خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍ مئی 2024ء

ہرچند کہ غزواتِ نبویؐ پر نظر ڈالنے سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احسن اوربےمثل استعدادوں پر بھی حیران کن روشنی پڑتی ہے جو بحیثیت ایک سالار جیش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اوّل و آخر حیثیت ایک جنگی ماہر کی نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور روحانی سردار کی تھی جس کے ہاتھوں میں مکارمِ اخلاق کا جھنڈا تھمایا گیا تھا(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)

’’تُم کیا کرنے لگے ہو۔ واللہ! مَیں تو ابھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے لشکر کوحمراءالاسد میں چھوڑ کر آیا ہوں اور ایسا بارعب لشکر مَیں نے کبھی نہیں دیکھا اوراُحد کی ہزیمت کی ندامت میں ان کو اتنا جوش ہے کہ تمہیں دیکھتے ہی بھسم کر جائیں گے‘‘ (رئیسِ خزاعہ)

امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت کے جنگی اصول اور رواج کو دیکھا جائے تو اس کے مطابق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمانوں کو میدانِ اُحد میں شکست ہوئی تھی کیونکہ شکست کیسی! یا کفار کو فتح کیسی! مسلمان تو میدان میںہی اس وقت بھی موجود تھے کہ جب آخر کار ابوسفیان محض نعرے لگا کر اپنے لشکر کو لے کر میدانِ اُحد چھوڑ کر مکہ کی طرف روانہ ہو چکا تھا

اُحد کے دن بھی مسلمانوں کو شکست قطعاً نہیں ہوئی تھی۔ ہاں پہلے مرحلے میں ایک واضح فتح کے بعد دوسرے مرحلے میں مسلمانوں کو سخت جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا لیکن انجام کار مسلمان میدانِ اُحد میں ہی قائم و موجود رہے اور کفار مکہ کو مکمل فتح اور جیت حاصل کرنے سے تائید غیبی نے اپنی زبردست طاقت سے روکے رکھا اور باوجود ایک وقتی غلبہ کے وہ مسلمانوں کو مزید نقصان پہنچانے سے محروم رہے اور اس وقت کے جنگی رواج کے مطابق بے نیل و مرام میدانِ اُحد سے واپس چلے گئے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اسلامی سوسائٹی کے مرکزی نقطہ تھے اور جو قریش کی معاندانہ کارروائیوں کا اصل نشانہ تھے خدا کے فضل سے زندہ موجود تھے۔ اس کے علاوہ اکابر صحابہ ؓبھی سوائے ایک دو کے سب کے سب سلامت تھے

یہ نقصان بھی مسلمانوں کے لئے ایک لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوا کیونکہ ان پر یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو گئی کہ رسول اللہؐ کے منشاء اورہدایت کے خلاف قدم زَن ہونا کبھی بھی موجبِ فلاح اور بہبودی نہیں ہو سکتا

غزوۂ اُحد اورحمراء الاسد کےحوالے سے آنحضورﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ نیز غزوۂ اُحد کے انجام کے بارے میں سیر حاصل بحث

دنیا کے حالات اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی صحت کے لیے دعا کی تحریک

دنیا کے حالات اور مسلمانوں کے حالات اور فلسطین کے بارے میں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ گو بظاہر بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر ہے کہ سیز فائر کچھ عرصہ کے لیے ہو جائے لیکن جو حالات نظر آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اگر ہو بھی جائے تو تب بھی فلسطینیوں پر ظلم ختم نہیں ہو گا۔ اس لیے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان فلسطینیوں کو بھی توفیق دے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں

گذشتہ دنوں دل کےوالو کی تبدیلی کا پروسیجر ہواہے۔الحمدللہ ٹھیک ہو گیا۔دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی زندگی دینی ہے فعال زندگی عطا فرمائے

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 03؍ مئی 2024ء بمطابق 03؍ ہجرت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

غزوۂ حمراء الاسد کا ذکر

ہو رہا تھا۔ اس ضمن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غزوہ اُحد سے مدینہ واپسی میں مدینہ اور حمراء الاسد کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے مختلف تاریخ کی کتابوں سے جو اخذ کیا ہے وہ بیان کرتا ہوں۔

