حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ جرمنی کے ایک وفد کی ملاقات

مورخہ ۱۲؍مئی۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جرمنی سے آئی ہوئی ستّر سے زائد ناصرات الاحمدیہ کے ایک وفد کو، اسلام آباد (ٹلفورڈ )ميں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ناصرات نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کے لیے جرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اُس کے جرمن زبان میں ترجمہ سے ہوا۔بعد ازاں ناصرات کے اس سفر کے متعلق ایک رپورٹ پیش کی گئی۔ جس کے بعد ناصرات کو حضور انور سے مختلف سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کو اپنی زندگی میں وہ اہمیت کیسے دے سکتی ہوں جس کا وہ حق دار ہے؟

اس پر حضور انور نے استفہامیہ انداز میں فرمایا کہ کیا تمہیں یہ پتا ہے کہ تمہیں سب کچھ دینے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے جن کی تم عبادت کرتے ہو یا جن کو تم سمجھتے ہو کہ وہ بہت کچھ دینے والے ہیں اصل میں وہ کچھ نہیں دیتے۔ رب العالمین مَیں ہوں۔ مَیں تمہارا ربّ ہوں۔ مَیں تمہیں پالنے والا ہوں۔مَیں نے تمہاری پیدائش سے پہلے تمہارے لیے انتظام کیا۔ جب تم پیدا ہونے والی تھی ،تمہاری ماں کے ذریعہ تمہارے دودھ کا انتظام کیا۔پھر تمہاری پرورش کرنے کے لیے تمہاری ماں کا انتظام کیا جو تمہاری نگہداشت کرتی ہے۔ پھر اس نے ہر طرح تمہارا خیال رکھا۔پھر تمہارے ماں باپ نے تمہاری تعلیم کا خیال رکھا، تمہیں پڑھانے کے لیے کوشش کی۔یوں اللہ تعالیٰ نے تمہیں پڑھنے کی توفیق دی۔ یہ چیزیں یاد رکھو تو تمہیں پتا لگے گا کہ اللہ تعالیٰ ربّ ہے، پالنے والا ہے تو مَیں اس کی شکر گزار بنوں۔ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے، عبادت ہے۔ جب شکرگزاری کرو گی تو اللہ میاں کہتا ہے کہ اگر میری شکر گزاری کرنی ہے تو میں طریقہ بتاتا ہوںکہ تم کیا کرو۔ تم یوں کرو کہ پانچ وقت نمازیں پڑھا کرو۔ اور اس میں جہاں مسنون دعائیں یا قرآنی دعائیں ہیں، وہ کرو۔ اس کے علاوہ سجدے میں جاکر، رکوع میں جاکرمیرا شکر ادا کرو کہ میں نے تمہیں پیدا کیا اور اس کے بعد پھر تمہاری پرورش کا انتظام کیا۔تمہیں پالنے کا انتظام کیا۔ تمہیں اچھے ماں باپ دیے جو تمہاری تعلیم کا بھی خیال رکھتے ہیں، تمہارے کپڑوںاورلباس کا خیال رکھتے ہیں۔ تمہارے آنے جانے کا خرچہ انہوں نے دیا۔اب یہاں آئی ہو توپیسے انہی سے لے کے آئی ہو۔ تو اس طرح اللہ کا شکر ادا کرو۔جب یہ خیال آئے گا کہ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے میرے لیے پیدا کی ہیں تو اللہ کی عبادت کا حق بھی ادا ہو گا اور اللہ کی شکرگزاری بھی زیادہ پیدا ہو گی۔

ایک ناصرہ نے قرآن کریم کی سورة المائدہ کی آیت نمبر ۵۲ کے حوالے سے سوال کیا کہ اس کے مطابق ہمیں عیسائیوں یا یہودیوں کو دوست کیوں نہیں بنانا چاہیے؟

