دادی جان کا آنگن

حضور انور ایدہ اللہ کی قبولتِ دعا کے واقعات

دادی جان کل یومِ خلافت ہے اور مجھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی قبولیت دعا کے متعلق ناصرات کے اجلاس میں کچھ بیان کرنا ہے۔گڑیا نے کمرے میں داخل ہوتےہوئے کہا۔

دادی جان: تو بیٹا بتائیں میں کیسے آپ کی مدد کر سکتی ہوں؟

گڑیا: مجھے اس بار آج ہی عنوان دیا گیا ہے۔ سیکرٹری صاحبہ کہہ رہی تھیں کہ اپنی دادی جان سے تیاری کروا لینا۔

دادی جان: عنوان تو بڑے مزے کا ہے۔ احمد بیٹا مجھے یہ الماری سے تشحیذ الاذہان کا سیدنامسرورنمبر تو پکڑانا۔

دادی جان اس بارے میں وہ واقعہ بھی تو سنائیں نا ں جو کل پرسوں ایم ٹی اے پر ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سنایا تھا۔ امتحان میں پاس ہونے والا۔آپ نے مجھے بھی دعا کی تلقین کی تھی۔ احمد رسالہ پکڑاتے ہوئے بولا۔

جی دادی جان سنائیں۔ گڑیا کاغذ قلم لے کر دادی جان کے قریب آ بیٹھی۔

دادی جان: ایک بار حضور انور نے فرمایا تھا کہ اللہ کے فضل سے کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جس سے میں کہوں بہت پریشان ہوں۔ طالب علمی کے زمانہ میں، ایک طالب علم کو یہی ہوتا ہے ناں کہ میں پاس ہو جاؤں…تو ایسا ہی ہوا، جب اللہ کے سامنے جھکے، اللہ سے رو رو کر دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ایسے راستے اور سبیل پیدا کردی کہ اس مشکل میں سے گزار دیا۔(الفضل انٹرنیشنل 25 جون 2021ء)

ایک بار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ایک طالبعلم نے سوال کیا جب حضور پڑھائی کیا کرتے تھے اور امتحان دینے جاتے تھے تو پھر کن دعاؤں کی طرف توجہ دیا کرتے تھے؟ تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا کہ میں پڑھائی میں بڑا نکما تھا اور دعا ہی کرتا اور دعاؤں سے پاس ہوگیا۔(دورہ جرمنی 2015ء کلاس طلباء )

محمود: تو کیا ہم بھی دعا سے پاس ہوسکتے ہیں؟

دادی جان: جی ہاں۔ لیکن یہ نہیں کہ تیاری ہی نہ کی جائے ۔ آپ اپنی محنت کریں۔ بعض مضمون مشکل ہوتے ہیں۔ اگر امتحان میں ایک یا دو پرچے اچھے نہ ہوں تو پھر خوب دعائیں کریں۔

محمود: جی ایسا ہی کروں گا۔

دادی جان: یہ دیکھیں اس میں حضرت آپا جان(سلَّمَھَا اللّٰہ تعالیٰ) کا ایک مضمون شامل ہے۔ اس میں ایک واقعہ لکھا ہے۔

احمد: حضرت آپا جان صاحبہ سے کون مراد ہیں۔ دادی جان؟

گڑیا: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیگم صاحبہ مراد ہیں ان کا نام حضرت سیدہ امة السبوح بیگم صاحبہ ہے۔

دادی جان: شاباش گڑیا بیٹا! اس میں وہ تحریر کرتی ہیں کہ عزیزم وقاص سَلَّمَهُ اللّٰهُ ابھی صرف دو دن کا تھا کہ اسے شدید قسم کا ڈائیریا ہو گیا ۔ وہ نئے نئے ٹمالے (شمالی غانا ) گئے تھے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ ان دنوں ہسپتال میں ڈاکٹروں کی ہڑتال تھی ۔ صرف نو بجے سے پانچ بجے تک ڈاکٹر آتے تھے۔ اس کے علاوہ باقی اوقات میں اور ہفتہ، اتوار کو کوئی میڈیکل سٹاف موجود نہ ہوتا تھا۔ نئی جگہ اور ہسپتالوں کا ناقص انتظام ، ڈاکٹروں کی ہڑتال گویا عجیب پریشانی کا عالم تھا۔ اتنے چھوٹے بچے کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی۔ عزیزه فرح سَلَّمَهَا اللّٰهُ بھی اس وقت چھوٹی ہی تھی۔ اس کے لیے آپ پاکستان سے ایک دوائی لائی ہوئی تھیں جو کافی Strong (سخت) ہوتی ہے جسے ڈاکٹر ز اتنے چھوٹے بچے کے لیے یہ دوا کبھی بھی Recommend(تجویز) نہیں کرتے۔ مگر اس وقت آپ سب لوگ بہت پریشان اور فکرمند تھے۔

