حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

دین کے اوپرخرچ کرنا چاہئے (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍ مارچ ۲۰۱۰ء)

ہر ایک کی طاقت اس کی استعدادوں کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے مال کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے فرائض کے مطابق ہے۔ اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دین کے اوپرخرچ کرنا چاہئے۔ یہ تقویٰ اور توکل جو آپؐ اپنے صحابہ میں پیدا فرمانا چاہتے تھے اور صحابہ کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ توکّل ان کے اندر پیدا ہوا۔ اور وہ لوگ جو اَن پڑھ اور جاہل کہلاتے تھے وہ باخدا انسان کی عظیم مثالیں بن گئے۔ آپﷺ کوامت کے لئے ہر وقت یہ فکر تھی، دولت کی فکر نہیں تھی۔ یہ فکر تھی کہ میری اُمّت باخدا بنی رہے اور اس کے لئے صحابہ کو نصائح فرماتے تھے۔ اور یہ نصائح اس لئے تھیں کہ آگے بھی پہنچتی رہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر آپﷺ نے صحابہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ اس کا روایت میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمروبن عوف انصاری ؓسے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے ابوعبیدہ بن الجراح کو جزیہ لانے کے لئے بحرین بھیجا۔ رسولِ کریمﷺ نے اہلِ بحرین کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا تھا اور ان پر حضرت علاء بن الحضرمی کو امیر مقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ جب حضرت ابوعبیدہ بحرین سے مال لے کر لوٹے اور انصار کو آپ کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ کافی تعداد میں آنحضرتﷺ کے ساتھ صبح کی نماز میں حاضر ہوئے۔ آپؐ جب نماز فجر پڑھا کر لوٹنے لگے تو یہ انصار حضورؐ کے سامنے آ گئے۔ آپﷺ نے جب انہیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ شاید تم نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ کچھ لے کر لوٹے ہیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہؐ!۔ آپ نے فرمایا: تو پھرخوشخبری ہو اور بے شک خوشکن امیدیں رکھو۔ کیونکہ اللہ کی قسم! مَیں تمہارے بارہ میں فقر و غربت سے نہیں ڈرتا بلکہ مَیں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا داری کی بساط اس طرح کھول دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کھول دی گئی تھی۔ اور پھر تم اُن کی طرح اس میں مقابلہ کرنے لگ جاوٴ۔ اور پھر یہ دنیا داری اُن کی طرح تمہیں بھی ہلاک کر دے۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد و الرقائق باب الدنیا سجن المومن و جنۃ الکافر حدیث نمبر 7319)

آنحضرتﷺ کو یہ فکر تھی۔ لیکن افسوس! آپؐ کے اس شدت کے اظہار کے باوجود، اس تنبیہ کے باوجود اُمّت کی اکثریت اسی دوڑ میں مبتلا ہے۔ لیکن ایک احمدی کو اپنا عہدِ بیعت نبھاتے ہوئے اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے اُسوہ، آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کس طرح اپنے ساتھیوں سے، صحابہ سے اظہار فرمایا کرتے تھے۔

ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اپنی کتاب ’’مجدّد اعظم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’سید غلام حسین صاحب نے اپنا ایک واقعہ الحکم 28؍مئی و7؍جون1939 ء میں شائع کیا۔ مَیں اس کا خلاصہ یہاں اپنے الفاظ میں عرض کرتا ہوں۔ واقعہ یوں ہے کہ غالباً 1898ء کا ذکر ہے کہ سید غلام حسین صاحب قادیان میں تھے اور دل سے متمنی تھے کہ حضرت اقدس کوئی خدمت ان کے سپرد کریں تو وہ خوشی سے بجا لائیں۔ آخر ایسا ہوا کہ ڈاک دیکھتے دیکھتے حضرت اقدسؑ نے سید صاحب کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ’’یہ ایک بلٹی ہے آپ بٹالہ سے جا کر لے آئیں‘‘۔ ساتھ ہی بلٹی ان کے ہاتھ میں دے کر فرمایا کہ ’’ابھی ٹھہرئیے‘‘۔ پھر آپؑ اندر تشریف لے گئے اور پانچ روپے لا کر سید صاحب کو دئیے کہ یہ رستہ اور بلٹی کے اخراجات کے لئے ہیں۔ اُن دنوں قادیان میں یکے ایک دو ہی ہوا کرتے تھے اور وہ اس وقت موجودنہ تھے۔ سید صاحب اس وقت 15سالہ نوجوان تھے۔ جوشِ خدمت میں پیدل ہی چل پڑے۔ بٹالہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ پارسل آیا ہوا ہے۔ رات وہیں سرائے میں رہے۔ صبح پارسل چھڑانے گئے تو معلوم ہوا کہ پارسل کا محصول جو ہے وہ بھی بھیجنے والے نے ادا کر دیا ہے۔ پارسل لے کر واپس ہوئے تو یکہ والے کرایہ زیادہ مانگنے لگے۔ انہوں نے کفایت شعاری کی وجہ سے ایک مزدور سے چارآنے کی اجرت ٹھہرائی اور ٹوکری اس کی بہنگی میں رکھ دی اور خود پیدل چل پڑے۔ قادیان پہنچ کر حضرتؑ کے عطاکردہ پانچ روپے میں سے چار آنے تو اس مزدور کو دئیے اور باقی پونے پانچ روپے جیب میں رکھ لئے۔ یہ ٹوکری ہاتھ میں لی۔ مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے چڑھ کر زنان خانہ کے دروازے پر پہنچے اور اندر اطلاع کروائی۔ حضرت اقدسؑ فوراً باہر تشریف لائے۔ انہیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ آپ آ گئے؟ ٹوکری دیکھتے ہی فرمایا کہ آپ ٹھہریں۔ اندر سے جا کر ایک بڑا سا چاقو لے آئے اور اس ٹوکری کے اوپر جو ٹاٹ سِلا ہوا تھا اس کو چاقو سے ایک طرف سے کاٹ کر اپنے دونوں ہاتھ ٹاٹ کے اندر داخل کر کے باہر نکالتے ہی فرمایا کہ یہ آپ کا حصہ ہے۔ انہوں نے دیکھا تو وہ بڑے اعلیٰ قسم کے سبزی مائل انگور تھے۔ انہوں نے جلدی میں وہ انگور اپنے کُرتے میں ہی ڈلوا لئے۔ اس کے بعد انہوں نے وہ پونے پانچ روپے (پانچ روپے کی اس وقت بڑی قیمت ہوتی تھی) حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضور یہ بقایا رقم ہے۔ صرف چار آنے خرچ ہوئے ہیں۔ اس پر حضرت صاحب نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ’’ہم اپنے دوستوں سے حساب نہیں رکھا کرتے‘‘۔ اتنا فرمایا اور ٹوکری اٹھا کر اندر تشریف لے گئے۔ (اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ) انگور ان کے کُرتے میں اور پونے پانچ روپے ان کے ہاتھ میں رہ گئے۔‘‘ (ماخوذ از مجدد اعظم جلد دوم صفحہ 1275 از ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مطبوعہ لاہور) (ماخوذ از الحکم جلد42شمارہ نمبر15-18 موٴرخہ 28مئی تا7جون 1939ء صفحہ23بقیہ)

