر مبائعین کے ایک لیڈر کا واقعہ ملتا ہے کہ خلیفہ اول کی وفات کی رات وہ چالیس ہم خیال احمدی (غیر مبائعین کے عقائدکے ہم خیال) تلاش کرتے رہے کہ اگر بفرض محال خلیفہ منتخب کرنا پڑا تو چالیس لوگ ہم میں سے کسی ایک کی بیعت کر لیں گے۔مگر اس رات بھی ان کو اس میں ناکامی ہوئی اور محض تیرہ افراد ایسے ملے جو ان کی سوچ سے متفق تھے۔

بعد ازاں خود ہی مولوی صاحب نے ۱۹٤٦ء میں اعتراف کر لیا کہ ان کا پہلا دعویٰ غلط تھا چنانچہ اپنی کتاب تحریک احمدیت میں لکھتے ہیں’’گوبلحاظ تعداد کثرت فریق قادیان کو حاصل ہے لیکن اثرورسوخ کے لحاظ سے عام مسلمانوں میں فریق لاہور غالب ہے۔ ‘‘ (تحریک احمدیت صفحہ۳۳)

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باوجود کوشش، پرکشش عقائد، اشاعت قرآن و اسلام کے بلند و بانگ دعووں اور ہر ممکنہ حربہ استعمال کرنے کے باوجود ان کی تعداد روز بروز کم ہوتی چلی گئی۔ غیر مبائعین کی موجودہ تعداد شاید ہزاروں میں ہو جیسا کہ ان کی قائم شدہ جماعتوں کی تعداد اور تبلیغ سے بھی ظاہر ہو رہا ہے۔۲۰۱۷ء میں ان کے موجودہ امیر ڈاکٹر عبدالکریم صاحب نے جلسہ سالانہ دعائیہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: بہت سارے لوگوں کو ہمارے عقیدے کا نہیں پتا کہ ایسے بھی مٹھی بھر لوگ ہیں جو وہ صحیح عقیدہ رکھتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کا عقیدہ تھا۔(پیغا م صلح اپریل۲۰۱۸ء)

پس جیسا سو سال قبل یہ گروہ مٹھی بھر تھا ایسا ہی آج بھی وہ اپنے آپ کو مٹھی بھر قرار دے رہےہیں۔

دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ دنیا کے کونے کونے میں قائم ہے۔دنیا کی ہر قوم، ہر خطے اور ہر نسل سے تعلق رکھنے والے کروڑوں احباب احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور ہر سال لاکھوں نئی سعید روحیں آغوش احمدیت میں شامل ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ انبیاء کے سلسلوں کی تاریخ ہے۔