اس پرحضور انورنے فرمایا کہ سارا قرآن شریف پڑھو،صرف ایک آیت نہ پڑھو۔ اس سے پہلے اللہ میاں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اتارا ہے۔مومنوں کو ہدایت کا رستہ دکھایا جو احسن دین ہے۔ سب سے بہتر دین تمہارے لیے پیدا کیا ہے ۔اب اگر تم خوف کے مارے ان کو دوست بناؤ گے تو تم غلط کرو گے۔ دوسری جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ان کو ایسا دوست نہ بناؤ کہ مومنوں سے پرے ہٹ کے ان کو دوست بنا لو اور مومنوں کی باتیں نہ مانو،قرآن کریم کی بات نہ مانو،دین کی بات نہ مانو۔ جماعت جو اچھی باتیں تمہیں کہتی ہے وہ نہ مانو اور کہو کہ سکول میں میری سہیلی یہ باتیں کہتی تھی ،چاہے اس سہیلی کو دین کا پتا ہی نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کو مانتی ہی نہیں ہے۔نہ اللہ کا پتا ہے،نہ رسول کا پتا ہے، نہ عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم پر عمل کرتی ہے۔ وہ عبادت کرنے نہیں جاتے۔ دین کو وہ چھوڑ بیٹھے ہیں۔ تو جب تم دوست بناؤ گے تو ان کی دوستی کا اثر تمہارے پہ ہو گا۔پھر تم بھی دین سے دُور ہٹتے جاؤ گے۔

اللہ میاں نے دوست بنانے سے منع نہیں کیا۔اگر تم دوست بناؤ گی، واقف بناؤ گی، قریبی تعلق پیدا کرو گی تبھی تم تبلیغ کر سکتی ہو۔ جب تم ان سے دور رہو گی کہ میرے قریب نہ آنا،تو پھر تم تبلیغ کس طرح کرو گی؟ تو یہاں اللہ میاں کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ جو دین سے دور ہٹے ہوئے ہیں،ان کو دوست نہ بناؤ اور کسی سے خوفزدہ نہ ہو۔ ساری آیت پڑھو۔ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہی فتح دینی ہے، تم نے ہی کامیاب ہونا ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ یہ دنیا والے کامیاب ہو جائیں گے۔ آخر کامیابی تمہاری ہی ہے۔ اس لیے ان برے لوگوں سے بچو۔

ایک دفعہ غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک سکھ آیا۔ اس نے کہا کہ میں دین سے دور ہٹ رہا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم سکول یا کالج میںجس کرسی پہ بیٹھتے ہوتو تم اپنا ڈیسک چینج کر لو۔ اپنی چیئر تبدیل کر لو۔ تم پیچھے کسی اور کے ساتھ بیٹھو جو اچھا دیندار ہے۔ تھوڑے دنوں کے بعداس نے آکر بتایا کہ جب سے میں نے اپنی کرسی تبدیل کی، اپنی سیٹ بدل لی ہےاور اس کے ساتھ نہیں بیٹھتا تو میرے خیالات جو atheistخیالات ہوتے تھے، دہریہ خیالات ہو رہے تھے، خدا کو نہ ماننے کے خیالات ہو رہے تھے، دین سے دُور ہونے کے خیالات آرہے تھے ،وہ سب ٹھیک ہو گئے ہیں کیونکہ میرا جو classmateہے جس کے ساتھ میں بیٹھتا ہوں وہ دیندار ہے۔

