نظم

ہمارا خلافت پہ ایمان ہے

ہمارا خلافت پہ ایمان ہے

یہ ملّت کی تنظیم کی جان ہے

اسی سے ہر اِک مشکل آسان ہے

گریزاں ہے اِس سے جو نادان ہے

ہیں دانا تو سَو جاں سے اِس پر نثار

رہیں گے خلافت سے وابستہ ہم

جماعت کا قائم ہے اِس سے بھرم

نہ ہو گا کبھی اپنا اِخلاص کم

بڑھے گا اِسی سے ہمارا قدم

خلافت ہے اِک عافیت کا حصار

خلافت سے زیرِ نگیں ہو جہاں

خلافت سے ملّت ہمیشہ جواں

خلافت سے اسلام ہے کامراں

خلافت کا اونچا ہے ہر دم نشاں

خلافت کی ہیں برکتیں بےشمار

خلافت کا جب تک رہے گا قیام

نہ کمزور ہو گا ہمارا نظام

خلافت کا جس کو نہیں احترام

زمانے میں ہو گا نہ وہ شادکام

خلافت سے ہی ہوں گے ہم کامگار

خلافت سے زندہ دلوں میں خدا

خلافت غریبوں کا ہے آسرا

نہ کیوں جان و دل سے ہوں اِس پر فدا

اِسی کے ہے دم سے ہماری بقا

خلافت کا حامی ہے پروردگار

خلافت سے اپنی ہے سب آبرو

ہے دھاک اپنی بیٹھی ہوئی چار سُو

بغیر اِس کے باقی رہوں میں نہ تُو

خلافت سے ہے گرم اپنا لہو

اِسی سے ہیں تسنیمؔ! ہم ہوشیار

(کلام میر اﷲ بخش تسنیؔم۔ وفا کے قرینے صفحہ 347)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button