جلسہ سالانہ

غیر مبائعین جب جماعت احمدیہ سے الگ ہوئے تو ان کو اپنی کامیابیوں کا پورا یقین تھا کیونکہ ان کے عقائد نرم تھے۔غیر احمدیوں سے قربت کو بھی پسند کرتے تھے اور اس قربت میں ان کے مفادات پنہاں تھے، کہ غیر احمدی انہیں روشن خیال اور اسلام کا جاں نثار دیکھ کر مدد کریں گے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ غیر احمدی تو دُور اپنے بھی ان سے دُور ہوگئے۔ابتدا میں کچھ جوش و خروش تھا۔وقت گزرنے کےساتھ ساتھ ان کی اپنی تعداد کم ہوتی گئی۔بہت سے احباب دوبارہ آغوش خلافت میں آ گئے۔ غیر مبائعین کے پروگرام اور جلسے ہر نئے سال میں پہلے سے زیادہ بے رونق ہو گئے۔غیر مبائعین کے جلسوں پر آنے والوں کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ جلسہ کی رپورٹوںمیں تعداد لکھنا ضروری خیال نہیں کرتے۔کیونکہ اس سے ان کی اصل صورتحال کا پتا چل سکتا ہے۔یہ خبر تو ہوتی ہے کہ جلسہ بھی کامیاب رہا۔ فلاں فلاں تقریر ہوئی۔مگر شاملین کتنے تھے ؟یہ معلوم نہیں۔ ابتدا میں بھی جلسوں کا یہی عالم تھا۔ چنانچہ ۱۹٤۸ءکے جلسہ کے ضمن میں مولوی محمد علی صاحب نے جلسہ کے متعلق تحریک کرتے ہوئے ایک خطاب میں کہا’’ ہماری لاہور کی جماعت جو مرکزی جماعت ہے۔اپنی زندگی میں کوئی فرق نہیں پیدا ہونے دیتی۔ان تین دنوں میں بھی کوئی فرق ان کی زندگیوں میں پیدا نہیں ہوتا۔یہ دیکھیے اس وقت میرے سامنے کوئی دو اڑھائی سو آدمی بیٹھے ہیں مگر جلسہ میں ان میں سے بھی بہت کم شامل ہوتے ہیں‘‘۔(مولانامحمد علی کے ۱٤خطبات صفحہ۱٤۳)اسی تقریر میں یہ بھی اعلان کیا کہ جلسہ کے ایا م میں راشن کی بہت قلت ہے۔ لاہور کے احمدی اپنے اپنے گھروں سے کھانا کھا کرجلسہ میں آئیں۔یہ ہے عظیم الشان ترقی اور تعداد!!یہ صرف ماضی کی کہانی نہیں بلکہ آج بھی ان کے جلسہ سالانہ دعائیہ کے تمام حاضرین ایک چھوٹی سی مسجد کے ہال اور ایک تصویر میں سما جاتے ہیں۔

دوسری طرف خلافت کے زیر سایہ جماعت احمدیہ مبائعین نےاس میدان میں بھی لا زوال کامیابیا ں حاصل کی ہیں۔ جماعت احمدیہ میں جلسہ سالانہ ایک خاص مقام اختیار کر چکا ہے۔ کہاں ۷٥؍افراد سے شروع ہونے والا جلسہ آج دنیا کے کونے کونے میں عظیم الشان اجتماعات میں بدل چکاہے۔ ربوہ کے آخری جلسہ کی حاضری دو سے تین لاکھ تک تھی۔ یوکے اور جرمنی کے جلسہ کے شاملیں چالیس ہزار تک جا پہنچے ہیں۔ افریقہ میں متعدد ممالک مثلاً گھانا،نائیجیریا وغیرہ میں جلسہ سالانہ کی حاضری چالیس سے پچاس ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ الحمد للہ علی ذالک

ویب سائٹس

جدید دور میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجا د نے دنیا میں حیران کن تبدیلی رونما کر دی۔ دنیا سمٹ کر انسان کے ہاتھ میں آ بسی ہے۔ دنیا کے کونے کونے کی خبر ایک سیکنڈ میں مشہور ہو جاتی ہے۔ یہ اسباب اور ذرائع دراصل حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کی خلافت کے مشن کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں۔ جماعت احمدیہ عالمگیر ان سے خوب فائدہ اٹھا رہی ہے۔۱۹۹٥ء میں شروع ہونے والی جماعت کی مرکزی ویب سائٹ (alislam.org) ہماری ترقیات اور کامیابیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس کے ذریعہ ہر آن اشاعت دین ہو رہی ہے۔ہر اختلافی اور علمی موضوع پر مختلف زبانوں میں ہزاروں کی تعداد میں جماعتی کتب،حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کی کتب اوردیگر لٹریچر موجود ہے۔قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر کی لمبی فہرست موجود ہے۔ حضورانور کے خطبات۳۰ مختلف زبانوں میں دستیاب ہیں۔ ہر آنے والا دن اس کی وسعتوں میں مزید اضافہ دیکھ رہا ہے۔

دوسری طر ف غیر مبائعین کی ویب سائٹ(aaiil.org) کی حالت زار منکرین خلافت کی ناکامیوں کا آئینہ دار ہے۔ جس پر سوائے چندتراجم قرآن، پون صدی قبل لکھی جانے والی کتب،چند تصاویر اور شاذ و نادر شائع ہونے والے رسالوں کے علاوہ کچھ نیا نہیں۔