لکھتے ہیں کہ ’’یہ رات‘‘ یعنی جنگِ اُحد سے لَوٹنے کے بعد کی رات ’’مدینہ میں ایک سخت خوف کی رات تھی کیونکہ باوجود اس کے کہ بظاہر لشکرِ قریش نے مکہ کی راہ لے لی تھی یہ اندیشہ تھا کہ ان کا یہ فعل مسلمانوں کو غافل کرنے کی نیت سے نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ وہ اچانک لَوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں لہٰذا اس رات کومدینہ میں پہرہ کاانتظام کیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا خصوصیت سے تمام رات صحابہؓ نے پہرہ دیا۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ اندیشہ محض خیالی نہ تھا کیونکہ فجر کی نماز سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع پہنچی کہ قریش کالشکر مدینہ سے چند میل جاکر ٹھہر گیا ہے اوررؤسائے قریش میں یہ سرگرم بحث جاری ہے کہ اس فتح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں نہ مدینہ پرحملہ کردیا جاوے اوربعض قریش ایک دوسرے کوطعنہ دے رہے ہیں کہ نہ تم نے محمد [صلی اللہ علیہ وسلم]کوقتل کیا اورنہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان کے مال ومتاع پرقابض ہوئے، بلکہ جب تم ان پر غالب آئے اورتمہیں یہ موقعہ ملا کہ تم ان کو ملیا میٹ کردو توتم انہیں یونہی چھوڑ کر واپس چلے گئے تاکہ وہ پھرزور پکڑ جاویں۔ پس اَب بھی موقعہ ہے واپس چلو اور مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کی جڑ کاٹ دو۔ اس کے مقابل میں دوسرے یہ کہتے تھے کہ تمہیں ایک فتح حاصل ہوئی ہے اسے غنیمت جانو اور مکہ واپس لوٹ چلو ایسا نہ ہوکہ یہ شہرت بھی کھو بیٹھو اور یہ فتح شکست کی صورت میں بدل جاوے کیونکہ اب اگر تم لوگ واپس لوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہوگے تو یقیناً مسلمان جان توڑ کرلڑیں گے اور جو لوگ اُحد میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ بھی میدان میں نکل آئیں گے۔ مگربالآخر جوشیلے لوگوں کی رائے غالب آئی اورقریش مدینہ کی طرف لوٹنے کے لئے تیار ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان واقعات کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے فوراً اعلان فرمایا کہ مسلمان تیار ہو جائیں مگرساتھ ہی یہ حکم بھی دیا‘‘ یہ تاریخ مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں لیکن اس میں کچھ زائد باتیں ہیں اس لیے دوبارہ بیان کر رہا ہوں ’’کہ سوائے ان لوگوں کے جو اُحد میں شریک ہوئے تھے اَورکوئی شخص ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ چنانچہ اُحد کے مجاہدین جن میں سے اکثر زخمی تھے اپنے زخموں کو باندھ کر اپنے آقا کے ساتھ ہو لئے۔ اور لکھا ہے کہ اس موقعہ پر مسلمان ایسی خوشی اورجوش کے ساتھ نکلے کہ جیسے کوئی فاتح لشکر فتح کے بعد دشمن کے تعاقب میں نکلتا ہے۔ آٹھ میل کا فاصلہ طے کرکے آپؐ حمراء الاسد میں پہنچے جہاں دو مسلمانوں کی نعشیں میدان میں پڑی ہوئی پائی گئیں اورتحقیقات پرمعلوم ہوا کہ یہ وہ جاسوس تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے پیچھے روانہ کئے تھے مگر جنہیں قریش نے موقعہ پاکر قتل کردیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہداء کوایک قبر کھدوا کر اس میں اکٹھا دفن کروا دیا۔ اور اب چونکہ شام ہوچکی تھی آپؐ نے یہیں ڈیرا ڈالنے کاحکم دیا اور فرمایا کہ میدان میں مختلف مقامات پر آگ روشن کر دی جاوے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حمراءالاسد کے میدان میں پانچ سو آگیں شعلہ زن ہو گئیں جو ہر دُور سے دیکھنے والے کے دل کو مرعوب کرتی تھیں۔ غالباً اسی موقعہ پر قبیلہ خزاعہ کا ایک مشرک رئیس معبد نامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے اُحد کے مقتولین کے متعلق اظہار ہمدردی کی اور پھر اپنے راستہ پرروانہ ہو گیا۔ دوسرے دن جب وہ مقام روحاء میں پہنچا توکیا دیکھتا ہے کہ قریش کالشکر وہاں ڈیرا ڈالے پڑا ہے۔ اور مدینہ کی طرف واپس چلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ معبد فوراً ابوسفیان کے پاس گیا اور اسے جا کر کہنے لگا کہ