اس لیے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ جب تم برے لوگوں کو دوست بناتے ہو تووہ تمہارے پہ اثر انداز ہو جاتے ہیں۔ نہ بھی کوئی بات کریںتب بھی لاشعوری طور پر تم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے دوست بناؤ جو اچھے ہوں ،دیندار ہوں، اچھے اخلاق کے ہوں۔ بعض لوگوں میں دین نہیں ہوتا لیکن اخلاق اچھے ہوتے ہیں۔ وہ تمہاری باتیں سنتے ہیں۔ تمہیں appreciate کرتے ہیں، تمہیں تنگ نہیں کرتے۔ سکول میں bully نہیں کرتے۔ ان لوگوں کو دوست بنایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہاں مراد یہ ہے کہ برے لوگوں کو دوست نہ بناؤ کیونکہ ان لوگوں میں سے اکثر کافر ہیں۔ ان سے برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ بُت پرست ہیں، شرک کرنے والے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ تمہیں دین سے ہٹا دیں اور تم بھی ان جیسے ہو جاؤ۔ اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے۔لیکن دوسری جگہ یہ بھی فرمایا کہ ان کو دوست بناؤ اور ان کو تبدیل کرو۔جو تمہارے دشمن ہیں ان کو تبلیغ کرو۔ ان کو اتنا دوست بناؤ کہ گویا وہ تمہارے بہت گہرے خونی رشتہ دار ہیں۔ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۔ ان سے گہری دوستی ہو جائے گی۔ دوستی کا مطلب یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ہر ایک سے دوستی بند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ان سے دوستی نہیں کرنی جن کے اخلاق برے ہیں، جو morallyاچھے نہیں ہیں کیونکہ وہ پھر تمہیں بگاڑ دیں گے۔ لیکن جو اچھے لوگ ہیں ،جن کے اخلاق اچھے ہیں، چاہے وہ تمہارا مذہب نہیں بھی مانتے تب بھی ان کو دوست بنا لو۔وہ اچھے اخلاق کی وجہ سے تمہارے قریب آئیں گے۔ جب تمہارے قریب آئیں گے تو پھر تمہارے لیے تبلیغ کا رستہ کھلے گا۔ پھر ان کو تبلیغ کر کے تم دین کی باتیں سکھا سکو گی۔ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ کسی کو بھی دوست نہیں بنانا۔ بلکہ یہاں مراد یہ ہے کہ ایسے کافروں کو جو تمہیں دین سے دور ہٹانے والے ہیں ان کو دوست نہ بناؤ۔

ایک ناصرہ نے حضور انور سے قبر کے عذاب کے حوالے سے پوچھا کہ اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

اس پرحضور انور نے فرمایا کہ قبر کے عذاب سے مرا دیہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد قبر میں ہی ہوتا ہے۔تو ظاہری طور پر ایک مثال دی ہوئی ہے۔ حساب کتاب مرنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ قبر میں جاتا ہے تو اس کا حساب کتاب شروع ہو جاتا ہے۔روح آسمان پہ چلی جاتی ہے۔تو قبر کے عذاب سے یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے سے سوال جواب زیادہ نہ کرے۔ ہمارا جسم تو قبر میں پڑا ہوا ہے لیکن ہماری روح سے اس طرح کا سلوک کرے کہ اسے سزا نہ ملے اور اللہ تعالیٰ ہمیں بخش دے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ ہم نیک کام کریں۔

اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میری عبادت کرو تو اس کی عبادت کریں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے تم اچھے اخلاق دکھاؤ، دوسروں کا خیال رکھو، غریبوں کا خیال رکھو، یتیموں کا خیال رکھو۔ تو تم ان کا خیال رکھو اور لوگوں سے اچھی طرح ملو۔ دوسروں سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ تو یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ عبادت کے رنگ میں ہی ہوتی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کا بھی حق ادا کر رہے ہو گے اور بندوں کا حق بھی ادا کر رہے ہو گے تو اللہ تعالیٰ کو سزا دینے کی ضرورت کیا ہے۔ لیکن پھر بھی خوف رہتا ہے کہ ہمارے سے کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ اس لیے یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قبر کے عذاب سے بچائے۔ ہمارے سے مرنے کے بعد کوئی ایسا سوال نہ کرے جس سے ہمیںعذاب ملے۔ یہ ایک metaphorہے، تمثیلی بات ہے۔ایک مثال دی ہوئی ہے کہ قبر میں انسان جاتا ہے تو انسان کا جسم قبر میں ہوتا ہے۔روح تو اسی وقت نکل کے آسمان پہ چلی جاتی ہے۔عذاب ملنا ہے تو اللہ تعالیٰ اس روح کو ایک نیا جسم دیتا ہے،تب اس کو عذاب ملتا ہے۔ اِس جسم کو تو عذاب نہیں ملتا۔ جسم تو یہیں رہ گیا۔ تو ایک مثال دی ہوئی ہے تمہیں سمجھانے کے لیے کہ جب تم مر گئے ،قبر میں چلے گئے تو پھر وہاں سزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سزا اس قبر میں نہیں مل رہی ہوتی۔سزا تو اس روح کو مل رہی ہوتی ہے جو اوپر چلی جاتی ہے لیکن اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قبر سے دے دی کیونکہ تم صرف قبر کے جسم کو جانتی ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے،ہمارے سے ایسا حساب کتاب نہ لے جس سے ہم پریشان ہو جائیں۔