جماعت احمدیہ کی خلافت کے زیر سایہ عالمگیر بے مثال ترقیات

جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کی دیگر مثالیں مثلاً وسیع مالی نظام، ایم ٹی اے کے ذریعہ عالمگیر اشاعت اسلام، خدمت خلق کی عالمگیر مہم کے تحت ہسپتال،سکول، ڈسپنسریاں اور ہیومینٹی فرسٹ کی خدمات،وقف نو کی سکیم،احمدی طلبہ کی دنیاوی تعلیم کے لیے جماعت احمدیہ کی کاوشوں، وسع مکانک کے تحت دنیا کے کونے کونے میں بڑے بڑے گیسٹ ہائوسز اور نئی عمارات،ایک کے بعد ایک عظیم الشان مراکز احمدیت، لیف لیٹس اور فلائرز کی کروڑوں کی تعداد میں تقسیم،ریڈیو سٹیشنز کے ذریعہ تبلیغ،یہ تمام کی تمام برکات محض خدا کی قائم کردہ خلافت کی اطاعت اور اس کے مقرر کردہ امام کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا نتیجہ ہیں۔ غیر مبائعین کا اِن میدانوں میں مقابلہ کرنا تو دور کی بات،ابھی وہ ان میدانوں میں قدم رکھنے کے قابل بھی نہیں ہوئے اورنہ ہو پائیں گے۔جماعت احمدیہ پر خدائی افضال اور برکات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو لکھنے کے لیے شاید ہزاروں صفحات بھی ناکافی ہوں۔

جماعت احمدیہ کی کامیابی محض اورمحض اللہ تعالیٰ کی تائیدونصر ت اورغالب خدائی طاقت کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے وگرنہ اس میں کسی انسانی طاقت کا کوئی کمال نہیں۔ خدا تعالیٰ قدرت ثانیہ کی ابتدا سے ہی ہر روز اپنی نصرت اور شوکت کا ایک نیا نشان دکھاتا ہے۔ خلفا ئےاحمدیت کو الہامات اور کشوف کے ساتھ اللہ تعالیٰ تسلی اور تسکین قلب عطا فرماتا ہے جو افراد جماعت کے ایمان کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ رؤیا،کشوف اور خوابوں کے ذریعہ سلسلہ حقہ میں داخل ہوتے ہیں۔یہ واقعات احمدیوں کو ایمان میں بڑھاتے ہیں۔دکھ اورسکھ کی ہر گھڑی میں باپ سے زیادہ شفیق وجود ہمارے لیے ساری ساری رات سجدہ ریز رہتا ہے۔خدا تعالیٰ اپنی جلالی قوت سے مخالفین کو نیست ونابود کرتا نظر آ رہا ہے۔ ایک سو دس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر نیا دن خلافت کے لیے فتوحات اورخدا کی تائید ونصرت لے کر آ یا ہے۔ وہیں دوسری طرف منکرین خلافت پر ہرآنے والا دن اس طرح چڑھا کہ وہ یاس وحسرت کی تصویر بن کر رہ گئے۔غیر مبائعین میں سے کوئی بھی اپنی سچائی اور کامیابی کی بابت اپنے خواب یا کشف کا ذکر نہیں کرتا۔خواب یا کشوف ہوں تو کوئی ذکر کرے۔

