متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی دلربا و دلنواز شخصیت اور شفقتیں

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

آپ محبتوں اور عنایتوں کے بحر بے کراں تھے جو ہر خاص و عام کے لیے یکساں خزانوں سے پُر تھا

ذاتی یادداشتوں پر مشتمل آپ کی سیرت کے چند پہلو

خلافت سے محبت

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو جب اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ ثالثؒ کے بعد ردائے خلافت پہنائی تو سب جانتے ہیں کہ آپ نے استحکام خلافت کے لیے کس قدر خطبات دیے۔ یہ انعام خلافت جو آپ کو ملا یہ بھی دراصل خلافت سے محبت کا نتیجہ تھا۔ ایک دوست نے خاکسار کو بتایا کہ خلیفہ بننے سے پہلے آپ کے پاس ایک کار ہوتی تھی۔ آپ نے وہ کار فروخت کر دی اور ایک جیپ خریدی۔ ایک دفعہ انہیں حضرت صاحب کے ساتھ (جب کہ آپ ابھی خلیفہ نہ تھے) اس جیپ میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بےتکلفی سے کہہ دیا میاں صاحب یہ آپ نے کیا کیا کہ اچھی بھلی کار فروخت کر کے یہ جیپ خرید لی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ’’میں اس جیپ میں ایک ٹی وی اور ایک وی سی آر لگواؤں گا اور گاؤں گاؤں جا کر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے خطبات سنایا کروں گا‘‘۔گویا آپ کے دل میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ استحکام خلافت کے لیے، خلافت کی آواز سب کو پہنچ جائے۔

دلداریاں اور دلنوازیاں

مجھے بھی فخر ہے کہ آپ نے خاکسار کا نکاح پڑھایا اور بارات کے ساتھ ہمارے گھر دارالرحمت سے دارالعلوم تک گئے۔ کار میں جب بیٹھنے لگے تو خاکسار نے عرض کی کہ آپ اگلی سیٹ پر تشریف لے آئیں۔ فرمانے لگے کہ نہیں آج آپ دلہا ہیں۔ آپ ہی آگے بیٹھیں گے اور آپ پچھلی سیٹ پر خاکسار کے والد محترم سید شوکت علی صاحب اور چچا کےساتھ بیٹھ گئے۔

جب ہمیں کوارٹر تحریک جدید ملا تو خاکسار نے چند بزرگوں اور دوستوں کی دعوت کی جس میں ازراہ شفقت آپ بھی تشریف لائے۔ گھر میں میز کرسیاں، ڈائننگ ٹیبل وغیرہ کچھ بھی نہ تھا۔ باہر برآمدے میں دریاں اور چادریں بچھا دی گئیں اور کھانا پیش کیا گیا۔ آپ نے چنداں محسوس نہ کیا بلکہ نہایت بشاشت کے ساتھ نیچے بیٹھ کر کھانا کھایا۔ کھانے کے دوران بجلی چلی گئی۔ موم بتیوں کا انتظام کیا ہوا تھا۔ موم بتیاں جلا دی گئیں تو فرمانے لگے کہ دیکھا جامعہ کی تربیت۔ ہر چیز کا انتظام کیا ہوا ہے۔ سب بزرگ جو اس دعوت میں شامل تھے، آپ کی مجلس سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ اس طرح ہمارے گھر تشریف لا کر آپ نے ہم سب کی دلداری فرمائی۔

خلافت سے پہلے ایک دفعہ ربوہ میں غالباً گول بازار میں ملے تو فرمانے لگے کہ میں لاہور جا رہاہوں تم نے بھی ساتھ جانا ہے؟ میں نے کہا اکیلے نہیں جانا فرمانے لگے کس کو ساتھ لے کر جانا ہے میں نے بے تکلفی میں کہا کہ اپنی اہلیہ اور بیٹے ممتازاحمد کو ساتھ لے کر جاناہے۔ فرمانے لگے ٹھیک ہے کل صبح ۸؍بجے سب تیار رہیں۔ چنانچہ اگلے دن آپ ہمارے گھر کار پر تشریف لائے۔ اور ہمیں ساتھ لے کر لاہور روانہ ہوئے۔ راستہ میں بہت لطیفے سنائے۔ ایک تو یاد ہے فرمانے لگے اس فقرے کا انگریزی ترجمہ کرو’’میرا سر چکر کھا رہا ہے‘‘۔ میں نے عرض کی آپ ہی کر دیں۔ فرمانے لگے کہ بعض لوگ جن کی انگریزی ایسی ہی ہوتی ہے وہ اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ My head is eating circles۔ لاہور دارالذکر وقت پر پہنچے جہاںآپ نے خطبہ جمعہ دیا اور نماز پڑھائی۔