ایک ناصرہ نے جماعت کے معاشرے پر مثبت اثرات ڈالنے کے طریقوں کے بارے میں حضور انور سے استفسار کیا۔

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اگر آپ نیک ہیں اور اپنی دعاؤں میں مخلص ہیں، تو اللہ تعالیٰ آپ کے اچھے اعمال کو برکت بخشے گا۔

اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور نےفرمایا کہ یتیموں کی دیکھ بھال کرنا، دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا اور اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنا یہ سب اس میں کردار ادا کرتے ہیں۔ مزید برآں فرمایا کہ سکول اور حصول تعلیم میں عمدہ کارکردگی دکھانا اور علمی کاموں پر توجہ مرکوز کرنا،دوسروں کے سامنے اچھے اخلاق کی نمایاں مثال بن سکتا ہے۔انسانیت کی خدمت میں مشغول رہنا، فلاحی کاموں میں حصہ لینا اور دوسروں کی فلاح و بہبود میں مثبت کردار ادا کرتے رہنا نہایت اہم اور ضروری ہے۔

حضور انور نے جرمنی کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ وہاں بہت سے لوگ احمدیوں کو دوسرے مسلمانوں سے مختلف سمجھتے ہیں۔فرمایا کہ جرمنی میں مساجد کے افتتاح کے دوران اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ احمدیوں کو اچھے اور نیک افراد کے طور پر پہچانا جاتا ہے، جو معاشرے پر مثبت اثرات ڈال رہے ہیں۔

سوال کے آخر پر حضور نے فرمایا کہ اپنے اندر نیکی پیدا کریںتو آپ لاشعوری طور پر معاشرے پر مثبت اثر ڈالیں گے۔

ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ جب حضور انور خوش ہوتے ہیں یا پریشان ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟

اس پرحضور انور نے مسکراتے ہوئےفرمایا کہ خوش ہوتے ہیں تب بھی وہی کرتے ہیں اور جب پریشان ہوتے ہیں تب بھی وہی کرتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں تو اللہ کا شکر کرتے ہیں۔ پریشان ہوتے ہیں تب بھی اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔اس کے علاوہ ہمارے پاس ہے کیا؟

ایک ناصرہ نے کہاکہ میرا سوال یہ ہے کہ میری کلاس فیلو کہتی ہے کہ اسلام میں مرد اور عورت کو برابر نہیں سمجھا جاتا کیونکہ مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے اور عورت کو نہیں ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کو کہو کہ عورت کو اگرچار شادیوں کی اجازت مل گئی تو عورت تو پریشان ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اس کی فطرت کے مطابق طاقت دی ہوئی ہے۔شادیاں کسی مقصد کے لیے ہیں۔ مردوں کو کھلی چھٹی نہیں دی ہوئی۔ مرد کہتے ہیں کہ ہمیں چار شادیوں کی اجازت مل گئی۔ اس طرح چار شادیوں کی اجازت نہیںبلکہ بڑی conditionsہیں۔ سب سے پہلی، اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر دین کےلیے ضرورت ہو جس طرح انبیاء کو ضرورت ہوتی ہے وہ زیادہ شادیاں کرتے ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دین کے پھیلانے کے لیے شادیاںکیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین کا آدھا علم عائشہ سے سیکھو۔ اتنی importanceدے دی عورت کو کہ دین کا آدھا علم عورت سے سیکھنے کو کہہ دیا۔کیایہ importance نہیں ہے؟ اس سے زیادہ اور کیا importanceہو سکتی ہے؟ پھر شادیاں اس لیے کیں تا کہ دین کو پھیلانے میں عورت کردار ادا کرے کیونکہ عورتوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

