یادِ رفتگاں

مولانا منور احمد خور شید صاحب مبلغ سلسلہ ’فاتح سینیگال‘

(تصور خالد۔ لندن)

مولانا منور احمد خورشید صاحب فتح پور ضلع گجرات میں بشارت احمد صاحب اور عنایت بیگم صاحبہ کے ہا ں ٥؍دسمبر ۱۹٥۰ءکو پیدا ہوئے۔آپ حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ کے پوتے تھے جنہوں نے ۱۹۰۱ء میں تحریری اور مئی ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی  بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ کی پیدائش سے قبل آپ کے بہن بھائی کسی بیماری کے باعث جلد وفات پاجایا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ بھی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد جب بیمار ہوگئےتو آپ کے دادا جانؓ نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے بڑے فیصلہ کن انداز میں آپ کے والدین سے فرمایا کہ اس بچے کو خدا  تعالیٰ کی راہ میں وقف کردیا جائے۔ یہ تجویز آپ کے والدین کو بھی پسند آئی اور آپ کو وقف کردیا گیا۔

چنانچہ آپ کی وفات پر سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ مارچ ۲۰۲۳ء میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مولوی  خورشید صاحب کے والدین کے ہاں جو بھی اولاد پیدا ہوتی تھی وہ بیمار ہو کر فوت ہوجاتی تھی۔جب آپ کی پیدائش ہوئی تو آپ بیمار ہوگئے۔کوئی رستہ نظر نہیں آتا تھا تو ان کے دادا میاں عبد الکریم صاحبؓ جو صحابی تھےانہوں نے فیصلہ کیا کہ اس بچے کو خدا کی راہ میں وقف کر دیا جائے۔ کہتے ہیں، اس لیے کہ اگر خدا کو ضرورت ہوئی تو خود ہی بچا لے گا۔ بہر حال اس دوران ایک طبیب گاؤں میں آیاجو کسی دُور کے گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اس نے علاج کیا اور اللہ تعا لیٰ نے معجزانہ رنگ میں ان کو شفا دی۔(ماخوذ از الفضل ۲۱؍اپریل۲۰۲۳ء)

آپ کو اپنے گھر میں حضرت دادا جانؓ جیسی دُعاگوہستی کی گود نصیب ہوئی۔ آپ خود ہمیں بتایا کرتے تھے کہ حضرت  دادا  جانؓ آپ کو بہت چھوٹی عمر ہی سے گود میں اٹھا کر احمدیہ مسجد فتح پور لے جاتے تھے۔ ابتدائی دینی تعلیم گھر پر ہی اپنی والدہ کے پاس حاصل کی۔ آپ کی والدہ کے پاس سارے گاؤں کے بچے اور بچیاں درس القرآن اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے آتے تھے۔ پہلے بچوں کے جلد وفات پاجانے کے باعث والدین کی بھی تمام تر توجہ آپ پر مرکوز رہی۔ ابتدائی تعلیم مڈل تک فتح پور ہی میں حاصل کی۔ میٹرک مسلم ہائی سکول گجرات سے کیا۔ میٹرک کرنے کے بعد اللہ  تعالیٰ سے کیے گئےوعدہ کو نبھانے کا وقت آن پہنچا تھا۔ آپ کی والدہ بتایا کرتی تھیں کہ جب ہم نے منور احمد کو جامعہ میں بھیجا تو کئی غیر احمدی لوگ کہتے تھے کہ آپ کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں اسے کسی کام پر لگوائیں، آپ اس پر لوگوں کو جواب دیتیں کہ اگر خدا اسے نہ بچاتا تو پھر ہم کسے کام پر لگواتے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ سے جو وعدہ کیا ہے، ہم اسے ان شاءاللہ تعالیٰ ہر حال میں پورا کریں گے۔ چنانچہ آپ ۱۹٦٦ءمیںربوہ جا کر جامعہ  احمدیہ میں داخل ہوگئے۔جہاں پر آپ کومحترم سید میر داؤد احمد صاحب کی سرپرستی میں دیگر قابل قدر اساتذہ سےحصول علم کا اعزاز حاصل ہوا۔اس عظیم درس گاہ سے آپ ۱۹۷٥ء میں فارغ ہوئےاور آپ کو سب سے پہلے ضلع سیالکوٹ کے ایک قصبہ قلعہ کالر والامیں بطور مربی سلسلہ تعینات کیا گیا۔ بعد ازاں آپ کھاریاں ضلع گجرات اور پھر میانوالی شہر میں بطور مربی خدمات کی توفیق پاتے رہے۔ ۱۹۸۳ء میں حضرت خلیفۃ ا لمسیح الرابعؒ نے آپ كا تقرر گیمبیا میں كردیا۔یاد رہے کہ یہ وہی ملک ہے کہ جس کے ایک مخلص احمدی محترم ایف ایم سنگھاٹے کے گورنر جنرل منتخب ہونے پر سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی۔

