متفرق مضامین

نظام خلافت اور اس کے استحکام کے حوالے سے احبابِ جماعت سے توقعات (ازافاضات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) (قسط اوّل)

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے مطابق جب ثریا ستارے سےمسیح موعود اور مہدی معہود ایمان کو واپس لے آئے تو حسبِ وعدہ خلافت علی منہاج النبوة کا انعام جاری ہوا۔ نبی کے مقابل جہاں ایسی قوتیں ظاہر ہوتی ہیں جو مخالفت اور اذیت کو انتہاتک پہنچا دیتی ہیں وہیں فیضانِ خلافت کے مقابل بھی مخالفانہ قوتیں جوش دکھاتی ہیں اور ان مخالفانہ یورشوں میں وقتی کامیابی الٰہی سلسلوں کے لیے ابتلا لیے ہوئے آتی ہیں اور ایک خوف کا سامان ہو جاتاہے۔ دلوں میں کمزوری کا خدشہ ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت خلافت حقہ کا سپہ سالار اپنے متبعین کو ڈھارس دیتا ہے اور ایسا الٰہی اطمینان اور تقویت عطا کرتا ہے کہ مخالفوں کے دانت کھٹے ہو جاتے ہیں۔خلافت کے حصارِ عافیت پر ذرا بھی آنچ نہیں آتی۔ اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی، اطمینان اور تمکنت نازل ہوتی ہے اور وہ یہ تسلی اور سکون افراد جماعت پر منتقل کرتا ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ دوا اور اکسیر کی طرح تمام درد تمام خوف اور غم کو دور کر دیتا ہے اور ہر طرف حقیقی امن کا دور دورہ ہوتا ہے۔

ہر دورِ خلافت میں اللہ تعالیٰ اپنے انتخاب اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے احباب کی اپنی جناب سے آپ مددو نصرت فرماتا چلا آیا ہے۔اس زمانے میں خلیفہ ٔوقت ایم ٹی اے کی برکت سے جماعت سے براہِ راست مخاطب ہوتے ہیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر خلافتِ احمدیہ کے قیام و استحکام کے لیے عزمِ صمیم اور غیرت کا واضح اظہار فرمایا۔ ذیل میں حضور کے ارشادات میں سے انتخاب پیش کیا جارہا ہے۔

خلافت سے جُڑ کر رہنا ہی اصل چیز ہے

افرادِ جماعت کو حضرت مسیح موعودؑ کےمقام کا ادراک حاصل ہونے کی توقع کا اظہار فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’جماعت احمدیہ کی اکثریت ہے، وہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام و مرتبہ کو سمجھتی ہے وہ بہر حال اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ خلافت سے جُڑ کر رہنا ہی اصل چیز ہے۔ اسی سے جماعت کی اکائی ہے۔ اسی سے جماعت کی ترقی ہے۔ اسی سے دشمنان احمدیت اور اسلام کے حملوں کے جواب کی طاقت ہم میں پیدا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اب اسلام کی اس نشأۃ ثانیہ میں خلافت کے نظام سے وابستہ ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف زبانی ایمان کا اعلان اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل کرنے والا نہیں بنا دیتا بلکہ آیت استخلاف میں جہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں خلافت کا وعدہ فرمایا ہے، ان کے خوف کو امن میں بدلنے کی خوشخبری دی ہے، خلافت سے وابستہ رہنے والوں کو تمکنت عطا فرمانے کا اعلان فرمایا ہے وہاں ان انعامات کا صرف ان لوگوں کو مورد ٹھہرایا ہے جو عبادتوں اور دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہوں اور اس مقصد کے لئے قربانیاں کرنے والے ہوں کہ خدا کی توحید دنیا میں قائم کرنی ہے… ہر پریشانی اور ہر مشکل کے وقت ہمیں خدا تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہئے۔ دنیاوی طریقہ احتجاج جو ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا خلافت سے وابستہ رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور پریشانیوں سے نجات پانے اور امن کی حالت میں آنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعاؤں اور عبادتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس یہی ہمارے اصل ہتھیار ہیں جن پر ہم مکمل اور مستقل انحصار کر سکتے ہیں۔ دعاؤں کے ہتھیار کو چھوڑ کر ہم چھوٹے اور عارضی ہتھیاروں کی طرف دیکھیں گے تو ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی، نہ کبھی چھوٹے ہتھیاروں سے کسی کو کامیابی ملی ہے یا ملا کرتی ہے۔ انبیاء کی تاریخ میں ہمیں کامیابیاں انہی دعاؤں کے ذریعہ سے ہی ملتی نظر آتی ہیں اور خاص طور پر جب ہم اسلام کی تاریخ دیکھیں اور خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے زمانے کو دیکھیں تو دنیاوی طاقت سے نہیں، اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہی فتوحات ملیں۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق فتوحات ملیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تمام تر وعدوں کے باوجود ان فتوحات کو حاصل کرنے کے لئے جان کی قربانیاں دینی پڑیں، عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنے پڑے۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۳۰؍ مئی ۲۰۱۴ء)