تُم کیا کرنے لگے ہو؟ واللہ! مَیں تو ابھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے لشکر کوحمراءالاسد میں چھوڑ کر آیا ہوں اور ایسا بارعب لشکر مَیں نے کبھی نہیں دیکھا اوراُحد کی ہزیمت کی ندامت میں ان کو اتنا جوش ہے کہ تمہیں دیکھتے ہی بھسم کر جائیں گے۔

ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں پر معبد کی ان باتوں سے ایسارعب پڑا کہ وہ مدینہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کرکے فوراً مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لشکر قریش کے اس طرح بھاگ نکلنے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپؐ نے خدا کاشکر کیا اورفرمایا کہ یہ خدا کارعب ہے جو اس نے کفار کے دلوں پر مسلط کردیا ہے۔‘‘

اس کا تفصیلی بیان جیساکہ مَیں نے کہا مَیں پہلے بھی کر چکا ہوں یہ اس کا خلاصہ تھا۔

’’اس کے بعد آپ‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’نے حمراء الاسد میں دوتین دن اَور قیام فرمایا اور پھر پانچ دن کی غیر حاضری کے بعد مدینہ میں واپس تشریف لے آئے۔ اس مہم میں قریش کے دوسپاہی جن میں سے ایک غدار اور دوسرا جاسوس تھا مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوئے اور چونکہ قوانین جنگ کے ماتحت ان کی سزا قتل تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کو قتل کر دیا گیا۔ ان میں سے ایک مکہ کامشہور شاعر ابوعُزَّہ تھا جوبدر کی جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہوا تھا پھر اس کے معافی مانگنے اور یہ وعدہ کرنے پر کہ وہ پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف لڑائی کے لئے نہیں نکلے گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلافدیہ چھوڑ دیا تھا مگر وہ غداری کر کے پھر مسلمانوں کے خلاف شریکِ جنگ ہوا اورنہ صرف خود شریک ہوا بلکہ اس نے اپنے اشتعال انگیز اشعار سے دوسروں کو بھی ابھارا۔ چونکہ ایسے آدمی کی غداری مسلمانوں کے لئے سخت نقصان دہ ہو سکتی تھی۔ پس اب جب وہ دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کئے جانے کاحکم دیا۔ ابوعُزَّہ نے پھر پہلے کی طرح زبانی معافی سے رہائی حاصل کرنی چاہی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرماتے ہوئے انکار فرما دیا کہ لَایُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ ’’یعنی مومن ایک سوراخ میں سے دو دفعہ نہیں کاٹا جاتا۔‘‘ (ابن ہشام)دوسرا قیدی مُعَاویہ بن مُغِیرہ تھا۔ یہ شخص حضرت عثمان بن عفانؓ کے رشتہ داروں میں سے تھا مگر سخت معاندِ اسلام تھا۔ جنگِ اُحد کے بعد وہ خفیہ خفیہ مدینہ کے گردونواح میں گھومتا رہا مگر صحابہؓ نے اسے دیکھ لیا اور پکڑ کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا۔ آپؐ نے اسے حضرت عثمانؓ کی سفارش پریہ وعدہ لے کر چھوڑ دیا کہ تین دن کے اندر اندر وہاں سے رخصت ہو جائے واِلّا اسے جاسوسی کی سزا میں قتل کردیا جائے گا۔‘‘ پہلے اس کو وارننگ دے دی تھی کہ تین دن میں چلے جاؤ نہیں تو تم جو جاسوسی کر رہے ہو اس کی سزا تمہارا قتل ہے۔ اگر چلے جاؤ تو ٹھیک ورنہ پھر نہیں۔ ’’معاویہ نے وعدہ کیا کہ مَیں تین دن تک چلا جاؤں گا مگر جب یہ میعاد گزرگئی تو پھر بھی وہ وہیں خفیہ خفیہ پھرتا ہوا پایا گیا جس پراسے قتل کردیا گیا۔ تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہوا کہ اس کی نیت کیا تھی مگر اس طرح خفیہ خفیہ مدینہ کے علاقہ میں رہنا اور باوجود متنبہ کر دیئے جانے کے مقررہ معیاد کے بعد بھی ٹھہرے رہنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی خطرناک ارادے سے وہاں ٹھہرا ہوا تھا اورکوئی تعجب نہیں کہ وہ اُحد کے میدان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچ جانے پر پیچ وتاب کھاتا ہوا مدینہ میں آپؐ کے خلاف کوئی بدارادہ لے کر آیا ہو اوریہود یامنافقینِ مدینہ کی سازش سے کوئی مخفی وارکرنا چاہتا ہو مگر خداتعالیٰ نے حفاظت فرمائی اوراس کی تجویز کارگرنہ ہوئی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 504تا 506)