احمد: افریقہ میں ڈاکٹر گھر نہیں آتے؟

دادی جان: افریقہ میں گھر کے قریب میڈیکل کی سہولیات نہیں ہیں۔ لیکن حضور ایدہ اللہ نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے دعا کر کے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی بھر کر دو دفعہ وہی دوائی عزیزم وقاص کو جو اس وقت ڈائیریا سے نڈھال، دودھ وغیرہ بالکل نہیں پی رہا تھا ، یہ کہہ کر چٹائی کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کیا ہے؟ہم نہیں جانتے مگر یہ افسوس تو نہیں ہوگا کہ علاج نہیں کیا۔ پھر چند منٹ میں بچے کی طبیعت سنبھل گئی اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں اسے شفا عطا فرمادی۔الحمدللہ۔(تشحیذ الاذہان، سیدنا مسرور نمبر 2008ء صفحہ 16-17)

دادی جان: محمودبیٹا! یہ آپ کے سوال کا جواب ہے کہ آپ اپنی محنت تو کریں۔ پھر دعا کریں تو اللہ اس محنت کو باثمربھی کرے گا۔ انشاء اللہ ۔ اسے کہتے ہیں اونٹ کا گھٹنا باندھ کر توکل کرنا۔

محمود: دادی جان بچوں کی دعا تو جلدی قبول ہوتی ہے ناں!

دادی جان:جی ہاں! مجھے ایک اور واقعہ یاد آگیا ۔ ایک بچی نے حضور انور سے سوال کیا کہ حضور انور کی زندگی میں کوئی ایسا موقع تھا جس سے حضور کو یہ لگا ہو کہ خدا تعالیٰ نے حضور کی فوراً مدد کی ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا تھا کہ بڑے بڑے ایسے مواقع آئے ہیں جب خدا تعالیٰ نے فوراً مدد کی ہے۔ایک دفعہ ایک میرا کام تھا جو مَیں نے اپنے والد سے کہنا تھا کہ وہ کردیں۔ لیکن مَیں نے ان سے کہا نہیں تھا کیونکہ میری عادت میں جھجک تھی کہ مانگوں گا نہیں اور پندرہ منٹ کا ٹائم تھا۔ اللہ میاں کو مَیں نے کہا یہ پندرہ منٹ ہیں اگر میرا کام ہوجائے تو مجھے ایمان تو پہلے ہی ہے اور بھی یقین ہوجائے گا۔ 12 منٹ گزر گئے، 13 منٹ گزر گئے، 14 منٹ گزر گئے اور پندرھویں منٹ میں میرے ابّا نے مجھے بلایا اور جو کام تھا، میرے دل میں جو خواہش تھی کہ پوری ہوجائے وہ ابّا نے پوری کردی۔ اسی طرح اَور بھی بہت سے موقعے ہیں۔(الفضل انٹرنیشنل 22؍ تا28 ؍نومبر 2013ء)

گڑیا: کاپی بند کرتے ہوئے بولی۔ جزاکم اللہ دادی جان۔ اب میں اپنی تقریر مکمل کر لیتی ہوں۔

محمود: دادی جان ہم حضور انور کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

گڑیا: ہم دعا کر سکتے ہیں۔ ہم دعائیہ خط لکھ سکتے ہیں۔

دادی جان: بالکل۔ تو آئیں ہم مل کر خط لکھتے ہیں ۔

محمود: دادی جان میرا خط بھی لکھ دیں گی پلیز؟

دادی جان: جی ہاں کیوں نہیں۔ سب سے پہلے محمود کا خط لکھیں گے۔ پھر سب اپنے اپنے خط لکھنے لگ جاتے ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button