اگلے خطبہ میں خلافت اور اطاعت کےموضوع پر خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ نے خلافت اور افرادِ جماعت کے باہم تعلق کا حسین نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا کہ پھر خلافت کا مقصد حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھرپور توجہ دینا ہے۔ ان حقوق کو منوانا اور قائم کرنا اور مشترکہ کوشش سے ان کی ادائیگی کی کوشش کرنا ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے افراد جماعت میں یہ روح پیدا کرنا ہے۔ ان کو توجہ دلانا ہے کہ دین بہر حال دنیا سے مقدم رہنا چاہئے اور اسی میں تمہاری بقا ہے۔ اس میں تمہاری نسلوں کی بقا ہے۔ یہ ایک روح پھونکنا بھی خلافت کا کام ہے۔ توحید کے قیام کے لئے بھرپور کوشش یہ بھی خلافت کا کام ہے۔ جبکہ دنیاوی لیڈروں کے تو دنیاوی مقاصد ہیں۔ ان کا کام تو اپنی دنیاوی حکومتوں کی سرحدوں کو بڑھانا ہے۔ اسی کی ان کو فکر پڑی رہتی ہے۔ ان کا کام تو سب کو اپنے زیر نگیں کرنا ہے۔ دنیا میں آپ دیکھیں اپنے ملکوں کی حدوں سے باہر نکل کر بھی دوسرے ملکوں کی آزادیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں چاہے وہ ڈکٹیٹر ہوں یا سیاسی حکومتیں ہوں۔ دنیاوی لوگوں کا تو یہ کام ہے۔ ان کا کام تو جھوٹی اَناؤں اور عزتوں کے لئے انصاف کی دھجیاں اڑانا ہے جو ہمیں مسلمان دنیا میں بھی اور باقی دنیا میں بھی نظر آتی ہے۔

کون سا ڈکٹیٹر ہے جو اپنے ملک کی رعایا سے ذاتی تعلق بھی رکھتا ہو۔ خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔ ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لئے ایک یہ ناقابل یقین بات ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے لئے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔

کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔ حکومت بیشک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے۔ صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے۔ تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم جو اس دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفۂ وقت کو ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ ان کی صحت کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے۔ رشتے کے مسائل ہیں۔ غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ مَیں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے۔

مَیں نے ایک خاکہ کھینچا ہے بے شمار کاموں کا جو خلیفہ وقت کے سپرد خدا تعالیٰ نے کئے ہیں اور انہیں اس نے کرنا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ خلافت اور دنیاوی لیڈروں کا موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ویسے ہی غلط ہے۔ بعض دفعہ دنیاوی لیڈروں سے باتوں میں جب مَیں صرف ان کو روزانہ کی ڈاک کا ہی ذکر کرتا ہوں کہ اتنے خطوط مَیں دیکھتا ہوں لوگوں کے ذاتی بھی اور دفتری بھی توحیران ہوتے ہیں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس کسی موازنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔(خطبہ جمعہ ۶؍ جون ۲۰۱۴ء)

اپنے ایمان کی بھی حفاظت کرنی ہے

حضور انور ایدہ اللہ نظامِ خلافت کے تا قیامت جاری رہنے کے بارےمیں پُر یقین ہیں اور یہ یقین افرادِ جماعت میں بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے اپنے ایمان کی حفاظت کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ فرماتے ہیں کہ’’پس اللہ تعالیٰ کے یہ تمام فضل ہر احمدی سے تقاضا کرتے ہیں کہ اس کا شکر گزار بنتے ہوئے اپنی حالتوں میں وہ تبدیلی لائیں جو اللہ تعالیٰ کے اس فرستادہ کے ماننے والوں کا فرض ہے۔ تبھی اس بیعت کا حق ادا کر سکیں گے۔ مسیح موعود اور مہدی معہودنے ایمان کو ثریا سے زمین پر لانا تھا اور اپنے ماننے والوں کے دلوں کو اس سے بھرنا تھا اور ہر احمدی یقیناً اس بات کا گواہ ہے کہ آپؑ نے یہ کام کر کے دکھایا۔ لیکن اس ایمان کا قائم کرنا صرف آپؑ کی زندگی تک محدودنہیں تھا یا چند دہائیوں تک محدودنہیں تھا بلکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت علی منہاج نبوت کی خوشخبری دے کر خاموشی اختیار کی تو پھر اس کا مطلب تھا کہ اس ایمان کو تاقیامت زمین پر اپنی شان و شوکت سے قائم رہنا ہے اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شمار کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ اس ایمان کو اپنے دلوں میں بٹھا کر اس پر ہمیشہ قائم رہے۔ یہ ان ماننے والوں کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کے طریق پر چلنے والے نظام خلافت کے ساتھ جُڑ کر اس ایمان کے مظہر بنتے ہوئے اسے دنیا کے کونے کونے میں پھیلائیں اور توحید کو دنیا میں قائم کریں۔ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا اور اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے غلامِ صادق کو بھیجا ہے۔ اور اسی کام کی سرانجام دہی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے تاقیامت رہنے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو اپنے اس دنیا سے جانے کی غمناک خبر کے ساتھ یہ خوشخبری بھی دی تھی اور فرمایا تھا کہ ’’قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھاوے۔ سو اب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔‘‘ فرمایا ’’کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۳۰۵) پس ایمان کو زمین پر قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اس دوسری قدرت کو جاری فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ مخالفینِ دین خوش ہوں کہ دین دوبارہ دنیا سے ختم ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ شیطان دندناتا پھرے۔ اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی جھوٹی خوشیوں کو پامال کرنا ہے۔ اس لئے اس نے ایمان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جاری نظام خلافت کی مدد کرتے ہوئے دنیا میں قائم رکھنا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا بھی فرض قرار دیا ہے جو اس نظام سے جڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ایمان کو دنیا میں قائم رکھنے کے لئے خلافت کے مددگار بنیں اور اپنے عہد بیعت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مصمّم ارادہ کریں کہ ہم نے اپنے ایمان کی بھی حفاظت کرنی ہے اور دوسروں کو بھی ایمان کی روشنی سے آشکار کرنا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۲۹؍ مئی ۲۰۱۵ء)