حضور کے ساتھ لاہور جانے کی وجہ سے ہمارا قیام بھی آپ کے ساتھ دارالذکر میں رہا۔ چنانچہ تین دن کے بعد حضرت میاں صاحب تو واپس ربوہ آگئے اور ہم وہیں ٹھہرگئے۔ روانہ ہونے سے پہلے آپ ہمارے کمرے میں تشریف لائے اور میری اہلیہ صفیہ سلطانہ کو اچھی بھلی رقم عطا فرمائی۔ میں نے عرض کی میاں صاحب رہنے دیں ضرورت نہیں ہے تو آپ نے مجھے ایک طرف کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں نہیں دے رہا تم بے شک نہ لو۔ اور اہلیہ کو مخاطب کرکے فرمایا یہ تمہارے لیے تحفہ ہے۔ لاہور میں شاپنگ کر لینا۔

میں جب گھانا مغربی افریقہ گیا تو میرا بیٹا ممتاز احمد جب بھی بیمار ہوتا تو والدہ صاحبہ مرحومہ حضرت میاںصاحب کے پاس دفتر وقف جدید جاتیں اور اس کے لیے ہومیو پیتھی دوائی لاتیں۔ آپ نہایت محبت اور پیار سے باتیں کرتے، دوائی دیتے اور فرماتے کہ ممتاز کی دادی اماں نے ممتاز کو دم کرکر کے موٹا کر دیا ہے۔ جب تک خاکسار گھانا رہا ہر سال آموں کے موسم میں ہمارے گھر ربوہ میں بچوں کے لیے آموں کا تحفہ بھی بھجواتے رہے۔

گھانا ہی کا واقعہ ہے۔ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا کہ اگر آپ نے افریقہ نہیں دیکھا تو کچھ بھی نہیں دیکھا اور ساتھ ہی افریقہ کی مہنگائی کا ذکر کر کے لکھا کہ یہاں پر بڑی کمر توڑ مہنگائی ہے۔ میں نے چیزوں کے بھاؤ وغیرہ بھی لکھ دیے۔ میاں صاحب نے اپنے ہاتھ سے اس کا تفصیلی جواب لکھا کہ تمہارے خط سے وہاں کی مہنگائی کا علم ہوا واقعی جیسا تم نے لکھا ہے کمر توڑ مہنگائی ہے۔ لیکن مجھے پتا ہے کہ تمہاری کمر اتنی کمزور نہیں ہے جو اس مہنگائی سے ٹوٹ جائے۔

لندن میں شفقت

خاکسار کو افریقہ میں ۸ سال لگاتار خدمت بجا لانے کے بعد پاکستان آنے کی رخصت ملی۔ ہماری واپسی لندن کے راستہ سے ہوئی۔ خلیفہ بننے کے بعد اب پہلا موقع تھا کہ ہم نے حضور سے ملنا تھا۔ دل کی عجیب کیفیت تھی بہرحال ہم ۲۸؍جنوری ۱۹۸۶ء کو افریقہ سے لندن پہنچ گئے۔

حضور نے جو پیار اور شفقت خاکسار اور خاکسار کے بچوں کو عنایت فرمایاوہ ناقابل بیان ہے۔ دفتر سے کہہ کر ہمیں لندن کی سیر کروائی۔ نصرت ہال کے داخلی دروازے کے ساتھ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ہم میاں بیوی اور بچے چاروں رہے۔ چونکہ کمرہ چھوٹا سا تھا حضور نے ایک دن دفتر میں بلا کر خاکسار سے فرمایا کہ اسلام آباد چلے جاؤ وہاں ہر قسم کی سہولت رہے گی۔ اور پھر یہ کہ مکرم عیسیٰ صاحب مرحوم کا ذکر فرمایا کہ ان کی اہلیہ آلو کے پراٹھوں سے خوب خدمت بھی کریں گی۔ میں نے عرض کی کہ حضور ہم تو آپ کے لیے آئے ہیں۔ اسلام آباد جانے میں دقّت بھی ہو گی اور وقت بھی لگے گا نیز آپ کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے محرومیت بھی ہو گی۔ یہی کمرہ ٹھیک ہے۔ چنانچہ اسی کمرہ میں ہی ہم ایک ماہ ٹھہرے۔ اس دوران حضور اپنے گھر سے ہمارے لیے ہفتہ میں دو تین بار کھانا ضرور بھجوا دیتے۔