پھر بعض دفعہ ڈاکٹر کہہ دیتے ہیں کہ عورت کی اولاد نہیں ہو سکتی تو اولاد کے لیے عورت کی اجازت سے مرد شادی کر سکتا ہے۔ تو اگریہ وجوہات قائم ہوں تب توٹھیک ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے عورت کویہ حق دیا اور جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑا واضح لکھا ہے کہ عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ سمجھتی ہے کہ مرد کسی وقت شادی کر سکتا ہے تو وہ شادی سے پہلے اس سے لکھوا لے کہ تم میرے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کرو گے چاہے میری اولاد ہو یا نہ ہو۔چاہے میں بیمار ہوں یا نہ ہوں جب تک میں زندہ ہوںتم شادی نہیں کرو گے۔ پھروہ مرد پابند ہے کہ جو bondاس نے لکھا ہوا ہے اس کی پابندی کرے۔یہ شرط لکھی جا سکتی ہے۔ شادی سے پہلے یہ شرط کر لو تو کوئی مرد دوسری شادی نہیں کرے گا۔کرے گا تو وہ پکڑا جائے گااور اللہ کی نظر میں گنہگار ٹھہرے گا۔

عورت کی فطرت ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ وہ اس طرح شادیاں نہ کرے۔ اس سے برداشت ہی نہیں ہوتا۔ اس کی اللہ تعالیٰ نے ایک اَور فطرت بنائی ہے۔ وہ یہی چاہتی ہے کہ اس کا ایک خاوند ہو اور وہ اسی سے محبت کرے۔لیکن مرد کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات رکھی ہے تبھی عورتیں کم دوستیاں کرتی ہیں اورمرد نکاح کے بندھن سے باہرزیادہ دوستیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ گوبعض عورتیں بھی خراب اور کرپٹ ہوتی ہیں جو اپنے شادی شدہ خاوندوں کے علاوہ بھی دوستیاں رکھتی ہیں۔ باہر معاشرے میں یہی نظر آتا ہےجس سے برائیاں بھی پھیلتی ہیں۔ تو ان برائیوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ بجائے اس کے کہ گناہوں میں پڑو بہتر ہےکہ چار شادیاں کر لو۔ لیکن عورت کی فطرت میںایسا نہیں۔ جب تم پندرہ سال کی ہو جاؤ گی توکسی عورت سے تم پوچھ لو، جا کر اس کا انٹرویو لے کر پوچھو کہ کیا تم چاہتی ہو کہ تمہارے دو خاوند ہوں؟ مسکراتے ہوئے حضورنےفرمایا کہ پھر وہ تمہارے منہ پہ چپیڑ مارے گی۔ لیکن مرد ایسےنہیں کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کی جو فطرت بنائی ہے اس کے مطابق اس نے حق بھی دے دیا ہے۔ جو فطرت ہے ہی نہیں انسان کی وہ اس کا حق کس طرح ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ابھی بھی دنیا میں ایسے قبیلے ہیں۔ انڈیا کے بعض ریموٹ علاقوں میں یا بعض آئی لینڈز ہیں جہاں عورتیں حکومت کرتی ہیں اور عورت کے دودو تین تین خاوند ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ کہتا ہے کہ یہ تمہاری فطرت نہیں ۔اور وہ تنگ ہی آئے ہوتے ہیں۔ ان کو پتا نہیں لگتا کہ اولاد کس کی ہے۔ مرد کی اولاد کا تو پتا لگ جاتا ہے کہ کس کی اولاد ہے۔ عورت کی اگرکئی شادیاں ہوں گی تو پتا نہیں لگے گا کہ کس کے بچے ہیں۔فلاں مردکے ہیںیا فلاں مردکے۔ پھر ایک فساد پیدا ہو جائے گا۔ پھر جہاں پراپرٹی کا سوال آئے گا توہر بچہ کہے گا مجھے بھی دو۔ تو ان جھگڑوں سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فطرت کے مطابق،اور ہر جانور میں یہ فطرت ہے، اس نےتمہیں حق دیا ہے لیکن اس میں شرطیں لگا دی ہیں۔ ان شرطوں پر پورا اترو گے تو ٹھیک ہے۔