دشمنانِ احمدیت کو واضح للکار

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ببانگِ دہل دشمنان احمدیت کو پیغام دیا کہ ہمارا خدا تمہیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ انفرادی یا اجتماعی کوششیں کبھی خلافت احمدیہ کو اس کے مقاصد سے نہیں روک سکتیں۔ حضور انور نے فرمایا:’’جماعت کے افراد اس بات کا کئی مرتبہ مشاہدہ کر چکے ہیں اور اس دَور میں تو غیروں نے بھی دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ احمدیوں کی سکینت کے سامان فرماتا ہے اور یہ بات غیروں کو بھی نظر آتی ہے۔ پہلے بھی مَیں کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں کہ خلافتِ خامسہ کے انتخاب سے پہلے احمدیوں کی جو حالت تھی اُس کو غیر بھی محسوس کر رہے تھے اور بعض اس امید پر بیٹھے تھے کہ اب دیکھیں جماعت کا کیا حشر ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدہ فرمایا تھا اُس کو اس شان سے پورا فرمایا کہ دنیا دنگ رہ گئی اور ایم ٹی اے کی وجہ سے غیروں نے بھی دیکھا کہ خوف امن میں ایسا بدلا کہ ایک غیر احمدی پیر صاحب نے جو ہمارے ایک احمدی کے واقف تھے، اُن کو کہا کہ مَیں یہ تو نہیں مانتا کہ تم لوگ سچے ہو لیکن یہ سارا نظارہ دیکھ کے مَیں یہ مانتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے۔ خدا تعالیٰ کی مدد تو ضرور تمہارے ساتھ لگتی ہے لیکن مَیں نے ماننا نہیں۔ پس ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پر قائم رہتے ہیں۔ آجکل پاکستان میں جو ظلم کی لہر چل رہی ہے یہ اس بات کا اظہار ہے کہ یہ احمدی تو ترقی پر ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں، ان کے میدان تو وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان کو ختم کرنے کی ہم جتنی کوشش کرتے ہیں یہ تو ختم نہیں ہوتے، کس طرح ان کو ختم کریں۔ لیکن ان لوگوں سے میں کہتا ہوں کہ اے دشمنانِ احمدیت! یاد رکھو کہ ہمارا مولیٰ ہمارا ولی وہ خدا ہے جو سب طاقتوں کا مالک ہے۔ وہ کبھی تمہیں کامیاب نہیں ہونے دے گا اور اسلام کی ترقی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اب دنیا میں مسیح موعود کے غلاموں نے لہرانا ہے۔ ان لوگوں نے لہرانا ہے جو خلافت علیٰ منہاج نبوت پر یقین رکھتے ہیں، جو خلافت کے ساتھ منسلک ہیں، جو جماعت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، جو حبل اللہ کو پکڑے ہوئے ہیں۔ پس تمہاری کوئی کوشش، کوئی شرارت، کوئی حملہ، کسی حکومت کی مدد خلافت احمدیت کو اس کے مقاصد سے روک نہیں سکتی، نہ جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک سکتی ہے۔ افرادِ جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہئے جیسا کہ مَیں نے کہا، تقویٰ پر چلنا، نمازوں کا قیام اور مالی قربانیوں میں بڑھنا اُنہیں خلافت کے فیض سے فیضیاب کرتا چلا جائے گا۔ پس اس کے لئے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ بھرپور کوشش کرے۔ تا کہ اللہ تعالیٰ کے رحم سے وافر حصہ لینے والا ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۴؍ مئی ۲۰۱۳ء)

(جاری ہے )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button