حکیم عبدالرحمٰن صاحب آف گوجرانوالہ کی ایک روایت ہے کہ ان کے بیٹے مکرم عبدالقادر صاحب سے روایت ہے کہ ’’والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مَیں قادیان گیا اور دو چار روز ٹھہرنے کے بعد اجازت مانگی۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ابھی ٹھہرو۔ دو چار روز کے بعد پھر گیا۔ حضور نے پھر بھی یہی فرمایا کہ ابھی اور ٹھہرو۔ دو تین دفعہ ایسا ہی فرمایا۔ یہاں تک کہ دو اڑھائی مہینے گزر گئے۔ پھر مَیں نے عرض کیا کہ حضور! اب مجھے اجازت دیں۔ فرمایا کہ بہت اچھا۔ مَیں نے کتاب ازالہ اوہام کے متعلق حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا۔ حضورؑ نے میر مہدی حسن شاہ صاحبؓ کے نام ایک رقعہ لکھ دیا۔ مَیں وہ رقعہ لے کر گیا تو میر صاحب نے کہا لوگ یونہی تنگ کرتے ہیں اور مفت کتابیں مانگتے ہیں حالانکہ روپیہ نہیں ہے اور ابھی فلاں فلاں کتاب چھپوانی ہے۔ مَیں نے کہا۔ پھر آپ میرا رقعہ دے دیں۔ انہوں نے رقعہ واپس دے دیا۔ مَیں حضرت صاحب سے واپسی کے لئے اجازت لینے گیا۔ حضور نے پوچھا کہ کیا کتابیں آپ کو مل گئی ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! وہ تو اس طرح فرماتے تھے۔ یہ سن کر حضرت صاحب ننگے پیر میرے ساتھ چل پڑے۔ اور میر صاحب کو فرمایا کہ آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ جس کا یہ کام ہے وہ اس کو ضرور چلائے گا۔ آپ کو میرا رقعہ دیکھ کر فوراً کتابیں دے دینی چاہئے تھیں۔ آپ ابھی سے گھبرا گئے۔ یہاں تو بڑی مخلوق آئے گی اور خزانے تقسیم ہوں گے۔ اس پر انہوں نے کتابیں دے دیں اور مَیں لے کر واپس آ گیا‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد 10 صفحہ 122-123 روایات حضرت حکیم عبد الرحمان صاحبؓ)اسی طرح ایک روایت منشی غلام حیدر صاحب سب انسپکٹر اشتمال اراضی گوجرانوالہ کی ہے۔ یہ دو روایتیں مَیں نے رجسٹر روایات صحابہ سے لی ہیں۔ انہوں نے منشی احمد دین صاحبؓ اپیل نویس گوجرانوالہ کی روایت بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا تو عموماً حضور کے سامنے ہو کر نذر پیش نہیں کیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے مجھے نصیحت کی کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ سامنے ہو کر نذر پیش کرنی چاہئے۔ کیونکہ بعض اوقات ان لوگوں کی جب نظر پڑ جاتی ہے تو انسان کا بیڑہ پار ہو جاتا ہے۔ پھر ایک دفعہ مَیں نے سامنے ہو کر مالی تنگی کی وجہ سے کم نذرانہ پیش کیا۔ حضور نے فرمایا! ’’اللہ تعالیٰ برکت دے‘‘۔ چنانچہ اس واقعہ کے بعد ایک شخص نے مجھے بہت سے روپے دئیے۔ مَیں نے بہت انکار کیا۔ مگر اس نے کہا کہ مَیں نے ضرور آپ کو یہ رقم دینی ہے۔ چنانچہ اس رقم سے میری مالی تنگی دور ہو گئی۔ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد 10 صفحہ 125 روایات حضرت منشی غلام حیدر صاحبؓ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button