حضور باقاعدگی سے صبح سیر پر جاتے تھے۔ خاکسار نے بھی ساتھ چلنے کی اجازت لی جو ازراہ شفقت حضور نے عطا فرمائی۔ اس طرح قریباً ایک ماہ صبح کی سیر میں شمولیت ہوتی رہی اور حضور کی مجلس سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا رہا۔ حضور سیر پر ڈبل روٹی ساتھ لے کر جاتے اور جھیل میں بطخوں کو ڈالتے۔ایک دفعہ سیر کے دوران کُشتے کی بات چل پڑی تو مجھ سے پوچھا کہ شمشاد نے کُشتہ کھایا ہے۔ میں نے نفی میں جواب دیا۔ حضور نے پھر مبارک ساہی صاحب کو فرمایا کہ شاہ صاحب (یعنی خاکسار کو) آج ہی کُشتہ کھلاؤ۔ سیر سے واپس آگئے تو تھوڑی دیر بعد ساہی صاحب نے ہمارے کمرےکا دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک بڑی پلیٹ جو دوسری پلیٹ سے ڈھکی ہوئی تھی مجھے دے دی۔ میں نے پلیٹ اندر جا کر کھولی تو انڈے کا آملیٹ تھا۔ میں نے وہ آملیٹ بچوں کو دیا اور سب نے ناشتہ کر لیا۔ اگلے دن حضورنے سیر کے دوران مجھ سے پوچھا کہ شاہ صاحب کُشتہ کیسا لگا؟ میں نے عرض کی کہ حضور کُشتہ تو ابھی ملا ہی نہیں۔ حضور نے ساہی صاحب کو دیکھا۔ ساہی صاحب نے کہا کہ میں کل صبح آپ کو پلیٹ دے کر تو گیا تھا۔ میں نے کہا وہ تو آملیٹ تھا۔ میں نے کھایا ہی نہیں۔ بس حضور نے تبسم فرمایا اور کہنےلگے کہ ہم تو اسی کو کُشتہ کہتے ہیں۔ تم کیا سمجھ رہے تھے؟ میں نے عرض کی کہ حکیموں والا کُشتہ۔ بہرحال بہت دیر تک کُشتے کا لطیفہ چلتا رہا۔

دلداری کی ایک اور ادا

لاس اینجلس میں مسجد بیت الحمید کا افتتاح تھا۔ شام کو مسجد میں مجلس عرفان کا انعقاد ہوا۔ لوگ حضور کے دیدار اور ملاقات کے لیے دور دور سے سفر کر کے پہنچے تھے۔ پورٹ لینڈ میں ہمارے ایک مخلص دوست میاں محمد طاہر صاحب مرحوم ہوتے تھے۔ انہوں نے مائیک پر آکر عرض کی حضور نے سب لوگوں سے ملاقات کی ہے،کسی سے مصافحہ،کسی سے معانقہ،میں ۱۲۰۰ میل دور کی مسافت طے کر کے آیا ہوں۔ اور پھر یہ شعر پڑھا۔

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

پھر کیا تھا حضور نے جلدی سے انہیں بلایا اور معانقہ کیا۔ اس پر دوسرے لوگوں نے عرض کی کہ حضور ہم بھی تو سفر کر کے آئے ہیں۔ہمیں بھی معانقہ کی اجازت ہو۔ آپ نے فرمایا اگر ۱۲۰۰ میل دور سے آئے ہو تو آجاؤ!

ایک راہنمائی

ایک دفعہ جب آپ امریکہ تشریف لائے تو نماز ظہر سے پہلے ملاقاتیں تھیں۔ ملاقاتیں ختم ہوئیں تو حضور نے فرمایا کہ نماز کی تیاری کر لیں۔ ہم لوگ مسجد میں آگئے۔ اذان دی گئی اور حضور نے ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں۔ نمازوں کے بعد نکاحوں کا اعلان تھا۔ حضور نے فرمایا کہ نکاحوں کا اعلان یہاں کے مربی صاحب کریں گے۔ چنانچہ مجھے ارشاد ہوا کہ نکاحوں کا اعلان کر دیں۔ میں نے کھڑے ہو کر آیات مسنونہ پڑھی ہی تھیں کہ حضور نے فرمایا: پتا کر لو فریقین بھی پہنچ گئے ہیں یا نہیں۔ میں نے پتا کیا تو پتا چلا کہ ایک فریق ابھی نہیں آیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ بیٹھ جائیں۔ انتظار کر لیتے ہیں۔ چنانچہ جب دونوں فریق پہنچ گئے تو فرمایا اعلان کردو۔ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آیات نکاح دوبارہ پڑھوں یا صرف اعلان کر دوں۔ میں چونکہ حضور کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھاحضور سے پوچھ لیا کہ اب دوبارہ آیات نکاح پڑھوں یا پہلی پڑھی ہوئی کافی تھیں۔ آپ نے فرمایاکہ اب بس نکاح کا اعلان کر دو اور ایجاب و قبول کرا دو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی شفقت اور قبولیت دعا کا ایک واقعہ