غیر مبائعین کی ناکامی کا اعتراف، خدائی نصرت سے محرومی

حضرت مولوی غلام حسن صاحب پشاوری جو حضرت مسیح موعوؑد کے خاندان سے رشتہ صہریت رکھنے کے باوجود ایک لمبا عر صہ غیر مبائعین کے ساتھ منسلک رہے۔آپ نے ۳۰سال کے بعد دوبارہ بیعت کی۔ دوبارہ بیعت میں شامل ہونے کی وجہ، خدا کی فعلی تائید اور شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’دیکھو ہم جب علیحدہ ہو ئے تو جماعت میں بااثر اور معتمد شمار ہوتے تھے۔پھر اپنا ہیڈ کوارٹر لاہور چنا،جہاں لوگوں کو ملنے یا ان کو بلانے کی بڑی سہولت تھی۔کیونکہ وہ اہم شہر تھا اور صوبہ کا دار الخلافہ۔ادھر قادیان جانے کے لیے خاص مشقت کر نا پڑتی تھی۔ ریلو ے سٹیشن ۱۱میل کے فاصلے پر تھا اور یکوں پر سفر تین گھنٹوں سے زائد کا تھا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے جو عقیدہ پیش کیا،وہ بہت نرم تھا یعنی یہ کہ حضرت مر زا صاحب کو صرف مجدد مان لو۔لیکن اس کے باوجود ہم دن بدن کمزور اور تعدادمیں کم ہو تے گئے۔ لیکن خلافت سے وابستہ حصہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔میں نے سمجھا کہ میری سمجھ کا قصور ہو سکتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کی فعلی شہادت میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔(درویشان احمدیت جلد:اول صفحہ٤۳٦)

غیر مبائعین نے ازخود غیر احمدیوں سے وابستہ اپنی توقعات کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:’’واقعات و تجربہ نے ہمارے سامنے یہ تلخ حقیقت واضح کر دی ہے کہ اشاعت اسلام کے میدان میں ہماری ساری کامیابی کا راز ہماری جماعتی ترقی و توسیع سے وابستہ ہے۔ہم نے عام طورپر اپنی مسلمان قوم سے جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ ہمارے مشنوں اور ترویج علوم فرقانیہ کے کارناموں کو دیکھ کر لوگ ازخود شمولیت و شرکت اختیار کریں گے۔وہ تمام حرف غلط کی طرح ثابت ہوئی ہیں۔‘‘(احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کی باونویں سالانہ رپورٹ صفحہ۵، ۶)

ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓنے غیر مبائعین کی جماعت کاٹکڑوں میں بٹنے اور دوبارہ جماعت میں داخل ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’ان کے آدمی ہم میں آکر مل رہے ہیں اور وہ دن بدن کم ہو رہے ہیں۔ان کے پاس ہمارے دلائل اور براہین کا کوئی جواب نہیں ہے اس لئے بدزبانی کے ہتھیار کو استعمال کر رہے ہیں۔دیکھوجب بیعت ہوئی تھی اس وقت جماعت کا اکثر حصہ ان کے ساتھ تھا چنانچہ انہوں نے خود بھی لکھا تھا کہ ہماری طرف جماعت کے بہت آدمی ہیں۔ لیکن مجھے خداتعالیٰ نے اسی وقت بتادیا تھا کہ لَیُمَزِّقَنَّھُمْوہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دےگا۔اس کے یہ معنی نہیں کہ ان کی ہڈیاں توڑ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں گے بلکہ خداتعالیٰ ان میں سے لوگوں کو توڑتوڑ کر ہماری طرف لے آئے گا اور ہم میں شامل کر دے گا۔حضرت مسیح موعود ؑکو بھی یہی الہام ہؤا تھا جس کے آپ نے یہی معنی کئے ہیں۔اس میں شک نہیں وہ اس بات سے بھی چڑتے ہیں کہ میں کیوں اپنے الہام اور رؤیاشائع کرتا ہوں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ جب یہ باتیں تمام قوم کے متعلق ہوں تو کیوں نہ انہیں شائع کیا جائے۔بے شک اگر میرے الہام کسی ایک شخص کے ساتھ تعلق رکھتے تو میں بیان نہ کرتا لیکن جب یہ قومی معاملہ ہے تو کیوں چھپایا جائے۔پس اسی لئے میں اپنے وہ رؤیا جو جماعت کے متعلق ہوں شائع کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔‘‘(انوار خلافت، انوار العلوم جلد۳صفحہ۸۰-۸۱)

جماعت کی ترقی کے جلالی الٰہی وعدے

حضرت اقدس مسیح موعودؑفرماتے ہیں :’’خداتعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اورمیرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کردیں گے اور ہرایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا۔ اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور خدانے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔سو اے سننے والو!ان باتوں کو یاد رکھو۔ اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا۔‘‘( تجلیاتِ الٰہیہ روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ۴۰۹)