جنگِ اُحد کے انجام کے بارے میں

بڑی طویل بحثیں کی گئی ہیں۔ بعض سیرت نگار جنگِ اُحد کو شکست یعنی مسلمانوں کی شکست سے تعبیر کرتے ہیں۔ بعض اس کو فتح کہنے سے عموماً کتراتے ہیں اور بین بین اپنی رائے رکھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو ایک شکست کے بعد عمومی طور پر فتح سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ

امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت کے جنگی اصول اور رواج کو دیکھا جائے تو اس کے مطابق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمانوں کو میدانِ اُحد میں شکست ہوئی تھی کیونکہ شکست کیسی! یا کفار کو فتح کیسی! مسلمان تو میدان میںہی اس وقت بھی موجود تھے کہ جب آخر کار ابوسفیان محض نعرے لگا کر اپنے لشکر کو لے کر میدانِ اُحد چھوڑ کر مکہ کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔

اس نے وہاں یہ کھوکھلا نعرہ بھی لگایا کہ آج کا یہ دن بدر کے دن کا بدلہ ہے حالانکہ یہ بھی محض اس کا نعرہ ہی تھا۔ بدر کے دن کا بدلہ کیسے ہو گیا؟ بدر میں کفار کے سپہ سالار سمیت ان کے بڑے بڑے سردار قتل ہوئے تھے اور بدر میں ان کے ستر لوگ اسیر ہوئے تھے۔ بدر میں ایک کثیر مالِ غنیمت مسلمانوں کو حاصل ہوا تھا۔ بدر میں مسلمان جو فاتح تھے وہ حسبِ روایت تین دن تک مقیم رہے اور کفار کا لشکر وہاں سے بھاگا تھا جبکہ اُحد کے دن ان میں سے کوئی ایک بات بھی کفار کو نصیب نہ ہو سکی تو بھلا یہ بدر کا بدلہ کیسے ہو سکتا تھا۔ اس لیے

اُحد کے دن بھی مسلمانوں کو شکست قطعاً نہیں ہوئی تھی ہاں پہلے مرحلے میں ایک واضح فتح کے بعد دوسرے مرحلے میں مسلمانوں کو سخت جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا لیکن انجام کار مسلمان میدانِ اُحد میں ہی قائم و موجود رہے اور کفار مکہ کو مکمل فتح اور جیت حاصل کرنے سے تائید غیبی نے اپنی زبردست طاقت سے روکے رکھا اور باوجود ایک وقتی غلبہ کے وہ مسلمانوں کو مزید نقصان پہنچانے سے محروم رہے اور اس وقت کے جنگی رواج کے مطابق بے نیل و مرام میدانِ اُحد سے واپس چلے گئے۔