ایک پندرہ سال کی ناصرہ نے حضور انور سے سوال کیا کہ اگر کوئی جو آپ کے اوپر اتھارٹی رکھنے والا ہو جیسا کہ والدین یا ٹیچر، ان کے ساتھ اگر کوئی جھگڑا یا اختلاف ہو تو اس صورت میں مجھے کس طریق سے پیش آنا چاہیے؟ خاص طور پر جب ہم دونوں کو لگ رہا ہو کہ ہم دونوں کا نظریہ درست ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا تمہارا تجربہ صرف پندرہ سال کا ہے، بلکہ سات سال نکال دو تو نو سال کا تجربہ ہے۔ اس کے مقابل پر تمہارے ٹیچر یا والدین بڑی عمر کے ہیں اوران کا تمہارے سے experienceزیادہ ہے۔ ان کو پتا ہے کہ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ یہ چیز غلط ہے اور اس کے لیے کوئی argumentبھی ہونا چاہیے۔ اور اگر وہ کوئی دلیل دیتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ نہیں ہم ٹھیک ہیں اور تمہاری بات صحیح بھی ہو اور وہ غلط کہتے ہیں تو تم ان سے کہو کہ مجھے ثابت کر دیں تو میں مان لیتی ہوں۔بحث برائے بحث for the sake of argument نہیں کرنا چاہیے۔ ان کو کہو کہ مجھے سمجھا دیں۔اگر کوئی اصولی بات ہے اور وہ پھر بھی کہیں کہ نہیں ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں تو پھر کہو کہ میں بھی دعا کرتی ہوں آپ بھی دعا کریں۔پھر اگرمیرے دماغ میں بات آ گئی تو میں آپ کی بات مان لوں گی ۔ اگر نہیں ہے تو پھر نہیں۔

مختلف معاملات ہوتے ہیں جن پر argueہو سکتاہے۔ کوئی نظریاتی بات ہے، کوئی رشتے کی بات ہے۔ تو یہ ایک جنرل سوال ہےکہ اگر وہ کہیں کہ یوں ہے تو ہم کہیں کہ یوں ہے۔ بعض دفعہ کسی لڑکی کا کوئی رشتہ آتا ہے۔ والدین کہتے ہیں یہ رشتہ اچھا ہے،تم کر لو۔ لڑکی کہتی ہے کہ مجھے تسلی نہیں مَیں نہیں کروں گی۔ وہ تمہارے ساتھ argueکرتے ہیں کہ ضرور کرو۔ تو اس پہ تم کہہ سکتی ہو کہ اچھا پھر میں دعا کروں گی۔ دعا کے بعد میری تسلی ہو گی تو مَیں کروں گی، نہیں تو نہیں کروں گی۔ رشتے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں حق دیا ہے کہ تم اپنے رشتے کا انکار کرو یا اقرار کرو۔ اگرلڑکی مان جاتی ہے تب ہی رشتہ میں والدین کی مرضی ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی اصولی بات ہے، تعلیم کی بات ہے،ٹیچر اگر کوئی بات کر رہا ہے پڑھائی کے بارےمیں تووہ بہرحال تمہیں کوئی دلیل دے گا، اس کے بعد تم اس کو مانو گی کہ یہ اس طرح ہے۔ اگر تمہیں سمجھ نہیں آئی تو کہو مجھے سمجھاؤ۔ ٹیچر نے بلا وجہ تو تمہارے سے بحث نہیں کرنی۔ تو ٹیچروں کو والدین کے ساتھ bracket نہ کرو۔ ان کا اپنا ایک دائرہ ہے جس کے اندر وہ رہ کے تمہیں نصیحت کرتے ہیں یا argueکرتے ہیں۔ ٹیچر کا اپنا پڑھائی کا سکول کا دائرہ ہے۔ اس کے اندر رہ کے وہ سمجھاتے ہیں۔ تو مختلف نوعیت کے کیسز ہوتے ہیں۔ تم نے خود دیکھنا ہے کہ کس چیز میںargueکرنا ہے۔ ہاں! رشتوں میں لڑکی کو اختیار حاصل ہے کرے یا نہ کرے۔لیکن کرے تو دعا کر کے فیصلہ کرے۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے۔ پڑھائی کے معاملے میں اگر تمہارے پاس کوئی ٹھوس دلیل ہے تو وہ ٹیچر کو بتاؤ کہ یہ دلیل ہے اور جوبعض اچھے ٹیچر ہوتے ہیں وہ مان بھی جاتے ہیں۔اگر تمہیں سمجھ نہیں آئی تو ان سے کہو کہ مجھے سمجھاؤ کیونکہ بہرحال ٹیچر ،ٹیچر ہے۔ اس کا experienceتمہارے سے زیادہ ہے۔ یہ کہنا کہ جو میں نے کہا وہ ٹھیک ہے، یہ ڈھٹائی ہے۔ اسلام ڈھٹائی نہیں چاہتا۔اسلام کہتا ہے کہ آپس میں مل کے فیصلہ کرو۔ بیٹھو اور ایک دوسرے کی تسلی کراؤ۔ تو تسلی ہونی چاہیے لیکن just for the sake of argumentنہیں ہونا چاہیے۔اَنا کے لیےبحث نہیں ہونی چاہیے۔ مثلاً میں نے کہہ دیا ٹھیک ہے تو اس لیے ٹھیک ہے۔یہ درست نہیں۔ بہت ساری باتیں ہم کہتے ہیں۔اگر میں اپنی کسی بات کو غلط سمجھتا ہوں تو کہہ دیتا ہوں کہ غلط ہے۔ تو جب ایک بات کی سمجھ آ جائے تو مان لینا چاہیے کہ ہاں میں نے غلطی کی۔ اسے مان لو لیکن اپنی اَنا یا ego کا سوال نہ بناؤ۔ اس وقت جو سمجھ آئی اس کے مطابق تم نے کہہ دیا۔بعض دفعہ انسان اپنی دلیل دینے کے لیے سخت لفظ بھی کہہ دیتا ہے لیکن جب پتا لگ جائے، سمجھ آ جائے تو پھر اپنا point of view بدل بھی لینا چاہیے۔ یہ کوئی شریعت کا حکم تو نہیں کہ ضرور ہم نے کرنا ہے۔ ہاں جو صحیح بات ہےوہ صحیح ،جو غلط ہے وہ غلط۔ یہ سوچ پیدا کرو کہ ہم نے صحیح کو صحیح کہنا ہے اور غلط کو غلط کہنا ہے اور سمجھنے کی کوشش کرنی ہے۔ یہ نہیں کہ ضد میں آ جانا ہے کہ نہیں میں ٹھیک ہوں۔ ضروری نہیں کہ میں ہر بات میںٹھیک ہوں۔ غلطیاں ہوتی ہیں ،میرے سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں،تمہارے سے بھی ہوتی ہیں ساروں سے ہو سکتی ہیں۔