پھر الوصیت میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :’’یہ مت خیال کر و کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کاایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پرایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلائوں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا۔ مگر وہ سب لوگ جو اخیرتک صبر کریں گے اور ان پرمصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ۳۰۹)

۱۹٤۱ء میں حضرت مصلح موعود ؓنے بڑے جلال کے ساتھ غیر مبائعین کو مقابل آنے کا چیلنج دیا۔ لیکن خداکے شیر کے سامنے آنے کی ان کی جرأت نہیں ہوئی۔آپؓ فرماتے ہیں:’’میں نے بارہا چیلنج کیا ہے کہ وہ لوگ جو تم میں سے نکل کر ہم میں شامل ہوئے ہیں۔ان کی بھی گنتی کر لو اور جو لوگ ہم میں سے نکل کر تم میں شامل ہوئے ہیں ان کی بھی گنتی کر لو۔پھر تمہیں خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ کون بڑھ رہا ہے اور کون گھٹ رہا ہے۔مگر انہوں نے کبھی اس چیلنج کو قبول نہیں کیا۔اسی طرح میں نے بار بار چیلنج دیا ہے کہ تم اس بات میں بھی ہمارا مقابلہ کر لو کہ تمہارے ذریعہ سے کتنے لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں… مگر انہیں کبھی اس مقابلہ کی توفیق بھی نہیں ملی۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے مقابلہ کیا تو ان کا پول کھل جائے گا۔( الفضل۱۳؍جولائی۱۹٤۱ء صفحہ۷)

۲۰۰۸ء میں خلافت جوبلی کے سال حضورا یدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غیر مبائعین سے براہ راست مخاطب ہو کر ان کو تنبیہ کی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات پر عمل بھی کرنے کی کوشش کریں اور حضورؑ کا مقام کم نہ کریں کیونکہ سو سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جنہوں نے حضور علیہ السلام کو نبی مانا انہوں نے ترقیات کے سفر طے کیے نہ کہ مجدد کہنے والوں نے۔آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’آج مَیں پھر ایک دفعہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ پیغامیوں یا غیر مبائع لوگوں سے کہوں کہ خدا کا خوف کرو۔ آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کو دیکھو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات پر غور کرو اور پھر اپنے جائزے لو۔ کیا جو مؤ قف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں تمہارا ہے اس سے تمہارے قدم کسی ترقی کی طرف آگے بڑھے ہیں ؟ کیا انجمن کو خلافت پر بالا سمجھنے والوں نے دنیا میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا گاڑا ہے یا کسی درد کے ساتھ یہ جھنڈا گاڑنے کی کوشش کی ہے؟ یا پھر یہ بات ان کے حصہ میں آئی ہے جو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح و مہدی اور نبی سمجھتے ہیں اور آپؑ کے بعد خلافت کو برحق سمجھتے ہیں۔ بیعت خلافت میں آنے والوں نے تو دنیا کے ۱۸۹ ممالک میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا دیا۔ تم نے کیا کیا ہے؟ کیا خداتعالیٰ کی فعلی شہادتیں نبی ماننے والوں کے ساتھ ہیں یا صرف ایک گرو یا مرشد یا مجدد ماننے والوں کے ساتھ ہیں۔ پس خدا کا خوف کرتے ہوئے اس ڈھٹائی کو ختم کرو اور دیکھو کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ ان کی کتابیں شائع بھی کرتے ہو۔ چھاپتے بھی ہو۔ پڑھنے کی بھی توفیق ملے اور سمجھنے کی توفیق ملے۔ خود ہی قرآن کھول کردیکھ لو کہ ان لوگوں کے بارے میں خداتعالیٰ کیا کہتا ہے جو کچھ پر تو ایمان لانا چاہتے ہیں اور کچھ کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍فروری۲۰۰۸ء،الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍فروری۲۰۰۸ء)

آخر پر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیر مبائع احمدیوں کو بھی دوبارہ احمدیت اور خلافت کی آغوش میں آنے کی توفیق دے اور حضرت مسیح موعودؑ کا حقیقی مقام پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button