اور جب اس سے بالکل اگلے ہی روز حمراء الاسد کی طرف مسلمانوں کے تعاقب کو اس کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو جنگِ اُحد ایک روشن اور واضح فتح کی صورت میں سامنے آتی ہے اور میدانِ اُحد میں ہزیمت کا جو ایک چرکہ لگا وہ بھی مسلمانوں کے لیے اور بعد کے زمانے کے لیے بہت ساری حکمتوں کا باعث بن گیا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’مستقل نتائج کے لحاظ سے تو جنگِ اُحد کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں اور بدر کے مقابل میں یہ جنگ کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن وقتی طورپر ضرور اس جنگ نے مسلمانوں کوبعض لحاظ سے نقصان پہنچایا۔ اوّل ان کے (مسلمانوں کے) ستر آدمی اس جنگ میں شہید ہوئے جن میں سے بعض اکابر صحابہؓ میں سے تھے اور زخمیوں کی تعداد توبہت زیادہ تھی۔ دوسرے مدینہ کے یہود اورمنافقین جو جنگِ بدر کے نتیجہ میں کچھ مرعوب ہوگئے تھے اب کچھ دلیر ہوگئے بلکہ عبداللہ بن اُبَیّ اوراس کے ساتھیوں نے تو کھلم کھلا تمسخر اڑایا اور طعنے دیئے۔ تیسرے قریش مکہ کو بہت جرأت ہو گئی اورانہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ ہم نے نہ صرف بدر کا بدلہ اتار لیا ہے بلکہ آئندہ بھی جب کبھی جتھا بنا کر حملہ کریں گے مسلمانوں کوزیر کر سکیں گے۔ چوتھے عام قبائلِ عرب نے بھی اُحد کے بعد زیادہ جرأت سے سر اٹھانا شروع کیا۔ مگر باوجود ان نقصانات کے یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ جو نقصان قریش کو جنگِ بدر نے پہنچایا تھا جنگِ اُحد کی فتح اس کی تلافی نہیں کرسکتی تھی۔ جنگِ بدر میں مکہ کے تمام وہ رؤساء جو درحقیقت قریش کی قومی زندگی کی روح تھے ہلاک ہوگئے تھے اورجیساکہ قرآن شریف بیان کرتا ہے اس قوم کی صحیح معنوں میں جڑ کاٹ دی گئی تھی اوریہ سب کچھ ایک ایسی قوم کے ہاتھوں ہوا تھا جو ظاہری سامان کے لحاظ سے ان کے مقابلہ میں بالکل حقیر تھی۔ اس کے مقابلہ میں بے شک مسلمانوں کو اُحد کے میدان میں نقصان پہنچا لیکن وہ اس نقصان کے مقابلہ میں بالکل حقیر اورعارضی تھا جو بدر میں قریش کو پہنچا تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اسلامی سوسائٹی کے مرکزی نقطہ تھے اور جو قریش کی معاندانہ کارروائیوں کا اصل نشانہ تھے خدا کے فضل سے زندہ موجود تھے۔ اس کے علاوہ اکابرصحابہ ؓبھی سوائے ایک دو کے سب کے سب سلامت تھے۔

اور پھر مسلمانوں کی یہ ہزیمت ایسی فوج کے مقابلہ میں تھی جواُن سے تعداد میں کئی گنے زیادہ اورسامانِ حرب میں کئی گنے مضبوط تھی۔ پس مسلمانوں کے لئے بدر کی عظیم الشان فتح کے مقابلہ میں اُحد کی ہزیمت ایک معمولی چیز تھی اور

یہ نقصان بھی مسلمانوں کے لئے ایک لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوا کیونکہ ان پر یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو گئی کہ رسول اللہؐ کے منشاء اورہدایت کے خلاف قدم زَن ہونا کبھی بھی موجبِ فلاح اور بہبودی نہیں ہو سکتا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ٹھہرنے کی رائے دی اوراس کی تائید میں اپنا ایک خواب بھی سنایا مگر انہوں نے باہر نکل کر لڑنے پراصرار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اُحد کے ایک درّہ میں متعین فرمایا اور انتہائی تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہوجاوے اس جگہ کو نہ چھوڑنا مگروہ غنیمت کے خیال سے اس جگہ کو چھوڑ کر نیچے اتر آئے اور گو یہ عملی کمزوری ایک محدود طبقہ کی طرف سے ظاہر ہوئی تھی مگر چونکہ انسانی تمدن سب کو ایک لڑی میں پروکر رکھتا ہے اس لئے اس کمزوری کے نتیجہ میں نقصان سب نے اٹھایا جیساکہ اگر کوئی فائدہ ہوتا تو وہ بھی سب اٹھاتے۔‘‘ پس یہ بھی ایک اصولی بات ہے۔ بعض لوگوں کی کمزوریوں سے بعض دفعہ پورے معاشرے کو نقصان پہنچتاہے۔ اسی طرح فائدے سے پورے معاشرے کا ایک اچھا اثر قائم ہوتا ہے۔ اب ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے حق میں بہت سارے لوگ بولتے ہیں۔ اب سوفیصد احمدی تو اعلیٰ معیار کے نہیں ہیں لیکن جو چند ایک ہیں، جن کا اچھا اثر ہے ان کی وجہ سے باقیوں کو بھی لوگ اچھے معیار کا سمجھتے ہیں۔