یہ ۱۹۸۴۔۱۹۸۵ء کا واقعہ ہے جب خاکسار سیرالیون مغربی افریقہ میں خدمات بجا لا رہا تھا اور ’’مگبورگا‘‘مشن ہاؤس میں متعین تھا۔ خاکسار کو ایک نوجوان داؤد فوفانا (ڈیوڈ فوفانا ) ملا۔ مجھے اس کے چہرے پر سعادت مندی کے آثار نظر آئے۔ خاکسار نے اسے مشن ہاؤس آنے کی دعوت دی۔ مگر وہ نہ آیا۔ کچھ عرصہ بعد اس سے پھر ملاقات ہوئی اور پھر اسے مشن ہاؤس آنے کی دعوت دی مگر وہ پھر بھی نہ آیا۔ تیسری بار چوراہے پر اس سے پھر ملاقات ہوئی اور خاکسار نے پھر اسے کہا کہ مجھے مشن ہاؤس آکر ملو تو وہ کہنے لگا ابھی آجاتا ہوں اور میرے ساتھ ہو لیا۔ مشن ہاؤس میں آکر خاکسار نے اس سے اس کا تعارف پوچھا تو کہنے لگا کہ آپ کے مشن ہاؤس کے ساتھ جو چرچ ہے میں اس کا پادری ہوں اور میرا گاؤں یہاں سے کچھ چالیس،پچاس میل دور ہے۔ میرے والدین اور آباء و اجداد بھی مسلمان ہیں۔ میں نے پوچھا کہ تم عیسائی کیوں اور کیسے ہوئے اور چرچ کے پادری کیسے بنے؟ کہنے لگا کہ دراصل بات یہ ہے کہ ہوں تو میں بھی مسلمان، مگر غریب آدمی ہوں۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں تھے اور نہ ہی کوئی جاب تھی۔ یہ عیسائی ہیں (اُس چرچ میں اس وقت ایک امریکن خاتون پادری تھیں اور ایک انگلستان کا جوڑا رہ رہا تھا) ان لوگوں نے میری مدد کی ہے۔ پیسے بھی دیتے ہیں اور مجھے انہوں نے اپنے چرچ ہی میں بطور پادری رکھا ہوا ہے۔

خاکسار کو یہ بات سن کر بہت دکھ ہوا۔ میں نے پوچھا کہ کیا تم دل سے مسلمان ہو؟ کہنے لگا: جی بالکل میں مسلمان ہوں۔

میں نے اسے کہا۔ ذرا ٹھہرو! میں ابھی آتا ہوں۔ میں اپنے کمرے میں گیا اور کاغذ پر ایک خط لکھ کر لایا جو کہ احمدیہ پرائمری سکول مگبورکا کے ہیڈماسٹر کے نام تھا۔ میں نے اس خط میں لکھا کہ یہ نوجوان ڈیوڈ فوفانا آرہا ہے اسے سکول میں بطور ٹیچر رکھ لیں۔

خاکسار نے اسے یہ خط دیا اور کہا کہ اگر تم دل سے مسلمان ہو اور اسلام ہی تمہارا مذہب ہے تو آج سے چرچ کی ملازمت چھوڑ دو اور یہ خط لے جاؤ تمہیں ہمارے سکول میں ملازمت مل جائے گی۔

وہ خط لے کر ہیڈماسٹر مسٹر مساکوا کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے اس نوجوان کو سکول میں ٹیچر رکھ لیا۔

اب ہمارے سکولوں میں روزانہ قرآن کی تلاوت ہوتی تھی۔ پھر اساتذہ بھی آپس میں احمدیت کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ یہ نوجوان دس بارہ دنوں کے بعد میرے پاس دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ مجھے احمدیت کے بارے میں کچھ بتائیں۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ تو کہنے لگا کہ سکول میں ’’احمدیت‘‘کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں۔

میں نے کہا کوئی بات نہیں بعد میں دیکھیں گے۔ آپ فکر نہ کریں اور اپنی ملازمت کرتے رہیں۔ مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میں نے بھی احمدیت بتا کر ہی اسے جاب دینی ہے تو یہ تو مناسب نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کروں گا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ پھر آیا اور پھر اس نے وہی سوال دہرایا۔خاکسار نے پھر بھی اسے کوئی جواب نہ دیا۔ اور بتایا کہ وہ سکول میں بطور ٹیچر بہتر کارکردگی دکھائے،اوربس۔