آپ گیمبیا کے مختلف شہروں اور قصبوں میں مسیح پاک علیہ السلام کی آمد کی خوشخبری سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہے۔ اس دوران آپ کو بطور استاد ناصر احمدیہ سیکنڈری ہائی سکول میں بھی خدمت کی توفیق حاصل ہوتی رہی۔ ۱۹۸٥ءتا ۱۹۹٤ءآپ کو مشنری انچارج سینیگال مقرر کیا گیا،۱۹۹٤ءتا ۱۹۹۷ء آپ کوسینیگال کے ساتھ ساتھ گیمبیا،گنی بساؤ، موریطانیہ،کیپ ورڈاور ویسٹرن صحارا کا امیر و مشنری انچارج بھی مقرر کیا گیا۔ اسی طرح ۱۹۹۷ءتا ۲۰۱۲ء آپ سینیگال کیپ ورڈ،موریطانیہ اور ویسٹرن صحارا کے امیر و مشنری انچارج رہے۔ ۲۰۰٥ءمیں جب آپ لندن آئے تو اچانک دل کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے اور پھر سیّدنا حضور انور کے ارشاد کے تحت علاج کی غرض سے لندن میں ہی مستقل قیام کیا۔ آپ لندن سے ہی ۲۰۱۲ءتک بطور امیر جماعت احمدیہ سینیگال کے فرائض سر انجام دیتے رہےاور گاہے بگاہے ان ممالك كا دورہ بھی كرتے رہے۔

آپ کے لندن منتقل ہونے پر آپ کو ۲۰۰۷ء تا ۲۰۱٤ء بطور استاد جامعہ احمدیہ یوکے خدمات کی توفیق عطا ہوئی۔ آپ کو یہاں پر تاریخ و سیرت،عربی ادب، اور فارسی پڑھانے كی سعادت حاصل ہوتی رہی۔تدریسی خدمات كے علاوہ آپ كو جامعہ احمدیہ میں نگران شعبہ كھیل،سٹاف سیكرٹری اور نگران شجاعت گروپ كے طور پر خدمات كا موقع ملتا رہا۔ اس دَور کے چند واقعات پیش ہیں۔

۱۔مكرم مولانا منور احمد خورشید صاحب جامعہ احمدیہ میں دوران خدمت پیش آنے والا ایك ایمان افروز واقعہ بیان كرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مورخہ ۲٤؍اکتوبر ۲۰۰۹ء كو سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز از راہ شفقت حدیقۃ المہدی میں تشریف لائے، جہاں طَلَبہ و اساتذہ جامعہ احمدیہ یوکے نے آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ پکنک منانے کی سعادت پائی۔ اس موقع پر حضور پُر نور نے اساتذہ اور کارکنان کے درمیان رسہ کشی کا ایک مقابلہ کروایا، نیز فرمایا کہ تمام اساتذہ بلا استثنا اس مقابلہ میں شرکت کریں گے۔ مکرم منور احمد خورشید صاحب بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کو اُس وقت دل کی تکلیف ہورہی تھی۔لیکن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ا لعزیز کے ارشاد پر خاکسار بھی مقابلہ میں شامل ہونے کے لیے رسہ پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ اسی دوران حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز اس عاجز کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے اس لیے آپ اس مقابلہ میں شریک ہونے سے مستثنیٰ ہیں۔ مکرم مولانا منور احمد خورشید صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ خلافت کی برکت ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ وقت کو عطا ہونے والا عرفان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں میری حالت کے بارے میں القا فرمایااور آپ نے مجھ عاجز کی مسیحائی فرمائی۔

۲۔ جب ۲۰۱۰ءمیں آپ موصوف پر دل كا حملہ ہوا تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ كے ارشاد پرمكرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ یوكے آپ كی عیادت كے لیے تشریف لے گئےاور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی طرف سے آپ کی عیادت کی۔ اسی طرح آپ کی صاحبزادی کے نکاح کے موقع پر حضورِ انور نے بڑی محبت کے ساتھ آپ کی خدمات کا ذکر فرمایا تھا۔

