حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اس آیت کی ابتدا ہی اللہ تعالیٰ کے نام سے ہوتی ہے

اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ۔(البقرۃ: 256)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ، اس کے سوا اور کوئی معبودنہیں۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور قائم بالذات ہے۔ اسے نہ تو اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند۔ اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے حضور شفاعت کرے مگر اس کے اِذن کے ساتھ۔ وہ جانتاہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ اور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اسی کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے۔ اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں۔ اوروہ بہت بلند شان اور بڑی عظمت والا ہے۔

…اس آیت کی ابتدا ہی اللہ تعالیٰ کے نام سے ہوتی ہے۔ اللہ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’اللہ جو خدائے تعالیٰ کا ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کا مستجمع ہے‘‘۔ فرمایا ’’کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں۔ لیکن جس کو وہ اللہ یاد ہی نہ ہو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا‘‘۔(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۶۳، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

پس جب ایک انسان مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کو سب طاقتوں کا سرچشمہ یقین کرنا چاہئے اور اسے تمام صفات کا اس حد تک احاطہ کئے ہوئے سمجھنے پر ایمان ہونا چاہئے، جہاں تک انسان کے فہم و ادراک کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ جو بے کنار ہے اور جب یہ ایمان ہو گا تو تبھی ہر موقع پر خداتعالیٰ یاد رہے گا۔ بہت سی برائیوں میں انسان اس لئے مبتلا ہو جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے احکامات کے بجا لانے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں سستی اس لئے ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت انسان کو یادنہیں رہتا۔ انسان بھول جاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی ہر لمحہ اور ہر آن مجھ پر نظر ہے۔… پھر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمانے کے بعد کہ اللہ ہی تمہارا معبود ہے اور حقیقی معبود ہے۔ فرمایا اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اپنی ذات میں قائم ہے۔ اور اَلْحَیّ ہونے کی وجہ سے صرف خود ہی ہمیشہ زندہ نہیں رہتا بلکہ تمام جانداروں کو زندگی بخشنے والا ہے۔ اور اَلْقَیُّوْم ہے، صرف خود ہی قائم نہیں ہے بلکہ کائنات کی ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے۔

(خطبہ جمعہ ۵؍جون ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۶؍جون ۲۰۰۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button