ایک ناصر ہ نے عرض کی کہ امسال ہم انشاء اللہ تعالیٰ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم میں شامل ہو جائیں گی۔حضور، ہمیں بہترین لجنہ ممبر بننے کے لیے ہماری کیا راہنمائی فرمائیںگے؟

اس پر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کیا تم بہترین ناصرات بنی ہوئی ہو؟جس طرح تم بہترین ناصرات بنی تھی اسی طرح بہترین لجنہ ممبر بن جاؤ۔ لجنہ میں آ کر اپنے آپ کو یہ نہ سمجھو کہ آزادی ہو گئی۔ اب میں پندرہ سال کی ہو گئی ہوں اور میں تین سال کے بعد اٹھارہ سال کی ہو جاؤں گی تو میں اپنے ماں باپ کے پنجے سے آزاد ہو جاؤں گی۔ مجھے میری سوسائٹی میرے ملک کا قانون اجازت دیتا ہے کہ میں independentہو جاؤں۔ میری مرضی ہے جس سے مرضی دوستی کروں نہ کروں۔ میری مرضی ہے میں اپنی سہیلیوں کے گھر میںovernight stayکروں۔بے شک ان کے گھر میں لڑکے بھی ہیں، مرد بھی ہیں، بے پردگی بھی ہو گی لیکن میں آزاد ہوں جو مرضی کروں۔یہ چیزیں اچھی نہیں ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ اچھی مسلمان احمدی لڑکی کو باحیا ہونا چاہیے اور شریعت کے جو قاعدے قانون ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے رہنا چاہیے۔ان چیزوں کو سامنے رکھو کہ میں نے جو کام کرنا ہے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرنا ہے۔ اس کی مرضی حاصل کرنے کے لیے کرنا ہے تو پھر تم اچھی لجنہ بن جاؤ گی،تم اچھی انسان بن جاؤ گی، تم اچھی شہری بن جاؤ گی۔بس ایک اچھی لجنہ کو اچھا شہری بھی ہونا چاہیے، اچھا انسان بھی ہونا چاہیے اور اللہ کا حق ادا کرنے والا ہونا چاہیے۔اللہ کی ہر وقت شکر گزاری کرو اور ہمیشہ یہ خیال رکھو کہ میں ایک احمدی لڑکی ہوں اور ایک احمدی مسلمان لڑکی کو دوسروں کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے۔ اس لیے میں نے عبادت کا بھی حق ادا کرنا ہے اور میں نے لوگوں کے حق بھی ادا کرنے ہیں ،لوگوں سے ہمدردی سے ملنا ہے، اچھے اخلاق سے ملنا ہے ،غریبوں کی مدد کرنی ہے، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا ہے۔بڑوں کا ادب کرنا ہے، لحاظ کرنا ہے اورجس طرح میں نے کہا تھا ضدبازی نہیں کرنی بلکہ اچھے اخلاق دکھانے ہیں تو تم اچھی لجنہ بن جاؤ گی۔ میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم ہمیشہ یاد رکھو کہ خدا ہمیشہ ہمارے ہر کام کو دیکھ رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا ہمیں دیکھ رہا ہے۔ تو ہم نے جو کچھ کرنا ہے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرنا ہے۔ یہاںتولگے ہوئےسی سی ٹی وی کیمرے تھوڑی دیر کے لیے دیکھ رہے ہیں لیکن اللہ کا سی سی ٹی وی کیمرہ ہمیں مستقل دیکھ رہا ہے۔ ہمارے دل میں کیا ہے وہ بھی دیکھ رہا ہے۔ اس لیے جو دل کی بات ہے اس کو بھی پاک رکھو گی تو اچھی لجنہ بن جاؤ گی۔

ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمة للعالمین قرار دیا ہے تو جنگ خندق کے بعدجب بنو قریظہ کے مردوں کا قتل کیا گیا تھا تو ان پر رحم کیوں نہیں کیا گیا؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کے بارے میں مَیں نے بڑی تفصیل سے خطبہ دیا ہے۔ کیا تم نے میرا خطبہ نہیں سنا تھا۔ اب پانچ منٹ میں تو میں تمہیں نہیں بتا سکتا۔ مختصر بات یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین تھے۔ جب انہوں نے غداری کی تو آپﷺ نے ان کو کہا کہ تمہارا فیصلہ میں کرتا ہوں۔تم لوگ یہاں سے چھوڑ کے چلے جاؤتو میں سب کو بخش دیتا ہوں۔ اور تم نے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بنایا ہے اس پر میں تمہیں کچھ نہیں کہتا، چھوڑ دیتا ہوں۔ میرے سے فیصلہ کرا لو۔ انہوں نے کہا نہیں! اور فلاں صحابی کا نام لیاکہ اس سے فیصلہ کرائیں گے۔ تو وہ صحابی جو یہودی سے مسلمان ہوئے تھے انہوں نے کہا پھر جو موسیٰ کی شریعت ہے،میں اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ انہوں نے کہا کرو۔ ان صحابی نے کہا کہ حضرت موسیٰ ؑکی شریعت یہ کہتی ہے کہ اس قسم کے لوگ جواس طرح غداری کریں اور اس طرح قتل کے منصوبے بنائیں، نقصان کرنےکی کوشش کریں،فتنہ کریں، فساد پیدا کریں انہیں قتل کر دو۔ اس پہ انہیںقتل کر دیا گیا۔لیکن اس میں بھی اختلاف ہے۔کوئی کہتا ہے تین سو آدمیوں کا قتل کیا،کوئی چار سو کہتا ہے،کوئی ہزار۔پھربچوں یاعورتوں کوقتل کیا گیایا نہیں اس بارے بھی تاریخ میں اختلاف ہے۔ وہ میں نے اپنے ایک خطبہ میںتفصیلی بیان کیا ہوا ہے۔یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھااور کہا کہ نہیں ہم نے فیصلہ آپﷺ سے نہیں کرانا بلکہ فلاں صحابی سے کرانا ہے۔ ان صحابی نے کہا کہ پھر میں تمہاری شریعت کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ تو ان کی شریعت کے مطابق فیصلہ ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تو الزام آتا ہی نہیں۔ اس کے لیے تم دوبارہ میراوہ خطبہ بھی تلاش کر کے سن لینا۔

بعد ازاںحضور انور سے از راہ شفقت ناصرات کو قلم عطا فرمائے اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button