۳۔ آپ کانظام جماعت کی اطاعت کے بارے میں ایک واقعہ اس طرح آتا ہے کہ ایک موقع پر آپ کے ٹیوٹوریل گروپ شجاعت کے طلبہ تفریح کے لیے تھورپ پارک ( ایک تفریحی پارک )گئے تھے،آپ کو ہدایت دی گئی تھی کہ آپ نے طلبہ کی نگرانی کے لیے اُن کے ساتھ جانا ہے۔ جس روز طلبہ نے تفریح کے لیے روانہ ہونا تھااُسی صبح آپ کو گردے کی تکلیف کی شکایت ہوگئی اور آپ طلبہ کے ساتھ جانے سے قاصر رہے، جب آپ سے رابطہ کیا گیا، اور معلوم ہوا کہ طلبہ اکیلے ہی چلے گئے ہیں تو پرنسپل صاحب کو فکر ہوئی، اور دبے لفظوں میں انہوں نے اپنی فکر کا اظہار کردیا۔ مکرم مولانا منور احمد خورشید صاحب اسی وقت تھورپ پارک کے لیے روانہ ہوگئے اور طلبہ کی خود نگرانی کی۔ آپ کی طبیعت کی خرابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ اپنی اہلیہ محترمہ کو بھی اپنے ہمراہ لے گئے تھے تاکہ دوران سفر وہ آپ کی دیکھ بھال کر سکیں۔

محترم برادرم منور خورشید صاحب اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن تھے۔آپ ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان تھے، آپ حضور ﷺ کی صفت حاشر کی ایک عمدہ مثال تھے۔ آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا، جس میں ہر قوم اور ملک کے لوگ شامل تھے، اور آپ کا تعلق سب کے ساتھ عمر، مقام و مرتبہ کی قیود سے ماورا تھا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پرانےروابط کو جوڑ کررکھنے کا غیر معمولی فن آتا تھا۔اور پھر پرانے رشتوں کی مسلسل آبیاری کا سلیقہ بھی جانتے تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کم از کم دس زبانوں پر عبور رکھتے تھے جن میں پنجابی، اردو، انگریزی،فارسی، عربی، فرانسیسی کے علاوہ چارافریقہ کی زبانیں بھی شامل ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت ہی باہمت شخصیت کے حامل انسان تھے۔ ایک عرصہ سے گردوں کی بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود آپ بڑی ہی جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہے۔اس امر کی ایک مثال سیّدنا حضرت خلیفۃ  المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا آپ کو بار بار سپین اور پرتگال کے دوروں پر بھجوانا تھا۔ آپ کو بھجوانے کا مقصد وہاں پر سکونت پذیر افریقن اقوام کے لوگوں سے ملنا انہیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانا تھا۔چنانچہ میں نے بذات خود دیکھا ہے کہ آپ بلا جھجک جہاں کہیں بھی کسی ا فریقن بھائی کو دیکھتے اسے مخاطب کرتے اور اُس کے ملک کاتعلق دریافت کرکے اُس کے قبیلہ کا پوچھتے اور پھر اس کی زبان میں بات کرتے اور مخاطب ایک غیر افریقن منہ سے اپنی زبان میں مخاطب کیے جانے پر حیران ر ہ جاتا۔ جب اس کانام دریافت کرتے تو آپ کو پتا چل جاتا کہ یہ کس قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ۲۰۱۹ءکے جلسہ سالانہ سپین کے موقع پر اس عاجز کو بھی آپ کے محبت بھرے اصرار پر شمولیت کی توفیق عطا ہوئی۔ اس موقع پر آپ نے ہمیں اُن ۲٥ نومبائعین سے بھی ملوایا جن کو آپ نے احمدیت کا پیغام دیا تھا۔آپ کی کامیابی کا ایک بڑا راز یہ بھی تھا کہ آپ اُن لوگوں کے ساتھ ہمیشہ رابطہ میں رہتےتھے جن سے آپ کبھی بھی ملے ہوں۔ جیسے بھی ممکن ہوتا آپ کوشش کرکے کہیں نہ کہیں سے متعلقہ شخص کا رابطہ نمبر ڈھونڈ لیا کرتے۔ آ پ کی وفات سے صرف چند دن پہلے ہم آپ کے ساتھ بھمبر آزاد کشمیر سے واپس فتح پور( گجرات ) آرہے تھے۔ اس دوران ہم سرحد سے ملحقہ ایک گاؤں جلال پور صوبتیاں میں کچھ دیر کے لیے رکے۔ بھائی جان کو اچانک خیال آیا کہ اس گاؤں میں فتح پور کی ایک غیر ازجماعت بچی بیاہ کر آئی تھی جس نے دوسرے سینكڑوں بچوں كی طرح آپ کی والدہ کے پاس قرآن کریم پڑھا تھا۔کیوں نہ اسے ملا جائے۔ پہلے تو آپ نے اس ہوٹل والے سے پوچھا۔ اس کے نفی میں جواب پر آپ نے اپنے چھوٹے بھائی محمود احمد شمس صاحب کو فون کیا کہ جیسے بھی ہوسکے مجھے اس بچی کا نمبر کہیں سے معلوم کر کے بھیجو۔نمبر ملنے پر آپ نے اس خاتون کو فون کیا۔ اپنا تعارف کروانے پر وہ خاتون حیران رہ گئیں۔ چنانچہ ہم ان کے گھر پر گئے جس پر وہ خاتون بہت خوش ہوئیں۔ اور اپنے بیٹے سے تعارف کروایا کہ میں نے قرآن کریم اور دینیات کی تعلیم ان کی والدہ سے حاصل کی تھی ۔آپ کو پرانے رشتے زندہ کرکے بہت خوشی محسوس ہوتی تھی۔