خاکسار نے یہ سارے واقعات لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں لندن دعا کے لیے بھجوا دیے۔ ایک دن ظہر کی نماز کے بعد ڈاک دیکھی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا خط تھا۔ جس میں حضور نے ڈیوڈ کے بارے میں لکھا تھا کہ’’یہ نوجوان ان شاء اللہ احمدیت قبول کرے گا‘‘ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ نوجوان آگیا اور آتے ہی کہنے لگا کہ میں نے بیعت کرنی ہے۔ میرا تو دل پہلے ہی یقین سے بھر گیا تھا کہ ان شاء اللہ خدا کی قدرت اب اسے ضرور لے آئے گی۔ وہ خداتعالیٰ کے فضل سے خود آیا اور اسی دن آیا جس دن ایک دو گھنٹہ پہلے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا خط ملا تھا۔

الحمد للہ کہ اس نے پھر احمدیت قبول کی اور بعد میں یہ نوجوان خدام الاحمدیہ کا لوکل قائد، ریجنل قائد اور ہمارے ایک احمدیہ سیکنڈری سکول مسنگبی کا ہیڈماسٹر بھی رہا ہے۔ اور پھر خداتعالیٰ کے فضل سے اس کا پورے کا پورا گاؤں احمدی ہوا۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ۔یہ نوجوان اب امریکہ میں ہے اور جماعت احمدیہ کے ساتھ پختہ تعلق ہے اور سیرالیون ہی میں وصیت کے بابرکت نظام میں شمولیت بھی اختیار کر لی تھی۔میں نے مشاہدہ کیا کہ وصیت کرنے کے بعد اس نوجوان میں بہت تبدیلی آئی۔ یہ وال مارٹ میں کام کرتا ہے اور ہر ماہ جتنی تنخواہ ملتی ہے اس کے پیسہ پیسہ کا حساب کر کے دسویں حصہ کی وصیت ادا کرتا ہے۔ الحمد للہ

قرآن کریم کی عظمت اور احترام

حضورؒجب امریکہ دورے پر تشریف لاتے تو حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم بچوں کی تربیت کی خاطر حضور کے ساتھ ایک کلاس کا انتظام بھی کرواتے تھے۔ چنانچہ محترم میاں صاحب نے دفتر کے ساتھ کلاس کی تیاری کے لیے خاکسار کی ڈیوٹی لگائی کہ سارا سال تم یہ کلاس بیت الرحمان میں لگایا کروجس میں چاروں جماعتوں کے اطفال و ناصرات شامل ہوا کریں۔ یہ کلاس خدا تعالیٰ کے فضل سے مسجدبیت الرحمان میں چار سال تک بڑی کامیابی کے ساتھ لگتی رہی۔ جس میں ستّر سے اسّی تک کی حاضری ہوتی تھی۔

چنانچہ حضور کے ساتھ جب بچوں کی کلاس ہوئی تو ایک بچے کو تقریر کے لیے ایم ٹی اے کی برکات کا موضوع دیاگیا۔ جب کلاس ہوئی تو اس بچے نے بہت عمدہ تقریر کی۔ یہ مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم کے نواسے تھے۔ بچے نے تقریر ختم کی تو حضور نے فرمایا کہ جو تم نے بیان کیا ہے بہت اچھا ہے۔ بڑی اچھی تقریر ہے۔ لیکن ایک بہت اہم بات کو تم نے چھوڑ دیا ہے وہ تو ہر چیزکی جان ہے جس کا تم نے ذکر نہیں کیا۔ ایم ٹی اے پر ترجمۃ القرآن اور تفسیر قرآن کی کلاس لگتی ہے۔ پھر مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اسے تم نے کس طرح نظر انداز کر دیا اور پھر آپ نے قرآن کریم کی عظمت اور اہمیت پر پندرہ بیس منٹ تک تقریر فرمائی۔