’’پس اُحد کی ہزیمت اگرایک لحاظ سے موجب تکلیف تھی تودوسری جہت سے وہ مسلمانوں کے لئے ایک مفید سبق بھی بن گئی اور تکلیف ہونے کے لحاظ سے بھی وہ ایک محض عارضی روک تھی جو مسلمانوں کے راستے میں پیش آئی اور اس کے بعد مسلمان اس سیلابِ عظیم کی طرح جو کسی جگہ رک کر اور ٹھوکر کھا کر زیادہ تیز ہوجاتا ہے نہایت سرعت کے ساتھ اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھتے چلے گئے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 506-507)

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اپنی ایک تقریرمیں جنگِ اُحد کے بعد کے واقعات کا جو تجزیہ کیا ہے اس کے کچھ نکات یہ ہیں: نمبر ایک یہ کہ مسلمانوں سے احساس شکست کو کلیةً مٹانے کے لیے اس سے بہتر اَور کوئی اقدام ممکن نہ تھا کہ انہیں بلا توقف از سرِ نو مقابلے کے لیے میدانِ قتل میں لے جایا جاتا۔

نمبر دو یہ کہ تازہ دم نوجوانوں اور نئے مجاہدین کو ساتھ چلنے کی اجازت نہ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ آپؐ ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے اس دعوے اور یقین میںسچے تھے کہ آپؐ کا اصل توکّل اپنے رب پر ہی ہے اور وہ یقیناً آپؐ کی نصرت پر قادر ہے۔

نمبر تین اس فیصلے کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان صحابہؓ کی دلداری فرمائی جن کے پاؤں میدانِ اُحد میں اکھڑ گئے تھے اور ان پر اس مکمل اعتماد کا اظہار فرمایا کہ وہ درحقیقت پیٹھ دکھانے والے نہیں تھے بلکہ اچانک ناگزیر حالات سے مجبور ہو گئے تھے۔

…انسانی جنگوں کی تاریخ میں ایک بھی مثال ایسی نظر نہیں آتی کہ کسی جرنیل نے اپنی فوج پر اتنےمکمل اعتماد کا اظہار کیا ہو جبکہ وہی فوج صرف چند گھنٹے پہلے اسے تنہا چھوڑ کر میدان سے ایسے فرار اختیار کر چکی ہو کہ چند جاںنثاروں کے سوا ان کے پاس کچھ بھی نہ رہا ہو۔

نمبر چار یہ امر کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سوفیصد اعتماد درست تھا اور کوئی جذباتی فیصلہ نہ تھا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ بلا استثنیٰ اُحد کے وہ سب مجاہدین پورے عزم اور جوش کے ساتھ اس انتہائی خطرناک مہم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے جن میں چلنے پھرنے کی سکت موجود نہ تھی اور کسی ایک نے بھی یہ کہہ کر منہ نہ موڑا کہ یہ مہم خود کشی کے مترادف ہے اور یہ اعتراض نہ کیا کہ ایک دفعہ بمشکل جان بچانے کے بعد پھر اس قوی اور جابر دشمن کے چنگل میں ازخود پھنس جانا کہاں کی دانائی ہے؟ …محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کا اُحد کے دوسرے روز ہی دشمن کے تعاقب کا فیصلہ اپنے ساتھیوں پر ایک ایسا عظیم احسان ہے کہ کبھی کسی سالار نے اپنی فوج پر نہیں کیا کہ ان کے زخمی کردار کو آن کی آن میں ایسی کامل شفا بخش دی ہو۔ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔

نمبر پانچ یہ کہ بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ سلم کا یہ اقدام محض نفسیاتی اور اخلاقی فوائد کا حامل نہیں تھا بلکہ فوجی نکتہ نگاہ سے بھی انتہائی کارآمد ثابت ہوا اور اس سے دشمن ایک اَور شدید تر حملے سے باز آ گیا بلکہ اس حال میں واپس لوٹا کہ فتح کی ترنگ کے بجائے بُری طرح مرعوب ہو چکا تھا۔ پس بغیر مزید نقصان کے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اپنی حکمت اور تدبرکے طفیل متعدد عظیم الشان فوائد حاصل کیے۔ آپؒ لکھتے ہیں کہ

ہرچند کہ غزواتِ نبویؐ پر نظر ڈالنے سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احسن اوربے مثل استعدادوں پر بھی حیران کن روشنی پڑتی ہے جو بحیثیت ایک سالارِ جیش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اوّل و آخر حیثیت ایک جنگی ماہر کی نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور روحانی سردار کی تھی جس کے ہاتھوں میں مکارمِ اخلاق کا جھنڈا تھمایا گیا تھا۔

یہ بہت اہم چیز ہے۔ اعلیٰ اخلاق کا جھنڈا بلند رکھنے اور بلند تر کرتے جانےکے بعدجس عظیم جہاد میں مصروف تھے وہ ایک مسلسل کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا مجاہدہ تھا جو امن کی حالت میں بھی اسی طرح جاری رہا جیسے جنگ کے حالات میں۔ دن کو بھی آپؐ نے اس عَلَم کی حفاظت کی اور رات کو بھی۔ دشمن بارہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ کے صحابہؓ کو شدید جسمانی ضربات پہنچانے اور المناک چرکے لگانے میں کامیاب ہو جاتا رہا مگر اس عَلَمِ اخلاق پر آپؐ نے کبھی ادنیٰ سی آنچ نہ آنے دی اور اس کو کوئی گزند نہ پہنچنے دیا۔ ان سب کے باوجود آپؐ کے اعلیٰ اخلاق جو تھے ان کا مظاہرہ ہمیشہ نظر آتا ہے۔ اس وقت بھی یہ جھنڈا آپؐ کے مقدس ہاتھوں میں بڑی شان کے ساتھ آسمانی رفعتوں سے ہمکنار تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن شدید زخموں سے نڈھال ہو کر اُحد کی اس پتھریلی زمین پر گر رہا تھا۔ اس وقت بھی یہ جھنڈا ایک عجیب شانِ بےنیازی کے ساتھ آپؐ کے ہاتھ میں لہرا رہا تھا جب چاروں طرف صحابہؓ کے بدن کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ پس خُلقِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان صحابہؓ کے اخلاق کا جہاد جو آپؐ کے ساتھ تھے اُحد کے قتال کے شانہ بشانہ بڑی قوت اور زور کے ساتھ جاری رہا اور فاتح اعظم حضر ت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر بار ہر اخلاقی معرکے میں عظیم فتح نصیب ہوئی۔ ان ہولناک زلازل کے وسط میں سے ہو کر آپؐ بسلامت نکل آئے جو اخلاق کی بڑی بڑی مضبوط عمارتوں کو بھی مسمار کردینے کی طاقت رکھتے ہیں۔

(ماخوذ از خطابات طاہر خطابات قبل از خلافت صفحہ 331تا335)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’اُحد کی جنگ میں بظاہر فتح کے بعد ایک شکست کا پہلو پیدا ہوا مگر یہ جنگ درحقیقت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان تھا۔ اِس جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسلمانوں کو پہلے کامیابی نصیب ہوئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپؐ کے عزیز چچا حمزہؓ لڑائی میں مارے گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق شروع حملہ میں کفار کے لشکر کا علمبردار مارا گیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خود آپؐ بھی زخمی ہوئے اور بہت سے صحابہؓ شہید ہوئے۔ اِس کے علاوہ مسلمانوں کو ایسے اخلاص اور ایمان کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا جس کی مثال تاریخ میں اَور کہیں نہیں ملتی۔ ‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد 20صفحہ 253)

اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ

جنگِ اُحد بڑی بھاری فتح تھی۔

اس جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیم و تربیت کے کام کو دوبارہ شروع فرمانا کس طرح ہوا، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اِس لڑائی میں بہت سے مسلمان مار ے بھی گئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے لیکن پھر بھی اُحد کی جنگ شکست نہیں کہلا سکتی … یہ ایک بہت بڑی فتح تھی ایسی فتح کہ قیامت تک مسلمان اس کو یاد کر کے اپنے ایمان کو بڑھا سکتے ہیں اور بڑھاتے رہیں گے۔ مدینہ پہنچ کر آپؐ نے پھر اپنا اصل کام یعنی تربیت اور تعلیم اور اصلاحِ نفس کا شروع کر دیا۔ مگر آپؐ یہ کام سہولت اور آسانی سے نہیں کر سکے۔ اُحد کے واقعہ کے بعد یہود میں اَور بھی دلیری پیدا ہو گئی اور منافقوں نے اَور بھی سر اٹھانا شروع کر دیا اور وہ سمجھے کہ شاید اِسلام کو مٹا دینا انسانی طاقت کے اندرکی بات ہے۔ چنانچہ یہودیوں نے طرح طرح سے آپؐ کوتکلیفیں دینی شروع کر دیں۔ گندے شعر بنا کر ان میں آپؐ کی اور آپؐ کے خاندان کی ہتک کی جاتی تھی۔ ایک دفعہ آپؐ کو کسی جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے یہودیوں کے قلعہ میں جانا پڑا تو انہوں نے ایک تجویز کی کہ جہاں آپؐ بیٹھے تھے اس کے اوپر سے ایک بڑی سِل گرا کر آپ شہید کر دیئے جائیں مگر خدا تعالیٰ نے آپؐ کو وقت پر بتا دیا اور آپؐ وہا ں سے بغیر کچھ کہنے کے چلے آئے۔ بعد میں یہودیوں نے اپنے قصور کو تسلیم کر لیا۔‘‘

( دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد 20صفحہ 257)

غزوۂ اُحد کے فوری بعد کے واقعات اور غزوہ حمراء الاسد کا بیان یہاں ختم ہوتا ہے۔

دنیا کے حالات اور مسلمانوں کے حالات اور فلسطین کے بارے میں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ گو بظاہر بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر ہے کہ سیز فائر کچھ عرصہ کے لیے ہو جائے لیکن جو حالات نظر آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اگر ہو بھی جائے تو تب بھی فلسطینیوں پر ظلم ختم نہیں ہو گا۔ اس لیے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان فلسطینیوں کو بھی توفیق دے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں۔

بہرحال

ان حالات نے متکبروں کے غرور توڑنے کے بھی سامان پیدا کر دیے ہیں

اور اب لگ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے غرور توڑنے کے سامان پیدا کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ کب مکمل طور پر یہ کام مکمل ہوتا ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن بہرحال

ان کا یہ تکبر اب ٹوٹنا شروع ہو گیا ہے۔

ان کے اندر سے ہی ان کے مخالفین پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں۔

امریکہ میں بھی احتجاج ہو رہے ہیں۔ اب طاقت کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ احتجاج بند کریں لیکن پھریہ چنگاریاں بھڑکیں گی۔ عارضی طور پر رکیں گی بھی تو پھر بھڑک جائیں گی۔

اللہ تعالیٰ دنیا کی بڑی طاقتوں کو عقل دے اور انصاف سے کام لیں۔

اپنے لیے ان کے اَور اصول ہیں اور دوسروں کے لیے اَور۔

یہی چیز پھر ایک وقت میں آ کے یو این کے ٹوٹنے کا باعث بھی بن جائے گی۔

دوسری دعا جس کے لیے مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ اپنے لیے ہے۔

ایک عرصہ سے مجھے دل کے والو (valve)کی تکلیف تھی ڈاکٹر پروسیجر(procedure) کا کہا کرتے تھے لیکن مَیں ٹالتا رہتا تھا۔ اب ڈاکٹروں نے کہا، ایسی سٹیج آ گئی ہے کہ مزید انتظار مناسب نہیں۔ چنانچہ ان کے کہنے پر گذشتہ دنوں والو کی تبدیلی کا پروسیجر ہواہے۔الحمدللہ ٹھیک ہو گیا۔ اور اس لیے مَیں چند دن ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق مسجد بھی نہیں آسکا۔ جیساکہ مَیں نے کہا

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اب جو پروسیجر ہونا تھا وہ اللہ کے فضل سے میڈیکلی کامیاب ہے۔

دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی زندگی دینی ہے فعال زندگی عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍ مئی ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button