یہاں لندن میں ہم سب خاندان کے لوگ سال میں دو تین دفعہ کسی ہال وغیرہ میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ جس کا سہرا دو بہت ہی معتبر ہستیوں کے سر جاتا ہے ایک محترم والد صاحب مکرم منظور احمد شاد صاحب اور دوسرے بھائی جان منور خورشید صاحب۔ آپ دونوں ہمارے لیے کسی حصار سے کم نہ تھے جنہوں نے ہم سب کو جوڑ کر رکھاہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آئندہ بھی یہ پر خلوص محبتیں قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اکرام ضیف آپ کا ایک خاص وصف تھا۔ بیت الفتوح کے قریب گھر ہونے کی وجہ سے اس وصف میں مزید وسعت اور نکھار آگیا تھا۔ نماز جمعہ کے بعد آپ اکثر اپنے دوست احباب کو بصد شوق اپنے ہاں لے آتے اور حسب توفیق ان کی تواضع کرتے۔ اسی طرح جلسہ سالانہ کے ایام میں یہ سلسلہ مزید خوبصورت دکھائی دینے لگتا۔ اکثر ایسے مواقع پر آپ ازراہ شفقت اس عاجز کو بھی طلب فرمایا کرتے۔ آپ بہت ہی سادہ مزاج، اور تکلفات سے مبرا انسان تھے۔ کئی دفعہ میں دیکھتا کہ نماز جمعہ پریا کسی اور پروگرام میں یا شادی وغیرہ میں آپ بہت سادہ سے لباس میں ہیں تو میں کہتا بھائی جان یہ کیا ؟تو کہتے کہ دیکھو جس نے میرے کپڑوں کو ملنا ہے وہ بے شک مجھے نہ ملے، اور جس نے مجھے ملنا ہے وہ میرے کپڑے نہیں دیکھے گا۔ اور آپ کی یہ بات سو فیصد درست تھی۔ جلسہ سالانہ یو کے کے موقع پر آپ پچھلے کئی سالوں سے شعبہ تربیت میں اعزازی طور پر ہمارے ساتھ خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ آپ کے تمام دوست احباب آپ سے ملنے کے لیے شعبہ تربیت میں آتے تھے۔ جن میں آپ سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے علاوہ سلسلہ کے بزرگان بھی شامل ہوا کرتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد اس سال شعبہ تربیت بہت سُونا سُوناسا لگا۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت عمدہ علمی ذوق بھی عطا کر رکھا تھا۔گُردوں کی بیماری میں مبتلا ہونے سے پہلے آپ نے بہت کم لکھا تھا۔ لیکن جب آپ کا ڈائلیسز شروع ہوا تو اس وقت کو بھی آپ نے بہت اچھی طرح استعمال کیا۔ آپ اس دوران لیٹے لیٹے لیپ ٹاپ پر مختلف مضامین لکھنے لگے جو اكثر الفضل انٹر نیشنل اور دیگر جرائد میں چھپا بھی کرتے تھے، یہ مضامین ہی پھر کتابوں کی صورت اختیار کرتے گئے۔ ا ٓپ کو تحریر میں تو کمال حاصل تھاہی آپ کی تقریر کا انداز بھی بہت دلکش تھا، روایتی انداز میں تقریر کرنے کی بجائے آپ بات چیت کے انداز میں گفتگو کرتے۔ اس طرح سننے والے کو محسوس ہوتا کہ آپ صرف اسی سے مخاطب ہیں جسے لوگ بہت پسند کرتے تھے۔ آپ کو یہاں لندن میں اکثر جماعتیں اپنے ہاں پروگراموں میں بڑے شوق سے مدعو کرتی تھیں، رمضان المبارک میں مركزی شعبہ تربیت کے تحت مختلف جماعتوں میں درس القرآن کے لیے جاتے۔ اسی طرح سے جامعہ احمدیہ سے بھی آپ کو اکثر مختلف پروگراموں کے لیے دعوت دی جاتی۔آپ جس محفل میں بھی بیٹھتے وہاں سنجیدہ گفتگو کے علاوہ ہلکے پھلکے انداز میں ہنسی مذاق بھی ہوا کرتا جس سے محفل زعفران زار بن جاتی۔ آپ نے چھوٹی بڑی ۱۲کتابیں تحریر کی ہیں جن میں ارضِ بلال اور میری یادیں،مادر مہربان، نقوش حیات،یادوں کے دریچے، میرا بچپن جہاں گزرا وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ آپ کا بڑا پن تھا کہ آپ اپنے دیگر دوستوں کے علاوہ اس عاجز کو بھی اپنی کُتب کا مسودہ نظر ثانی کے لیے بھجوایا کرتے۔آپ کی ایک کتاب ارض بلال اور میری یادیں احباب جماعت میں بہت مقبول ہوئیں جن کا مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب آف آکسفورڈ نے انگریزی زبان میں بھی ترجمہ کیا ہے۔ فجزاہم اللہ تعالیٰ