کلاس ہی کا واقعہ ہے

تلاوت کے بعد نظم ہونی تھی۔ نظم خاکسار کی بچی سیدہ صبیحہ نے پڑھی جو بہت پسند کی گئی۔ اس کے بعد حضور نے بچوں سے فرمایا کہ بجائے اس کے کہ میں تم سے سوال کروں تم مجھ سے سوال کرو۔ ایک بچی نے کھڑے ہو کر کہا: حضور ہم نظم پڑھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں ہاں ضرور پڑھو۔ بچیوں نے جو نظم پڑھی وہ حضور نے بہت پسند فرمائی۔ وہ نظم جرمن زبان میں تھی۔ جو ایم ٹی اے پر آتی تھی۔ عزیزہ صبیحہ بشریٰ نے اس کو ایم ٹی اے سے سن سن کر ہو بہو یاد کرلیا۔ اور پھر کلاس کی اور بچیوں کو بھی یاد کرا دی۔ وہی نظم سنائی گئی۔ اس پر حضور نے خوش ہو کر فرمایا کہ اتنی عمدہ نظم پڑھی ہے کہ پتا نہیں لگ سکتا کہ جرمنی میں جو نظم سنی تھی وہ اصل تھی یا یہ اصلی ہے اور پھر ساری بچیوں کا تعارف حاصل کیا۔ اس گروپ میں میری دونوں بیٹیاں طیبہ اور صبیحہ شامل تھیں۔ فرمانے لگے کہ تمہارے بغیر تو نظم مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کلاس کو آپ نے بے حد پسند فرمایا۔ اور حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سے فرمایا کہ شمشاد نے اچھی کلاس کر لی ہے۔ کلاس کے اختتام پر آپ نے بچوں سے اجازت چاہی کہ اب ہم نے جلسہ کی انسپیکشن کرنے جانا ہے۔

جیسا کہ خاکسار نے ذکر کیا ہے کہ جب آپ امریکہ کے دورہ پر تشریف لاتے تو حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم کے گھر قیام فرماتے تھے۔ آپ کا گھر مسجد سے چونکہ ۴۵ منٹ سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر ہے اس لیے فجر کی نماز محترم صاحبزادہ کے گھر ہی باجماعت ہوتی تھی اور وہاں گردو پیش میں رہنے والے لوگوں کے علاوہ بھی لوگ فجر کی نماز حضور کی اقتدا میں پڑھنے کے لیے پہنچتے تھے۔ خاکسار کا بیٹا سید ممتاز احمد بھی مسجد بیت الرحمٰن سے وہاں حضور کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے جاتا۔ حضورؒ نماز اور تسبیحات سے فراغت کے بعد آنے والوں کا حال احوال دریافت فرماتے اور تعارف پوچھتے۔ ایک دن خاکسا رکے بیٹے سے پوچھا کہ تم روزانہ آتے ہو،تمہارے ابا (یعنی خاکسار) نہیں آتے کیا وجہ ہے؟ تو بیٹے نے بتایا کہ حضور وہ مسجد بیت الرحمٰن میں نماز فجر پڑھاتے ہیں۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن خلیفۃ المسیح کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ مبارک ہے اور اس سے پتا لگتا ہے کہ خلیفہ وقت چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی توجہ اور نظر رکھتے ہیں۔

حضورؒہمیشہ ہر ایک کی دلداری فرماتے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر بھی شکریہ اداکرتے اور اگلے کا دل موہ لیتے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے کہ جب آپ افریقہ کے دورہ سے واپس تشریف لائے تو خاکسار نے حضورؒ کی خدمت میں مبارک باد کا خط لکھا۔اس پر حضورؒ نے جو جواب عطا فرمایا۔ میرے لیے تو وہ بہت ہی خوشی کا موجب ہوا۔خط میں تحریر تھا۔

’’آپ کی طرف سے تبلیغی مساعی کی رپورٹ موصول ہوئی۔ New Trend نامی اخبار کا تعارف بھی ملا۔ جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء

ماشاء اللہ آپ غانا اور سیرالیون میں اچھا نیک اثر چھوڑ کر آئے ہیں۔ لوگ محبت سے آپ کو یاد کرتے ہیں۔ آپ نے جو رپورٹ بھجوائی ہے وہ بھی ماشاء اللہ بہت خوشکن ہے۔ الحمد للہ۔ انہی لائنوں پر آگے بڑھیں اور تبلیغی مساعی کو تیز کرنے کے لیے جو دو پروگرام آپ نے ترتیب دیے ہیں ان کو عملی رنگ میں انتہا تک پہنچائیں …اور جماعت کے ہر فرد میں تبلیغ کا ایک جنون پیدا کر دیں اور ساری جماعت کو تبلیغی و تربیتی پروگراموں میں Involve کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے اور نمایاں کام کرنے کی توفیق بخشے۔ ‘‘

صد سالہ جلسہ پیشگوئی مصلح موعود

خاکسار کو یہ سعادت بھی ملی کہ ۱۹۸۶ء میں چھٹیوں میں مسجدفضل میں قیام کے دوران پیشگوئی مصلح موعود پر پورے سو سال ہونے پر اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہدایت پر محمود ہال میں جوجلسہ منعقد ہوا اس میں خاکسار کو بھی شمولیت کا موقع ملا۔ اس جلسہ کی چند باتیں جو خاکسار کو یاد ہیں ایک تو یہ تھی کہ حضورؒ اس تاریخی موقع پر پہلی دفعہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا بڑا کوٹ پہن کر تشریف لائے اور معرکہ آراخطاب فرمایا۔ اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ جماعت ان کپڑوں کی حفاظت کرے گی جو آپ علیہ السلام پہنتے تھے اور اس کا طریق کار بھی بیان فرمایا۔