جب آپ نے اچانک پاکستان جانے کا پروگرام بنایا تو ہم سب بہت حیرت میں تھے۔ میں نےعرض کیا کہ بھائی جان آپ ذیا بیطس کے مریض ہیں، آپ کا ہفتہ میں تین دن ڈائلیسز ہوتا ہےاور ابھی تو انگلی کے آپریشن والی درد سے بھی مکمل صحت یاب نہیں ہوئے۔ دل کا عارضہ بھی لاحق ہے تو یہ اچانک پاکستان کا پروگرام کیسے بن گیا۔ اس پر آ پ نے دل کو چھو لینے والا جواب دیا کہ زندگی کا کیا پتا کب تک ہے، میں ایک دفعہ اپنے دوست احباب کو ملنا چاہتا ہوں اور اپنے پیاروں کی قبروں پر دُعا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو کچھ ایسا نظرآرہا تھا جو کہ ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔ آپ کے اندر کا احساس آپ کو پاکستان جانے پر مجبور کررہا تھا۔ چنانچہ آپ اپنی اہلیہ محترمہ نصرت جہاں صاحبہ کے ہمراہ ۲۲؍فروری ۲۰۲۳ءکو لندن سے پاکستان روانہ ہو گئے۔ مَیں اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ہمراہ ایک ہفتہ بعد پاکستان پہنچا۔ اس کے بعد آپ کی وفات تک اکٹھے ہی رہے۔ اس دوران ہم نے اپنے عزیز رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ربوہ سے چکریاں، کھو کھر غربی، فتح پور گجرات اور وہاں سے بھمبر آزاد کشمیر کا سفر بھی کیا، اور پھر واپس ربوہ آگئے، لیکن اس دفعہ آپ کے چہرے پر اُس طرح سے رونق نہ تھی کہ جو آپ کی طبیعت کا ایک خاصہ تھی۔ آپ کی طبیعت میں وہ بشاشت نہ تھی آپ کچھ بجھے بجھے سے تھے۔ کچھ بے دلی سی تھی۔ ۷؍ مارچ کو ایک موقر ادارے میں آپ کا لیکچر تھا۔اس دوران ایک دن کے فرق سے آپ کا ڈائیلیسز بھی ہورہا تھا۔ ۱۰؍مارچ کو آپ کے ساتھ ہم سب نے نماز جمعہ مسجد مبارک میں ادا کی۔جہاں پر آپ کے ہم جماعت دوست محترم کاہلوں صاحب اور دیگر کئی احباب بھی ملے۔شام کو آپ ایک دفعہ پھر ربوہ میں مقیم اپنے تمام عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے گئے۔ اس کے علاوہ عشاء کے بعد ربوہ، گجرات اور بھمبر آزاد كشمیر اور دیگر علاقوں سے مزید دوست احباب آپ سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ ہم سب کافی دیر تک بیٹھے رہے۔ اگلی صبح آپ لاہور کے لیے روانہ ہوگئے، جہاں سے اگلے دن آپ کی لندن واپسی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی واپسی کہیں اور لکھ رکھی تھی۔لاہور میں رات سونے سے پہلے آپ کو دل کا شدید حملہ ہوا۔ آپ کو مقامی ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹرز نے سفر سے منع کردیا اور آپ کو ہسپتال داخل ہونے کا کہا، آپ نے کہا کہ اگر داخل کرنا ہی ہے تو میں ربوہ جاکر داخل ہونا چاہوں گا، تاکہ جماعت کا زیادہ خرچ نہ ہو۔ربوہ میں آپ کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کردیا گیا۔ یہاں پر دو دن تک ڈاکٹرز نے ہر ممکن طریق پر آپ کا علاج کیا لیکن ۱٥؍مارچ کو ساڑھے تین بجے سہ پہر اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور آپ اپنے پیارے خالق کے حضور حاضر ہوگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون

اس موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کی طرف سے ازراہ شفقت ہدایت موصول ہوئی کہ تدفین وہیں دارالفضل بہشتی مقبرہ میں ہوگی اور بچوں کا انتظار کیا جائے۔چنانچہ ۱۷؍مارچ بروز جمعۃ المبارک احاطہ صدر انجمن احمدیہ میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اور بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔

اُس مقدس سر زمین کہ جہاں سے آپ نے ٤۷سال پہلے اپنے خدمت دین کے سفر کا آغاز کیا تھا، اس سرزمین نے آپ کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ آپ کی وفات اور تدفین پاکستان میں ہونے میں شاید ایک حکمت یہ بھی پوشیدہ تھی کہ اپنے جن پیاروں کو ملنے کے لیے آپ وہاں گئے تھے وہ سب آپ کے آخری سفر میں ساتھ شامل ہوگئے، جبکہ بیرون ملک وفات ہونے کی صورت میں یہ ممکن نہ ہوتا۔ جبکہ امریکہ اور یورپ سے آپ کے بچے اور دیگر عزیز و اقارب اس موقع پر پاکستان پہنچ گئے تھے۔

میں نے عمداً محترم بھائی جان کی جماعتی خدمات کا تذکرہ نہیں کیا کیوں کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍مارچ ۲۰۲۳ءمیں بڑی تفصیل کے ساتھ آپ کی خدمات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ و احسن الجزاء

چند دیگر سعادتیں اوراعزازات

٭… حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک سے انعامات پانے کی سعادت نصیب ہوئی۔

٭…خلافت خامسہ کے انتخاب کے موقع پر انتخاب کمیٹی میں شمولیت کا اعزاز۔

٭…تعمیر احمدیہ مسجد کھاریاں

٭…تعمیر احمدیہ مسجد میانوالی

٭…• ۸۰؍سے زائد مساجد کی تعمیر سینیگال

٭…٤٥؍ممبر آف پارلیمنٹ سینیگال کا آپ کے ذریعہ قبول احمدیت

٭…جلسہ سالانہ ۱۹۹٥ء میں پانچ ممبر آف پارلیمنٹ کی شرکت

٭…جلسہ سالانہ جرمنی میں ۱۲ ممبر آف پارلیمنٹ کی شرکت

٭…سفیر سیرالیون،گیمبیا اورگنی بساؤکے وزراءکے وفد کی آپ کی قیادت میں جلسہ سالانہ میں شرکت۔

٭…جلسہ سالانہ انگلستان اور جلسہ سالانہ جرمنی کے مواقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی موجودگی میں ترجمانی کے فرائض کی ادائیگی۔

٭…قادیان کی مسجد مبارک میں تقریر کی سعادت کا نصیب ہونا۔

٭…سینیگال کے ٤۷۰؍سے زائد مقامات پر احمدیت کا قیام

٭…سینیگال کی قومی اسمبلی میں دو مرتبہ خطاب کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

٭…آپ کو ۲۰۱۱ء میں عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔اسی طرح آپ کو زیارت قادیان کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔

٭…۲۰۱۶ء میں عبد الرحیم نیّر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button