خاکسار نے جلسہ کے اختتام پر حضورؒ کی خدمت میں ایک خط لکھا اور مبارک باد پیش کی۔ نیز یہ بھی لکھا کہ حضورؒ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے کپڑوں کی حفاظت کے لیے جو طریق بھی اختیار کرنا ہے اس کے خرچ پر خاکسار کی طرف سے بھی حصولِ ثواب کی خاطر ۵۰ پاؤنڈ بطور نذرانہ قبول فرما لیں۔

مکرم چودھری ہادی علی صاحب جو اس وقت پرائیویٹ سیکرٹری تھے خاکسار کو ملے اور کہنے لگے کہ حضورؒ نے یہ رقم واپس بھجوائی ہے کہ میں نے اس کام کے لیے کوئی تحریک نہیں کی۔یہ جماعت کی ذمہ داری ہے اور جزاک اللہ کے ساتھ رقم واپس کر دی گئی۔

حضورؒ کی خوشنودی

حضورؒ ہر فردِ جماعت کے کاموں پر خوش ہوتے اور حوصلہ افزائی فرماتے۔ خاکسار بس تین خطوط سے مختصر ہدایات یہاں پر شامل کرنا چاہتا ہے جن میں جہاں پر خوشنودی ہے وہاں پر کچھ اصولی باتوں کا بھی تذکرہ ہے۔ جو سب کے فائدہ کے لیے ہیں:

(ایک خط میں حضورؒ نے تحریر فرمایا)

’’ڈیٹن میں دعوتِ الی اللہ اور تنظیم و تربیت کے کام کو تیز کرنے کے بارہ میں آپ کا خط محررہ ۸۷/۱۲/۲۲ موصول ہے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء

اللہ تعالیٰ آپ کی جملہ مساعی میں برکت ڈالے اور بارآور کرے۔ امریکن لوگوں میں خصوصیت کے ساتھ تبلیغ کے کام کو آگے بڑھائیں۔ احمدی امریکنوں میں سے کثرت سے داعی الی اللہ بنائیں اور ان کو لائحہ عمل دیں اور ہر ایک کے لیے علیحدہ ٹارگٹ مقرر کریں۔ اسی طرح ان کی راہنمائی بھی ساتھ ساتھ کریں۔ آپ نے گِنّی کے بارہ میں خواب لکھی ہے۔ آج صبح ہی میں وکیل التبشیر کو گِنّی کے بارہ میں ہدایات دے رہا تھا۔ شام کو آپ کا یہ خط ملا جس میں گِنّی کے بارہ میں خواب تھی۔ اچھا توارد ہے۔ اللہ تعالیٰ وہاں نفوذ کی راہیں آسان کر دے اور اپنا فضل فرمائے۔ ‘‘

ایک اور خط میں آپؒ نے ہدایت فرمائی:

’’آپ کی ارسال کردہ رپورٹ کارگزاری ۱۲ بیعتوں کے ساتھ موصول ہوئی۔ الحمد للہ، اللّٰہم زد و بارک و ثبت اقدامہم۔ جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔

آپ کی طرف سے جلسہ یوم مسیح موعودؑ کے کامیاب انعقاد کی رپورٹ بھی ملی ہے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ اس پروگرام میں بہت برکت ڈالے اور اس کے بہترین نتائج ظاہر فرمائے۔

آپ نے ان احباب کے نام پیش کئے ہیں جنہوں نے اس جلسہ کو کامیاب بنانے میں تعاون کیا۔ جزاکم اللہ و جزاہم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔ یہ روزمرّہ کا تعاون تو جماعت احمدیہ عالمگیر کا کردار ہے اتنی غیرمعمولی بات تو نہیں کہ خصوصیت سے ایسے لوگوں کے نام پیش کئے جائیں۔ اگر پیش ہی کرنے تھے تو ان کے کرتے جنہوں نے تعاون نہیں کیا۔ اللہ آپ سب کو حکمت کے ساتھ عمدہ رنگ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ اللہ آپ کےساتھ ہو۔‘‘

ایک خط میں آپ نے لکھا:

’’آپ کی خوشکن رپورٹ کارگزاری ماہ شہادت نصف اول موصول ہوئی ہے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ آپ نے بفضلہ تعالیٰ اچھا کام شروع کر دیا ہے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مخلصانہ کوششوں میں بہت برکت ڈالے اور ہمیشہ آپ کی طرف سے دعوت الی اللہ کے تحفے ملتے رہیں۔ سیرۃ النبی ﷺ کے جلسے بہت بابرکت ہیں اور غیراز جماعت احباب ان میں آکر بہت اچھا تاثر لے کر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کوکثرت سے داعی الی اللہ عطا کرے۔ اب ایک دو مبلغوں کا کام نہیں بلکہ ہر فردِ جماعت کو داعی الی اللہ بننا ہے اور اسی سے خداتعالیٰ آپ کے کاموں میں کثرت سے برکتیں نازل فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ تمام دعاۃ الی اللہ کو خصوصاً اور تمام احبابِ جماعت کو عموماً میرا محبت بھرا سلام اور عید مبارک کہیں۔ جزاکم اللہ، کان اللہ معکم۔

کانگرس مین ٹونی ہال سے ملاقات کے بارہ میں آپ کا خط بھی ملا۔ جزاکم اللہ۔ ان سب کو جنہوں نے ذکر کیا ہے میرا بھی محبت بھرا سلام پہنچا دیں۔ جزاکم اللہ

دوائیوں وغیرہ کے سلسلہ میں ان کا رابطہ امریکہ کےاحمدی ڈاکٹروں کے پینل سے کروائیں۔ سیرالیون ان کے سپرد کیا ہے۔ اگر دوائیاں وہاں بھجوانی ہوں تو بورڈ جس حد تک لے سکتا ہے وہ لے لے۔ ٹونی ہال وغیرہ کو زیادہ یہ نہ بتایا کریں کہ کتنے احمدی ہوئے ہیں۔ یہ تو عیسائی ہیں اس لیے ان کو تو تکلیف ہی ہو گی۔ ‘‘

پھر ایک خط میں آپ نے اس طرح ہدایت فرمائی:

آپ کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں جنہیں پڑھ کر خوشی ہوئی کہ آپ بڑی حکمت اور بڑے جذبہ کے ساتھ دعوتِ الی اللہ کے کام میں مصروف ہیں۔ گِنّی کے سفارتخانے سے رابطے کے بارہ میں آپ کی خوشکن رپورٹ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ وہاں نفوذ کے رستے کھولے گا اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے اور انہیں نتیجہ خیز بنائے۔ اپنے ساتھ مقامی احباب جماعت کو بھی مستعد کریں اور کام کو منظم بنیادوں پر آگے بڑھائیں۔ جو رابطے قائم ہوئے ہیں ان کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کوشش جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا معین و مددگار ہو اور آپ کی طرف سے ہمیشہ خوشکن خبریں مجھے ملتی رہیں۔

شفقت کے انداز

ایک مرتبہ حضور نے امریکہ کے دورے کے دوران ڈیٹرائٹ میں جلسہ سالانہ میں شرکت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور حضور کی آمد کی وجہ سے تمام کارکنان نے بڑی محنت سے کام کیا اور جلسہ کامیاب رہا۔ حضور نے واپس جا کر بہت سے لوگوں کو ذاتی طور پر شکریہ اور دلداری اور حوصلہ افزائی کے خطوط لکھے۔ ایک خط اس ناچیز کو بھی لکھا جس میں جماعت کے کارکنان کے کام کی بہت تعریف فرمائی۔

ایک دفعہ دورۂ امریکہ کے دوران حضرت بیگم صاحبہ بیمار تھیں۔ آپ کا آپریشن ہونا تھا۔ کلیولینڈ میں مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نے ہر قسم کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ بلکہ جب پتا چلا کہ حضورؒ کلیولینڈ آرہے ہیں تو مسجد کے ساتھ ایک مکان فروخت ہو رہا تھا تو ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نے فوری طور پر وہ مکان خرید لیاجس میں حضور نے قیام فرمایا۔

ایک دن خاکسار نے حضور کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ اگر پسند ہو تو PIZZAپارٹی ہوجائے۔ حضور نے تجویز پسند فرمائی چنانچہ مکرم نسیم رحمت اللہ صاحب نے نزدیکی پیزا ہٹ (PIZZA HUT)میں جاکر بندوبست کیا۔ برادر مظفر احمد ظفر مرحوم اور دیگر احباب بھی ساتھ تھے۔ حضور نے پسند فرمایا اور اس دوران بھی کئی لطائف اور واقعات سنا کر دلداری فرماتےرہے۔ خاکسار کو اس موقع پر SERVEکرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔

بعد میں حضور انور کینیڈا کے جلسہ کے لیے تشریف لے گئے۔

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لیے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button